سعادت حسن منٹو
تعارف
اردو افسانے میں منٹو کو بلند مقام تسلیم کیا گیا ہے۔ منٹو کی بعض کہانیاں بے شک اخلاقی طور پر قابلِ اعتراض ہیں لیکن مجموعی پر انہوں نے اردو افسانہ نگاری کی روایت کو آگے بڑھانے میں قابلِ قدر کام کیا۔ قدرت کی طرف سے منٹو کو جدت، اپج اور ذہانت کا وافر حصہ نصیب ہوا جس نے ان کے فن کو بلندی پر پہنچا دیا۔ وہ انسان اور انسانی قدروں کے نقاد تھے انہوں نے اپنے تجربات و مشاہدات کو جرات کے ساتھ تفصیل سے لکھا۔ اسی بے باکی کے سبب انہوں نے روایت سے ہٹ کر اپنا راستہ بنایا۔ انسانی نفسیات اور فطرت ان کے مطالعے اور تجربے کے خاص موضوعات تھے۔ انسان دوستی کا شیوہ ان کی فطرتِ ثانیہ تھی۔ افسانہ نگاری کے لئے انہوں نے انوکھے موضوعات منتخب کئے اور اسی سبب اردو افسانے میں ان کو انفرادیت ملی۔ منٹو کا دور اردو افسانے کی ترقی کا دور تھا، اس دور میں اردو افسانے میں بہت سے نامور افسانہ نگاروں کو شہرت ملی۔ ان میں کرشن چندر، غلام عباس، عصمت چغتائی، حیات اللہ انصاری، احمد ندیم قاسمی، محمد حسن عسکری وغیرہ شامل ہیں اور یہ سب لوگ منٹو کے جن کی قدردان تھے۔ تقسیم ملک کے موقع پر پنجاب میں مسلمانوں کے خون جو ہولی کھیلی گئی اور مسلمان عورتوں اور بچوں کو جس طرح ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا اس نے منٹو پر گہرے اثرات چھوڑے۔ ان پر جذباتی رنگ غالب آگیا۔ سرزمین پنجاب کو خون رنگ دیکھ کر منٹو کا دل بھر آیا اور ان کے قلم سے متعدد بہترین افسانے تخلیق ہوئے۔ ان میں لاوڈ اسپیکر، برقعے ، رتی ماشہ اور تولہاور ”گنجے فرشتے وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
منٹو کی افسانہ نگاری
منٹو کے افسانوں میں گہرا جذباتی رنگ پایا جاتا ہے۔ وہ نچلے طبقے کے لوگوں سے اپنائیت کا تعلق رکھتے تھے۔ اپنی مختصر زندگی میں انہیں کہانی نویسی میں یادگار مقام ملا۔ انہوں نے اگر چہ مغربی ادب سے افسانہ نگاری کا فن سیکھا مگر اس فن میں اپنا مقام آپ پیدا کیا۔ افسانہ نگاری نے انہیں شہرت بخشی لیکن اسی فن کے باعث انہیں بدنامی بھی ملی۔ مگر وہ بے پرواہ ہو کر اپنی ڈگر پر چلتے رہے۔
نفسیاتی شعور
منٹو کے ہاں انسانی نفسیات کا گہرا شعور پایا جاتا ہے۔ خصوصاً انسانی کی جنسی خواہشات اور الجھنوں سے انہیں زیادہ دلچسپی رہی۔ انسان کے اندر چھپی ہوئی گھٹیا اور سطحی سوچوں پر انہوں نے زیادہ توجہ صرف کی اور انہیں بیان کرنے میں لذت محسوس کی۔ وہ عام آدمی کی فطری کمزوریوں اور پستیوں کو جانتے تھے۔ اس لئے ان کے بیان سے انہوں نے اپنے قاری کو رجھایا اور مقبولیت حاصل کی۔ اس طرح انہوں نے طوائف اور کاروبار طوائف کے ذکر سے بھی اپنی کہانیوں میں رنگ بھرا۔
فحش نگاری
منٹو نے حقیقت پسندی کے نام پر فحش نگاری بھی کی۔ اگر چہ بعض نقادوں نے ان کی وکالت کی ہے مگر تہذیب یافتہ انسان کبھی کپڑے اتار کر کوچہ و بازار میں نہیں پھرتا۔ سبھی جانتے ہیں کہ نسلِ انسانی کا ارتقاء انسان کے ازدواجی تعلقات کا نتیجہ ہے، مگر یہ تعلقات بازار کا موضوع نہیں ہیں۔ ان کو حدود و آداب کا پابند بنایا گیا ہے۔ انسانی زندگی سے اگر تہذیب و شائستگی کو خارج کردیا جائے تو اس سے معاشرے میں انتشار اور ابتری پیدا ہوتی ہے۔ اس لئے اصلاح اور حقیقت نگاری کا دعوی کرکے اصول اخلاق کو پامال کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
