Friday, 12 December 2014


۵۔ سیّد محمد جعفری
 کا زمانہ سیاسی مد و جزر، معاشی کساد بازاری اور امن و امان کی ناگفتہ بہ صورتحال کے ساتھ ہندو مسلم فسادات کی اندوہ ناک داستانوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے تھا۔ لا الہ الا اللہ، یو۔ این۔ او، کنونشن مسلم لیگ، الیکشن کا ساقی نامہ، وزیروں کی نماز، کلرک، پرانا کوٹ، ابلیس کی فریاد وغیرہ ان کی اہم نظمیں ہیں۔

قیام پاکستان کے حصول کی سیاسی جدوجہد کے عہد میں سیّد محمد جعفری کی عمر ۴۲ سال تھی اور مسلمانوں کے دلوں میں بسنے والی تمنّاؤں کو انھوں نے بہت قریب سے دیکھا اور محسوس کیا، کیوں کہ یہی آرزوئیں ان کے سینے میں بھی بار آور تھیں۔ ان خوابوں کا خون ہوتے دیکھ کر سیّد محمد جعفری نے طنز و مزاح کا رُخ کیا۔ کئی دیگر موضوعات کے ساتھ وطن کی مٹی کی خوشبو ان کے کلام میں جگہ جگہ محسوس ہوتی ہے۔ مسلم لیگ جس کو سیاستدانوں اور فوجی آمروں نے ہمیشہ یرغمال بنائے رکھا، جب یرغمالی کا ایک نیا رُوپ اختیار کرتی ہے تو جعفری ’’کنونشن مسلم لیگ‘‘ کے عنوان سے پھٹ پڑتے ہیں :

آج کل ہیں حضرتِ ابلیس مسلم لیگ میں

دے رہے ہیں مشورے بے فیس مسلم لیگ میں

ہے علی بابا، الگ چالیس مسلم لیگ میں

توسنِ چالاک کے سائیس مسلم لیگ میں

لیگ کے گھوڑے کو پشتک اور دولتی سے ہے کام

بعد مرگ قائد اعظمؒ ہوا ہے بد کلام

اپنی اپنی ڈفلیاں ہیں اپنے اپنے راگ ہیں

چند ان میں نیولے ہیں ، چند ان میں ناگ ہیں

چند اک ایلسیشن، چند اک بل ڈاگ ہیں

جو مویشی لڑ رہے ہیں ان کے منہ میں جھاگ ہیں

ایسٹ پاکستان ہے اور ویسٹ پاکستان ہے

قوم زندہ ہے مگر اس کے لبوں پر جان ہے

سیّد محمد جعفری نے طنز و مزاح کو پھکڑ پن سے صاف کر کے ایک منفرد تخلیقی لہجہ عطا کیا اور جدید دور کی طنزیہ شاعری کے صفِ اوّل کے معماروں میں شمار ہوئے۔ ان کی طنزیہ شاعری کے نشتروں پر انور مسعود کا تبصرہ ملاحظہ ہو:

’’۔ ۔ ۔ سیّد محمد جعفری اپنے وطن کے سیاستدانوں کی نیتوں سے بخوبی واقف تھے، پاکستانی معاشرے میں پھیلی ہوئی ہوس کیشی، چور بازاری، دفتری کار گزاری اور ریا کاری کو بھی وہ خوب جانتے تھے۔ الیکشن کے ڈراموں کے بھی بڑے باریک بیں ناظر تھے۔ عالمی سیاست کے افق پر مغربی ممالک کی فتنہ پردازیوں کا بھی بھرپور ادراک رکھتے تھے اور ایشیائی ممالک میں برطانیہ اور امریکہ کی شر انگیزیوں اور ریشہ دوانیوں سے پوری طرح آگاہ تھے۔ اس آزارِ آگہی کو انھوں نے طنز و مزاح کا روپ دے کر اس طرح اپنا موضوع بنایا کہ ہمیں اپنے سامنے لا کھڑا کیا اور عالمی استعمار گروں کو بھی آئینہ دکھایا۔ ۔ ۔ ‘‘ [۱۹]

سیّد محمد جعفری تضمین کے ماہر تھے اس ضمن میں انھوں نے غالب و اقبال سے بھرپور استفادہ کیا۔ جعفری بنیادی طور پر طناز تھے اس لیے ان کے کلام میں اکثر مقامات پر مزاح کے ساتھ طنز کی نشتریت نمایاں ہے۔ ذیل کی نظموں میں اس کے نمونے دیکھیے:

لا الہ الا اللہ

زباں سے کہتا ہوں ہاں لا ا لہ الا اللہ

نہیں عمل سے عیاں لا الہ الا اللہ

الاٹ منٹ ہیں یاروں کی آستینوں میں

’’نہ ہے زمیں نہ مکاں لا الہ الا اللہ‘‘

مدیر و پیر و وزیر و سفیر و شیخ و کبیر

’’بتانِ وہم و گماں لا الہ الا اللہ‘‘

نمازی آئیں نہ آئیں اذان تو دے دوں

’’مجھے ہے حکمِ اذاں لا الہ الا اللہ‘‘

جو مولوی ہیں وہ کھاتے ہیں رات دن حلوے

’’بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا اللہ‘‘

وزیروں کی نماز

عید الاضحی کی نماز اور وہ انبوہ کثیر

جبکہ اللہ کے دربار میں تھے پاک وزیر

وہ مصلوں پہ مسلط تھے بہ حسن تقدیر

تھے ریزرو ان کے مصلّے، یہ مساوات کبیر

آج کل یہ ہے نماز اور کبھی وہ تھی نماز

’’ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمودو ایاز‘‘

پہلی صف میں وہ کھڑے تھے کہ جو تھے بندہ نواز

جیسے ایک رِند خرابات ہو ملّاؤں میں

آ کے بیٹھے بھی نہ تھے وہ کہ نکالے گئے

جیب کتری گئی ان کی یہ صلہ لے بھی گئے

پندت رتن ناتھ سر شار کی ناول نگاری ۔
مولانا عبدالحلیم شرر پنڈت رتن ناتھ سرشار کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ:
” آپ نے ”فسانہ آزا د کیا لکھا زبان اردو کے حق میں مسیحائی کی ہے۔“
بیگم صالحہ عابد حسین ”فسانہ آزاد کے متعلق لکھتی ہیں،
”اردو زبان سمجھنے کے ليے ”فسانہ آزاد“ پڑھنا چاہیے۔“

