مجسمہ ۔۔۔۔۔۔۔ازغلام عباس ۔۔فسانہ نگارغلام عباس 17نومبر 1909 کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔لاہور میں تعلیم حاصل کی 1928 میں لاہور سے شائع ہونے والےبچوں کے ماہنامے “پھول”اور خواتین کے رسالے “تہذیب نسواں”کے نائب صدر مقرر ہوئے۔1938 میں آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہو گئے۔ اس دوران ریڈیو کے رسائل”آواز اور سارنگ” کی ادارت بھی کی۔کچھ عرصہ بی بی سی سے بھی وابستہ رہے۔قیام پاکستان کے بعد ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوگئے۔اور ریڈیو کے رسالے “آہنگ”کے مدیر مقرر ہوئے۔
ان کا پہلا افسانہ “جلاوطن” جنوری1925 میں رسالہ “ہزار داستان” میں چھپا ۔جو ٹالسٹائی
کے افسانے سے ماخوذ تھا۔ پہلا
کے افسانے سے ماخوذ تھا۔ پہلا
طبع زاد افسانہ “مجسمہ” تھا کو 1932میں رسالہ “کارواں”کے سالنامے میں شائع ہوا۔بچپن ہی میں انہوں نے کلاسیکی ادب پڑھ ڈالا تھا۔ ابتداء میں رتن ناتھ سرشاد اور عبدالحلیم شرر سے متاثر تھے۔ غیر ملکی افسانہ نگاروں میں چیخوف اور موپاساں کے اثرات قبول کیئے۔1948 میں پنجاب اڈوئزری بورڈ لاہور نے ان کی ادبی خدمات پر نقد ادبی انعام سے نوازا۔
افسانوں کے مجموعے جاڑے کی چاندنی پر آدم جی انعام ملا 2نومبر 1982کو وفات پائی۔
افسانوں کے مجموعے جاڑے کی چاندنی پر آدم جی انعام ملا 2نومبر 1982کو وفات پائی۔
مجسمہ
تعارف
یہ خوبصورت کہانی مجسمہ غلام عباس کے قلم کی وہ تخلیق ہے جس سے ان کی فنی زندگی کا آغاز ہوا۔ غلام عباس جدید اردو افسانے کے منفرد اہلِ قلم ہیں۔ آپ حقیقت و سچائی کا کلیہ مشاہدہ کرکے تجرباتِ زندگانی کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرتے ہیں۔ آپ کا طرزِ نگارش سادہ، سلیس اور دل کش ہوتا ہے۔
غلام عباس کے ساتھ افسانے کا ایک عہد ختم ہوگیا۔ وہ اس بزم کے آخری چراغ تھے۔ (شوکت صدیقی)
خلاصہ
اس کہانی کا مرکزی کردار بادشاہ ہے جو اپنی حسین وجمیل ملکہ سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ ایک شوہر کی حیثیت سے وہ ملکہ کو اپنی جذباتی زندگی کی تسکین کا وسیلہ سمجھتا ہے اور گھر میں بے ساختگی کی فضا چاہتا ہے۔ ان تمام احساسات کو سمجھنے کے باوجود ملکہ خدمت و اطاعت کا پیکر بن کر رہتی ہے اور انانیت اور خودداری کے خول سے باہر نہیں آتی۔ ملکہ کا یہ مصنوعی رویہ بادشاہ کو تکلیف پہنچاتا جس کی بدولت وہ ملکہ سے، اپنی سلطنت سے اور پھر خود سے بھی دور ہوتا چلا جاتا ہے۔
