شفیع عقیل .........علم و ادب کا وہ نیر تاباں جو لاہور کے مضافات میں واقع ایک
تھینہہ(village)سے1930میں طلوع ہوا پوری علمی دنیا کو اپنی تابانیوں سے بقعہء
نور کرنے کے بعد جمعہ 6۔ستمبر 2013کی رات گیارہ بجے کراچی کے افق سے غروب ہو
کر عدم کی بے کراں وادیوں میں ہمیشہ کے لیے چھپ گیا۔
شفیع عقیل کا تعلق ایک خو د دار
اور معزز خاندان سے تھا۔ ۔ مالی مشکلات اور وسائل کی عدم دستیابی کے باعث شفیع
عقیل با قاعدہ تعلیم تو حاصل نہ کر سکے لیکن انھوں نے بڑی محنت اور لگن سے
اپنی دنیا آپ پید ا کرنے کی کوشش کی ۔انھوں نے اپنی ان اور خودی کا بھی تحفظ
کیا اور غریبی میں نام پید ا کر نے کا عزم کر لیا۔
۔1952میں ان کا
پہلا افسانوی مجموعہ ’’بھوکے ‘‘ شائع ہوا ۔اس افسانوی مجموعے کا رد عمل بھی
اسی صورت میں سامنے آیا جو اس سے قبل 1936 میں ’’ انگارے ‘‘کی اشاعت کے بعد
سامنے آ چکا تھا ۔سعادت حسن منٹو کو بھی اسی قسم کی پریشانیوں کا سامنا کر
ناپڑا ۔ شفیع عقیل کے مخالفین سنگ ملامت لیے نکل آئے ،
بچوں کے ادب پر شفیع عقیل نے بہت توجہ دی۔ان کی کتاب ’’نامور ادیبوں کا بچپن‘‘
بہت مقبول ہوئی ۔اسے قارئین ادب کی زبردست پذیرائی نصیب ہوئی ۔ ۔ان کا خیال
تھا کہ بچوں میں تخلیقی صلاحیتوں کو مہمیز کرنا ،ان کے ذوق سلیم کو نکھارنا
اور ان کے فہم و ادراک کو صیقل کرکے انھیں تخلیق ادب پر مائل کرنا وقت کا اہم
ترین تقاضا ہے
شفیع عقیل نے ہفت روزہ اخبار جہاں کراچی اور روزنامہ جنگ کراچی میں طویل مختلف
حیثیتوں سے طویل عرصہ تک خدمات انجام دیں۔روزنامہ جنگ میں ان کی خدمات کا عرصہ
ساٹھ برس پر محیط ہے
پنجابی ادب کی روایات اوراقدار سے انھیں گہری دلچسپی تھی ۔پنجابی کلاسیکی
شاعری اور لو ک داستانوں سے قلبی وابستگی ان کے ریشے ریشے میں سما گئی تھی ۔ان
کا خیال تھاکہ کہانیاں تو ازل سے اسی طرح منصہ ء شہود پر آتی رہی ہیں ۔ان کے
موضوعات ایک جیسے ہیں صرف انداز بیاں میں معمولی تبدیلی سے بات بدل جاتی ہے
۔اردو ادب کے
قارئین شفیع عقیل کے ان تراجم کے اعجاز سے اقوام عالم کی تہذیب ،تمدن ،ثقافت
،معاشرت ،مزاج اور انداز فکر کے بارے میں تمام حقائق کا چشم تصور سے مشاہدہ کر
سکتے ہیں۔
انھوں نے پنجابی ،فارسی ،اردو ،چینی ،جاپانی ،جرمن اورروسی زبان کی
نمائندہ تخلیقات کو اردو کے قالب میں ڈھال کر اردو زبان کا دامن گل ہائے رنگ
رنگ سے بھر دیا ۔ شفیع عقیل کو پاکستان کی علاقائی زبانوں کے ادب کے ساتھ
بالعموم اور پنجابی ادب کے ساتھ بالخصوص دلی لگاؤ تھا۔ان کی دس تصانیف پنجابی
زبان کے ادب سے متعلق ہیں ۔ان میں سے’’ سوچاں دی زنجیر‘‘ ،۔ ’’زہر پیالہ ‘‘
اور ’’میری پنجابی شاعری ‘‘قابل ذکر ہیں۔ان کی تمنا تھی کہ پاکستان کی علاقائی
زبانوں میں تخلیق ہونے والے ادب کو نہ صرف پاکستان کی قومی زبان میں منتقل کیا
۔پنجابی کلاسیکی شاعری کے تراجم پر انھوں
نے اپنی توجہ مر کوز رکھی ۔وہ سلطان باہو،شاہ حسین ،بلھے شاہ ، میاں محمد بخش
اور وارث شاہ کے اسلوب کو بہت پسند کرتے تھے ۔ انھوں نے ان شعرا کے کلام کو
اردو کے قالب میں ڈھال کر بہت بڑی قومی خدمت انجام دی ہے
۔پنجابی
کلاسیکی شاعری پر ان کا تحقیقی کام جو کئی ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے ، ان کی جگر
کاوی اور محنت کا اعلا معیار پیش کرتا ہے۔اس کے مطالعہ سے پنجابی زبان کے
کلاسیکی ادب کی افادیت کو سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے
۔انھو ں نے
پنجابی ،چینی ،جاپانی جرمن اور ایرانی ادبیات کے شاہ کاروں کو تراجم کے ذریعے
اردو میں منتقل کرکے ید بیضا کا معجزہ دکھایا۔پنجابی زبان میں ان کا ایک اور
اہم اور نا قابل فراموش کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے مرزا اسداﷲ خان غالب اور
قائد اعظم محمد علی جناح کی باتوں کو پنجابی زبان کے قالب میں اس خوش اسلوبی