فسانہ آزاد اودھ اخبار میں مسلسل ایک سال تک شائع ہوتا رہا۔ اور کافی مقبول ہوا ۔ قارئین اخبار ہر قسط کے ليے بے تاب رہتے ۔ اور شوق سے اسے پڑھتے ۔ اردو ادب میں دراصل یہ پہلا موقع تھا کہ کسی اخبار میں باقاعدہ طور پر ناول کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ لیکن آج تک یہ بات متنازعہ ہے کہ فسانہ آزاد کو کس صنف نثر میں شمار کیا جائے۔ اسے ناول کہا جائے یا داستان ۔
اسلوب

پریم پا ل اشک نے سرشار کے اسلوب کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے ایک تقلیدی انداز اور دوسرا تخلیقی ۔ تقلیدی انداز میں صریحاً رجب علی بیگ کے اسلوب اور زبان کی جھلک نظرآتی ہے۔ اور سرور کی سی مسجع اور مقفٰی عبارت ملتی ہے۔ مگر سرشار ایسا اسلوب صرف منظر نگاری کے وقت اختیار کرتے ہیں۔ اس کے علاو ہ انھوں نے ناول میں اپنا انفرادی اسلوب برتا ہے جو کہ اُن کا اپنا تخلیقی رنگ ہے۔

بیگماتی زبان:۔
پنڈت رتن ناتھ سرشار نے فسانہ آزاد میں خاکروب سے لے کر نواب تک اور کنجڑوں سے لے کر بیگم تک ہر طبقے کی زبان استعمال کی ہے۔ اور یہ لطف یہ کہ ہر طبقہ اور پیشے کے مطابق بو ل چال کا انداز برتا ہے۔محققین کی تحقیق کے مطابق سرشار نے بیگماتی زبان بچپن سے اپنے پڑوس میں رہنے والی مسلمان مستورات سے سیکھی تھی ۔ ۔ ”اے میں کہی ہوں آخر یہ ماجراکیا ہے؟ منہ دیکھنے کو نگوڑا جی ترس گیا ۔ دن رات کڑھا کرتی ہوں ۔ اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر میر ے جی کا حال اللہ ہی جانتا ہے یا میں جانتی ہوں۔ آپ کا تو یہ حال ہے کہ چوبیسویں دن صورت دکھائی تو جیسے آگ لینے آئے تھے۔“

محاورے:۔[ترمیم]
سرشار نے ”فسانہ آزاد “ میں پورب کے ٹھیٹھ محاورے استعمال کئے ہیں یا د رہے کہ محاورے ہمیشہ عوام اور خصوصاًعورتیں گھڑا کرتی ہیں۔ کتب میں محاورے کبھی نہیں ملتے ۔ اس ليے اس کا استعما ل بالکل صحیح مانا جا سکتا ہے۔

رنگینی و توانائی:۔
سرشار کے ہاں ثقیل الفاظ اور فارسی اشعار کی بھر مار ہے۔ اور وہ مشکل نثر لکھتے ہیں جس کی وجہ سے طرز تحریر میں ثقالت حد سے زیادہ ہے۔ لیکن اس کے باوجودآپ ایسے انداز بیان کی وقعت اور فراوانی کا اندازہ لگا سکتے ہیں اور اسی سے سرشار کے اسلوب میں رنگینی اور ندرت اور توانائی پیدا ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر

مزاح:۔[ترمیم]
رتن ناتھ سرشار نے اپنے ناول میں اکثر کرداروں کو مضحک خاکوں کے طور پر پیش کیا ہے۔ انہوں نے دراصل لکھنو معاشرے کی برائےوں کو نشانہ تضحیک بنایا ہے۔ ویسے تو ناول کے اکثر کرداروں کی گفتگو اور حرکات و سکنات سے مزاح پیدا کیا گیا ہے۔ اورفسانہ آزاد کے تقریباً سارے کرداروں سے کوئی نہ کوئی مزاحیہ بات کرئی گئی ہے۔ لیکن مزاح پیدا کرنے کے ليے بطور خوجی کا کردار وضع کیا گیا ہے۔ اور وہ ایک مزاحیہ اسلوب اختیار کرتے ہیں۔
آزاد نے کہیں کہیں مزاح پیدا کرنے کے ليے تشبیہات سے بھی کام لیا ہے۔
مکالمہ نگاری:۔
ناول نگا ر اپنا نقطہ نگاہ مکالموں کی مدد سے پیش کرتا ہے۔ معیاری مکالمے کی خوبی یہ ہے کہ وہ مختصر ہو ، کردار کی شخصیت اس کے مزاج اس کی علمی اور سماجی حیثیت کے مطابق ہو۔ اور شگفتگی کا عنصر پایا جائے ۔ ان خصوصیات کے حوالے سے جب ہم فسانہ آزاد کی مکالمہ نگار ی کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں سرشار کی مہارت اور قدرت کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ سرشار کے اسلوب کی سب سےبڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہر طبقے اور ہر ماحول کی گفتگو ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں جس طرح وہ ادا کی گئی ہو۔ یعنی کردار معاشرے کے جس طبقے سے تعلق رکھتا ہو وہ اسی زبان اور لہجے میں بات کرتا ہے۔

لکھنوی معاشرت:

