Thursday, 10 July 2014


شبلی نعمانی
طرزِ تحریر
انیسویں صدی اردو زبان کی بقاء اور زندگی کا پیغام لے کر آئی۔ اس صدی میں بڑے بڑے شاعر ادیب اور انشاء پرداز پیدا ہوئے۔ غالب، مومن، ذوق اور انیس وغیرہ نے اردو زبان کی آبیاری کی انہی کے ساتھ ساتھ اردو کے عناص خمسہ سرسید، نذیر احمد، آزاد، حالی اور شبلی نے آنکھیں کھولیں۔ جنہوں نے اپنی فطری صلاحیتوں اور خداد ذہانت سے اردو کو تاج محل سے زیادہ حسین و جمیل بنادیا ان میں سے ہر ایک شخص ایک ادبی اکیڈمی سے کم نہیں ہے۔ لیکن شبلی میں جو ہم گیر ادبی صلاحیتیں اور خصوصیات جمع ہیں وہ کسی اور میں نہیں ہیں۔ وہ بیک وقت بے مثال ادیب، سوانح نگار، محقق، فلسفی، نقاد اور شاعر تھے۔ ان کی تحریر کی اولین صفت و قوت اور جوش ہے جو ان کے احساس کمال اور احساس عظمت کی پیداوار ہے۔ ان کے یہاں سنجیدگی کے ساتھ دلکشی اور شگفتگی بھی ہے ان کی نثر کی ایک خصوصیت یہ اس میں فکری قوت اور منطقی استدلال کے ساتھ ساتھ لطف و اثر بھی پایا جاتا ہے۔ ان کے اندازِ بیان میں نزاکت، شیرینی، فصاحت اور روانی پائی جاتی ہے۔ وہ اپنی نثر میں آثر آفرینی کے لئے شاعرانہ وسائل سے کام لیتے ہیں۔ وہ ایک ماہر نگینہ ساز کی طرح الفاظ کے نگینوں کو انتہائی خوبصورتی سے جڑنے کا فن خوب جانتے ہیں۔ اس کی وجہ ان کا فنکارانہ مزاج، شاعر کا دل، نفاست پسندی اور شاہانہ مزاہ ہے۔ انہوں نے عربی اور فارسی کے ساتھ دیسی بھاشاوں کے الفاظ و خیالات، تشبیہات و استعاروں کو بھی اپنا ہے اور تصنع اور تکلف کی بجائے سادگی اور سچائی اختیار کی ہے۔ ان کی تحریر میں ایک لذت ہے وہ دل کی بات زبان سے ادا کرتے ہیں۔ اور اپنی باتوں سے دوسروں کو متاثر کرنے کا خدادملکہ رکھتے ہیں۔ ان کی عبارت میں نہ تو بے ربطی ملتی ہے، نہ تو خشکی اور روکھا پن بلکہ اس میں ایک لطیف آہنگ، بلیغ موسیقیت اور ارفع ترنم پایا جاتا ہے۔ ان کی ادبی تحقیقات میں ان کا مخصوص سحر آفریں اسلوب بیان نمایاں ہے۔ شبلی کے بیان کی بہت بڑی خصوصیت ان کا ایجاز اور اختصار ہے۔ اختصار ان کے بیان میں حسن پیدا کردیتا ہے۔ انکی نثر کی تاثیر کا یک بڑا سبب یہ ہے کہ وہ بلا ضرورت جزئیات کو نظر انداز کردیتے ہیں۔
غالب زندہ ہوتے تو شبلی کو اپنی اردو خاص کی داد ملتی جس نے ایک نوخیز بازاری یعنی کل کی چھوکری کو جس پر انگلیاں اٹھتی تھےں آج اس لائق کردیا کہ وہ اپنی بڑی بوڑھیوں اور ثقہ بہنوں یعنی دینا کی عالمی زبانوں سے آنکھیں ملا سکتی ہے۔ جوانی پر آئی ہوئی نچلی نہیں بیٹھ سکتی تھی مدتوں شعراءسے گاڑھا اتحاد رہا۔ اقتضائے سن بری طرح کھل کھیلی ہاتھ پاوں نکالے اور بہتیرے بنائے بگاڑے کیونکہ ایک زمانہ شیدائی تھا لیکن باتوں ہی باتوں میں سب کو ٹالتی رہے۔ اچھے دن آتے ہیں تو بگڑی بن جاتی ہے۔ اب وہ مقدس علماء کی کنیزوں میں داخل ہے۔ لیکن سنا گیا ہے کہ خوش اوصاف شبلی سے زیادہ مانوس ہے اور قریب قریب ان ہی کے تصرف میں رہتی ہے۔ (مہدی آفادی)
بحیثیت سیرت و سوانح نگار
شبلی نے سیرة النعمان، سوانح مولانا روم اور الغزالی وغیرہ سوانح عمریاں لکھیں ان کا سب سے بڑا کارنامہ سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جو انکی آخری تصنیف ہے۔ سیرت پر اس سے بہتر کتاب عربی، فارسی یا کسی اور زبان میں موجود نہ تھی۔ شبلی نے سیرت کی صرف دو جلدیں لکھیں ہیں اس کے بعد ان کا انتقال ہوگیا اور باقی انکے شاگرد رشید علامہ سید سلیمان ندوی نے مکمل کیا۔ شبلی بھی حالی کی طرح انگریزی زبان سے اچھی طرح واقف نہ تھے لیکن آرنلڈ اور دوسرے انگریذ دوستوں کی مدد سے شبلی نے مغرب کے تنقیدی اور ادبی تصورات سے استفادہ کیا تھا۔
بحیثیت مورخ
شبلی نے اردو مین تاریخ کا یک نیا تصور پیش کیا ہے اور ایک خاص معیار کام کیا تاریخ کے جدید نظریہ کے مطابق حالات اور واقعات پر تحقیق اور عالمانہ بحث کرکے اس کو مغربی تصانیف کے ہم پلہ بنادیا اور ساتھ ہی ساتھ دلچسپی اور شگفتگی کو برقرار رکھا۔
ہم میں شبلی ایک ایسا شخص ے جو بلحاظ جامعیت، وسیع النظری، غوروحوض اور مذاق فن کی حیثیت سے آج یورپ کے بڑے بڑے مورخوں کے پہلو بہ پہلو ہوسکتا ہے۔ (مہدی آفادی)
فنی اعتبار سے سوانح نگاری اور تاریخ نویسی میں خاصا فرق ہے لیکن اس فرق اس کے باوجود شبلی کے یہاں ان دونوں میں فاصلے زیادہ نہیں رہتے۔ وہ بنیادی طور پر مورخ تھے ان کے سوانح پڑھتے وقت بار بار یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ سوانح سے زیادہ زمانے کی تاریخ کو اہمیت دے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی سوانح تصانیف ہمیشہ اصول تاریخ نویسی سے بحث کی ہے۔ فن سوانح نگاری کا ذکر تک نہیں کیا ہے۔
شبلی سے اگر تاریخ لے لیجئے تو قریب قریب کورے رہ جائیں گے۔ (مہدی آفادی)
مقالات و مضامین
شبلی کا عظیم کارنامہ ان کے علمی و تحقیقی مضامین اور مقالات ہیں ان مقالات سے اردو میں علمی تحقیقی کا آغاز ہوا۔ ان مضامین میں کتب خانہ اسکندریہ اور جزیہ خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ متعصب عیسائی مورخین کا یہ الزام تھا کہ جب مسلمانوں نے اسکندریہ فتح کیا تو وہاں کے نادر کتب خانہ کو جلادیا۔ شبلی نے عیسائی مورخین کی کتب ہی سے حوالے دے کر اس واقعہ کو غلط ثابت کردیا۔ اسی طرح شبلی کے دوسرے مضامین میں جو اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ہیں مکاتیب شبلی کی خاص اہمیت ہے جن سے ان کی نجی زندگی، ان کے معاصرین اور اس زمانی کے حالات پر کافی روشنی پڑتی ہے۔
الغزالی
اس کتاب میں امام غزالی کے حالات، ان کے اصول و قواعد اور طرزِ استدلال کی تفصیل بھی ہے اس طرح علم کلام کے بھی مسائل اس کتاب میں بیان کئے گئے ہیں۔
سوانح مولانا روم
یہ شبلی کی بڑی نادر کتاب ہے اور ان کی وسعت فکرونظر کا نتیجہ ہے کہ مولانا روم کو اہل کلام میں اور ان کی مثنوی کو تصانیف علم کلام میں شامل کیا ہے۔ دراصل شبلی نے جس وقت سوانح مولانا روم لکھی اس وقت سر سید کے اسلامی عقائد پر عقلی اور کلامی تاویلات کا ہر طرف چرچا تھا۔ شبلی جو سرسید کی صحبت میں رہ چکے تھے اور وہیں سے علم کلام کا ذوق لے کر آئے تھے۔
عظمت ِ شبلی
شبلی سے پہلے سیرت، تنقید اور تاریخ پر کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ لیکن جب انہوں نے ان چیزوں پر قلم اٹھایا تو اس زمین کو آسمان کردیا اردو میں پہلی بار یہ بات نظر آئی کہ ذوق سلیم سیرت اس طرح مرتب کرتا ہی اور تاریخ و تنقید اس طرح لکھی جاتی ہے ۔ ان کی علم الکلام اور اس فن سے متعلق الغزالی اورسوانح مولانا روم اردو زبان کی اولیت میں داخل ہیں۔ شبلی ہی وہ شخص ہیں جنہوں نے اس فن کی تاریخ و اصول اور اہل فن کا طریقہ عمل سے سے پہلے پیش کیا ۔ اسی طرح ان کے مضامین جزیہ، کتب خانہ، اسکندریہ اور اورنگزیب عالمگیر پر ایک نظر اردو میں اپنی نوعیت کی پہلی چیزیں ہیں ۔ ان تمام تصانیف میں جو بلاغت کلام ہی اس میں ان کا کوئی ہمسر نہیں۔
میرا بس چلے تو شبلی کو ہندوستان سے باہر کالے کوسوں یورپ کے کسی بیت الحکما میں بھیج دوں جہاں ان کو اپنی غیر معمولی قابلیت کی داد بڑے بڑے علمائے مستشر قین سے ملے گی جو بلحاظ ہم فنی ان کے یاران طریقت ہیں۔ شبلی کا وسیع دائرہ تحقیقت اہل زبان کی سی فارسی اس میں بھی شاعری کا ملکہ رہا اور سب سے زیادہ اپنی زبان میں ان کے لائق رشک انشاء پردازی وہ صفات ہیں جو اعلانیہ ان کو ہم نفسوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ (مہدی آفادی)

