Tuesday, 1 July 2014


مدح کے معنی تعریف و توصیف کے ہیں اور یہ عموماً قصیدہ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ قصیدے کا سب سے ضروری جز مدح سرائی ہے ۔ اور اسی پر قصیدے کی بنیا د ہوتی ہے۔ عربی قصائد میں مدح حقیقت اور واقعیت سے بھر پور ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک عرب شاعر کو کسی نے اپنی مدح پر مجبور کیا تو اس نے جواب دیا کہ ” تم کچھ کرکے دکھائو تو میں تمہاری مدح کروں۔“
منقبت
تفصیلی مضمون کے لئے ملاحظہ کریں: منقبت
اشعار کے ذریعے کسی کی تعریف کرنے کو منقبت کہتے ہیں لیکن یہ لفظ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی تعریف میں لکھے ہوئے اشعار کو کہا جاتا ہے۔

مثنوی[ترمیم]
تفصیلی مضمون کے لئے ملاحظہ کریں: مثنوی
مثنوی کا لفظ، عربی کے لفظ ”مثنیٰ “ سے بنا ہے اور مثنیٰ کے معنی دو کے ہیں۔ اصطلاح میں ہیت کے لحاظ سے ایسی صنفِ سخن اور مسلسل نظم کو کہتے ہیں جس کے شعر میں دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں اور ہر دوسرے شعر میں قافیہ بدل جائے، لیکن ساری مثنوی ایک ہی بحر میں ہو۔ مثنوی میں عموماً لمبے لمبے قصے بیان کئے جاتے ہیں نثر میں جو کام ایک ناول سے لیا جاتا ہے، شاعری میں وہی کام مثنوی سے لیا جاتا ہے، یعنی دونوں ہی میں کہانی بیان کرتے ہیں۔ مثنوی ایک وسیع صنفِ سخن ہے اور تاریخی، اخلاقی اور مذہبی موضوعات پر کئی ایک خوبصورت مثنویاں کہی گئی ہیں۔ مثنوی عموماً چھوٹی بحروں میں کہی جاتی ہے اور اس کیلیے چند بحریں مخصوص بھی ہیں اور شعرا عموماً اسکی پاسداری کرتے ہیں لیکن مثنوی میں شعروں کی تعداد پر کوئی پابندی نہیں ہے، کچھ مثنویاں تو کئی کئی ہزار اشعار پر مشتمل ہیں۔
مناجات[ترمیم]
تفصیلی مضمون کے لئے ملاحظہ کریں: مناجات
مناجات کا مطلب ہے دعا وغیرہ۔ زبانوں کے اختلاف کو الگ رکھ کر اگر ہم تمام مذاہب کی الہامی کتب کا غور وفکر کے ساتھ مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ مذاہبِ عالم میں جو دعائیں اور حمدیں پڑھی جاتی ہیں ان کے معنی اور مفہوم میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے، چاہے ہم اسے حمد کہیں، ہندوآرتی، بدھسٹ وندنا، یہودی سالم، پارسی یاسنا یہودی و عیسائی افراد اپنی ہر دعا اور حمد کی ابتداءاور آخر میں ”ہلّلُو یاہ“ Hallelujah پکارتے ہیں۔ ”ہلّلُو“ یعنی حمد کرو ”یاہ“ لفظ یہواہ یعنی خدا کا مخفف ہے۔ ہلّلُو یاہ کے لغوی معنی ہیں خدا کی حمد کرو۔ عربی میں اس کا ترجمہ ”الحمدﷲ“ ہوگا۔ اسی طرح ہندی میں بولا جانے والا لفظ ”ہری اُوم“ یا ”ہرے اوم“ کے لغوی معنی بھی الحمدﷲ کے ہیں۔ سنسکرت زبان کے لفظ اوم ` کے لغوی معنی ایسی ہستی اور نور کے ہیں جو کائنات کی وسعتوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ ظاہر ہے یہاں کائنات پر محیط اس ہستی سے مراد اﷲ ہی ہے اور ہری یا ہرے حمد و ثنا کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح اہلِ ہنود ہر روز صبح جو آرتی (حمد) پڑھتے ہیں ”اوم جے جگدیش ہرے“ اگر اس کا ترجمہ کیا جائے تو سورۃ فاتحہ کی پہلی آیت آپ کے ذہن میں گونجنے لگے گی ”اوم`“ کے معنی اﷲ کے ہیں ”جے“ کہتے ہیں کسی شے کے مالک، رب اور پروردگار کو ”جگدیش“ کا مآخذ جگ ہے جس کے معنی عالم کے ہیں۔ جگدیش کے معنی عالمین اور کائنات کے ہیں اور ”ہرے“ حمد کےِلیے استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ ”اوم جے جگدیش ہرے“ کا ترجمہ ہوگا اﷲ رب العامین کی حمد کرو یعنی الحمد اﷲ رب العالمین!