” سرشار نے اپنے تمام افسانے میں لکھنو کی معاشرت ۔۔۔۔کا حال دکھایا ہے۔ سرشار کی مصوری ایسی ہے جیسے متکلم سینما کے پردہ پر چلتی ، پھرتی ، بولتی چالتی تصویریں۔۔۔۔سرشار چھوٹی چھوٹی باتوں کی تفصیل لکھتے ہیں۔“سیاسی ، معاشی ، تہذیبی پس منظر کو سامنے رکھ کر جب ہم لکھنوی معاشرت پر نگاہ ڈالتے ہیں تو اس کی تین جہتیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔

١۔ تعیش پسندی۔٢۔ مذہبی متعقدات کا ایک خاص رنگ۔٣۔ علمی و ادبی مذاق

فسانہ آزاد کا موضوع
لکھنو کی تہذیب و معاشرت سرشار کے فسانہ آزاد کا موضوع ہے۔ اس تہذیب اور معاشرت نے جن افراد کو جنم دیا ۔ انہیں مردانہ وار زندگی گزارنے کا حوصلہ نہیں۔ ہر ایک کردار کے فکر و عمل سے سطحیت ، عیش پرستی اور تماش بینی جھلکتی ہے۔ فسانہ آزاد کے ہیرو کو لیجئے جو اس معاشرت کا نمائندہ ہے۔مگر نہایت ہی گھٹیا قسم کا معمولی آوارہ نوجوان ہے۔ جس کی زندگی کا نہ کوئی معیار ہے اور نہ کوئی مقصد ۔ سرشار نے اپنے اس ہیرو کو یگانہ روزگار بنانے کی کوشش کی ہے مگر یہ اسی طرح کا بے ڈھنگا ، اوچھا اور لفنگا ہی رہا ۔ یہی وہ لکھنو کی تہذیب تھی کہ بے عمل اور بے کار لوگ جن کی حقیقی دنیا میں کوئی قدر و قیمت نہیں بزعم خود نادرہ روزگار ہستیاں بنے پھرتے ہیں

حقیقت نگاری:۔
سرشار نے فسانہ آزاد میں لکھنو کی معاشرت کو اس کے صحیح خدوخال میں پیش کیا ہے۔ اس میں کوئی چیز مصنوعی نہیں۔ حقیقت میں مبالغے کی رنگ آمیزی ضرور ہے لیکن تصنع یا بناوٹ کہیں نہیں۔ سرشار کا افسانہ جس ماحول کی عکاسی کرتا ہے۔ چونکہ وہ مصنوعی قسم کا ہے اور ریا کاری کامظہر ہے ، اس ليے بعض لوگوں کو شاید یہ شک گزرا کہ یہ مصنف کا پیدا کردہ مصنوعی پن ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔

کردار نگاری
سرشار کی کردار نگاری پر کئی اعتراضات ہوئے مثال کے طور پر انہوں نے کرداروں کی کردار کشی کی ہے۔ اور کسی کو بھی سنجیدہ اور متین نہیں دکھایا ۔ اور انہوں نے زیادہ تر مبالغہ سے کام لیا ہے۔ بعض لوگوں نے تو اُن کے کرداروں کو کارٹون کہا ہے۔
لیکن اس کے برعکس اکثر ناقدین نے سرشار کی کردار نگاری کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے تمام کرداروں کی تخلیق و تشکیل نہایت چابکدستی سے کی ہے۔ اور اس ناول فسانہ آزاد اپنے قصے کی وجہ سے نہیں بلکہ کردار نگاری کی وجہ سے اردو ناول نگاری میں ایک خاص مقام کا حامل ہے

میاں خوجی کا جھانسا دینا 'رتن ناتھ سرشار کے ناول افسانہ آزاد سے اقتباس ہے
یہ سرشار کا سب سے اہم مشہور اور شاہکار ناول ہے۔ اس کی تصویر لکھنؤ کے سماجی پس منظر میں ابھرتی ہیں۔ وہ ان تصویروں میں رنگ بھرنے کے لئے لکھنؤ کی سماجی زندگی کی رنگینیوں سے کام لیتے ہیں۔ لکھنؤ سے شدید وابستگی ہی فسانۂ آزاد کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ سماجی زندگی کے ہمہ گیر پہلوؤں سے اتنا گہرا ربط و ضبط اور رشتہ و تعلق اردو کے کسی اور ناول میں کم ملتا ہے اور یہی خصوصیت اس کو اردو ناولوں کے بجائے ’’جدید داستان‘‘ کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔
’فسانۂ آزاد اگرچہ ایک رومانی داستان ہے اور ایک نہیں بیسوں حسن و عشق کی کہانیاں اس میں موجود ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ ایک مقصدی ناول ہے۔ مصنف کا مقصد اس ناول کو لکھنے سے یہ تھا کہ اپنے زمانے کی معاشرت اور تہذیب کی خامیاں اجاگر کر دے اور لوگوں کو نئے زمانے کے تقاضوں سے آگاہ اور نئی چیزوں سے روشناس کرائے۔ اس لیے اسے ایک اصلاحی معاشرتی ناول کہنا بے جا نہ ہو گا۔
اعتراضات کی بھر مار کے باوجود سرشار کی فسانہ آزاد کی اہمیت کو کوئی کم نہیں کر سکا ۔ یہی کتاب دراصل اپنے اصل معنوں میں ناول کے ليے سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ سرشار نے مکمل طور پر اپنے معاشرے کی بھر پور عکاسی کی ہے۔ اور اردو ادب کو ایک عظیم اور خوبصورت کردار خوجی سے بھی نوازا ہے۔ اسلوب اور زبان بیان کے حوالے سے بھی انھوں نے اپنی انفرادیت کو برقرار رکھا ہے بقول شوکت سبزواری: ” سرشار زندگی کے مصور نہیں نقاد ہیں، ان کی مصوری تخلیق حیات نہیں ، تنقید حیات ہے۔
پلاٹ
۔۔۔۔۔۔۔
قصہ یوں ہے کہ ایک جوان رعنا آزاد ایک پڑھی لکھی اور اونچے خاندان کی خاتون حسن آرا کی جھلک دیکھتے ہی اس پر ہزار جان سے فریفتہ ہو جاتے ہیں۔ حسن آرا بیگم شادی کے لیے یہ شرط لگاتی ہیں کہ وہ جنگ روم وروس میں شریک ہوں۔ آزاد یہ شرط بوجہ احسن پوری کرتے ہیں۔ اور حسن آرا اپنا وعدہ پورا کرتی ہیں۔ بقول علی عباس حسینی۔ ؂
اتنی سی بات تھی جسے افسانہ کر دیا