Wednesday, 9 July 2014

۔ علم بیان
        یہ علم بھی بلاغت کی ایک شاخ ہے۔ کسی لفظ کو اس کے حقیقی معنوں میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور مجازی معنوں میں بھی۔ اس علم کے ذریعے سےتشبیہ، استعارہ، کنایہ اور مجا زمرسل کی مدد سے ایک معنی کو کئی انداز سے بیان کیا جاتا ہے، جن کے لیے لغت سے استناد نہیں کیا جا سکتا۔
۔ علم بدیع
        فصیح و بلیغ کلا م کو مختلف لفظی یا معنوی خوبیوں سے آراستہ کرنے کو بدائع اور صنائع کہتے ہیں۔ اس علم سے کلام کو مزین کرنے اور خوش نما بنانے کا سلیقہ آتا ہے۔ یعنی اس علم کی بدولت ’سجع‘، ’تجنیس‘، ’ترصیع‘  اور ’توریہ‘ اور اسی قبیل کے دوسرے محاسن کلام کے ذریعے سے انسان اپنے کلام کو آراستہ کرتا ہے۔

علم بیان

        علم بیان، علوم بلاغت کی ایک اہم شاخ ہے۔ ’’بیان‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’’ظاہر کرنا‘‘، کھول کر بات کرنا اور کسی معاملے کی شرح و وضاحت اس انداز سے کرنا کہ مخاطب کو جزئیات کے ساتھ معاملے کی پوری طرح آگاہی حاصل ہو جائے۔ یہ علم کلام میں ‌معنوی خوبیاں پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو دل نشین بھی بناتا ہے۔
         اردو ادب کی اصطلاح میں علم بیان ایسے قاعدوں اور ضابطوں کے مجموعے کا نام ہے جس کو جان لینے کے بعد ہم ایک ہی بات یا مضمون کو مختلف طریقوں سے ادا کر سکیں۔ اور ان میں سے ہر طریقہ دوسرے سے زیادہ واضح اور موثر ہو۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کلام کے سمجھنے میں غلطی کا امکان کم ہو اور معانی میں خوبصورتی پیدا ہو۔
        علم بیان دراصل الفاظ کے چناؤ کا تعین کرتا ہے۔ اس کا موضوع لفظ ہے جسے دو طرح سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

استعارہ

        اردو لغت میں استعارہ کے معنی ’عارضی طور پر مانگ لینا، مستعار لینا، عاریتاً مانگنا، اُدھار مانگنا، کسی چیز کا عاریتاً لینا ‘ہیں۔ علم بیان کی اصطلاح میں ایک شے کو بعینہ دوسری شے قرار دے دیا جائے، اور اس دوسری شے کے لوازمات پہلی شے سے منسوب کر دئیے جائیں، اسے استعارہ کہتے ہیں۔ استعارہ مجاز کی ایک قسم ہےجس میں ایک لفظ کو معنوی مناسبت کی وجہ سے دوسرے کی جگہ استعمال کیا جاتا ہے

تشبیہ

        تشبیہ عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے لغوی معنی مشابہت، تمثیل اور کسی چیز کو دوسری چیز کی مانند قرار دینا ہیں۔ علم بیان کی رو سے جب کسی ایک چیز کو کسی خاص صفت کے اعتبار سےیامشترک خصوصیت کی بنا پر دوسری کی مانند قرار دے دیا جائے تو اسے تشبیہ کہتے ہیں۔
        بنیادی طور پر تشبیہ کے معنی ہیں مثال دینا۔ چنانچہ کسی شخص یا چیز کو اس کی کسی خاص خوبی یا صفت کی بنا پر کسی ایسے شخص یا چیز کی طرح قرار دینا، جس کی وہ خوبی سب کے ہاں معروف اور مانی ہوئی ہو۔۔۔ تشبیہ کہلاتا ہے۔ مثلاً ہم یہ کہیں کہ بچہ  چاند کی مانند حسین ہے،  تو یہ تشبیہ کہلائے گی کیونکہ چاند کا حسن مسلمہ ہے۔ اگرچہ یہ مفہوم بچے کو چاند سے تشبیہ دیے بغیر بھی ادا کیا جا سکتا تھا کہ بچہ تو حسین ہے، لیکن تشبیہ کی بدولت اس کلام میں فصاحت و بلاغت پیدا ہو گئی ہے۔
        اسی طرح یہ کہنا کہ عبداللہ شیر کی طرح بہادر ہے بھی تشبیہ کی ایک مثال ہے کیونکہ شیر کی بہادری مسلمہ ہے اور مقصد عبداللہ کی بہادری کو واضح کرنا ہے جو عبداللہ اور شیر دونوں میں پائی جائے۔ تشبیہ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مشبہ کی کسی خاص خوبی یا خامی مثلاً بہادری، خوب صورتی، سخاوت، بزدلی یا کنجوسی کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس وصف کی شدت کو بھی بیان کیا جائے۔ اس سے مشبہ کی تعریف یا تذلیل مقصود ہوتی ہے۔

مجازمرسل

        عمومی قاعدہ یہ ہے کہ لفظ کو اسی معنی کے لیے استعمال کیا جائے جس کے لیے اسے وضع کیا گیا ہو۔ لیکن ادیب اور شاعر بعض اوقات لفظ کو اس کے حقیقی معنی کے بجائے کسی اور معنی میں بھی استعمال کر لیتے ہیں۔ اس کا مقصد کلام یا تحریر میں خوب صورتی پیدا کرنا ہوتا ہے۔ لفظ کے اس استعمال کو مجاز کہتے ہیں۔ اصطلاح میں مجاز وہ لفظ ہے جو اپنے حقیقی معنوں کی بجائے مجازی معنوں میں استعمال ہو اور حقیقی و مجازی معنوں میں تشبیہ کا تعلق نہ ہو بلکہ اس کے علاوہ کوئی اور تعلق ہو۔ مثلاً:’’خاتون آٹا گوندھ رہی ہے۔ ‘‘  یہاں آٹا اپنے حقیقی معنوں میں ‌استعمال ہوا ہے۔ یعنی آٹا سے مراد آٹا ہی ہے۔ اسی طرح اگر یہ کہا جائے کہ  ’’اس کے ہاتھ پر زخم ہے۔ ‘‘  اس میں زخم انگلی، انگوٹھے، ہتھیلی یا ہاتھ کی پشت پر ہو گا، لیکن انگلی، انگوٹھے یا ہتھیلی کی جگہ ہاتھ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ’’  فاتحہ پڑھیے۔ ‘‘  اس سے مراد یہ ہے کہ پوری سورہ فاتحہ پڑھیے، نہ کہ صرف لفظ فاتحہ۔ اسی طرح اگر یہ کہا جائے کہ’’  احمد چکی سے آٹا پسوا لایا ہے۔ ‘‘ یہاں آٹا، گندم کے معنوں میں استعمال ہوا ہے جو اس کی ماضی کی حالت ہے۔ یعنی آٹا تو نہیں پسوایا گیا بلکہ گندم پسوائی گئی تھی اور آٹا بنا۔ لیکن آٹا پسوانے کا ذکر ہے۔
        اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بھی ادب کی اس صنف کا کثرت سے استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر قرآن مجید کی درج ذیل تین آیات کو ملاحظہ کریں :

کنایہ

         کنایہ: علم بیان کی رو سے یہ وہ کلمہ ہے، جس کے معنی مبہم اور پوشیدہ ہوں اور ان کا سمجھنا کسی قرینے کا محتاج ہو، وہ اپنے حقیقی معنوں کی بجائے مجازی معنوں میں اس طرح استعمال ہوا ہو کہ اس کے حقیقی معنی بھی مراد لیے جا سکتے ہوں۔ یعنی بولنے والا ایک لفظ بول کر اس کے مجازی معنوں کی طرف اشارہ کر دے گا، لیکن اس کے حقیقی معنیٰ مراد لینا بھی غلط نہ ہو گا۔ مثلاً ’’بال سفید ہو گئے لیکن عادتیں نہ بدلیں۔ ‘‘
یہاں مجازی معنوں میں بال سفید ہونے سے مراد بڑھاپا ہے لیکن حقیقی معنوں میں بال سفید ہونا بھی درست ہے۔

Tuesday, 8 July 2014


مضموں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دنیا کی نعمتوں کی شکر گذاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمس العلماء مولوی زکاءاللہ
پیدائش: 1832ء
انتقال: 1910ء
مورخ ، مترجم دہلی میں پیدا ہوئے۔ بارہ برس کی عمر میں قدیم دہلی کالج میں داخل ہوئے تعلیم ختم کرنے کے بعد وہیں ریاضی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ پھر ڈپٹی کمشنر مدارس ہوئے۔ 1872ء میں میور سنٹرل کالج الہ آباد میں عربی اور فارسی کے پروفیسر ہوگئے۔ 26 برس کی ملازمت کرنے کے بعد پینش پائی اور دہلی میں فوت ہوئے۔ تعلیم نسواں کی خدمات کے صلے میں گورنمنٹ سے خلعت پایا۔ علمی اور تاریخی خدمات کی وجہ سے پندرہ سو روپے انعام اور خان بہادر شمس العلما کے خطاب ملے۔ عربی فارسی کے علاوہ ریاضی میں بھی بڑی دسترس تھی۔ تاریخ ، جغرافیہ ، ادب ، اخلاق ، طبیعیات ، کیمیا ، اور سیاسیات میں ماہر کی حیثیت رکھتے تھے۔ تقریباً ڈیڑھ سو کتب لکھیں۔ تاریخ ہند دس جلدوں میں ہے۔
 نثری اصناف
افسانہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افسانہ اردو ادب کی نثری صنف ہے۔ لغت کے اعتبار سے افسانہ جھوٹی کہانی کو کہتے ہیں لیکن ادبی اصطلاح میں 
افسانہ زندگی کے کسی ایک واقعے یا پہلو کی وہ خلّاقانہ اور فنی پیش کش ہے جو عموماً کہانی کی شکل میں پیش کی جاتی ہے۔ ایسی تحریر جس میں اختصار اور ایجاز بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ وحدتِ تاثر اس کی سب سے اہم خصوصیت ہے۔[1] ناول زندگی کا کل اور افسانہ زندگی کا ایک جز پیش کرتا ہے۔ جبکہ ناول اور افسانے میں طوالت کا فرق بھی ہے۔وحدتِ تاثر[ترمیم]
افسانہ دوسری طرح کی کہانیوں سے اسی لحاظ سے منفرد اور ممتاز ہے کہ اس میں واضح طور پر کسی ایک چیز کی ترجمانی اور مصوری ہوتی ہے۔ ایک کردار، ایک واقعہ، ایک ذہنی کیفیت، ایک جذبہ، ایک مقصد، مختصر یہ کہ افسانے میں جو کچھ بھی ہو، ایک ہو۔[2] افسانے کی یہ خاصیت کہ یہ اپنے اختتام پر قاری کے ذہن پر واحد تاثر قائم کرتا ہے، وحدتِ تاثر کہلاتی ہے

