اکبر اور مغربی تعلیم
تعارف
یہ نظم دنیائے مزاح کے بے تاج بادشاہ اکبرالہ بادی کے قلم کی تخلیق ہے۔ اکبر الہ آبادی دنیائے ادب کے چند منتخب افراد میں شامل ہیں۔ آپ کا کلام مغرب کی کھوکھلی تہذیب کے خلاف طنز و مزاح پر مبنی ہے جس کی بدولت آپ کو قومی زندگی اور ادب و فن میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔
اکبر کا شمار ان شعراءمیں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی شاعری کو تعمیری مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ ( ڈاکٹر ابوللیث صدیقی)
مرکزی خیال
اس نظم میں شاعر نے مغربی تعلیم و طرزِ بودوباش پر طنز کرتے ہوئے اس نکتے کو پیش کیا ہے کہ مسلمانوں کی ترقی کا دارومدار مذہبی اقدار کی پیروی میں ہے نہ کہ مغربی فکروتہذیب کی اندھی تقلید میں۔ شاعر نے مغربی ثقافت سے مرعوب لوگوں کا تذکرہ کیا ہے کہ وہ نئی تہذیب کے اپنانے پر زور دیتے ہیں۔اور اسے ترقی و جدت کی شاہراہ واحد تسلیم کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مغربی مفکرین نے جو نظریہ پیش کیا ہے وہ اس دنیوی جہت کے لئے سب سے زیادہ مفید ہے۔ دولت، شہرت، محلات، محافل اور دیگر عناصر ہی آرام و سکون پہنچا سکتے ہیں اور ان کے بغیر یہ چند روزہ زندگی بے مزہ اور پھیکی ہے۔ ان مغرب پرست اشخاص کا کہنا ہے کہ ہماری دینی تعلیمات بوسیدہ اور پرانی ہوچکی ہے اور ان کا عہدِ حاضر میں کوئی کام نہیں۔ ہاں البتہ یہ دنیوی شہرت اور حصول اقتدار میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ اس لئے ان کی وعظ و تبلیغ میں کوئی قباحت نہیں لیکن ان کو عملاً نافز کرنا دقیانوسی سوچ ہے۔
ان تمام خیالات اور مغرب کی کھوکھلی تہذیب کا اکبر نے نہایت موثر جواب دیا ہے اور طنز کی بے نیام تلوار سے اسلامی اقدارو تشخص کا بھرپور دفاع کیا ہے۔ ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مغربی تہذیب و تمدن اسلام کے خلاف انگریزوں کا ایک اور ہتھیار ہے جس کی زد میں مسلمننانِ ہند آرہے ہیں۔ یہ دنیوی چمک دمک تباہی کے سوا کچھ اور دینے کی استطاعت ہی نہیں رکھتی۔ اس لئے تمام مسلمانوں کو خلوض و محبت کے ساتھ اپنے اسلامی تشخص کی حفاظت کرنی چاہئے اور حقیقی ترقی و کامیابی کے لئے سرگرم رہنا چاہئے۔
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
No comments:
Post a Comment