پنڈت رتن ناتھ سرشار 1846ء میں لکھنو میں ایک کشمیری گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابھی چار سال کے تھے کہ باپ کا انتقال ہوگیا۔ لکھنو ہی میں تعلیم حاصل کی اور عربی، فارسی اور انگریزی سے واقفیت حاصل کی۔ ایک سکول میں مدرسی کی خدمات پر مامور ہوئے اور (اودھ اخبار) اور (مرسلہ کشمیری) میں مضامین لکھنے لگے۔ اپنی خداداد قابلیت کی وجہ سے جلد ہی شہرت حاصل کرلی۔ اور 1878ء میں انہیں (اودھ اخبار) کا ایڈیٹر مقرر کر دیا گیا۔ فسانہ آزاد لکھنے کا سلسلہ یہیں سے شروع ہو۔ کچھ عرصہ تک الہ آباد ہائی کورٹ میں مترجم کی حیثیت سے کام کیا۔ 1895ء میں حیدر آباد چلے آئے۔ مہاراجہ کشن پرساد نے دو سو روپے وظیفہ مقرر کیا اسی دوران اخبار (دبدبہ آصفیہ) کی ادارت کرتے رہے ۔ آخر عمر میں شغل شراب نوشی حد سے بڑھ گیا چنانچہ اس عادت نے صحت پر برا اثر ڈالا اور 1903ء میں وفات پاگئے۔ مشہور تصانیف یہ ہیں۔ سیر کوہسار، جام سرشار، کامنی، خدائی فوجدار، فسانہ آزاد۔
خوجی کا کردار

خوجی کا کردار[ترمیم]
خوجی کا پورا نام بدیع الزما ن ہے۔ فسانہ آزاد کے اگرچہ بعض دیگر کردار بھی مزاحیہ ہیں۔ لیکن ان سب سے خوجی کا کردار زیادہ مزاحیہ اور جاندار ہے۔ یہ کردار پورے ناو ل پر چھایا ہوا ہے۔ اور قارئین اسی کی بدولت ناول میں دلچسپی لیتے ہیں۔ یہ کردار ناول کے ہیرو کے کردار سے زیادہ متحرک اور دلچسپ ہے۔ بقول ناقدین، ” فسانہ آزاد کہانی تو آزاد کی ہے مگر اس کا ہیرو خوجی معلوم ہوتا ہے۔“

خوجی میاں آزاد کا ایک بے تکلف دوست ہے۔ وہ کوتاہ قد ، کوتاہ گردن ، منحنی سا، تنگ پیشانی والا دبلا پتلا شخص ہے۔ داڑھی اس کی بکرے کی طرح لمبی اور چہرہ صفاچٹ ہے۔ وہ سر پر ترکی ٹوپی پہنے رکھتا ہے۔ وہ ساٹھ برس کی عمر تک پہنچ چکا ہے ،لیکن اس کے باوجود خود کو جوانمرد سمجھتا ہے اور ابھی تک شادی کا خواستگار ہے۔

خود کو حسین و جمیل سمجھنے کی بناءپر وہ تصور کرتا ہے کہ دنیا کی ہر حسین و جمیل عورت اس پر فریفتہ ہو جاتی ہے۔ کبھی وہ مصر کی چھوکریوں کا ذکر کرتا ہے تو کبھی پولینڈ کی شہزادی کا جو اس کے تیئں اس پر عاشق ہو گئی تھی۔ دراصل وہ ہر حسینہ پر لٹو ہو جا تا ہے۔ اس نے کئی حسینائوں سے جوتیاں کھائی ہیں۔خصوصاً سرائے کی بھٹیارن اور بوا زعفران کے ہاتھوں اس کی کئی بار پٹائی ہوئی ہے۔ وہ خود کو طاقتور اور بہادر سمجھتا ہے اس ليے ذرا سی بات پر لڑائی جھگڑے پر اتر آتا ہے۔ اور اکثر مار کھاتا ہے۔ پٹنے سے اسے کوئی عارنہیں۔ اس پست قامت کو سرشار نے مجسم شامت دکھایا ہے۔

خوجی خود کو حسین و جمیل یہاں تک کہ یوسفِ ثانی تصور کرتا ہے۔ شرارت و خباثت اس کی گھٹی میں رچی ہوئی ہے۔ بات بات پر ڈینگیں مارنا اور لاف زنی کرنا اس کا کام ہے۔ وہ افیونی ہے اورافیون کو ”چینا بیگم “ کا نام دیتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ افیون ہر درد کا مداوا ہے اس کی بدولت فکر انسان کے قریب بھی نہیں پھٹکنے پاتی: ”خوجی کو اگر عشق ہے اور والہانہ عشق ہے تو صرف اپنی چینا بیگم سے۔ خواہ وہ لکھنو میں ہو یا بمبئی، ترکی یاجہاز میں اس کی چینا بیگم اس کے ساتھ رہے گی۔“