سماجی اور طبقاتی شعور
منٹو کے ہاں گہرا سماجی شعور اور طبقاتی اونچ نیچ سے آگہی پائی جاتی ہے۔ وہ نچلے طبقے کے معاملات و مسائل، ناآسودگیوں اور پسِ پردہ عوامل سے آگاہ ہیں اور انہیں بیان کرنے کی بیباکی اور مہارت رکھتے ہیں۔ معاشی مجبوریوں کے ہاتھوں جب اس طبقے کے لوگ فطری آسودگی کے لئے سیاہ کاریوں میں مبتلا ہوتے ہیں تو منٹو انہیں عریاں دکھا کر اپنے قارئین کی دلچسپی کا سامان کرتے ہیں۔ لیکن خواتین سے قطع نظر منٹو سیاسی، معاشی اور معاشرتی ناہمواریوں کو بھی اجاگر کرتے ہیں، جس سے ان کی دردمندی اور انسان دوستی کا بھی پتہ چلتا ہے۔ وہ طبقاتی تقسیم کو برا جانتے ہیں، اس لئے وہ گرے پڑے اور پسے ہوئے طبقے کو موضوع بناتے ہیں۔ مفلسی کے نقشے کھنچتے ہیں، اور ان کے بے کیف شب و روز کی مکروہ تصویروں سے ان کے لئے ہمدردی کی تحریک کرتے ہیں۔ نیا قانون جیسے افسانے اس امر کی شہادت کے لئے کافی ہیں کہ منٹو کے ہاں قومی جذبات و احساسات کا فقدان نہیں تھا۔ ان کے دل میں سامراجی چیرہ دستیوں کے خلاف نفرت کی آگ موجود تھی۔ منٹو اپنی ذات میں ایک نفاست پسند اور سلیقہ مند شخص تھے، لیکن شراب خوری نے انہیں کام کا انسان نی رہنے دیا۔ ان کے ناشر بھی انہیں فحش نگاری پر اکساتے، اسے شراب کی بوتل دیتے اور جنس پرستوں کے ان کے قلم سے رتطل۔گندگی اگلواتے رہے۔
دردمندی
منٹو نے عام آدمی کے دکھ کو محسوس کیا اور اس کے مسائل کے بیان میں دلچسپی لی۔ عام آدمی تنگ دست بدکار ہو یا عصمتوں کا دلال، کھولی میں رہنے والی محنت کش نصیبوں کی ماری فاقہ زدہ بے ناموس عورت ہو، خواہ غنڈوں، بدمعاشوں اور آوارہ ہوس پرستوں کے ہاتھوں کھلونا بننے والی طوائف، انہوں نے ان مجبور اور مظلوم انسانوں کو قریب سے دیکھا اور دوسروں دکھایا۔ ان لوگوں کی مجبوریوں کو آئینہ دکھا کر انہوں نے ایک طرح سے معاشرے کو ان چیزوں کی طرف دیکھنے کے لئے متوجہ کرنے کی کوشش کی۔
جذباتی رویہ
قیام پاکستان کے وقت پنجاب میں پھوٹ پڑنے والے فسادات نے مٹو کو یکسرجذباتی بنادیا۔ ہندوں اور سکھوں کی خونریزی اور سنگدلانہ وحشت خیزی نے منٹو کو ہلا کر رکھ دیا۔ چنانچہ تقسیم کے بعد افسانوں میں منٹو کے ہاں یہ جذباتی رویہ دیکھا جاسکتا ہے۔ اسی دور میں منٹو کا فنی ارتقاءوجود میں آیا اور انہوں نے شاہکار افسانے تخلیق کئے۔ اس دور کے افسانوں میں موزیل، شریفن، ننگی آوازیں، ٹوبہ ٹیک سنگھ، کھول دو اور ٹھنڈا گوشت جیسے افسانے سامنے آئے، جن میں انسانی بربریت اور مظلومیت ظلم اور مجبوری کو آمنے سامنے دکھاکر قاری کے اندر جذباتی فکرمندی پیدا کی گئی ہے۔
شدت پسندی
منٹو کے افسانوں میں اگرچہ عریاں نگاری کے رویے کو مذموم ٹھہرایا گیا ہے اور اس انداز اظہار کو انتہائی ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا، لیکن فنکار کی اس شدت پسندی کے پیچھے ایک سخت ردِ عمل بھی کار فرما نظر آتا ہے۔ جس سے حقیقت بیں نگاہیں چشم پوشی نہیں کرسکتیں۔ دراصل منٹو نے بھوک افلاس اور تنگ دستی کو معاشرتی اخلاق اور تہذیبی اقدار کے لئے زہر قاتل قرار دیا۔ اس نے انسانی مجبوریوں کو گناہ کی وادی میں ڈوبتے دکھا کر معاشرے کے اہل فکر طبقے کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ۔ اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو منٹو کی شدت پسندی اور تلخ نوائی کے پیچھے جذبہ اصلاح کی جھلک نظر آتی ہے۔ انہوں نے اپنے فن کے ذریعے بالاخانوں میں مقیم آسودہ حال شرفاءاور محراب و مسجد میں گوشہ عافیت پانے ولاے علماءکو توجہ دلائی ہے کہ فاقوں، بیماریوں اور مجبوریوں سے نڈھال پسماندہ لوگ کس طرح گناہوں اور سیاہ کاریوں میں دھنسے ہوئے کراہ رہے ہیں۔ ہے کوئی ان کی نجات کی فکر کرنے والا؟۔ تقسیم ملک کے دنوں میں فسادات کی نذر ہونے والے مظلوم اور لٹے پٹے مہاجرین کے قافلوں میں پاکستان آنے والے بے گھر اور بے سہارا لوگ کس طرح جنس پرست غنڈوں کی ہوس کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں، ہیں کوئی ان بے کسوں کی دستگیری کرنے والا؟۔
منٹو کا اسلوب تحریر
منٹو کے فن کی عظمت کا راز ان کے کامیاب ابلاغ میں بھی پایا جاتا ہے۔ ان کو احساس تھا کہ وہ خواص و عوام دونوں کے لئے لکھتے ہیں۔ وہ مقصدی ادب تخلیق کررہے تھے اور فطری طور پر وہ چاہتے تھے کہ ان کا لکھا ہوا زیادہ سے زیادہ پڑھا جائے۔ ان کا پیغام عام ہوجائے۔ ان کی بات ہر ایک تک پہنچے۔ وہ جن موضوعات و مسائل کو اپنے فن کی بنیاد بناتے وہ ان کے گرد پھیلی ہوئی عام زندگی سے اخذ کئے ہوئے ہوتے تھے اس لئے وہ چاہتے تھے کہ عام آدمی کی رسائی ان کے موضوعات تک ہو۔
بے تکلفی و بے ساختگی
نہ منٹو کے خیالات میں بناوٹ تھی اور نہ تحریر میں ان کی تحریر میں ایک بے ساختہ پن ہے جو ان کے فن کو فطری اور موثر بناتا ہے۔ فقرون کی ساخت اور لفظوں کی تراش خراش میں وہ دور کی کوڑی نہیں لاتے ان کے ذاتی کردار کا بے ساختہ پن ان کے طرزِ بیان میں بھی موجود رہا۔ تکلف نہ ان کی زندگی میں تھا اور نہ ان کے طرز اظہار میں۔
سلاست و روانی
منٹو کا اسلوب تحریر سیدھا سادھا اور رواں دواں ہے۔ ان کو احساس تھا کہ ان کے قارئین میں کم پڑھے لکھے لوگ بھی ہیں، اس لئے وہ نہایت سادہ اور سلیس زبان میں لکھتے تھے۔ مشکل الفاظ اور نامانوس تراکیب ان کے ہاں شاذ ہی ملتی ہیں۔ مکالموں میں وہ عام بول چال کی زبان استعمال کرتے ہیں۔ زبان کے معاملے میں وہ کسی مدرسہ فکر کے پابند نہیں۔ انشا پردازی ان کامنصب نہیں تھا۔ ایک ہلکا پھلکا اور بے ساختہ طرز تحریر انہوں نے اپنے فن کے لئے اپنایا تھا، جو کامیاب رہا۔
تفصیلات و جزئیات
منٹو اپنی بات کہنے میں سہولت سے کہہ جاتے ہیں جو محسوس کرتے ہیں اسے کھول کر بیان کردینے کے قائل ہیں۔ ان کا مشاہدہ جتنا باریک ہے ان کا بیان اتنا ہی کھلا، صاف صاف اور تفصیلی ہے۔ معمولی جزئیات بھی ان کے ہاں نظر انداز نہیں ہوتیں۔ بی تکان لکھنا اور بہت لکھنا ان کی عادت تھی اس لئے وہ قاری کو بہت کچھ پڑھنے کے لئے دے دیتے ہیں۔ ان کا فن کہانی کا فن تھا اور کہانی تو تفصیل چاہتی ہے۔ منٹو اپنے قاری کو کہانی کی جزئیات میں جذب کرلیتے ہیں۔
سادگی و پرکاری
منٹو کے طرزِ بیان میں پائی جانے والی سادگی کو بظاہر پھیکی اور سپاٹ معلوم ہوتی ہے۔ الیکن اس کے اسلوب میں تاثیر اور جادو بیانی کی ایک ادا پائی جاتی ہے۔ چنانچہ زبان و بیان کی سادگی کے باوجود ان کی تحریر میں حلاوت و طراوت کا مزا ملتا ہے۔ ان کی تازگی بیان میں ایک سرخوشی اور بے نام سی لذت کا احساس ہوتا ہے۔ چنانچہ قاری ان کی کہانی کو شروع کرلے تو ختم کرکے ہی چھوڑتا ہے۔ دلچسپی کا یہ مقناطیسی انداز ہمارے افسانہ نگاروں میں منٹو کے حصے میں زیادہ آیا ہے
-
No comments:
Post a Comment