ناول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ناول
ناول اطالوی زبان کے لفظ Novellaسے اخذ کیا گیا ہے۔ جس کے معانی ہیں انوکھا، عجیب ، نرالا، نئی چیز اور بدعت۔ اصطلاحی معنوں میں ناول وہ قصہ یا کہانی ہے جس کا موضوع انسانی زندگی ہو۔ یعنی انسانی زندگی کے حالات و واقعات اور معاملات کا انتہائی گہرے اور مکمل مشاہدے کے بعد ایک خاص انداز میں ترتیب کے ساتھ کہانی کی شکل میں پیش کرنے کا نام ناول ہے۔ ناول کی تاریخ اتنی قدیم نہیں جتنی بقیہ اُردو اصناف کی ہے۔ ناول کی ابتد اٹلی کے شاعر اور ادیب جینووینی بو کا شیو نے ۵۵۳۱ءمیں ناویلا سٹوریا نامی کہانی سے کی۔ انگریزی ادب میں پہلا ناول ”پا میلا “ کے نام سے لکھا گیا اُردو ادب میں ناول کا آغاز انیسویں صدی میں انگریزی ادب کی وساطت سے ہوا
پروفیسر بیکر نے ناول کے لیے چار شرطیں لازم کردیں ۔قصہ ہو ، نثر میں ہو، زندگی کی تصویر ہو اور اس میں رابط ویک رنگی ہو۔ یعنی یہ قصہ صرف نثر میں لکھا نہ گیا ہو بلکہ حقیقت پر مبنی ہواور کسی خاص مقصد یا نقط نظر کو بھی پیش کر تا ہو ۔

در اصل ناول وہ صنف ہے جس میں حقیقی زندگی کی گونا گوں جزیات کوکبھی اسرار کے قالب میں کبھی تاریخ کے قالب میں کبھی رزم کے قالب میں کبھی سیاحت یا پھر نفسیات کے قالب میں ڈھالا جاتا رہا لیکن ان تمام شکلوں میں جو چیزیں مشترک تھیں وہ قصہ، پلاٹ کردار، مکالمہ، مناظر
فطرت، زمان ومکاں نظریۂ حیات اور اسلوب بیان کو خاص اہمیت حاصل ہے

لوک داستاں
دنیا بھر کی زبانوں میںعوامی افسانے ایک اہم روایت کی حیثیت رکھتے ہیں ۔انہیں اصطلاح میں لوک 
داستانیں کہا جاتا ہے ۔یعنی وہ بن لکھے قصے جو سینہ بہ سینہ چلے آرہے ہیں ۔لوک داستانیں لوگوں کی خواہشات جذبات اور ثقافتی اقدار کے اظہار کا فرضی زریعہ ہوتی ہیں ۔ان میں تفریح کے ساتھ ساتھ اخلاقی سبق بھی ملتا ہے
مقالہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مقالہ کا لفظ قول سے نکلا ہے اصطلاح میں مقالے سے مراد علمی ،ادبی اور تحقیقی موضوع پر طویل مضمون ہے ۔اور مقالہ کے لیئے ضروری ہے کہ اپنے علاوہ دیگر احباب کے نقطہ ء نظر کو حوالوں کے ساتھ پیش کیا جائے ۔
انشائیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انشائیہ مضمون ہی کے خاندان کا حصہ ہے ،ہلکے پھلکے موڈ میں مضمون نما تحریر اشائیہ کہلاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مضمون
کسي متعين موضوع پر اپنے خيالات اور جذبات کا تحريري اظہار مضمون ہے- مضمون کے لۓ موضوع کي کوئي قيد نہيں- اردو ميں سر سيد نے مضمون نويسي کا با قاعدہ آغاز کيا- رسالے تہذيب الاخلاق نے مضمون نويسي کي ترويج و ترقي ميں اہم کردار کیا
خاکہ نگاری ۔۔۔۔۔
اردو کی 
 نثری اصناف میں ناول‘افسانہ‘ڈرامہ اور انشائیہ کی طرح خاکہ نگاری بھی ادب کی ایک جداگانہ اور منفرد صنف ہے۔خاکہ کے لغوی معنی میں” ڈھانچہ بنانا یا مسودہ تیار کرنا ہے“ ۔ ادبی نقطہ نظر سے خاکہ” شخصیت کی ہو بہوعکاسی کا نام ہے ۔ نہ صرف اس میں ظاہری تصویر کشی کی جاتی ہے بلکہ باطن کا بھی احاطہ کیا جاتا ہے ۔خاکہ کے لئے انگریزی اصطلاح(Sketch)رائج ہے۔فن مصوری میں اس سے ملتی جلتی ایک اصطلاح(Portraite)بھی ہے۔ جس میں کسی شخص کی ہو بہو تصویر بنائی جاتی ہے۔

Monday, 7 July 2014

روز نامچہ یا ڈائری
ایک شخص دن میں پیش آنے والے  واقعات کو روزانہ اختصار سے لکھتا تو اسی کا نام روزنامچہ یا ڈائری ہے ۔

روز نامچہ یا ڈائری لکھنے  کا رواج بہت قدیم ہے ۔اردو صحافت میں یہ صنف فارسی ادب کے زریعے سے داخل ہوئ ۔

مغل شہنشاہوں میں اکثر کو روز نامچہ لکھنے کا شغف تھا ۔تزک جہانگیری  روز نامچے  ہی کی طرز پر لکھی گئی ہے

Sunday, 6 July 2014

چور
تعارفِ افسانہ

اشفاق احمد صاحب کا یہ افسانہ چور ان کے مجموعے سفرِ مینا سے انتخاب ہے۔ زندگی نام ہے آزمائش کا، امتحان کا۔ زندگی کی اس گاڑی کو چلانے کے لئے اچھی سوچ، اچھی عقل اور اچھی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اگر یہ تینوں چیزیں میسر ہوں تو وہ ایک کامیاب انسان بنتا ہے لیکن ان کی عدم موجودگی کی صورت میں انسان غلط روی اختیار کرکے اپنی دین و دنیا دونوں تباہ کرلیتا ہے اور یہی حقیقیت اشفاق صاحب کے افسانہ کی بنیاد ہے۔

تعارفِ مصنف

اشفاق احمد کے بارے میں لکھتے ہیں:

اشفاق صاحب معاشرے کے سچے اور بے باک ترجمان ہیں۔ ان کا افسانہ ہو یا ڈرامہ وہ اسمیں جذباتِ انسانی کی عمدہ عکاسی کرتے ہیں۔ (احمد ندیم قاسمی)

مرکزی خیال

اشفاق صاحب کا یہ افسانہ معاشرے پرایک دردناک طنز ہے۔ اور اس کا مرکزی خیال کچھ یوں ہے:

کوئی انسان ماں کی گود سے بدکردار اور برا بن کر پیدا نہیں ہوتا بلکہ یہ معاشرے کی ناہمواریاں ہی ایسے کرداروں کو جنم دیتی ہیں اور پروان چڑھاتی ہیں۔

خلاصہ

ایک چور رات کے اندھیرے میں ایک غریب خاندان کے گھر میں چوری کی نیت سے داخل ہوتاہے۔ کمرے میں داخل ہوکر ایک الماری کھولتا ہے جس میں دواوں کی شیشیاں بھری ہوتی ہیں۔ اسی الماری کے خانے میں سے اسے ایک لفافہ ملتا ہے جس میں ایک سو ستر روپے اور ایک خط رکھا ہوتا ہے۔ چور لفافہ منہ میں دبا کر مسروروشادمان نکل جاتا ہے۔ گھر پہنچ کر لفافہ کھولتا ہے اور خط نکال کر پڑھتا ہے۔

خط میں کسی شکیلہ بیگم نے اپنے بھائی کو اپنے بیمار بیٹے کے علاج کے لئے رقم نہ دینے پر شکوہ کیا تھا اور لکھا تھا کہ ادھار وغیرہ لے کر علاج کے لئے رقم مہیا کرلی گئی ہے اور وگ بیٹے کو بغرضِ علاج پنڈی لیجانے والے تھیں۔ یہ حقیقیت جان کر چور کو سویا ہوا ضمیر بیدار ہوگیا۔ رات اس نے سخت اضطراب میں کاٹی اور صبح رقم لوٹانے گھر سے نکلا مگر اسے جائے واردات پر پولیس والے تفتیس کرتے نظر آئے۔ وہ خوفزدہ ہوکر داتا دربار چلا گیا۔ اسکا ضمیر اسے چین نہ لینے دیتا تھا۔ اگلے دن وہ پھر شکیلہ بیگم کے گھر کی طرف گیا۔ اس نے چاہا کہ رجسٹری کا لفافہ پیسوں سمیت اندر اچھا ل دے لیکن ہمت نہ ہوئی۔

چور رات پھر اپنے ضمیر سے لڑتا را اور بالآخر اس کے آگے ہتھیار ڈال دئیے۔ صبح کو نہا دھو کر سیدھا شکیلہ بیگم کے گھر پہنچا کنڈی کھٹکھٹا کر انتظار کرنے لگا کہ جونہی دروازہ کھلے وہ لفافہ اندر پھینک کر روانہ ہوجائے گا۔ دروازہ کھلا لیکن چور کی ہمت نہ ہوئی۔ اس نے یونہی بات بنادی اور وہاں سے چلا آیا۔

اسکے ضمیر نے پھر اس کی لعنت ملامت شروع کردی اور بالآخر اس کی قوت مدافعت جواب دے گئی۔ اس نے ایک ٹرانزسٹر ریڈیو چرا کر بیچ دیا اور قصور وقت گزارنے چلا گیا لیکن یہاں بھی اس کا ضمیر آسودہ نہ ہوسکا۔ ایک ہفتے کے بعد وہ پھر لاہور آیا اور سیدھا شکیلہ بیگم کے گھر پہنچا۔ جب وہ گلی کے موڑ پر پہنچا تو اندر سے بچے کا جنازہ باہر نکل رہاتھا۔ بچے کی حالت بہت خراب تھی۔چور نے آگے بڑھ کر میت کو کندھا دیا۔ بہت سے لوگ باتیں کررہے تھے اور چور کو برا بھلا کہہ رہے تھے جس نے سفرخرچ کی رقم چرا کہ بچے کی جان لے لی تھی۔

چور کے ضمیر نے اس کی گردن پر زور سے دھپا مارا۔ وہ سڑک پر گر گیا۔ لوگوں نے پکڑ کر اسے اٹھایا۔ جنازہ میانی صاحب پہنچ گیا۔ تدفین سے فارغ ہوکر لوگ گھروں کو لوٹ گئے۔ چور نے پھولوں کی ایک ٹوکری خریدی اور سقے کو پیسے دے کر ساری قبر پر چھڑکاو کوایا اور سارے پھول قبر پر ڈال دیے اور بہت دیر وہاں بیٹھا رہا۔ اس نیک کام کی بدولت اس کے ضمیر کا بوجھ بالکل ختم ہوگیا

