تعارف اشفاق احمد
اشفاق احمد کے افسانے اپنی فنی خوبیوں کے باعث ہر طبقے میں مقبول ہیں۔ فکر و خیال کی ندرت تو ان کی کہانیوں کی جان ہے مگر وہ فن افسانہ نگاری کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ وہ ایک فطری کہانی نویس ہیں۔ ان کے فلسفیانہ خیالات ان کی معلمانہ اور مبلغانہ طبیعت سے ہم آہنگ ہوکر قارئین میں محبت، انسانیت، صدق و صفا اور خوص و دیانت کے جذبات کی آبیاری کرتے ہیں تاہم مقصد کی یہ سرشاری انہیں فنی تقاضوں سے صرف نظر پر مجبور نہیں کرتی۔ چنانچہ ان کی کہانیاں خیال اور فن کا خوبصورت توازن پیش کرتی ہےں۔
اشفاق احمد کے افسانوں کا فکری و فنی جائزہ
مقصدیت
اشفاق احمد بنیادی طور پر ایک صاحب دانش و بصیرت شخص ہیں۔ وہ فن برائے فن نہیں بلکہ فن برائے زندگی کے نقطئہ نظر کے قائل ہیں۔ چنانچہ ان کا ہر افسانہ اپنے پس منظر میں ایک صحت مند سوچ لئے ہوا ہے جو قاری کو عبرت و موعظمت کا چشم کشا درس دیتا ہے۔
اشفاق احمد بنیادی طور پر ایک صاحب دانش و بصیرت شخص ہیں۔ وہ فن برائے فن نہیں بلکہ فن برائے زندگی کے نقطئہ نظر کے قائل ہیں۔ چنانچہ ان کا ہر افسانہ اپنے پس منظر میں ایک صحت مند سوچ لئے ہوا ہے جو قاری کو عبرت و موعظمت کا چشم کشا درس دیتا ہے۔
کہانی کہنے کا انداز
اشفاق احمد نے افسانے میں داستان گوئی کا سا انداز اپنا کر افسانے کو داستان نویسی کی روایت سے مربوط کرنے کی شعوری کوشش کی ہے۔ اپنے افسانے چور میں چور جب چوری کرکے سڑک پر آتا ہے تو ایک جن اسے نظر آتا ہے، چور ڈر کر سورة الناس کی تلاوت کرتا ہے۔ داستانوں کا مافوق الفطرت انداز ان کے افسانوں میں اچانک در آتا ہے اور ان کے کردار دم و درود اور تلاوت و ظیفے کا سہارا لیتے ہیں۔
اشفاق احمد نے افسانے میں داستان گوئی کا سا انداز اپنا کر افسانے کو داستان نویسی کی روایت سے مربوط کرنے کی شعوری کوشش کی ہے۔ اپنے افسانے چور میں چور جب چوری کرکے سڑک پر آتا ہے تو ایک جن اسے نظر آتا ہے، چور ڈر کر سورة الناس کی تلاوت کرتا ہے۔ داستانوں کا مافوق الفطرت انداز ان کے افسانوں میں اچانک در آتا ہے اور ان کے کردار دم و درود اور تلاوت و ظیفے کا سہارا لیتے ہیں۔
نفسیاتی شعور
اشفاق احمد کی کہانیوں میں کرداروں کے ضمیر اور لاشعور میں نیکی اور بدی کی جو کشمکش پائی جاتی ہے، مصنف اسے اپنے نفسیاتی عرفان کے بل پر کردارون کی خودکلامی کے انداز میں سامنے لاتے ہیں۔اس طرح وہ قاری کے لئے سبق آموزی کا موقع پیدا کرتے ہیں۔ اشفاق احمد انسانی نفسیات کا گہرا شعور رکھتے ہیں اور وہ اپنے کرداروں کے ذریعے انسان کے اندر چھپی فطری نیکی کو اجاگر کرتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ انسان فطرتاً نیک ہے برا نہیں۔ اس کے اندر پنہاں نیکی موقع ملتے ہی ضرور باہر آتی ہے اور بدی پر غالب آجاتی ہے۔