اندرونی طورپر وہ احساس کمتری کا شکار ہے۔ لیکن بظاہر احساسِ برتری جتاتا نظر آتا ہے۔ وہ بات با ت پر جھگڑا کرنے کا عادی ہے اور ہر جھگڑے کے وقت قرولی نکالنے کی دھمکی دیتاہے۔ خوجی کی ایک کمزوری یہ ہے کہ وہ پانی کے نام سے خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ ایک دفعہ آزاد اسے پانی میں غوطہ لگانے کے ليے کہتا ہے تو خوجی کہتا ہے: ” یوں ہی زہر کی پڑیا دے دو، گلا گھونٹ ڈالو، یہ دل لگی ہمیں پسند نہیں۔


پندت رتن ناتھ سر شار کی ناول نگاری ۔
مولانا عبدالحلیم شرر پنڈت رتن ناتھ سرشار کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ:
” آپ نے ”فسانہ آزا د کیا لکھا زبان اردو کے حق میں مسیحائی کی ہے۔“
بیگم صالحہ عابد حسین ”فسانہ آزاد کے متعلق لکھتی ہیں،
”اردو زبان سمجھنے کے ليے ”فسانہ آزاد“ پڑھنا چاہیے۔“

فسانہ آزاد اودھ اخبار میں مسلسل ایک سال تک شائع ہوتا رہا۔ اور کافی مقبول ہوا ۔ قارئین اخبار ہر قسط کے ليے بے تاب رہتے ۔ اور شوق سے اسے پڑھتے ۔ اردو ادب میں دراصل یہ پہلا موقع تھا کہ کسی اخبار میں باقاعدہ طور پر ناول کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ لیکن آج تک یہ بات متنازعہ ہے کہ فسانہ آزاد کو کس صنف نثر میں شمار کیا جائے۔ اسے ناول کہا جائے یا داستان ۔
اسلوب

پریم پا ل اشک نے سرشار کے اسلوب کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے ایک تقلیدی انداز اور دوسرا تخلیقی ۔ تقلیدی انداز میں صریحاً رجب علی بیگ کے اسلوب اور زبان کی جھلک نظرآتی ہے۔ اور سرور کی سی مسجع اور مقفٰی عبارت ملتی ہے۔ مگر سرشار ایسا اسلوب صرف منظر نگاری کے وقت اختیار کرتے ہیں۔ اس کے علاو ہ انھوں نے ناول میں اپنا انفرادی اسلوب برتا ہے جو کہ اُن کا اپنا تخلیقی رنگ ہے۔

بیگماتی زبان:۔
پنڈت رتن ناتھ سرشار نے فسانہ آزاد میں خاکروب سے لے کر نواب تک اور کنجڑوں سے لے کر بیگم تک ہر طبقے کی زبان استعمال کی ہے۔ اور یہ لطف یہ کہ ہر طبقہ اور پیشے کے مطابق بو ل چال کا انداز برتا ہے۔محققین کی تحقیق کے مطابق سرشار نے بیگماتی زبان بچپن سے اپنے پڑوس میں رہنے والی مسلمان مستورات سے سیکھی تھی ۔ ۔ ”اے میں کہی ہوں آخر یہ ماجراکیا ہے؟ منہ دیکھنے کو نگوڑا جی ترس گیا ۔ دن رات کڑھا کرتی ہوں ۔ اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر میر ے جی کا حال اللہ ہی جانتا ہے یا میں جانتی ہوں۔ آپ کا تو یہ حال ہے کہ چوبیسویں دن صورت دکھائی تو جیسے آگ لینے آئے تھے۔“

محاورے:۔[ترمیم]
سرشار نے ”فسانہ آزاد “ میں پورب کے ٹھیٹھ محاورے استعمال کئے ہیں یا د رہے کہ محاورے ہمیشہ عوام اور خصوصاًعورتیں گھڑا کرتی ہیں۔ کتب میں محاورے کبھی نہیں ملتے ۔ اس ليے اس کا استعما ل بالکل صحیح مانا جا سکتا ہے۔

رنگینی و توانائی:۔
سرشار کے ہاں ثقیل الفاظ اور فارسی اشعار کی بھر مار ہے۔ اور وہ مشکل نثر لکھتے ہیں جس کی وجہ سے طرز تحریر میں ثقالت حد سے زیادہ ہے۔ لیکن اس کے باوجودآپ ایسے انداز بیان کی وقعت اور فراوانی کا اندازہ لگا سکتے ہیں اور اسی سے سرشار کے اسلوب میں رنگینی اور ندرت اور توانائی پیدا ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر

مزاح:۔[ترمیم]
رتن ناتھ سرشار نے اپنے ناول میں اکثر کرداروں کو مضحک خاکوں کے طور پر پیش کیا ہے۔ انہوں نے دراصل لکھنو معاشرے کی برائےوں کو نشانہ تضحیک بنایا ہے۔ ویسے تو ناول کے اکثر کرداروں کی گفتگو اور حرکات و سکنات سے مزاح پیدا کیا گیا ہے۔ اورفسانہ آزاد کے تقریباً سارے کرداروں سے کوئی نہ کوئی مزاحیہ بات کرئی گئی ہے۔ لیکن مزاح پیدا کرنے کے ليے بطور خوجی کا کردار وضع کیا گیا ہے۔ اور وہ ایک مزاحیہ اسلوب اختیار کرتے ہیں۔
آزاد نے کہیں کہیں مزاح پیدا کرنے کے ليے تشبیہات سے بھی کام لیا ہے۔
مکالمہ نگاری:۔
ناول نگا ر اپنا نقطہ نگاہ مکالموں کی مدد سے پیش کرتا ہے۔ معیاری مکالمے کی خوبی یہ ہے کہ وہ مختصر ہو ، کردار کی شخصیت اس کے مزاج اس کی علمی اور سماجی حیثیت کے مطابق ہو۔ اور شگفتگی کا عنصر پایا جائے ۔ ان خصوصیات کے حوالے سے جب ہم فسانہ آزاد کی مکالمہ نگار ی کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں سرشار کی مہارت اور قدرت کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ سرشار کے اسلوب کی سب سےبڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہر طبقے اور ہر ماحول کی گفتگو ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں جس طرح وہ ادا کی گئی ہو۔ یعنی کردار معاشرے کے جس طبقے سے تعلق رکھتا ہو وہ اسی زبان اور لہجے میں بات کرتا ہے۔