فرحت اللہ بیگ
مرزا فرحت اللہ بیگ نے اس ماحول میں آنکھ کھولی جب پرانی تہذیب دم توڑرہی تھی۔ سرسید کی تحریک اپنا اثر دکھارہی تھے۔ ایسے میں مرزا صاحب نے محسوس کیا کہ پرانی تہذیب میں زندگی کی اعلی قدریں موجود ہیں۔ انہیں عہدِرفتہ کی ان قدروں سے دلی لگاو تھا۔ اسی لئے وہ اپنی بھرپور کوششوں سے پرانی یادوں کا بار بار تذکرہ کرتے ہیں۔ فرحت اللہ بیگ کا اسلوبِ نگارش مرزا فرحت اللہ بیگ نے اپنی نثرنگاری کی غرض و مقاصد خود بھی بیان کردیے ہیں:
مضامین لکھنے میں میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ پرانے مضمون جو بزرگوں کی زبانی ہم تک پہنچے ہیں تحریر کی صورت میں آجائیں تاکہ فراموش نہ کئے جاسکیں اور خوش مزاقی کے ساتھ ساتھ اصلاحِ معاشرت کا پرچار کیا جائے۔ (مرزا فرحت اللہ بیگ)
مرزا فرحت اللہ بیگ ان خاص انشاءپردازوں میں سے ہیں جنہیں ان کے خاص ظریفانہ اندازِ نگارش کی بدولت ایک خاص مقام و مرتبہ عطا ہوا۔ اسی لئے ایک نقاد نے فرمایا:
ان کی زبان میں ایک مخصوص چٹخارہ، ایک مخصوص چاشنی ہے۔ ان کی بے ارادہ ظرافت کی آمیزش بھی ایک نمایاں خوبی ہے جو اس طرز میں خودبخود پیدا ہوجاتی ہے۔ (محمود نظامی)
طرزِ تحریر کی نمایاں خصوصیات
مرزا فرحت اللہ بیگ طرزِ تحریر کی نمایان خصوصیات درج ذیل ہیں:
دہلی کی ٹکسالی زبان
دھلی سے دیرینہ تعلق کی بناءپر ان کی زبان میں ٹکسالی زبان کاچٹخارہ آگیا ہے۔ تمام نقاد اس بات پرمتفق ہیں کہ مزاح نگاری میں فرحت کی کامیابی کی ضامن ان کی دلکش زبان ہے۔
فرحت کی زبان نرم و نازک تھی جیسے ریشم، لطیف تھی جیسے شبنم، سبک تھی جیسے جیسے پھول کی کلی، شیریں تھی جیسے مصری کی ڈلی۔ (عبدالماجد دریاآبادی)
مختصر جملے، موزوں الفاظ، خوش آہنگ لب و لہجہ، محاورات کا برمحل استعمال، نامانوس الفاظ سے گریز یہ وہ عناصر ہیں جنہوں نے فرحت کی تحریر کا تانا بانا بنا ہے۔
محاورات کا برمحل استعمال
فرحت کا کوئی مضمون محاورہ بندی سے خالی نہیں۔ حد یہ ہے کہ اردو کے ساتھ ساتھ فارسی کے محاورے بھی استعمال کرجاتے ہیں۔ لیکن سلیقے سے۔ نثر میں محاورات کا استعمال عیب نہیں۔ یہ زبان کی دلکشی اور چاشنی کا باعث ہوتے ہیں اور تحذیب کی علامت ہیں۔ البتہ رکیک اور سبک محاورے استعمال کیے جائیں تو مضمون کا لطف ختم ہوجاتا ہے اور یہ خوبی کے بجائے عیب بن جاتا ہے۔
جزئیات نگاری
مرزا صاحب کی ایک اور خوبی جزئیات نگاری بھے ہے۔ وہ جس موضوع پر بھی قلم اٹھاتے ہیں اس کی چھوٹی چھوٹی جزئیات بھی قاری کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ اس سے مضمون دلچسپ اور مفہوم واضح ہوجاتا ہے۔ اس کی عمدہ مثال دلی کا ایک یادگار مشاعرہ ہے جس میں انہوں نے مختلف اشخاص، ان کا لباس، ماحول، حلیہ، چال ڈھال غرض پوری تہذیب کا نقشہ کھینچا ہے۔
لطیف ظرافت
مرزا صاحب کی ظرافت بہت ہی لطیف قسم کی ہوتی ہے۔ قہقہے کا موقع کم ہی ملتا ہے البتہ زیرِ لب تبسم کی کیفیت ضرور ملتی ہے۔ فرحت واقعہ، کردار اور موازنے وغیرہ سے تبسم کی تحریک دیتے ہیں۔ الفاظ و جملوں کو ایسی شگفتگی و دلکشی سے پیش کرتے ہیں کہ دل ودماغ ایک انبساطی کیفیت میں ڈوب جاتا ہے اور ہونٹوں پر تبسم خود ہی پھیلتا چلا جاتا ہے۔ اعلی مزاح نگاری کا اصل کمال اور وصف یہی ہے۔ ان کے ہاں طنز کا عنصر بہت کم ہے۔ وہ خوش مزاقی اور ہلکی و لطیف ظرافت کے قائل تھے۔ ان کے مضامین میں سنجیدگی اور ظرافت کا فنکارانہ امتزاج پایا جاتا ہے البتہ ان کے مضمون نئی اور پرانی تہذیب کی ٹکر میں طنز کا پیرایہ صاف نظر آتا ہے لیکن اس میں زہر ناکی نہیں ۔ ان کی ظرافت بے تضوع اور بناوٹ سے پاک ہوتی ہے۔
مقصدیت
مرزا صاحب نے اپنی مزاح نگاری کو مقصدیت کے تابع رکھا۔ وہ گزرے ہوئے واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک مٹتی ہوئی تہذیب کے نادر نمونے ہمیشہ کے لئے محفوظ کرلینا چاہتے ہیں۔ لیکن اگر اس میں احتیاط سے کام نہ لیا جائے تو ادبی مضامین محض تاثراتی مضامین ہوکر رہ جائیں گے لیکن ان کی ظرافت اور شگفتہ بیانی ان میں بھی دلکش رنگ بھر دیتی ہے۔ وہ واقعات پہ گہری نظر ڈالتے ہوئے اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ان کی ثقالت ختم ہوجاتی ہے اور ایک زندگی کی امنگ پیدا ہوجاتی ہے۔ ڈپٹی نزیر احمد کی کہانی کچھ میری کچھ انکی زبانی میں رقم طراز ہیں:
کہتے بھی جاتے تھے بھ�· کیا مزے کا خربوزہ ہے۔ میاں کیا مزے کا آم ہے مگر بندئہ خدا کبھی یہ نہ کہا کہ بیٹا زرا چکھ کر دیکھو یہ کیسا ہے۔ میں نے تو تہیہ کرلیا تھا کہ مولوی صاحب نے اگر جھوٹوں بھی کھانے کو پوچھا تو میں سچ مچ شریک ہوجاوں گا۔
کہانی کا عنصر
مرزا صاحب کےااکثر مضامین کہانی کا رنگ لئے ہوئے ہیں۔ اندازِ بیان افسانوی ہے جسکی وجہ سے قاری کی دلچسپی آخر تک برقرار رہتی ہے۔ انہیں داستان سرائی کا بھی بہت شوق تھا۔ بعض مضامین تو ایسے ہیں جو ایک کہانی کے تقاضوں کو بہت عمدگی سے پورا کرتے ہیں۔ ان کے کچھ ایسے مضامین درج ذیل ہیں:
  • نذیر احمد کی کہانی
  • ایک وصیت کی تکمیل میں
  • دلی کا یادگار مشاعرہ
  • پھول والوں کی سیر
دہلوی معاشرت کی عکاسی
فرحت کو عہدِ مغلیہ کے اخری دور کی معاشرت اور تمدن کا صحیح اور دلکش اور بہترین عکاس کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ وہ مزاجاً مشرق پرست تھے اور اہلِ مشرق کی ماضی پرستی سے بھی آگاہ تھے۔ انہوں نے دلی میں آنکھ کھولی اور وہیں پرورش پائی۔ چنانچہ دلی والوں کے لباس، طورطریقوں اور تہواروں کے سلسلے میں ان کا قلم خوب گلکاریاں کرتا ہے۔ انہوں نے ماضی کی عظمت کے قصے، تقاریب کا احوال لکھا اور قارئین سے خوب داد وصول کی۔
خاکہ نگاری
فرحت اللہ بیگ کے یہاں خاکہ نگاری یا شخصیت نگاری اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ ان کے تحریر کردہ خاکے نظیر احمد کی کہانی کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ اسی طرح ایک وصیت کی تکمیل میں اور دلی کا یادگار مشاعرہ بھی مختلف شخصیات کا جامع تصور پیش کرتے ہیں۔
مرزا فرحت اللہ بیگ نہ مدلل مداحی کرتے ہیں اور نہ ہی ممدوح کے بجائے خود کو نمایاں کرتے ہیں۔ وہ جس کا نقشہ کھینچتے ہیں اس کی خوبیوں، خامیوں، عادات و اطوار، لباس، ناک نقشہ غرض ہر چیز چلتی پھرتی تصویر کی طرح آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے۔ مضامینِ فرحت کے مصنف لکھتے ہیں:
ہنسی ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے۔ ایک نفسی انبساط ہے۔ اگر دل و دماغ پر ایک انبساط کی کیفیت چھا جائے اور کبھی کبھی لبوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ کھل جائے۔ ایک آدھ بار قارئین پھول کی طرح کھل کر ہنس پڑیں تو ایسا مضمون خوش مذاقی کا بہترین نمونہ ہوگا۔ (عظمت اللہ خان)
آراہ ناقدین
مختلف تنقید نگار مرزا فرحت اللہ بیگ کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں اور اپنے اپنے انداز میں لکھتے ہیں:
مرزا صاحب کے قلم سے سلاست اور فصاحت کا دامن بہت کم ہی چھوٹنے پاتا ہے۔ (عبدالقادر سروری)
مرزا فرحت اللہ بیگ کا بیان بہت سادہ و دل آویز ہے جس میں تصنع نام کو نہیں۔ (مولوی عبدالحق)
فرحت کی زبان شگفتہ فارسی آمیز ہے اور بعض اوقات تمسخر کچھ اس طرح ملا ہوتا ہے کہ جس میں پھول اور کانٹے نظر آئیں۔ (ڈاکٹر سید عبداللہ)
خوش مذاقی کی سڑک کے داغ بیل مجھ جیسے گمنام شخص کے ہاتھوں ڈلوائی گئی۔ (مرزا فرحت اللہ بیگ)


