اسلوب منیر نیازی ،،
منیر نیازی نے جنگل سے وابستہ علامات کو اپنی شاعری میں خوبصورتی سے استعمال کیا۔ انہوں نے جدید انسان کے روحانی خوف اور نفسی کرب کے اظہار کے لیے چڑیل اورچیل ایسی علامات استعمال کیں۔منیر نیازی کی نظموں میں انسان کا دل جنگل کی تال پر دھرتا ہے اور ان کی مختصر نظموں کا یہ عالم ہے کہ گویا تلواروں کی آبداری نشتر میں بھر دی گئی ہو۔
اردو کے معروف ادیب اشفاق احمد نے منیر نیازی کی ایک کتاب میں ان پر مضمون میں لکھا ہے کہ منیر نیازی کا ایک ایک شعر، ایک ایک مصرع اور ایک ایک لفظ آہستہ آہستہ ذہن کے پردے سے ٹکراتاہے اور اس کی لہروں کی گونج سے قوت سامعہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔
ان کے اردو شاعری کے تیرہ، پنجابی کے تین اور انگریزی کے دو مجموعے شائع ہوئے۔ ان کے مجموعوں میں بے وفا کا شہر، تیز ہوا اور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان شام، سفید دن کی ہوا، سیاہ شب کا سمندر، ماہ منیر، چھ رنگین دروازے، شفر دی رات، چار چپ چیزاں، رستہ دسن والے تارے، آغاز زمستان، ساعت سیار اور کلیات منیر شامل ہیں۔
26دسمبر سنہ 2006کو لاہور میں اِس البیلے شاعر کا انتقال ہو گیا ۔
وہ بیک وقت شاعر، ادیب اور صحافی تھے۔ وہ اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں شاعری کرتے تھے۔ اردو میں ان کے نصف درجن شعری مجموعے شائع ہوئے۔
تصانیف
بے وفا کا شہر
، تیز ہوا اور تنہا پھول،
جنگل میں دھنک،
دشمنوں کے درمیان شام،
سفید دن کی ہوا،
سیاہ شب کا سمندر،
ماہ منیر،
چھ رنگین دروازے،
سفر دی رات،
چار چپ چیزاں،
رستہ دسن والے تارے،
آغاز زمستان،
ساعت سیار
۔ مجموعہ ۔ کلیات منیر
منیر نیازی سرتاپا شاعر تھے۔ وہ صاحبِ اسلوب تھے، ہزاروں شاعروں کی بھیڑ میں اُن کا کلام پہچانا جا سکتا ہے ۔
دراصل ان کی شاعری اور شخصیت میں کوئی فرق نہیں تھا کیونکہ ان کی شاعری جمالیاتی اظہار سے عبارت تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ قدرت نے ان کو صرف شاعری کے لئے پیدا کیا تھا۔ اسی لئے وہ بے تکان لکھتے رہے اور آخر وقت تک انہوں نے شاعری کی۔
ان کا سیاسی اور سماجی شعور انہیں احتجاجی شاعری کرنے کے لئے اکساتا تھا کیونکہ منیر نے خود کو کبھی بھی حکومتِ وقت کے ساتھ وابستہ نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ حزب مخالف کا رول اد اکرتے رہے۔ اِسی لئے غزل میں بھی ان کا لب و لہجہ بلند آہنگ ہو جاتا ہے ۔
اس شہر سنگ دل کو جلا دینا چاہئے
پھر اس کی خاک کو بھی اڑا دینا چاہئے
ملتی نہیں پناہ ہمیں جس زمین پر
اک حشر اس زمیں پہ اٹھا دینا چاہئے
ایک مشہور پنجابی قطعہ
کج اونج وی راھواں اوکھیاں سن
کج گَل وچ غم دا طوق وی سی
کج شھر دے لوک وی ظالم سن
کج مينوں مَرن دا شوق وی سی
منیر کے لب ولہجے میں کڑواہٹ ضرور ہے لیکن وہ سب کچھ شعری پیرائے میں بیان کردیتے ہیں اور کچھ بھی نہیں چھپاتے۔ شاید انہیں چھپانا آتا بھی نہیں۔
