Saturday, 5 July 2014

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینے ہو، اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
مدد کرنی ہو اس کی، یار کی ڈھارس بندھانا ہو
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
کسی کو یاد رکھنا ہو، کسی کو بھول جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے يہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
شاعر: منیر نیازی


سوانح ۔۔۔۔۔۔
ولادت : 19 اپریل 1927ء ہوشیار پور مشرقی پنچاب
وفات : 26 دسمبر 2006ء لاہور
ابتدائی دور

اردو اور پنجابی کے مشہور شاعر اور ادیب ۔ ضلع ہوشیار پور (مشرقی پنجاب) کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بی اے تک تعلیم پائی اور جنگ عظیم کے دوران میں ہندوستانی بحریہ میں بھرتی ہوگئے لیکن جلد ہی ملازمت چھوڑ کر گھر واپس آگئے۔ برصغیر کی آزادی کے بعد لاہور آگئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لفظیات
۔ منیر نیازی  اُن کی آواز اپنے ہم عصروں میں سب سے الگ سب سےجدا اور سب سے منفرد ہے جسے سینکڑوں صداﺅں کے درمیان بھی پہچاناجا سکتا ہے، کیونکہ اُن کی لفظیات سب سے جد ا ہیں

منیر نیازی نے جنگل سے وابستہ علامات کو اپنی شاعری میں خوبصورتی سے استعمال کیا۔ انہوں نے جدید انسان کے روحانی خوف اور نفسی کرب کے اظہار کے لیے چڑیل اورچیل ایسی علامات استعمال کیں
تصانیف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بیک وقت شاعر، ادیب اور صحافی تھے۔ وہ اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں شاعری کرتے تھے۔ اردو میں ان کے نصف درجن شعری مجموعے شائع ہوئے۔ جن میں تیز ہوااور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان شام، سفید دن کی ہوا، سیاہ شب کا سمندر، ماہ منیر، چھ رنگین دروازے، آغاز زمستاں اور ساعت سیارشامل ہیں۔ اس کے علاوہ کلیات منیر کی بھی اشاعت ہوئی جس میں ان کا مکمل کلام شامل ہے۔ پنجابی میں بھی ان کے تین شعری مجموعے شائع ہوئے شخصیت اور شاعری ۔
منیر نیازی سرتاپا شاعر تھے۔ وہ صاحبِ اسلوب تھے، ہزاروں شاعروں کی بھیڑ میں اُن کا کلام پہچانا جا سکتا ہے ۔

دراصل ان کی شاعری اور شخصیت میں کوئی فرق نہیں تھا کیونکہ ان کی شاعری جمالیاتی اظہار سے عبارت تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ قدرت نے
ان کو صرف شاعری کے لئے پیدا کیا تھا۔ اسی لئے وہ بے تکان لکھتے رہے اور آخر وقت تک انہوں نے شاعری کی۔

احتجاجی شاعر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


منیر نیازی بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ لیکن اُن کے یہاں احتجاج کی آواز بہت بلند ہے۔
ان کا سیاسی اور سماجی شعور انہیں احتجاجی شاعری کرنے کے لئے اکساتا تھا کیونکہ منیر نے خود کو کبھی بھی حکومتِ وقت کے ساتھ وابستہ نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ حزب مخالف کا رول اد اکرتے رہے۔ اِسی لئے غزل میں بھی ان کا لب و لہجہ بلند آہنگ ہو جاتا ہے ۔
 
شاعری میں احتجاج کی آواز جب بھی بلند ہو گی منیر نیازی کا نام ضرور یاد آئے گا۔

اس شہر سنگ دل کو جلا دینا چاہئے 
پھر اس کی خاک کو بھی اڑا دینا چاہئے 
ملتی نہیں پناہ ہمیں جس زمین پر 
اک حشر اس زمیں پہ اٹھا دینا چاہئے

منیر کے لب ولہجے میں کڑواہٹ ضرور ہے لیکن وہ سب کچھ شعری پیرائے میں بیان کردیتے ہیں اور کچھ بھی نہیں چھپاتے۔ شاید انہیں چھپانا آتا بھی نہیں۔

No comments:

Post a Comment