تعارف             اشفاق احمد 
اشفاق احمد کے افسانے اپنی فنی خوبیوں کے باعث ہر طبقے میں مقبول ہیں۔ فکر و خیال کی ندرت تو ان کی کہانیوں کی جان ہے مگر وہ فن افسانہ نگاری کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ وہ ایک فطری کہانی نویس ہیں۔ ان کے فلسفیانہ خیالات ان کی معلمانہ اور مبلغانہ طبیعت سے ہم آہنگ ہوکر قارئین میں محبت، انسانیت، صدق و صفا اور خوص و دیانت کے جذبات کی آبیاری کرتے ہیں تاہم مقصد کی یہ سرشاری انہیں فنی تقاضوں سے صرف نظر پر مجبور نہیں کرتی۔ چنانچہ ان کی کہانیاں خیال اور فن کا خوبصورت توازن پیش کرتی ہےں۔
اشفاق احمد کے افسانوں کا فکری و فنی جائزہ
مقصدیت
اشفاق احمد بنیادی طور پر ایک صاحب دانش و بصیرت شخص ہیں۔ وہ فن برائے فن نہیں بلکہ فن برائے زندگی کے نقطئہ نظر کے قائل ہیں۔ چنانچہ ان کا ہر افسانہ اپنے پس منظر میں ایک صحت مند سوچ لئے ہوا ہے جو قاری کو عبرت و موعظمت کا چشم کشا درس دیتا ہے۔
کہانی کہنے کا انداز
اشفاق احمد نے افسانے میں داستان گوئی کا سا انداز اپنا کر افسانے کو داستان نویسی کی روایت سے مربوط کرنے کی شعوری کوشش کی ہے۔ اپنے افسانے چور میں چور جب چوری کرکے سڑک پر آتا ہے تو ایک جن اسے نظر آتا ہے، چور ڈر کر سورة الناس کی تلاوت کرتا ہے۔ داستانوں کا مافوق الفطرت انداز ان کے افسانوں میں اچانک در آتا ہے اور ان کے کردار دم و درود اور تلاوت و ظیفے کا سہارا لیتے ہیں۔
نفسیاتی شعور
اشفاق احمد کی کہانیوں میں کرداروں کے ضمیر اور لاشعور میں نیکی اور بدی کی جو کشمکش پائی جاتی ہے، مصنف اسے اپنے نفسیاتی عرفان کے بل پر کردارون کی خودکلامی کے انداز میں سامنے لاتے ہیں۔اس طرح وہ قاری کے لئے سبق آموزی کا موقع پیدا کرتے ہیں۔ اشفاق احمد انسانی نفسیات کا گہرا شعور رکھتے ہیں اور وہ اپنے کرداروں کے ذریعے انسان کے اندر چھپی فطری نیکی کو اجاگر کرتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ انسان فطرتاً نیک ہے برا نہیں۔ اس کے اندر پنہاں نیکی موقع ملتے ہی ضرور باہر آتی ہے اور بدی پر غالب آجاتی ہے۔
حقیقت نگاری
اکثر ادیب معاشرے میں جو کچھ دیکھتے ہیں اسے اپنی کہانیوں کا موضوع بناتے ہیں، اور اس کا نام حقیقت نگاری رکھتے ہیں۔ مگر ایک بڑے ادیب کی یہی پہچان ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کو مستقبل کی بھی تصویر بھی دکھائے۔ مورخ ماضی کے حالات بیان کرتا ہے۔ صحافی حال پر تبصرہ کرتا ہے اور ادیب ماضی، حال اور مستقبل تینوں ادوار کے ذریعے تینوں زمانوں کو باہم مربوط کرکے نشاندہی کرتے ہیں کہ کیا ہونا چاہئے۔
انسانی محبت و ہمدردی
دردمندی، غمگساری، محبت اور ہمدردی وہ اخلاقی خوبیاں ہیں جو انسانی سرشت میں مستور ہیں۔ بس انہیں جگانے اور بروئے کار آنے کا موقع دینا چاہئے۔ یہ کام پہلے پیغمبروں نے کیا اور اب بھلے لوگ یہ فریضہ انجام دیتے ہیں۔ اچھے شاعر اور ادیب وہی ہوتے ہیں جو انسانی سرشت میں چھپی ہوئی انسانیت اور شرافت کی اقدار کو برسرعمل لاتے ہیں۔ وہ معاشرے کو سنوارتے ہیں بگاڑتے نہیں۔
کردار نگاری
اشفاق احمد کے ہاں کردار نگاری پر زیادہ زور ملتا ہے۔ وہ کرداروں کے ذریعے اپنی کہانیوں کو انجام کی طرف بڑھاتے ہیں۔ جیسے ان کے مقبول افسانے گڈریا میں داو جی کا کردار اور چور کا کردار ان کی کہانی چور میں ہے۔ تمام افسانے کا تانا بانا وہ مرکزی کردار کے گرد بنتے ہیں۔ اور قاری کی نگاہ وہیں جمادیتے ہیں۔ دراصل کردار کے جذبات و احساسات کے پس منظر میں ان کے اپنے جذبات و احساسات ہوتے ہیں۔
مکالمہ نگاری
اشفاق احمد اپنے مکالموں میں کردار کے مرتبے اور ذہنی و فکری رجحان کے مطابق زبان استعمال کرتے ہیں۔ فارسی اور ہندی کی آمیزش سے ان کے مکالموں میں دلکشی کا عنصر پیدا ہوتا ہے۔ وہ دل نشیں مکالموں کے ذریعے اپنی بات قاری کے ضمیر میں اتاردیتے ہیں، جو بعد میں محرک عمل بن جاتی ہے۔
تنوع
اشفاق احمد کے افسانوں میں بہت تنوع پایا جاتا ہے۔ جس طرح انسانیت اور محبت کا جذبہ ایک ہی ہے لیکن اس کے اظہار کے متنوع انداز ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح مختلف طبقات کے انسان باہم روپ بہروپ میں مختلف سہی مگر ان کی سرشت اور فطرت ایک سی ہے۔ اشفاق احمد کی کہانیوں میں کردار، واقعات اور صورت احوال مختلف ہوتی ہے لیکن ان میں سچ اور نیکی کی جستجو کا پہلو یکساں ملتا ہے۔ مذہبی عقائد اور عقیدت کے حوالے بھی

شفیع عقیل : کوئی کہاں سے تمھارا جواب لائے گا

 شفیع عقیل .........علم و ادب کا وہ نیر تاباں جو لاہور کے مضافات میں واقع ایک تھینہہ(village)سے1930میں طلوع ہوا پوری علمی دنیا کو اپنی تابانیوں سے بقعہء نور کرنے کے بعد جمعہ 6۔ستمبر 2013کی رات گیارہ بجے کراچی کے افق سے غروب ہو کر عدم کی بے کراں وادیوں میں ہمیشہ کے لیے چھپ گیا۔

شفیع عقیل کا تعلق ایک خو د دار اور معزز خاندان سے تھا۔ ۔ مالی مشکلات اور وسائل کی عدم دستیابی کے باعث شفیع عقیل با قاعدہ تعلیم تو حاصل نہ کر سکے لیکن انھوں نے بڑی محنت اور لگن سے اپنی دنیا آپ پید ا کرنے کی کوشش کی ۔انھوں نے اپنی ان اور خودی کا بھی تحفظ کیا اور غریبی میں نام پید ا کر نے کا عزم کر لیا۔

۔1952میں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’بھوکے ‘‘ شائع ہوا ۔اس افسانوی مجموعے کا رد عمل بھی اسی صورت میں سامنے آیا جو اس سے قبل 1936 میں ’’ انگارے ‘‘کی اشاعت کے بعد سامنے آ چکا تھا ۔سعادت حسن منٹو کو بھی اسی قسم کی پریشانیوں کا سامنا کر ناپڑا ۔ شفیع عقیل کے مخالفین سنگ ملامت لیے نکل آئے ،

بچوں کے ادب پر شفیع عقیل نے بہت توجہ دی۔ان کی کتاب ’’نامور ادیبوں کا بچپن‘‘ بہت مقبول ہوئی ۔اسے قارئین ادب کی زبردست پذیرائی نصیب ہوئی ۔ ۔ان کا خیال تھا کہ بچوں میں تخلیقی صلاحیتوں کو مہمیز کرنا ،ان کے ذوق سلیم کو نکھارنا اور ان کے فہم و ادراک کو صیقل کرکے انھیں تخلیق ادب پر مائل کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے


شفیع عقیل نے ہفت روزہ اخبار جہاں کراچی اور روزنامہ جنگ کراچی میں طویل مختلف حیثیتوں سے طویل عرصہ تک خدمات انجام دیں۔روزنامہ جنگ میں ان کی خدمات کا عرصہ ساٹھ برس پر محیط ہے


پنجابی ادب کی روایات اوراقدار سے انھیں گہری دلچسپی تھی ۔پنجابی کلاسیکی شاعری اور لو ک داستانوں سے قلبی وابستگی ان کے ریشے ریشے میں سما گئی تھی ۔ان کا خیال تھاکہ کہانیاں تو ازل سے اسی طرح منصہ ء شہود پر آتی رہی ہیں ۔ان کے موضوعات ایک جیسے ہیں صرف انداز بیاں میں معمولی تبدیلی سے بات بدل جاتی ہے


۔اردو ادب کے قارئین شفیع عقیل کے ان تراجم کے اعجاز سے اقوام عالم کی تہذیب ،تمدن ،ثقافت ،معاشرت ،مزاج اور انداز فکر کے بارے میں تمام حقائق کا چشم تصور سے مشاہدہ کر سکتے ہیں۔

