Friday, 4 July 2014



شکستِ زنداں کا خواب
تعارف
اس نظم کے خالق جوش ملیح آبادی ہیں جن کو عام طور پر شاعرِ انقلاب کہا جاتا ہے۔ اس لئے انہوں نے متحدہ لیکن محکوم ہندوستان میں اپنی شاعری کے ذریعے اہلِ وطن میں انقلابی خیالات کا طوفان اٹھایا۔ غیر ملکی حکمرانوں کی غلامی کے خلاف نفرت پیدا کی اور جدوجہد آزادی کے لئے جوانانِ وطن کا لہو گرمایا۔
مرکزی خیال
اس نظم میںشاعر نے ہندوستان کی تحریک آزادی کے لئے قید خانے آباد کرنے والے ہم وطنوں کو آزادی حاصل ہونے کا حسین خواب دکھایا ہے۔ ظالم غیر ملکی آقاوں کے ظلم کا خاتمہ ہونے والے ہے اور آزادی کی نعمت ملنے والی ہے۔ تحریک آزادی کے سپاہی دو فلک شگاف نعرے لگائیں گے جن کی گونج سے قید خانے لرز اٹھیں گے۔ اوپر پر جوش نوجوان بڑھ کر ہر طرف آزادی کا جھنڈا لہرادیں گے۔
خلاصہ
شاعر کہتا ہے کہ انگریز حکمرانوں نے برصغیر پاک و ہند کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔ یوں پورا ملک ایک وسیع قید خانے کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ ان حالات میں سامراجی حکمرانوں کے خلاف ملک میں نفرت کا الاو روشن ہوچکا ہے۔ تحریک آزادی ایک بپھرے ہوئے طوفان کی طرح پھیل رہی ہے۔ آزادی کے متوالوں سے دھڑا دھڑ جیلیں بھری جارہی ہیں، مگر ان ظالمانہ ہتھکنڈوں سے تحریکِ آزادی کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ہندوستان کا یہ قیدخانہ آزادی کے نعروں سے گونجنے لگا ہے۔ ہم وطن قیدی غلامی کی زنجیریں توڑنے کا عزم کرچکے ہیں۔ ان کے سینوں میں جذبات کی طغیانی بھری ہے اور ان کی آنکھیں تلواروں کی چمک سے روشن ہیں۔ غریب ہندوستانیوں کی جرات آفریں جدوجہد کے آگے حکمرانوں کی ساری تدبیریں ناکام ہورہی ہیں اور ان کے سفاکانہ مظالم کی بساط لپٹ رہی ہے۔ انہیں شائد معلوم نہیں تھا کہ وہ جن ہندوستانیوں کی زبان بندی کررہے ہیں وہ جب آزادی کی زبان بولنے پر آئیں گے تو ایوانِ اقتتدار کی اونچی فصیلیں ان کی جوشیلی تقریروں کی گونج سے تھرانے لگیں گی۔ اے اہلِ وطن! جنگ کا بگل بج چکا۔ انگریزی راج کے خاتمے کا وقت آپہنچا۔ تمہاری جدوجہد آزادی کامیابی کی منزل پر آپہنچی، اٹھو اور آخری وار کرکے برطانوی حکومت کے لڑکھڑاتے ہوئے اقتدار کے پرزے اڑادو۔ برطانوی حکومت کے لئے اب اس سرزمین پر کہیں جائے پناہ نہیں۔

No comments:

Post a Comment