اشفاق احمد کی کہانیوں میں کرداروں کے ضمیر اور لاشعور میں نیکی اور بدی کی جو کشمکش پائی جاتی ہے، مصنف اسے اپنے نفسیاتی عرفان کے بل پر کردارون کی خودکلامی کے انداز میں سامنے لاتے ہیں۔اس طرح وہ قاری کے لئے سبق آموزی کا موقع پیدا کرتے ہیں۔ اشفاق احمد انسانی نفسیات کا گہرا شعور رکھتے ہیں اور وہ اپنے کرداروں کے ذریعے انسان کے اندر چھپی فطری نیکی کو اجاگر کرتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ انسان فطرتاً نیک ہے برا نہیں۔ اس کے اندر پنہاں نیکی موقع ملتے ہی ضرور باہر آتی ہے اور بدی پر غالب آجاتی ہے۔
حقیقت نگاری
اکثر ادیب معاشرے میں جو کچھ دیکھتے ہیں اسے اپنی کہانیوں کا موضوع بناتے ہیں، اور اس کا نام حقیقت نگاری رکھتے ہیں۔ مگر ایک بڑے ادیب کی یہی پہچان ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کو مستقبل کی بھی تصویر بھی دکھائے۔ مورخ ماضی کے حالات بیان کرتا ہے۔ صحافی حال پر تبصرہ کرتا ہے اور ادیب ماضی، حال اور مستقبل تینوں ادوار کے ذریعے تینوں زمانوں کو باہم مربوط کرکے نشاندہی کرتے ہیں کہ کیا ہونا چاہئے۔
اکثر ادیب معاشرے میں جو کچھ دیکھتے ہیں اسے اپنی کہانیوں کا موضوع بناتے ہیں، اور اس کا نام حقیقت نگاری رکھتے ہیں۔ مگر ایک بڑے ادیب کی یہی پہچان ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کو مستقبل کی بھی تصویر بھی دکھائے۔ مورخ ماضی کے حالات بیان کرتا ہے۔ صحافی حال پر تبصرہ کرتا ہے اور ادیب ماضی، حال اور مستقبل تینوں ادوار کے ذریعے تینوں زمانوں کو باہم مربوط کرکے نشاندہی کرتے ہیں کہ کیا ہونا چاہئے۔
انسانی محبت و ہمدردی
دردمندی، غمگساری، محبت اور ہمدردی وہ اخلاقی خوبیاں ہیں جو انسانی سرشت میں مستور ہیں۔ بس انہیں جگانے اور بروئے کار آنے کا موقع دینا چاہئے۔ یہ کام پہلے پیغمبروں نے کیا اور اب بھلے لوگ یہ فریضہ انجام دیتے ہیں۔ اچھے شاعر اور ادیب وہی ہوتے ہیں جو انسانی سرشت میں چھپی ہوئی انسانیت اور شرافت کی اقدار کو برسرعمل لاتے ہیں۔ وہ معاشرے کو سنوارتے ہیں بگاڑتے نہیں۔
دردمندی، غمگساری، محبت اور ہمدردی وہ اخلاقی خوبیاں ہیں جو انسانی سرشت میں مستور ہیں۔ بس انہیں جگانے اور بروئے کار آنے کا موقع دینا چاہئے۔ یہ کام پہلے پیغمبروں نے کیا اور اب بھلے لوگ یہ فریضہ انجام دیتے ہیں۔ اچھے شاعر اور ادیب وہی ہوتے ہیں جو انسانی سرشت میں چھپی ہوئی انسانیت اور شرافت کی اقدار کو برسرعمل لاتے ہیں۔ وہ معاشرے کو سنوارتے ہیں بگاڑتے نہیں۔