 انھوں نے پنجابی ،فارسی ،اردو ،چینی ،جاپانی ،جرمن اورروسی زبان کی نمائندہ تخلیقات کو اردو کے قالب میں ڈھال کر اردو زبان کا دامن گل ہائے رنگ رنگ سے بھر دیا ۔ شفیع عقیل کو پاکستان کی علاقائی زبانوں کے ادب کے ساتھ بالعموم اور پنجابی ادب کے ساتھ بالخصوص دلی لگاؤ تھا۔ان کی دس تصانیف پنجابی زبان کے ادب سے متعلق ہیں ۔ان میں سے’’ سوچاں دی زنجیر‘‘ ،۔ ’’زہر پیالہ ‘‘ اور ’’میری پنجابی شاعری ‘‘قابل ذکر ہیں۔ان کی تمنا تھی کہ پاکستان کی علاقائی زبانوں میں تخلیق ہونے والے ادب کو نہ صرف پاکستان کی قومی زبان میں منتقل کیا
۔پنجابی کلاسیکی شاعری کے تراجم پر انھوں نے اپنی توجہ مر کوز رکھی ۔وہ سلطان باہو،شاہ حسین ،بلھے شاہ ، میاں محمد بخش اور وارث شاہ کے اسلوب کو بہت پسند کرتے تھے ۔ انھوں نے ان شعرا کے کلام کو اردو کے قالب میں ڈھال کر بہت بڑی قومی خدمت انجام دی ہے
۔پنجابی کلاسیکی شاعری پر ان کا تحقیقی کام جو کئی ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے ، ان کی جگر کاوی اور محنت کا اعلا معیار پیش کرتا ہے۔اس کے مطالعہ سے پنجابی زبان کے کلاسیکی ادب کی افادیت کو سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے
۔انھو ں نے پنجابی ،چینی ،جاپانی جرمن اور ایرانی ادبیات کے شاہ کاروں کو تراجم کے ذریعے اردو میں منتقل کرکے ید بیضا کا معجزہ دکھایا۔پنجابی زبان میں ان کا ایک اور اہم اور نا قابل فراموش کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے مرزا اسداﷲ خان غالب اور قائد اعظم محمد علی جناح کی باتوں کو پنجابی زبان کے قالب میں اس خوش اسلوبی سے ڈھالا ہے کہ قاری چشم تصورسے ان ہستیوں کو پنجابی میں گفتگو کرتے دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتاہے ۔مترجم کی حیثیت سے وہ زبان و بیان کی اشنی سے سماں باندھ دیتے ہیں اور ترجمے میں تخلیق کی کشش پیدا ہو جاتی ہے ۔

فنون لطیفہ کے بارے میں اردو زبان میں بہت کم لکھا گیا ہے ۔آرٹ ،مصوری اور سنگ تراشی جیسے فن جو صدیوں سے اس خطے کی پہچان چلے آ رہے

۔شفیع عقیل نے فنون لطیفہ کی تاریخ اور اس خطے میں ان کے ارتقا پر خوب داد تحقیق دی ہے ۔فن مصوری پر شفیع
۔فن مصوری پر ان کی تصانیف کی تفصیل درج ذیل ہے :
(1)دو مصور (2)چار جدید مصور (3)تصویر اور مصور (4)مصوری اور مصور (5)پاکستان کے سات مصور
پاکستان کے سات مصور شفیع عقیل کی مقبول اور اہم تصنیف ہے ۔فن مصوری پر اپنی اس کتاب میں انھوں نے پاکستان کے جن سات نامور مصوروں کے فن کو موضوع بنایا ہے ان میں محمد حنیف رامے
،

 ان کے اسلوب میں پائی جانے والی ان کے شخصی اور انفرادی انداز کی جانب توجہ دلاتے ہیں ۔وہ نہایت خلوص اور بے تکلفی سے کام لیتے ہوئے قاری کو فن مصوری کے اسرار و رموز سے آگاہ کرتے ہیں ۔

،ادبی ،قومی ،ملی اور لسانی خدمات کے اعتراف میں انھیں حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہء امتیاز عطا کیا گیا۔اس کے علاوہ انھیں داؤد ادبی انعام اور خوش حال خان خٹک ایوارڈ سے بھی نواز گیا ۔

شفیع عقیل ایک ہفت اختر شخصیت تھے ۔انھوں نے کئی شعبوں میں اپنے کمال فن کا لوہا منوایا ۔ترجمہ نگاری ،تبصرہ نگاری ،تحقیق ،تنقید ،شاعری ۔افسانہ نگاری ،عالمی ادبیات ،لوک ادب ،پنجابی کلاسیکی شاعری ،اردو کلاسیکی شاعری ،علوم شرقیہ ،طب ،فلسفہ ،علم بشریات ،تاریخ اور نفسیات کے موضوعات پر کئی نادر تحریریں پیش کیں ۔مضامین ،مواد اور اسلوب کا یہ تنوع اور بو قلمونی انھیں منفرد اور ممتاز مقام عطا کرتی



شفیع عقیل بہت خوش اخلاق اور مخلص ادیب تھے ۔ہر ملاقاتی کے ساتھ اخلاق اور اخلاص کے ساتھ پیش آنا ان کا شیوہ تھا۔اپنے عہد کے ممتاز ادیبوں اور دانش وروں کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات تھے ۔

اپنے اسلوب میں شفیع عقیل نے فہم و ادراک ،جذبات و احساسات اور تکنیک کے تنوع سے جو سماں باندھا ہے وہ دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتا ہے ۔تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگ سنگ میں اترنے کی صلاحیت سے متمتع اس نابغہء روزگار تخلیق کار نے اپنے اشہب قلم کی جو لانیوں سے ہر صنف ادب میں اپنی کا میابی کے جھنڈے گاڑ دئیے۔

ان کے سفر نامے قاری کو اسی دنیا میں لے جاتے ہیں جس میں شفیع عقیل انھیں لے جانے کا آرزو مند ہے ۔تعلیم ،تفریح اور مقصدیت سے لبریز شفیع عقیل کی تخلیقات قار ئین کے اذہان کی تطہیر و تنویر کا موثر ترین وسیلہ بن کر سامنے آتی ہیں ۔ان کا اسلوب قاری کے شعور کو واحد تاثر کی نعمت سے مالا مال کر کے فہم و ادراک کے لطیف جذبات و احساسات سے مزین کرتا ہے ۔ان کے اپنے احساسات اسی بے ساختگی کے ساتھ منصہء شہود پر آتے ہیں جس کا تعلق ان کے تخلیقی تجربات سے ہے ۔
 

سوانح نگاری میں شفیع عقیل نے موضوع تحقیق کی افادیت اور اہمیت کو پیش نظر رکھا ہے ۔مجید لاہوری کی شخصیت کے متعلق مواد کے حصول کے تمام ممکنہ ذرائع استعمال کیے ہیں اور کہیں بھی تشنگی کا احساس پیدا نہیں ہونے دیا۔اسلوب میں واقعات اور شہادتوں کی چھان پھٹک پر پوری توجہ دی گئی ہے ۔اس طرح وہ سوانح عمری کو ایک انسان کی حقیقی تصویر اور مستند تاریخ بنا کر پیش کرتے ہیں۔

شفیع عقیل نے ادب کو ایک موثر سماجی عمل کی حیثیت سے رو بہ عمل لانے کی کوشش کی ۔اپنی تحریروں کو تحلیل و تجزیہ سے مزین کر کے اصلاح اور مقصدیت کی شمع فروزاں رکھنے والے اس عظیم ادیب کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پر نہیں ہو سکتا۔