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
ضروری بات کہنی ہو، کوئی وعدہ نبھانا ہو
کسی سے دور رہنا ہو کسی کے پاس جانا ہو
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ، اس کو جا کر یہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
اگرچہ انہیں فلمی شاعر کہا جاتا تو وہ برا مان جاتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ فلموں میں جتنی پائے کی غزلیں ملتی ہیں ان میں بیشتر منیر ہی کی ہیں مثلاً:
اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو
یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد
تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو
لائی ہے اب اڑا کے گئے موسموں کے باس
برکھا کی رت کا قہر ہے اور ہم ہیں دوستو
آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو
یا پھر:
آ گئی یاد شام ڈھلتے ہی
بجھ گیا دل چراغ جلتے ہی
کھل گئے شہر غم کے دروازے
اک ذرا سی ہوا کے چلتے ہی
اور
جس نے میرے دل کو درد دیا اس شکل کو میں نے بھلایا نہیں
انہیں نا شناسی کا دکھ آخری دم تک رہا:
زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا
دنیا سے خاموشی سے گزر جائیں ہم تو کیا
ہستی ہی اپنی کیا ہے زمانے کے سامنے
اک خواب ہیں جہاں میں بکھر جائیں ہم تو کیا
اب کون منتظر ہے ہمارے لئے وہاں
شام آگئی ہے لوٹ کے گھر جائیں ہم تو کیا
دل کی خلش تو ساتھ رہے گی تمام عمر
دریائے غم کے پار اتر جائیں ہم تو کیا
ان کی باغیانہ غزلوں میں ایک معروف غزل کے کچھ اشعار:
گھرا سبزہ در و دیوار پر آہستہ آہستہ
ہوا خالی صداؤں سے نگر آہستہ آہستہ
چمک زر کی اسے آخر مکان خاک تک لائی
بنایا ناگ نے جسموں میں گھر آہستہ آہستہ
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
شاعری میں احتجاج کی آواز جب بھی بلند ہو گی منیر نیازی کا نام ضرور یاد آئے گا۔
ان کی اپنی زندگی یا پھر عمومی طور پر زندگی کی بہترین اوربھرپور عکاسی اس شعر سے ہوتی ہے:
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
مجموعہ کلام
جمالِ یار کا دفتر رقم نہیں ہوتا
کسی جتن سے بھی یہ کام کم نہیں ہوتا
تمام اُجڑے خرابے حسیں نہیں ہوتے
ہر اک پرانا مکاں قصر ِ جم نہیں ہوتا
تمام عمر رہِ رفتگاں کو تکتی رہے
کسی نگاہ میں اتنا تو دم نہیں ہوتا
یہی سزا ہے مری اب جو میں اکیلا ہوں
کہ میرا سر ترے آگے بھی خم نہیں ہوتا
وہ بے حسی ہے مسلسل شکستِ دل سے منیر
کوئی بچھڑ کے چلا جائے ، غم نہیں ہوتا
٭
غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں
تو نے مجھ کو کھو دیا، میں نے تجھے کھویا نہیں
نیند کا ہلکا گلابی سا خمار آنکھوں میں تھا
یوں لگا جیسے وہ شب کو دیر تک سویا نہیں
ہر طرف دیوار و در اور ان میں آنکھوں کے ہجوم
کہہ سکے جو دل کی حالت وہ لب گویا نہیں
جرم آدم نے کیا اور نسلِ آدم کو سزا