سے ڈھالا ہے کہ قاری چشم تصورسے ان ہستیوں کو پنجابی میں گفتگو کرتے دیکھ کر
حیرت زدہ رہ جاتاہے ۔مترجم کی حیثیت سے وہ زبان و بیان کی اشنی سے سماں باندھ
دیتے ہیں اور ترجمے میں تخلیق کی کشش پیدا ہو جاتی ہے ۔
فنون لطیفہ کے بارے میں اردو زبان میں بہت کم لکھا گیا ہے ۔آرٹ ،مصوری اور سنگ
تراشی جیسے فن جو صدیوں سے اس خطے کی پہچان چلے آ رہے
۔شفیع عقیل نے
فنون لطیفہ کی تاریخ اور اس خطے میں ان کے ارتقا پر خوب داد تحقیق دی ہے ۔فن
مصوری پر شفیع
۔فن مصوری پر
ان کی تصانیف کی تفصیل درج ذیل ہے :
(1)دو مصور (2)چار جدید مصور (3)تصویر اور مصور (4)مصوری اور مصور (5)پاکستان
کے سات مصور
پاکستان کے سات مصور شفیع عقیل کی مقبول اور اہم تصنیف ہے ۔فن مصوری پر اپنی
اس کتاب میں انھوں نے پاکستان کے جن سات نامور مصوروں کے فن کو موضوع بنایا ہے
ان میں محمد حنیف رامے
،
ان کے اسلوب میں پائی جانے والی ان کے شخصی
اور انفرادی انداز کی جانب توجہ دلاتے ہیں ۔وہ نہایت خلوص اور بے تکلفی سے کام
لیتے ہوئے قاری کو فن مصوری کے اسرار و رموز سے آگاہ کرتے ہیں ۔
،ادبی ،قومی
،ملی اور لسانی خدمات کے اعتراف میں انھیں حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہء
امتیاز عطا کیا گیا۔اس کے علاوہ انھیں داؤد ادبی انعام اور خوش حال خان خٹک
ایوارڈ سے بھی نواز گیا ۔
شفیع عقیل ایک ہفت اختر شخصیت تھے ۔انھوں نے کئی شعبوں میں اپنے کمال فن کا
لوہا منوایا ۔ترجمہ نگاری ،تبصرہ نگاری ،تحقیق ،تنقید ،شاعری ۔افسانہ نگاری
،عالمی ادبیات ،لوک ادب ،پنجابی کلاسیکی شاعری ،اردو کلاسیکی شاعری ،علوم
شرقیہ ،طب ،فلسفہ ،علم بشریات ،تاریخ اور نفسیات کے موضوعات پر کئی نادر
تحریریں پیش کیں ۔مضامین ،مواد اور اسلوب کا یہ تنوع اور بو قلمونی انھیں
منفرد اور ممتاز مقام عطا کرتی
شفیع عقیل بہت خوش اخلاق اور مخلص ادیب تھے ۔ہر ملاقاتی کے ساتھ اخلاق اور
اخلاص کے ساتھ پیش آنا ان کا شیوہ تھا۔اپنے عہد کے ممتاز ادیبوں اور دانش وروں
کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات تھے ۔
اپنے اسلوب میں شفیع عقیل نے فہم و ادراک ،جذبات و احساسات اور تکنیک کے تنوع
سے جو سماں باندھا ہے وہ دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتا ہے ۔تخلیق فن کے لمحوں
میں خون بن کر رگ سنگ میں اترنے کی صلاحیت سے متمتع اس نابغہء روزگار تخلیق
کار نے اپنے اشہب قلم کی جو لانیوں سے ہر صنف ادب میں اپنی کا میابی کے جھنڈے
گاڑ دئیے۔
ان کے سفر نامے قاری کو اسی دنیا
میں لے جاتے ہیں جس میں شفیع عقیل انھیں لے جانے کا آرزو مند ہے ۔تعلیم ،تفریح
اور مقصدیت سے لبریز شفیع عقیل کی تخلیقات قار ئین کے اذہان کی تطہیر و تنویر
کا موثر ترین وسیلہ بن کر سامنے آتی ہیں ۔ان کا اسلوب قاری کے شعور کو واحد
تاثر کی نعمت سے مالا مال کر کے فہم و ادراک کے لطیف جذبات و احساسات سے مزین
کرتا ہے ۔ان کے اپنے احساسات اسی بے ساختگی کے ساتھ منصہء شہود پر آتے ہیں جس
کا تعلق ان کے تخلیقی تجربات سے ہے ۔
سوانح نگاری میں شفیع عقیل نے موضوع تحقیق کی افادیت اور اہمیت کو پیش نظر
رکھا ہے ۔مجید لاہوری کی شخصیت کے متعلق مواد کے حصول کے تمام ممکنہ ذرائع
استعمال کیے ہیں اور کہیں بھی تشنگی کا احساس پیدا نہیں ہونے دیا۔اسلوب میں
واقعات اور شہادتوں کی چھان پھٹک پر پوری توجہ دی گئی ہے ۔اس طرح وہ سوانح
عمری کو ایک انسان کی حقیقی تصویر اور مستند تاریخ بنا کر پیش کرتے ہیں۔
شفیع عقیل نے ادب کو ایک موثر سماجی عمل کی حیثیت سے رو بہ عمل لانے کی کوشش
کی ۔اپنی تحریروں کو تحلیل و تجزیہ سے مزین کر کے اصلاح اور مقصدیت کی شمع
فروزاں رکھنے والے اس عظیم ادیب کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پر
نہیں ہو سکتا۔
|
No comments:
Post a Comment