Saturday, 5 July 2014


  1. دل میں اک لہر سے اٹھی ہے ابھی

    کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی
    شور برپا ہے خانہ دل میں
    کوئی دیوار سی گری ہے ابھی
    بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
    جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی
    یاد کے بےنشان جزیروں سے
    تیری آواز آ رہی ہے ابھی
    سو گئے لوگ اس حویلی کے
    ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی
    تم تو یارو ابھی سے اٹھ بیٹھے
    شہر میں رات جاگتی ہے ابھی
    وقت اچھا بھی آے گا ناصر
    غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
    ناصر کاظمی
  2. دل میں ایک لہر سی اُٹھی ہے ابھی
    کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی
    تشریح
    شاعر گردو پیش کے واقعات سے متاثر ہوتا ہے۔ وہ جو کچھ دیکھتا ہے محسوس کرتا ہے، بیان کر دیتا ہے۔ لیکن جہاں بیان اور اظہار کی زادی نہ ہو وہاں شاعر اپنے اندر ایک گھٹن محسوس کرتا ہے۔ اس کے دل میں اک کرب انگڑائیاں لیتا ہے۔ اس شعر میں بھی یہی کیفیت محسوس ہوتی ہے کہ اگر گرمی شدید ہو، ہوا رکی ہوئی ہو تو سارے کام معطل ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں وہا کا کوئی جھونکا آجائے تو وہ گویا زندگی کا پیغام ہوتا ہے۔ امنگیں اور آرزوئیں انگڑائیاں لینے لگتی ہیں۔ یہی کیفیت اس وقت ہماری ہے۔ ہم جو عرصے سے خاموش ہیں، اظہار کی تمام قوتوں کو ہم نے جبراً خاموش کر دیا ہے۔ اسی لئے ہم اپنے دل میں ایک گھٹن محسوس کرتے ہیں۔ اب حالات میں تغیر آتا نظر آرہا ہے۔ گویا ہوا کا تازہ تازہ جھونکا آیا ہے جس سے دل میں آرزوﺅں اور امنگوں کی لہریں اٹھنے لگی ہیں۔ یعنی اب ہمےں اپنے احساسات اور خیالات کے اظہار کا پورا موقع ملے گا
    شعر نمبر ۲
    شور برپا ہے خانہ دل میں
    کوئی دیوار سی گری ہے ابھی
    تشریح
    دل مثل گھر کے ہے اور گھر دیواروں سے گھرے ہوئے حصے کو کہتے ہیں۔ ہماری دل میں زبردست شور برپا ہے اور یہ شور اس سبب سے ہے کہ گھر کی کوئی دیوار گری ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دل خواہشات اور آرزوﺅں کا مرکز ہے۔ اب پھر ہماری کسی آرزو کاخون ہوا ہے۔ اب پھر ہماری کوئی خواہش دم توڑنے لگی ہے۔ اسی لئے دل میں نالہ و فریاد کی کیفیت پیدا ہوئی ہے
    شعر نمبر ۳
    بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
    جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی
    تشریح
    تمام جذبوں کا تعلق دل سے ہے۔ غم و الم کا، مسرت و خوشی کا، غرض ہر جذبہ دل کی کیفیت سے ابھرتا ہے۔ دل اگر شاداں و فرحاں ہے تو ہر شے میں مسرت و انبساط موجِ زن نظر آتی ہے۔ لیکن دل اگر اداس و غمگین ہو تو ہر شے اداس معلوم ہوتی ہے، ماتم کناں نظر آتی ہے۔ شاعر اسی کیفیت کو اس شعر میں بیان کرتا ہے۔ کہتا ہے کہ دنیا میں رونقیں اپنے عروج پر ہیں، ہر شے شگفتہ و شادماں ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس دنیا میں میرا جی نہیں لگتا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اب کس چیز کی کمی ہے۔ میرا دل محبوب کے فراق میں غم زدہ ہے۔ اسی لئے اداس و غمگین رہتا ہے
    شعر نمبر ۴
    تو شریکِ سخن نہیں ہے تو کیا
    ہم سخن تیری خامُشی ہے ابھی
    تشریح
    چہرہ اندرونی کیفیات کا عکاس ہوتا ہے اور جو واقف ہوتے ہیںوہ چہرے کی کیفیات کو دیکھ کر ہی دل کی کیفیات کا اندازہ لگا لیتے ہیں۔ شاعر نے یہی بات بڑے خوبصورت انداز میں اس شعر میں بیان کی ہے۔ کہتے ہیں کہ اے میرے محبوب! تو محفل میں موجود ہے لیکن خاموش، کسی سے بات نہیں کر رہا ہے مگر تو ہم سے ہم کلام ہے۔ اس طرح کہ تیری خاموشی کے سبب تیرے چہرے پر جو تاثرات ابھر رہے ہیں وہ ہم سے تیری کیفییت بیان کر رہے ہیں۔ گویا تیری خاموشی سے ہم باتیں کر رہے ہیں اور یہ اعزاز محفل میں ہمارے سوا کسی اور کو حاصل نہیں ہے۔
    یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے کہ محبوب خاموش ہے مگر اس کے چاہنے والے اس کے چہرے کے تاثرات سے اس کے دل کو مفہوم اخذ کررہے ہیں۔ اس طرح وہ خاموش ہوتے ہوئے بھی محفل میں سب سے ہم کلام ہے
    شعرنمبر ۵
    یاد کے بے نشان جزیروں سے
    تیری آواز آ رہی ہے ابھی
    تشریح
    شاعر کہتا ہے ہم نے قرارِ یار میں زندگی بتا دی۔ تیری ےادوں کے حسین لمحات کے سہارے زندگی کا طویل سفر طے کر لیا۔ لیکن اب تیری یادوں کے عکس بھی دھندلانے لگے ہیں۔ ماضی کرے دریچوں سے جو تیری نصویر ابھرتی تھی وہ دھندلی ہو چلی ہے۔ تیری یادوں جو سرمایہ �¿ زندگی تھیںوہ خواب ہو چکی ہیں۔ البتہ جب کبھی ہم ماضی میں جھانکتے ہیں تو تیری یادوں کے ویرانوں میں تیری ہی آواز گونجتی محسوس ہوتی ہے۔ اس طرح تجھ سے تعلق اب بھی باقی ہے
    شعر نمبر ۶
    شہر کی بے چراغ گلیوں میں
    زندگی تُجھ کو ڈھونڈتی ہے ابھی
    تشریح
    شاعر کہتا ہے کہ محبوب کی غیر موجودگی سے دنیا کی تمام رونق ختم ہو جاتی ہے۔ ہر طرف اداسی مسلط ہو جاتی ہے۔ ہر شے ویران دکھائی دیتی ہے۔ کیونکہ دل اداس و غمگین ہوتا ہے۔ لیکن یہاں تو حالات اس کے بر عکس ہیں۔ انقلاباتِ زمانہ کے سبب رونقیں ختم ہو چکی ہیں۔ دنیا کے تمام ہنگامے اور دلچسپیاں بے معنی ہو کر رہ گئی ہیں۔ ہر طرف اداسی ہے، ویرانہ ہے، ایسے میں تیری یادیں اور تڑپا رہی ہیں اور میں بے ساختہ شہر کی ویران گلیوں میں تجھے تلاش کرتا پھر رہا ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ ایک زمانے کے سبب میں مبتلائے غم ہوں اور دوسرے محبوب کی تاد مجھے تڑپا رہی ہے
    شعر نمبر ۷
    سو گئے لوگ اس حویلی کے
    ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی
    تشریح
    عشق ہر دل پر اثر کرتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ کوئی اس کا اظہار کر دیتا ہے اور کوئی خاموش رہتا ہے۔ ہم جسے محبوب کہتے ہیں سنگدل اور بے وفاگردانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اسے ہم سے محبت نہیں۔ یہ بات بنیادی طور پر غلط ہے۔ ہمیں اپنے محبوب سے جتنی محبت ہے، انتا ہی ہمارے محبوب کو ہم سے ہے۔ ہم اگر محبوب کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے گلی گلی آوارہ پھرتے ہیں تو وہ سنگدل بھی ہمارے انتظار میں رات بھر اپنے گھر کی کھڑکی کھلی رکھتا ہے۔ اسے یقین ہے کہ ہم رات کے سناٹی اور تاریکی میں اس طرف ضرور آئیں گے۔ اس شعر میں ایک بات یہ بھی ہے کہ محبوب یہ کام اس وقت کرتا ہے جب تمام لوگ سو چکے ہوں۔ کیونکہ اسے ڈر ہے کہ گھر کے مکین اس کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے۔ اس لئے کہ ان کا تعلق اعلیٰ طبقے سے ہے۔ شاعر نے ”حویلی“ کے الفاظ سے اس کی وضاحت کر دی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم اگر محبوب کے فراق میں آوارہ پھرتے ہیں تو وہ بھی ہمارے انتظار میں رات کی تاریکی میں آنکھیں بچھائے رہتا ہے کہ زمانہ طبقاتی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے
    شعر نمبر ۸
    وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
    غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
    تشریح
    زندگی امید و بیم کا دوسرا نام ہے۔ کبھی تو آدمی زمانے کے حالات سے مایوس ہو کر انجانے خوف میں مبتلا ہو جاتا ہے اور کبھی زمانے کو دکھوں اور تلخیوں سے جھانکتی ہوئی امید کی کرنیں نظر آتی ہیں جن کے سہارے آدمی آگے بڑھنے لگتا ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ وقت سدا ایک سا نہیں رہتا۔ شاعر اس شعر میں کہتا ہے کہ مانا زندگی دکھوں سے بھری ہوئی ہے، زمانے کی تلخیوںنے ہمیں ایک عجیب سی گھٹن اور حبس میں مبتلا کر رکھا ہے۔ مگر مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ زمانہ تغیر پذیر ہے۔ حالات بدلتے ہیں، ہر رات کے بعد دن ہے، ہر خزاں کے بعد بہار ہے۔ اس لئے یقین رکھو کہ حالات ضرور بہتر ہوں گے۔ یہ رات یہ گھنگھور اندھیرا ضرور اجالے میں تبدیل ہو جائے

احمد شاہ پطرس بخاری
ایک تعارف
سیّد احمد شاہ بخاری خالص مزاح کے علم بردار قلمکار ہیں۔آپ نے اس مشکل ترین صنفِ ادب میں خامہ فرسائی کی اور قارئین سے زبردست دادِ تحسین وصول کی۔ آپ نے اپنے مضامین میں مزاح نگاری کونہایت خوبصورت انداز میں استعمال کیا ۔آپ کی ذہانت کی عکاس آپ کی وہ تحریریں ہیں جن میں واقفیت، حسنِ تعمیر، علمی ظرافت، زیرِ لب تبسم، شوخی، طنز اور مزاح کا بھرپور عکس نظر آتا ہے۔ پطرس کے زورِ قلم کا کُل اثاثہ ۵۵۱ صفحات کا کتابچہ المعروف بہ مضامینِ پطرس ہے۔ ان چند مضامین نے اردو ادب کی صنفِ مزاح میں ایک انقلاب برپا کر دیا اور پطرس اس حلقے میں سب سے ممتاز ہو گئے۔ اُن کے قلم کی تخلیق دائمی شہرت اور عظمت کا سبب بنی اور انہوں نے اپنے ہم عصر مزاح نگاروں کے درمیان ایک نمایاں مقام حاصل کر لیا۔
بقول آل احمد سرور:
پطرس نے بہت تھوڑے مضامین لکھے، مگر پھر بھی ہماری چوٹی کے مزاح نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ اتنا تھوڑا سرمایہ لے کر بقائے دوام کے دربار میں بہت کم لوگ داخل ہوئے ہیں۔
طرزِ تحریر کی خصوصیات
پطرس کے طرزِ تحریر کی خصوصیات درج ذیل ہیں۔
(۱) اسلوب کی شگفتگی
پطرس بخاری زبان و بیان کی سادگی سے کام لیتے ہوئے الفاظوں سے اس طرح کھیلتے ہیں کہ ان کو دل سے داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ سادگی، صفائی، روانی ، محاورات کے برجستہ استعمال اور شگفتگی کی بدولت اُن کے مضامین میں ایک کشش ہے۔ آپ کی تحریروں کے مطالعے کے بعد ایسا لگتا ہے گویا اپنے کسی دوست سے نہایت بے تکلفانہ انداز میں ہمکلام ہیں۔
وہ اپنی کتاب مضامینِ پطرس کے دیباچہ میں رقم طراز ہیں:
اگر یہ کتاب آپ کو کسی نے مفت میں بھیجی ہے تو مجھ پر احسان کیا ہے۔ اگر آپ نے کہیں سے چُرائی ہے تو میں آپ کے ذوق کی داد دیتا ہوں۔ اپنے پیسوں سے خریدی ہے تو مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔ اب بہتر یہ ہے کہ اس کو اچھا سمجھ کر اپنی حماقت کو حق بجانب ثابت کریں۔
(۲) ظرافت کی خصلت
پطرس کے مضامین میں جو مزاح نظر آتا ہے وہ خالصتاً مزاح ہے۔ اس میں بدتمیزی، طنز، تمسخر اور عامیانہ پن جیسی اصناف سے زبردستی ہنسانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ آپ کی نگارش میں مزاح وشوخی کی آفاقی خصلت ہے جو ہر موڑ پر نظر آتی ہے۔ آپ نے شرارت کے سلیقے کو برقرار رکھتے ہوئے ظرافت کے میدان کو وسیع و غیرمحدود کر دیا ہے۔
مثال کے طور پر وہ ہاسٹل میں پڑھنا میں لکھتے ہیں:
اب قاعدے کی رو سے ہمیں بی۔اے کا سرٹیفکیٹ مل جانا چاہیے تھا۔ لیکن یونیورسٹی کی اس طِفلانہ ضد کا کیا علاج کہ تینوں مضمونوں میں بیک وقت پاس ہونا ضروری ہے۔
(۳) واقعہ نگاری
واقعہ نگاری پطرس کے نگارش کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ وہ لفظوں کے انتخاب اور فقروں کی ترتیب کا حسن استعمال کرتے ہوئے مضحکہ خیز واقعات کی تصویرکشی ایسی مہارت اور خوبصورتی سے کرتے ہیں کہ چشم تصور اُن کو ہو بہو اپنے سامنے محسوس کرتی ہے۔
مثال کے طورپر ”مرحوم کی یاد میں“ کے اس اقتباس میں وہحُسنِ انتخاب سے ایک مزاح آمیز ماحول پیدا کرتے ہیں:
تمام بوجھ دونوں ہاتھوں پر تھا جو ہینڈل پر رکھے تھے اور برابر جھٹکے کھا رہے تھے۔ اب میری حالت تصور میں لائیں تو معلوم ہوگا جیسے کوئی عورت آٹاگوندھ رہی ہے۔
(۴) عکاسِِ زندگانی
مصنف نے معاشرے اور روزمرّہ زندگی کا بھرپورتجزیہ کیا ہے اور اِس جائزے سے انسانی زندگی کے نازک ، لطیف اور نرم و ملائم پہلوﺅں پر قلم اُٹھایا ہے۔ آپ کی تحریروں میں پیش کئے گئے کرداروںاور واقعات کا تعلق کسی خاص معاشرے سے نہیں ، بلکہ آپ نے تمام تہذیبوں میں پائی جانے والی یکساں صفات کی عکاسی کی ہے۔ اسی لئے پطرس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ:
پطرس نے اپنی ظرافت کا مواد زندوں سے لیا ہے۔
ہاسٹل میں پڑھنا دنیا کے تمام طالب علموں کی عمومیت اور ہمہ گیری کی بہترین ترجمانی کرتا ہے۔