لکھنوی معاشرت:

” سرشار نے اپنے تمام افسانے میں لکھنو کی معاشرت ۔۔۔۔کا حال دکھایا ہے۔ سرشار کی مصوری ایسی ہے جیسے متکلم سینما کے پردہ پر چلتی ، پھرتی ، بولتی چالتی تصویریں۔۔۔۔سرشار چھوٹی چھوٹی باتوں کی تفصیل لکھتے ہیں۔“سیاسی ، معاشی ، تہذیبی پس منظر کو سامنے رکھ کر جب ہم لکھنوی معاشرت پر نگاہ ڈالتے ہیں تو اس کی تین جہتیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔

١۔ تعیش پسندی۔٢۔ مذہبی متعقدات کا ایک خاص رنگ۔٣۔ علمی و ادبی مذاق

فسانہ آزاد کا موضوع
لکھنو کی تہذیب و معاشرت سرشار کے فسانہ آزاد کا موضوع ہے۔ اس تہذیب اور معاشرت نے جن افراد کو جنم دیا ۔ انہیں مردانہ وار زندگی گزارنے کا حوصلہ نہیں۔ ہر ایک کردار کے فکر و عمل سے سطحیت ، عیش پرستی اور تماش بینی جھلکتی ہے۔ فسانہ آزاد کے ہیرو کو لیجئے جو اس معاشرت کا نمائندہ ہے۔مگر نہایت ہی گھٹیا قسم کا معمولی آوارہ نوجوان ہے۔ جس کی زندگی کا نہ کوئی معیار ہے اور نہ کوئی مقصد ۔ سرشار نے اپنے اس ہیرو کو یگانہ روزگار بنانے کی کوشش کی ہے مگر یہ اسی طرح کا بے ڈھنگا ، اوچھا اور لفنگا ہی رہا ۔ یہی وہ لکھنو کی تہذیب تھی کہ بے عمل اور بے کار لوگ جن کی حقیقی دنیا میں کوئی قدر و قیمت نہیں بزعم خود نادرہ روزگار ہستیاں بنے پھرتے ہیں

حقیقت نگاری:۔
سرشار نے فسانہ آزاد میں لکھنو کی معاشرت کو اس کے صحیح خدوخال میں پیش کیا ہے۔ اس میں کوئی چیز مصنوعی نہیں۔ حقیقت میں مبالغے کی رنگ آمیزی ضرور ہے لیکن تصنع یا بناوٹ کہیں نہیں۔ سرشار کا افسانہ جس ماحول کی عکاسی کرتا ہے۔ چونکہ وہ مصنوعی قسم کا ہے اور ریا کاری کامظہر ہے ، اس ليے بعض لوگوں کو شاید یہ شک گزرا کہ یہ مصنف کا پیدا کردہ مصنوعی پن ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔

کردار نگاری
سرشار کی کردار نگاری پر کئی اعتراضات ہوئے مثال کے طور پر انہوں نے کرداروں کی کردار کشی کی ہے۔ اور کسی کو بھی سنجیدہ اور متین نہیں دکھایا ۔ اور انہوں نے زیادہ تر مبالغہ سے کام لیا ہے۔ بعض لوگوں نے تو اُن کے کرداروں کو کارٹون کہا ہے۔
لیکن اس کے برعکس اکثر ناقدین نے سرشار کی کردار نگاری کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے تمام کرداروں کی تخلیق و تشکیل نہایت چابکدستی سے کی ہے۔ اور اس ناول فسانہ آزاد اپنے قصے کی وجہ سے نہیں بلکہ کردار نگاری کی وجہ سے اردو ناول نگاری میں ایک خاص مقام کا حامل ہے۔
5 people reached

آرائشِ باغ کی منظر نگاری
منظر نگاری:۔
میر حسن نے منظر نگاری میں جس دقتِ نظر کا ثبوت دیا ہے وہ ان کی بھرپور فن کاری کی دلیل ہے واقعات کے ضمن میں مناظر کی جزئیات کی تفصیل ان کے ہاں اتنی گہری اور وسیع ہے کہ پورا منظر متحرک ہو کر ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ میر حسن کی منظر نگاری دکھانے کے لئے ہم نے ”باغ کی تیاری“ کا نقشہ منتخب کیاہے۔ اس باغ کے منظر کو دیکھئیے آخری مغل عہد کا یہ باغ ہے اس کی تعمیر ، عمارات اور ترتیب کابیان ہو بہو مغل باغات کے مطابق ہے باغ کا نقشہ اور عمارتوں کا بیان ، بے جان تصویریں نہیں بلکہ ایک ایسا نگار خانہ ہے جس کی ہر شے متحرک ہے اور اس میں ایک ایسی تہذیب کے چہرے سے نقاب اُٹھائی جا رہی ہے جسکی تصویر کو میر حسن نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا تاکہ وہ اپنے عہد کی تہذیب اور زندگی کی رونقوں کی تصویر پیش کر سکیں ۔ میر حسن فطری مناظر میں دلچسپی رکھتے تھے۔ سید عابد علی عابد لکھتے ہیں ۔
” میر حسن اس معاملہ میں یکتا ہیں کہ انہوں نے فطری مناظر کی دلکشی اور رعنائی کو اپنی روح میں جذب کیا اور پھر اس رعنائی کو پڑھنے والوں تک اس طرح منتقل کیا کہ ان کی صنعت گری کا عالم دیکھ کر بڑے سے بڑا نقاد انگشتِ بدنداں ہے۔“
باغ کی تیاری:۔
اب باغ کی تیاری کا منظر دیکھئیے مختلف پھولوں ، درختوں کے نام ہی سنیے ان کی خوشبو بھی محسوس کیجئے ۔ میر حسن نے باغ کی فضا بناتے وقت پھل ، پھول، درخت ، خوشبو، روشنی ہوا کا حسین امتزاج تیار کر دیاہے