عمائدین سلطنت بادشاہ کا غم بانٹنے کے لئے طرح طرح کی کوششیں کرتے ہیں۔ اس کے باوجود بادشاہ کا نفسیاتی خلاء بڑھتا چلا جاتا ہے۔ البتہ اس کے بے کیف دل کو مصوری اور سنگ تراشی میں ہی اپنے احساسات کی تسکین ملتی ہے۔ اور پھر ایک دن جب ایک بوڑھا سنگ تراش بادشاہ کی خدمت میں ایک چھوٹا مگر انتہائی خوبصورت مجسمہ پیش کرتا ہے تو بادشاہ خوشی سے نہال ہوجاتا ہے اور بوڑھے صناع کو بے بہا انعام و کرام سے نوازتا ہے۔
اس احساسات سے پر مجسمے کو بادشاہ اپنی خوابگاہ میں سجالیتا ہے۔ وہ پہروں اسے دیکھتا اور جذبات کی دل فریب دنیا میں کھوجاتا ۔ مجسمے میں بادشاہ کی یہ محویت دیکھ کر ملکہ کے مصنوعی خول میں ہلچل مچ جاتی ہے۔ آہستہ آہستہ اس کے دل میں رشک، حسد بلکہ رقابت کے جذبات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ ان جذبات کی تسکین کے لئے ملکہ مختلف طریقے اختیار کرتی تاکہ وہ بادشاہ کی توجہ حاصل کرسکے۔ بادشاہ کو یہ مجسمہ پہلے سے کہیں زیادہ عزیز ہوجاتاہے کیونکہ اسی کی وجہ سے ملکہ کے پتھر دل میں جذبات کی دنیا آباد ہونے لگتی ہے۔
مجسمے میں بادشاہ کی دلچسپی اور ملکہ کی رقابت دن بدن بڑھتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ملکہ اس مجسمے کو باقائدہ نقصان پہنچانا شروع کردیتی ہے۔ پہلے اس کے منہ پر سیاہی کے دھبے لگاتی ہے اور پھر اسکے اعضاءتوڑ دیتی ہے۔ بادشاہ بظاہر بے خبر تمام لونڈی غلاموں کو سزا بھی دیتا ہے لیکن سمجھ رہا ہوتا ہے کہ ملکہ کے دل پر کیا گزرہی ہے۔
پھر ایک دن جب وہ سوکر اٹھتا ہے تو یہ دیکھ کر اس کے منہ سے چینخ نکل جاتی ہے کہ مجسمے ٹکڑے ٹکڑے ہوچکا ہے۔ لیکن یہی وہ وقت تھا جب بادشاہ کامیاب ہوگیا۔ ملکہ کا انا کا بت بھی پاش پاش ہوگیا اور ملکہ بادشاہ کے قدموں میں تمام تر محسوسات کے ساتھ موجود تھی۔
بادشاہ کی خوابگاہ میں رکھے مجسمے اور ملکہ کی انا کے مجسمے کے ٹوٹتے ہی عورت کو وہ فطری روپ ظہور میں آتا ہے جس کے تحت وہ ہزار انانیت کے باوجود اپنے شوہر کی توجہ کہیں اور برداشت نہیں کرپاتی۔
بقول شاعر
بت شکنی کا مرتبہ یوں تو بلند ہے مگر
اپنے ہی خاص لطف ہے صنعتِ آذری کے بھی
تعارف
یہ خوبصورت کہانی مجسمہ غلام عباس کے قلم کی وہ تخلیق ہے جس سے ان کی فنی زندگی کا آغاز ہوا۔ غلام عباس جدید اردو افسانے کے منفرد اہلِ قلم ہیں۔ آپ حقیقت و سچائی کا کلیہ مشاہدہ کرکے تجرباتِ زندگانی کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرتے ہیں۔ آپ کا طرزِ نگارش سادہ، سلیس اور دل کش ہوتا ہے۔
غلام عباس کے ساتھ افسانے کا ایک عہد ختم ہوگیا۔ وہ اس بزم کے آخری چراغ تھے۔ (شوکت صدیقی)
خلاصہ