(۷) کردار نگاری
پطرس کے طرزِ تحریر میں ایک اور خوبی پائی جاتی ہے کہ وہ کرداروں کے ذریعے ایک لطف اندوز ماحول پیدا کرتے ہیں۔ انسانی فکروشعورکے تمام پہلوﺅں پر مکمل عبور رکھتے ہوئے آپ اس طرح اپنے مضمون کو جملہ بہ جملہ تخلیق کرتے ہیں کہ مطالعہ کرنے والاشخص ایک مزاح آمیز ماحول میں گم ہو جاتا ہے اور بے اختیار مسکرا دیتا ہے۔
مرید پور کا پیر میں پیر کا کردار، ہاسٹل میں پڑھنا میں طالب علم کا کردار ، یہاں تک کہ کتّے میں کتوں کا کردار اس کی بہترین مثالیں ہیں۔
(۸) اِختصاروجامعیت
پطرس کے مختلف مضامین ایک کامل اور ماہر ادیب کے فنون کی عکاسی کرتے ہیں۔ آپ اپنی بات کہنے پرمکمل عبور رکھتے ہیں او ر بڑے سے بڑے موضوع کو نہایت مختصر ،جامع ور دل نشین انداز میں رقم کر دیتے ہیں۔ آپ کا حسنِ انتخاب ہی وہ وجہ ہے جس کی بدولت آپ کا سرمایہ ادب لافانی بن گیا۔مثال کے طور پر ”ہاسٹل میں پڑھنا“ میں انہوںنے ایک جملے سے کیا بات کہہ ڈالی:
ہم پہ تو جو ظلم ہوا سو ہوا، یونیورسٹی والوں کی حماقت ملاحظہ فرمائیے، کہ ہمیں پاس کر کے اپنی آمدنی کا ایک مستقل ذریعہ ہاتھ سے گنوا بیٹھے۔


چند لمحے سجاد حیدر کے ساتھ
حوالہ
پیشِ نظر اقتباس چند لمحے سجاد حیدر کے ساتھ سے لیا گیا ہے جو مولانا صلاح الدین احمد کی کتاب صریر خامہ سے ماخوذ ہے۔
تعارفِ مصنف
مولانا صلاح الدین احمد اردو ادب کے وہ اہلِ قلم ہیں جنہوں نے اپنی متاعِ حیات اردو زبان کی خاطر تج کردی۔ تنقید نگاری کو منظم کرنے کے ساتھ ساتھ آپ نے دیگر شعبوں میںبھی خامہ فرسائی کی اور اردو کو دنیا کی امتیازی زبانوں میں لاکھڑا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ دنیا آپ کوخادمِ اردو کے نام سے جانتی ہے۔ آپ کے بارے میں کہا گیا:
مولانا صلاح الدین کا اسلوب نگارش بہت دل آویز تھا۔ یوں سمجھئے کہ مولانا محمد حسین آزاد کے اسلوب سے ملتا جلتا تھا۔ لیکن اس میں قدامت کی جھلک نظر نہیں آتی۔ (ڈاکٹر عبدالسلام خورشید)
تعارفِ سبق
مصنف نے اس سبق میں مشہور افسانہ نگارسجاد حیدر یلدرم کی ادبی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے بیسویں صدی میں ادبی کشمکش کا جائزہ لیا ہے۔ سرسید تحریک کا ادب برائے زندگی اور اہلِ لکھنو کا ادب برائے ادب اس سبق کا مضمون ہے۔ مصنف کے بقول سجاد حیدر ان شخصیات میں شامل ہیں جنہوں نے اردو نثرنگاری کی تخیلاتی روایات کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔
اقتباس ۱
اس میں کوئی کلام نہیں کہسرشار، شرر اور سجاد حسین نے اس بجھتی ہوئی شمع کو اُکسانے کی کوشش کی۔ جس سے کبھی شام اودھ کے سہانے دھندلکے روشن تھے لیکن تجدد کے اُبھرتے ہوئے آفتاب کے سامنے اس کی لو کچھ اس طرح سے شرما کر رہ گئی کہ بھر ایک عرصہ دراز تک ہمارے ایوانِ ادب کے درودیوار پر اس کا رقص نظر افروز نہ ہوا۔
تشریح
پیشِ نظر اقتباس میں مصنف اس عہد کا ذکر کررہا ہے جب اردو ادب و سخن پر ایک کٹھن دور گزررہا تھا اور ادب برائے ادب ختم ہوتا نظر آرہا تھا اہلِ لکھنﺅ اس کی بقاءکے لئے کوشاں تھے اور ایسے موقع پر اردو ادب کی خدمت کرنے والے اور اس کی زندگی کے خواہاں تین افراد تھے جن کاذکر مصنف نے کیا ہے۔ ان افراد میں پنڈت رتن ناتھ سرشار، عبدالحلیم شرر اور منشی سجاد حسین شامل ہیں۔ ان لوگوں نے آخری دم تک ادب برائے ادب تحریک جاری رکھی۔ ان کی خواہش تھی کہ اردو شعرو نثر میں اب بھی فلسفیانہ خیالات پرورش پائیں اور اردو کی روایات کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ یہ وہ دور تھا جب سرسید نے اپنی تحریک شروع کردی تھے اور ادب برائے زندگی اپنے عروج کو تھا۔ ایسے پرزور اور پرجوش تحریک میں سرسید کے ہم عصربھی ان کے ہم خیال تھے جس کی بدولت اردو ادب میں ہر قسم کے لوگوں نے قلمکاری کی اور مقصدیت پر اپنا پورا زور صرف کردیا۔ یہ تحریک اس قدر پر اثر تھی کہ اس کے سامنے سرشار، شرر اور سجادحسین کی کاوشیں نقارخانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوئی اور مقصدیت اور جوش کا دور اردو ادب پر چھا گیا۔ اس طرح اردو روایات کو جو نقصان پہنچا اس کی تلافی آج تک ممکن نہ ہوئی اور دوبارہ وہی روایات جنم نہ لے سکیں۔

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینے ہو، اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
مدد کرنی ہو اس کی، یار کی ڈھارس بندھانا ہو
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
کسی کو یاد رکھنا ہو، کسی کو بھول جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے يہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
شاعر: منیر نیازی


سوانح ۔۔۔۔۔۔
ولادت : 19 اپریل 1927ء ہوشیار پور مشرقی پنچاب
وفات : 26 دسمبر 2006ء لاہور
ابتدائی دور

اردو اور پنجابی کے مشہور شاعر اور ادیب ۔ ضلع ہوشیار پور (مشرقی پنجاب) کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بی اے تک تعلیم پائی اور جنگ عظیم کے دوران میں ہندوستانی بحریہ میں بھرتی ہوگئے لیکن جلد ہی ملازمت چھوڑ کر گھر واپس آگئے۔ برصغیر کی آزادی کے بعد لاہور آگئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لفظیات
۔ منیر نیازی  اُن کی آواز اپنے ہم عصروں میں سب سے الگ سب سےجدا اور سب سے منفرد ہے جسے سینکڑوں صداﺅں کے درمیان بھی پہچاناجا سکتا ہے، کیونکہ اُن کی لفظیات سب سے جد ا ہیں

منیر نیازی نے جنگل سے وابستہ علامات کو اپنی شاعری میں خوبصورتی سے استعمال کیا۔ انہوں نے جدید انسان کے روحانی خوف اور نفسی کرب کے اظہار کے لیے چڑیل اورچیل ایسی علامات استعمال کیں
تصانیف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بیک وقت شاعر، ادیب اور صحافی تھے۔ وہ اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں شاعری کرتے تھے۔ اردو میں ان کے نصف درجن شعری مجموعے شائع ہوئے۔ جن میں تیز ہوااور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان شام، سفید دن کی ہوا، سیاہ شب کا سمندر، ماہ منیر، چھ رنگین دروازے، آغاز زمستاں اور ساعت سیارشامل ہیں۔ اس کے علاوہ کلیات منیر کی بھی اشاعت ہوئی جس میں ان کا مکمل کلام شامل ہے۔ پنجابی میں بھی ان کے تین شعری مجموعے شائع ہوئے شخصیت اور شاعری ۔
منیر نیازی سرتاپا شاعر تھے۔ وہ صاحبِ اسلوب تھے، ہزاروں شاعروں کی بھیڑ میں اُن کا کلام پہچانا جا سکتا ہے ۔

دراصل ان کی شاعری اور شخصیت میں کوئی فرق نہیں تھا کیونکہ ان کی شاعری جمالیاتی اظہار سے عبارت تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ قدرت نے
ان کو صرف شاعری کے لئے پیدا کیا تھا۔ اسی لئے وہ بے تکان لکھتے رہے اور آخر وقت تک انہوں نے شاعری کی۔

احتجاجی شاعر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


منیر نیازی بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ لیکن اُن کے یہاں احتجاج کی آواز بہت بلند ہے۔
ان کا سیاسی اور سماجی شعور انہیں احتجاجی شاعری کرنے کے لئے اکساتا تھا کیونکہ منیر نے خود کو کبھی بھی حکومتِ وقت کے ساتھ وابستہ نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ حزب مخالف کا رول اد اکرتے رہے۔ اِسی لئے غزل میں بھی ان کا لب و لہجہ بلند آہنگ ہو جاتا ہے ۔
 
شاعری میں احتجاج کی آواز جب بھی بلند ہو گی منیر نیازی کا نام ضرور یاد آئے گا۔

اس شہر سنگ دل کو جلا دینا چاہئے 
پھر اس کی خاک کو بھی اڑا دینا چاہئے 
ملتی نہیں پناہ ہمیں جس زمین پر 
اک حشر اس زمیں پہ اٹھا دینا چاہئے

منیر کے لب ولہجے میں کڑواہٹ ضرور ہے لیکن وہ سب کچھ شعری پیرائے میں بیان کردیتے ہیں اور کچھ بھی نہیں چھپاتے۔ شاید انہیں چھپانا آتا بھی نہیں۔