مسدس[ترمیم]
مسدس چھے شعروں کے ایک قطعہ پر مشتمل شاعری کو کہتے ہیں۔ سب سے مشہور مسدس مسدس حالی ہے۔
نعت[ترمیم]
تفصیلی مضمون کے لئے ملاحظہ کریں: نعت
پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مدحت، تعریف و توصیف، شمائل و خصائص کے نظمی اندازِ بیاں کو نعت یا نعت خوانی یا نعت گوئی کہا جاتا ہے۔عربی زبان میں نعت کیلئے لفظ "مدحِ رسول" استعمال ہوتا ہے۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں بہت سے صحابہ اکرام نے نعتیں لکھیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔ نعتیں لکھنے والے کو نعت گو شاعر جبکہ نعت پڑھنے والے کو نعت خواں یا ثئاء خواں بھی کہا جاتا ہے۔
نظم[ترمیم]
تفصیلی مضمون کے لئے ملاحظہ کریں: نظم
نظم سے مراد ایسا صنف سخن ہے جس میں کسی بھی ایک خیال کو مسلسل بیان کیا جاتا ہے۔ نظم میں موضوع اور ہیئت کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہوتی۔
قافیہ[ترمیم]
تفصیلی مضمون کے لئے ملاحظہ کریں: قافیہ
قافیہ کا لفظ 'قفا' یا 'قفو' سے مشتق ہے اور اسکے لغوی معنی 'پیچھے آنا والا' یا 'پیرو کار' کے ہیں، چونکہ عربی شاعری میں شعر کا اختتام قافیہ پر ہوتا ہے اسلیے اسے یہ نام دیا گیا، واضح رہے کہ فارسی اور اردو شاعری میں ضروری نہیں کہ شعر کا اختتام قافیے پر ہو، بلکہ زیادہ تر شعر کا اختتام ردیف پر ہوتا ہے جو کہ فارسی شاعروں کی ایجاد ہے اور عربی شاعری میں مستعمل نہیں۔
اصطلاح میں قافیہ حروف اور حرکات کے اس مجموعے کو کہتے ہیں جس کی تکرار مختلف الفاظ کے ساتھ شعر کے آخر یا ردیف سے پہلے آئے جیسے دمَن، چمَن، زمَن یا دِل، محفِل، قاتِل وغیرہ الفاظ کو ہم قافیہ کہا جائے گا۔
ردیف[ترمیم]
تفصیلی مضمون کے لئے ملاحظہ کریں: ردیف
ردیف کے لغوی معنی ہیں "گھڑ سوار کے پیچھے بیٹھنے والا"۔ شعری اصطلاح میں ردیف سے مراد وہ لفظ یا الفاظ کا مجموعہ ہے جو قافیے کے بعد مکرر آئیں اور بالکل یکساں ہوں۔ ردیف کا ہر مصرعے میں ہونا لازمی نہیں ہے۔ عام طور پر یہ غزل کے اشعار میں مصرعۂ ثانی میں دہرائے جاتے ہیں۔

قصیدہ[ترمیم]
تفصیلی مضمون کے لئے ملاحظہ کریں: قصیدہ
لفظ قصیدہ عربی لفظ قصد سے بنا ہے اس کے لغوی معنی قصد (ارادہ ) کرنے کے ہیں۔ گویا قصیدے میں شاعر کسی خاص موضوع پر اظہار خیال کرنے کا قصد کرتا ہے اس کے دوسرے معنی مغز کے ہیں یعنی قصیدہ اپنے موضوعات و مفاہیم کے اعتبار سے دیگر اصناف ِ شعر کے مقابلے میں وہی نمایاں اور امتیازی حیثیت رکھتا ہے جو انسانی جسم و اعضاءمیں مغز کو حاصل ہوتی ہے فارسی میں قصیدے کو چامہ بھی کہتے ہیں۔