کردار نگاری
اشفاق احمد کے ہاں کردار نگاری پر زیادہ زور ملتا ہے۔ وہ کرداروں کے ذریعے اپنی کہانیوں کو انجام کی طرف بڑھاتے ہیں۔ جیسے ان کے مقبول افسانے گڈریا میں داو جی کا کردار اور چور کا کردار ان کی کہانی چور میں ہے۔ تمام افسانے کا تانا بانا وہ مرکزی کردار کے گرد بنتے ہیں۔ اور قاری کی نگاہ وہیں جمادیتے ہیں۔ دراصل کردار کے جذبات و احساسات کے پس منظر میں ان کے اپنے جذبات و احساسات ہوتے ہیں۔
اشفاق احمد کے ہاں کردار نگاری پر زیادہ زور ملتا ہے۔ وہ کرداروں کے ذریعے اپنی کہانیوں کو انجام کی طرف بڑھاتے ہیں۔ جیسے ان کے مقبول افسانے گڈریا میں داو جی کا کردار اور چور کا کردار ان کی کہانی چور میں ہے۔ تمام افسانے کا تانا بانا وہ مرکزی کردار کے گرد بنتے ہیں۔ اور قاری کی نگاہ وہیں جمادیتے ہیں۔ دراصل کردار کے جذبات و احساسات کے پس منظر میں ان کے اپنے جذبات و احساسات ہوتے ہیں۔
مکالمہ نگاری
اشفاق احمد اپنے مکالموں میں کردار کے مرتبے اور ذہنی و فکری رجحان کے مطابق زبان استعمال کرتے ہیں۔ فارسی اور ہندی کی آمیزش سے ان کے مکالموں میں دلکشی کا عنصر پیدا ہوتا ہے۔ وہ دل نشیں مکالموں کے ذریعے اپنی بات قاری کے ضمیر میں اتاردیتے ہیں، جو بعد میں محرک عمل بن جاتی ہے۔
اشفاق احمد اپنے مکالموں میں کردار کے مرتبے اور ذہنی و فکری رجحان کے مطابق زبان استعمال کرتے ہیں۔ فارسی اور ہندی کی آمیزش سے ان کے مکالموں میں دلکشی کا عنصر پیدا ہوتا ہے۔ وہ دل نشیں مکالموں کے ذریعے اپنی بات قاری کے ضمیر میں اتاردیتے ہیں، جو بعد میں محرک عمل بن جاتی ہے۔
تنوع
اشفاق احمد کے افسانوں میں بہت تنوع پایا جاتا ہے۔ جس طرح انسانیت اور محبت کا جذبہ ایک ہی ہے لیکن اس کے اظہار کے متنوع انداز ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح مختلف طبقات کے انسان باہم روپ بہروپ میں مختلف سہی مگر ان کی سرشت اور فطرت ایک سی ہے۔ اشفاق احمد کی کہانیوں میں کردار، واقعات اور صورت احوال مختلف ہوتی ہے لیکن ان میں سچ اور نیکی کی جستجو کا پہلو یکساں ملتا ہے۔ مذہبی عقائد اور عقیدت کے حوالے بھی
اشفاق احمد کے افسانوں میں بہت تنوع پایا جاتا ہے۔ جس طرح انسانیت اور محبت کا جذبہ ایک ہی ہے لیکن اس کے اظہار کے متنوع انداز ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح مختلف طبقات کے انسان باہم روپ بہروپ میں مختلف سہی مگر ان کی سرشت اور فطرت ایک سی ہے۔ اشفاق احمد کی کہانیوں میں کردار، واقعات اور صورت احوال مختلف ہوتی ہے لیکن ان میں سچ اور نیکی کی جستجو کا پہلو یکساں ملتا ہے۔ مذہبی عقائد اور عقیدت کے حوالے بھی
No comments:
Post a Comment