اس کہانی کا مرکزی کردار بادشاہ ہے جو اپنی حسین وجمیل ملکہ سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ ایک شوہر کی حیثیت سے وہ ملکہ کو اپنی جذباتی زندگی کی تسکین کا وسیلہ سمجھتا ہے اور گھر میں بے ساختگی کی فضا چاہتا ہے۔ ان تمام احساسات کو سمجھنے کے باوجود ملکہ خدمت و اطاعت کا پیکر بن کر رہتی ہے اور انانیت اور خودداری کے خول سے باہر نہیں آتی۔ ملکہ کا یہ مصنوعی رویہ بادشاہ کو تکلیف پہنچاتا جس کی بدولت وہ ملکہ سے، اپنی سلطنت سے اور پھر خود سے بھی دور ہوتا چلا جاتا ہے۔
عمائدین سلطنت بادشاہ کا غم بانٹنے کے لئے طرح طرح کی کوششیں کرتے ہیں۔ اس کے باوجود بادشاہ کا نفسیاتی خلاء بڑھتا چلا جاتا ہے۔ البتہ اس کے بے کیف دل کو مصوری اور سنگ تراشی میں ہی اپنے احساسات کی تسکین ملتی ہے۔ اور پھر ایک دن جب ایک بوڑھا سنگ تراش بادشاہ کی خدمت میں ایک چھوٹا مگر انتہائی خوبصورت مجسمہ پیش کرتا ہے تو بادشاہ خوشی سے نہال ہوجاتا ہے اور بوڑھے صناع کو بے بہا انعام و کرام سے نوازتا ہے۔
اس احساسات سے پر مجسمے کو بادشاہ اپنی خوابگاہ میں سجالیتا ہے۔ وہ پہروں اسے دیکھتا اور جذبات کی دل فریب دنیا میں کھوجاتا ۔ مجسمے میں بادشاہ کی یہ محویت دیکھ کر ملکہ کے مصنوعی خول میں ہلچل مچ جاتی ہے۔ آہستہ آہستہ اس کے دل میں رشک، حسد بلکہ رقابت کے جذبات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ ان جذبات کی تسکین کے لئے ملکہ مختلف طریقے اختیار کرتی تاکہ وہ بادشاہ کی توجہ حاصل کرسکے۔ بادشاہ کو یہ مجسمہ پہلے سے کہیں زیادہ عزیز ہوجاتاہے کیونکہ اسی کی وجہ سے ملکہ کے پتھر دل میں جذبات کی دنیا آباد ہونے لگتی ہے۔
مجسمے میں بادشاہ کی دلچسپی اور ملکہ کی رقابت دن بدن بڑھتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ملکہ اس مجسمے کو باقائدہ نقصان پہنچانا شروع کردیتی ہے۔ پہلے اس کے منہ پر سیاہی کے دھبے لگاتی ہے اور پھر اسکے اعضاءتوڑ دیتی ہے۔ بادشاہ بظاہر بے خبر تمام لونڈی غلاموں کو سزا بھی دیتا ہے لیکن سمجھ رہا ہوتا ہے کہ ملکہ کے دل پر کیا گزرہی ہے۔
پھر ایک دن جب وہ سوکر اٹھتا ہے تو یہ دیکھ کر اس کے منہ سے چینخ نکل جاتی ہے کہ مجسمے ٹکڑے ٹکڑے ہوچکا ہے۔ لیکن یہی وہ وقت تھا جب بادشاہ کامیاب ہوگیا۔ ملکہ کا انا کا بت بھی پاش پاش ہوگیا اور ملکہ بادشاہ کے قدموں میں تمام تر محسوسات کے ساتھ موجود تھی۔
بادشاہ کی خوابگاہ میں رکھے مجسمے اور ملکہ کی انا کے مجسمے کے ٹوٹتے ہی عورت کو وہ فطری روپ ظہور میں آتا ہے جس کے تحت وہ ہزار انانیت کے باوجود اپنے شوہر کی توجہ کہیں اور برداشت نہیں کرپاتی۔
بقول شاعر
بت شکنی کا مرتبہ یوں تو بلند ہے مگر
اپنے ہی خاص لطف ہے صنعتِ آذری کے بھی
ماشاءاللہ
ReplyDeleteماشاءاللہ
ReplyDelete