قطعہ[ترمیم]
قطعہ شاعری کی ایک صنف ہے یہ چار مصروں پہ مشتمل ہوتا ہے اس کے پہلے مصرہ میں قافیہ یا ردیف کی کوئی قید نہیں ہے لیکن دوسرے مصرے میں قافیہ لازمی موجود ہوتا ہے اس کے بعد اگر ردیف بھی لگا دیا جائے تو مصنف کی مرضی ہے ورنہ ردیف کے بغیر بھی قطعہ کے اصول مکمل ہو جاتے ہیں لیکن قافیہ ضروری ہے پہلے دو مصروں کے بعد تیسرا مصرہ آتا ہے اُس میں بھی قافیہ اور ردیف کی کوئی قید نہیں لیکن چوتھے اور آخری مصرہ میں دوسرے مصرہ کا ہم آواز قافیہ ضروری ہوتا ہے اور دوسرے مصرے کے مطابق اگر قافیہ کے ساتھ ردیف ہے تو وہی ریف چھوتھے مصرے میں قافیہ کے بعد اس طرح لکھا جاتا ہے اس کے علاوہ قطعہ اس طرح بھی لکھا جاتا ہے کہ پہلے دونوں مصروں میں قافیہ یا قافیے کے ساتھ ردیف لگایا جائے مگر تیرے مصرے کو قافیہ اور ردیف سے آزاد رکھا جائے مگر آخری مصر ے میں یعنی چھوتھے مصرہ میں پہلے دو مصروں کا ہم آواز قافیہ اور وہی دریف لگایا جاتا ہے
رباعی[ترمیم]
تفصیلی مضمون کے لئے ملاحظہ کریں: رباعی
رباعی عربی کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی چار چار کے ہیں۔ شاعرانہ مضمون میں رباعی اس صنف کا نام ہے جس میں چار مصرعوں میں ایک مکمل مضمون ادا کیا جاتا ہے۔ رباعی کا وزن مخصوص ہے ، پہلے دوسرے اور چوتھے مصرعے میں قافیہ لانا ضروری ہے۔ تیسرے مصرعے میں اگر قافیہ لایا جائے تو کوئی عیب نہیں۔ اس کے موضوعات مقرر نہیں۔ اردو فارسی کے شعرا نے ہر نوع کے خیال کو اس میں سمویا ہے۔ رباعی کے آخری دو مصرعوں خاص کر چوتھے مصرع پر ساری رباعی کا حسن و اثر اور زور کا انحصار ہے۔ چنانچہ علمائے ادب اور فصحائے سخن نے ان امور کو ضروری قرار دیا ہے۔ بعض نے رباعی کے لیے چند معنوی و لفظی خصوصیات کو بھی لازم گردانا ہے۔ عروض کی مختلف کتابوں میں رباعی کے مختلف نام ہیں۔ رباعی ، ترانہ ، اور دو بیتی بعض نے چہار مصرعی ، جفتی اور خصی بھی لکھا ہے۔
سلام[ترمیم]
یہ نظم کی ایک قسم ہے جو زیادہ تر شہداء کربلا کے مدح میں لکھی جاتی ہے۔
سہرا[ترمیم]
شادی کے موقع پر دلہا کے لئے گائے جانے والے گیت کو سہرا کا نام دیا جاتا ہے۔
تحت اللفظ[ترمیم]
بغیر ترنم کے شاعری کی ادائیگی کو تحت اللفظ کہا جاتا ہے۔
تخلص[ترمیم]
تفصیلی مضمون کے لئے ملاحظہ کریں: تخلص