کاٹتا ہوں ذندگی بھر میں نے جو بویا نہیں
جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیر
غم سے پتھر ہو گیا لیکن کبھی رویا نہیں
٭
تھی جس کی جستو وہ حقیقت نہیں ملی
ان بستیوں میں ہم کو، رفاقت نہیں ملی
ابتک میں اس گُماں میں کہ ہم بھی ہیں دہر میں
اس وہم سے نجات کی ، صورت نہیں ملی
رہنا تھا اس کے ساتھ بہت دیر تک مگر
ان روز و شب میں مجھ کو یہ فرصت نہیں ملی
کہنا تھا جس کو اُس سے کسی وقت مجھے
اُس بات کے کلام کی مہلت نہیں ملی
کچھ دن بعد اُس سے جدا ہوگئے منیر
اُس بے وفا سے اپنی طبعیت نہیں ملی
٭
ان سے نین ملا کے دیکھو
یہ دھوکا بھی کھا کے دیکھو
دوری میں کیا بھید چھپا ہے
اس کا کھوج لگا کے دیکھو
کسی اکیلی شام کی چپ میں
گیت پرانے گا کے دیکھو
آج کی رات بہت کالی ہے
سوچ کے دیپ جلا کے دیکھو
دل کا گھر سنسان پڑا ہے
دکھ کی دھوم مچا کے دیکھو
جاگ جاگ کر عمر کٹی ہے
نیند کے دوارے جا کے دیکھو
٭
ابھی مجھے اک دشتِ صدا کی ویرانی سے گزرنا ہے
ایک مسافت ختم ہوئی ہے، ایک سفر ابھی کرنا ہے
گری ہوئی دیواروں میں جکڑے سے ہوئے دروازوں کی
خاکستر سی دہلیزوں پر سرد ہوا نے ڈرنا ہے
ڈر جانا ہے دشت و جبل کو تنہائی کی ہیبت سے
آدھی رات کو جب مہتاب نے تاریکی سے ابھرنا ہے
یہ تو ابھی آغاز ہے جیسے اس پنہائے حیرت کا
آنکھ نے اور سنور جانا ہے، رنگ نے اور نکھرنا ہے
جیسے زر کی پیلاہٹ میں موجِ خون اترتی ہے
زہرِ زر کے تند نشے نے دیدہ و دل میں اترنا ہے
٭
وہ دل کی باتیں زمانے بھر کو یہ یوں سناتا ، مجھے بتاتا
وہ اک دفعہ تو میری محبت کو آزماتا ، مجھے بتاتا
زبانِ خلقت سے جانے کیا کیا وہ مجھ کو باور کرارہا ہے
کسی بہانے انا کی دیوار گراتا ، مجھے بتاتا
زمانے والوں کو کیا پڑی ہے سنیں جو حال دل شکستہ
مگر میری تو یہ آرزو تھی مجھے چلاتا ، مجھے بتاتا
مجھے خبر تھی کہ چپکے چپکے اندھیرے اس کو نگل رہے ہیں
میں اس کی راہ میں اپنے دلا کا دیا جلاتا ، مجھے بتاتا
منیر اس نے ستم کیا کہ شہر چھوڑ دیا خامشی کے ساتھ
میں اس کی خاطر یہ دنیا چھوڑ جاتا ، مجھے بتاتا
٭
بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا
اِک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا
چھلکائے ہوئے چلنا خوشبو لبِ لعلیں کی
اک باغ سا ساتھ اپنے مہکائے ہوئے رہنا
اس حسن کا شیوہ ہے جب عشق نظر آئے
پردے میں چلے جانا، شرمائے ہوئے رہنا
اک شام سی کر رکھنا کاجل کے کرشمے سے
اک چاند سا آنکھوں میں چمکائے ہوئے رہنا
عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیر اپنی
جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا
٭
""محبت اب نہیں ہو گی""
ستا رے جو دمکتے ہیں
کِسی کی چشمِ حیراں میں
ملا قا تیں جو ہو تی ہیں
جمال ابر و باراں میں
یہ نا آباد وقتوں میں
دل نا شا د میں ہو گی
محبت اب نہیں ہو گی
یہ کچھ دن بعد میں ہو گی
گزر جا ئیں گے جب یہ دن
یہ اُن کی یا د میں ہو گی
No comments:
Post a Comment