وہ قلمی مختصر نام جو شاعر یا ادیب اپنے اصل نام کی بجائے رکھ لیتے ہیں۔
وسوخت[ترمیم]
وسوخت محبوب کے بے وفائی یا لاپروائی کے بیان کے لئے لکھی جانے والی شاعری کو کہتے ہیں۔
گیت[ترمیم]
تفصیلی مضمون کے لئے ملاحظہ کریں: گیت
گیت سروں کی ایک ایسی لہر ہوتی ہے جس میں انسانی آواز بھی شامل ہو اور وہ گیت کے بول گائے۔ گیت کو گایا جاتا ہے اور انسانی آواز جو کہ سر میں ادا کی جاتی ہے، اس کے ساتھ آلات موسیقی کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔
قوالی[ترمیم]
قوالی موسیقی کی ایک قسم ہے لیکن موسیقی کی اس قسم کو لوگوں تک پیغام پہنچانے اور اُس کے زیادہ اثر انداز ہونے کا اک منفرد اور انوکھا ذریعہ سمجھا جاتا ہے قوالی کی زیادہ تر تاریخ برصغیر ہندوستان میں تصوف سے جا ملتی ہے کہا جاتا ہے قوالی کے سب پہلے خالق امیر خسرو تھے جن کا شمار صوفیوں میں ہوتا ہے ان کو آلاتِ موسیقی سے خاصی دلچسپی تھی اور انہوں نے ہی قوالی کی بنیاد رکھی شعرا کے مطابق عام کہی گئی بات کی نسبت شاعری میں کہی گئی بات زیادہ دل پہ اثرانداز ہوتی ہے اور اسی طرح شاعری اگر آلات موسیتی کے ساتھ ملا کر موسیقی کی شکل میں ہو تو اور بھی زیادہ دل پہ اثر کرتی ہے اور لوگ اُسے توجہ سے سنتے ہیں لہذا تصوف کے دور میں قوالی کی بنیاد پڑی جس کا مقصد اشاعتِ اسلام تھا تاکہ لوگ صوفیائے کرام کے کلام کو یعنی انکی شاعری کو دلچسپی کے ساتھ سنیں اور اس کا اثر لیں تاریخ سے ملتا ہے قوالی صوفیائے کرام کے آستانوں پہ ہوا کرتی تھی جسے لوگ شوق سے آ کر سنا کرتے تھے یہی وجہ ہے آج بھی قوالی درباروں کے ساتھ منسوب ہے قوالی پڑھنے والے کو قوال کہا جاتا ہے سب سے زیادہ مشہور قوال برضغیر پاک و ہند میں ملتے ہیں جن میں سب سے مشہور قوالوں کا تعلق پاکستان سے ہے پاکستان کی سر زمین نے بہت سے مشہور قوالوں کو جنم دیا جن میں فتح علی خان نصرت فتح علی غلام فرید مقبول صابری بدر میاں داد عزیز میاں قوال کا نام سرفہرست ملتا ہے
تلمیح[ترمیم]
تفصیلی مضمون کے لئے ملاحظہ کریں: تلمیح
تلمیح کے لغوی معنی ہیں اِشارہ کرنا۔ شعری اصطلاح میں تلمیح سے مراد ہے کہ ایک لفظ یا مجموعہ الفاظ کے ذریعے کسی تاریخی‘ سیاسی‘ اخلاقی یا مذہبی واقعے کی طرف اشارہ کیا جائے۔ تلمیح کے استعمال سے شعر کے معنوں میں وُسعت اور حسن پیدا ہوتا ہے۔ مطالعہ شعر کے بعد پورا واقعہ قاری کے ذہن میں تازہ ہو جاتا ہے۔

No comments:

Post a Comment