سحرالبیان کا پلاٹ:۔
جہاں تک اس مثنوی کے پلاٹ کا تعلق ہے ، اس میں کوئی نیا پن نہیں اس کہانی کے اجزا ءمختلف منشور اور منظوم ، قدیم داستانوں میں بکھرے پڑے ہیں اور اس کی کہانی سیدھے سادھے انداز میں یوں ہے،
کسی ملک میں ایک بادشاہ تھا جو اپنی منصف مزاجی کی وجہ سے رعایا میں ہر دلعزیز تھا ۔ بادشاہ کو تمام نعمتیں میسر تھیں مگر اولاد جیسی نعمت سے محرومی اس کی زندگی کی سب سے بڑی محرومی تھی۔ اس محرومی و مایوسی کے عالم میں بادشاہ دنیا ترک کر دینے کا ارادہ کر لیتا ہے۔ وزیروں کے مشورے پر وہ سردست اس فیصلے پر عمل درآمد روک دیتا ہے۔ شاہی نجومی بادشاہ کے ہاں چاند سے بچے کی پیدائش کی خوشخبری دیتے ہیں ۔ لیکن اس کی سلامتی و زندگی میں چند خطروں کی نشان دہی کرتے ہوئے اس احتیاط کی تلقین کرتے ہیں کہ بارہ سال کی عمر تک اسے محل کے اندر رکھا جائے اور رات کھلے آسما ن تلے سونے نہ دیا جائے کچھ عرصے بعد واقعی بادشاہ کے ہاں لڑکا پیدا ہوتا ہے۔ اس کا نام اس کی خوبصورتی اور مردانہ وجاہت کے پیش نظر ” بے نظیر “ رکھا جاتا ہے۔ تمام شاہی تکلفات اور ناز و نعم کے ساتھ ۱۲ سال تک اسے محل کے اندر رکھا جاتا ہے۔ مگر سال کے آخری دن جب اس کی عمر بادشاہ کے حساب سے پورے بارہ سال ہوگئی تھی (حالانکہ اتفاق سے ایک دن کم تھا) وہ رات کو ضد کرکے چھت پر سو جاتا ہے ۔ آدھی رات کے قریب ماہ رخ پری کا گزر وہاں سے ہوا ۔ اسے سوتے میں دیکھ کر اس پر عاشق ہوئی۔ او ر اپنے ساتھ پرستان میں لے گئی۔ شہزادے کی گم شدگی پر صبح محل میں قیامت کا منظر پربا ہو جاتا ہے۔ بڑی تلاش کی گئی مگر شہزادے کو نہ ملنا تھا نہ ملا۔ ماہ رخ پری طرح طرح سے شہزادے کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ شہزادہ اپنی صغر سنی کے باعث اداس ، ملول اور پریشان رہتا ہے۔ اس پریشانی کو دور کرنے کے لئے ماہ رخ پری اسے کل کا گھوڑا دیتی ہے۔ اس گھوڑے پر سیر کرتا پھرتا شہزادہ ”بدر منیر شہزادی “ کے باغ میں اترتا ہے دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر عاشق ہوجاتے ہیں اچانک ایک دن ایک دیوان دونوں کووصل کی حالت میں دیکھ لیتا ہے۔ اس کی اطلا ع ما ہ رخ پری کو ہوتی ہے تو وہ انتہائی غضبناک ہو کر شہزادے کو واپس آنے پر کوہ قاف کے اندھے کنوئیں میں ڈلوا دیتی ہے ۔ بد منیر کا عجیب حال ہے اس کی راز دار سہیلی وزیر زاد ی نجم النساءبے نظیر کی تلاش میں نکلتی ہے۔ اور آخر کار بڑی مشکلوں سے جنوں کے بادشاہ کے بیٹے فیروز شاہ کی مدد سے بے نظیر کو رہائی دلاتی ہے۔ دونوں کی شادی وہ جاتی ہے خود نجم النساءفیروز شاہ کے ساتھ بیاہ کر لیتی ہے۔ اور یوں یہ مثنوی طرب ناک انجام کو پہنچتی ہے۔
ڈاکٹر وحید قریشی پلاٹ کا تجزیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ،
” فنی لحاظ سے ”سحرالبیان“ کا جائزہ لیا جائے تو اس ضمن میں میر حسن کی ذہانت ، پلاٹ کی تشکیل میں بروئے کار نظرآتی ہے ”سحرالبیان“ اردو کے چند عظیم مثنویوں میں سے ہے اس میں اگرچہ محدود زندگی کی تصویر کشی کی گئی ہے لیکن اپنی محدودیت کے باوجود میر حسن نے جس زندگی کو پیش کیا ہے وہ ہمارے لئے دلچسپی کا وافر سامان مہیا کرتی ہے۔ مثنوی کی شہرت اور مقبولیت کا راز میر حسن کی اعلیٰ صلاحیت میں مضمر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔

میر حسن دہلوی(۱۷۳۶/۳۷ - ۱۷۸۶) غلام حسن نام تھا۔ ان کے اجداد ہرات کے مشہور خانوادہ سادات سے تھے۔ جد اعلٰی ہندوستان آئے۔ یہیں سکونت اختیار کی۔ میر حسن دلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد میر غلام حسین ضاحک اپنے زمانے کے معروف مرثیہ گو تھے۔ انھیں کے ساتھ ۱۲ برس کی عمر میں فیض آباد چلے گئے۔یہاں نواب سالار جنگ بہادر کی ملازمت اختیار کی اور ان کے بیٹے نوازش علی خاں کے مصاحب بن گئے۔ کچھ عرصہ بعد آصف الدولہ کے عہد میں لکھنؤ آ بسے اور پھر یہیں کے ہو رہے۔ شعر و سخن کا ذوق موروثی تھا۔ بچپن سے شاعری کی طرف میلان تھا۔ لکھنؤ میں اسے اٹھان ملی۔ میر ضیاء الدین کے شاگرد ہوئے۔ دلی میں تھے تو خواجہ میر درد کو اپنا کلام دکھایا تھا۔ خواجہ صاحب ہی کی روحانی تعلیم اور فیض صحبت کے اثر سے مثنوی "رموز العارفین" لکھی۔ لکھنؤ میں وفات پائی۔ وہیں دفن ہوئے۔
میر حسن فطرتاً نہایت خوش مزاج و بدلہ سنج تھے۔ ان کا شاہکار ان کی مثنوی "سحر البیان" ہے۔ ان کا کلام تقریباً تمام اصناف سخن، مثنوی، غزلیات، ہجویات، قصائد، مرثیے، رباعیات، قطعات، ترکیب بند اور ترجیع بند وغیرہ پر مشتمل ہے۔ وہ قصیدے اور مرثیے کے مرد میدان نہیں البتہ ان کی غزلیں ادبی شان رکھتی ہیں۔ انھوں نے گیارہ مثنویاں لکھیں۔ مثنوی "سحر البیان" (قصہ بے نظیر و بدر منیر) نے اردو زبان میں جو شہرت حاصل کی ہے وہ نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد آج تک کسی مثنوی کو نصیب ہوئی۔ زبان و بیان، جزیات نگاری اور منظر نگاری میں یہ مثنوی اپنا جواب نہیں رکھتی۔ جامعیت، تاثیر اور بیان کی صفائی اور مناسبت یہ ایسی خوبیاں ہیں جو اس مثنوی کے برابر اردو کی کسی اور مثنوی میں نظر نہیں آتیں۔ محاورہ کا لطف، مضمون کی شوخی اور طرز ادا کی نزاکت اس مثنوی کی خصوصیات ہیں۔ زبان کی سادگی اور الفاظ کی بندش کا یہ حال ہے کہ سحر البیان کو لکھے دو سو برس سے زائد گزر چکے لیکن وہ آج کی بولی جانے والی زبان لگتی ہے۔ اسلوب میں پرکاری ہے۔ تکلف و تصنع کا شائبہ تک نہیں۔ یہ مثنوی کہنے کو تو ایک منظوم عشقیہ کہانی ہے لیکن اس میں اس دور کی زندگی، معاشرت، رسوم و رواج، شادی بیاہ کی رسمیں، زنانہ لباس، زیورات، ناچ رنگ وغیرہ کی دلچسپ تفصیلات و جزئیات موجود ہیں۔ اس اعتبار سے "سحر البیان" اپنے دور کی ثقافتی تاریخ کا معتبر ماخذ بھی ہے۔
دوسری قابل ذکر مثنوی "گلزار ارم" ہے جس میں میر حسن نے لکھنؤ کی ہجو اور فیض آباد کی تعریف جی کھول کر کی ہے۔ "تذکرہ شعرائے اردو" بھی میر حسن کی اہم تصنیف ہے۔ یہ تذکرہ فارسی میں ہے۔ اس کی اہمیت کا سبب یہ ہے کہ اس میں میر حسن نے قدیم شاعروں اور اپنے ہمعصر شاعروں کا حال معتبر حوالوں کے ساتھ لکھا ہے۔ میر حسن کے بیٹے میر مستحسن خلیق بھی اپنے زمانے کے نامی شاعر تھے۔ میر خلیق کے بیٹے یعنی میر حسن کے پوتے میر انیس اپنی مرثیہ نگاری کے باعث اردو شاعری کے آسمان پر آفتاب بن کر چمکے۔
میر حسن فطرتاً نہایت خوش مزاج و بدلہ سنج تھے۔ ان کا شاہکار ان کی مثنوی "سحر البیان" ہے۔ ان کا کلام تقریباً تمام اصناف سخن، مثنوی، غزلیات، ہجویات، قصائد، مرثیے، رباعیات، قطعات، ترکیب بند اور ترجیع بند وغیرہ پر مشتمل ہے۔ وہ قصیدے اور مرثیے کے مرد میدان نہیں البتہ ان کی غزلیں ادبی شان رکھتی ہیں۔ انھوں نے گیارہ مثنویاں لکھیں۔ مثنوی "سحر البیان" (قصہ بے نظیر و بدر منیر) نے اردو زبان میں جو شہرت حاصل کی ہے وہ نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد آج تک کسی مثنوی کو نصیب ہوئی۔ زبان و بیان، جزیات نگاری اور منظر نگاری میں یہ مثنوی اپنا جواب نہیں رکھتی۔ جامعیت، تاثیر اور بیان کی صفائی اور مناسبت یہ ایسی خوبیاں ہیں جو اس مثنوی کے برابر اردو کی کسی اور مثنوی میں نظر نہیں آتیں۔ محاورہ کا لطف، مضمون کی شوخی اور طرز ادا کی نزاکت اس مثنوی کی خصوصیات ہیں۔ زبان کی سادگی اور الفاظ کی بندش کا یہ حال ہے کہ سحر البیان کو لکھے دو سو برس سے زائد گزر چکے لیکن وہ آج کی بولی جانے والی زبان لگتی ہے۔ اسلوب میں پرکاری ہے۔ تکلف و تصنع کا شائبہ تک نہیں۔ یہ مثنوی کہنے کو تو ایک منظوم عشقیہ کہانی ہے لیکن اس میں اس دور کی زندگی، معاشرت، رسوم و رواج، شادی بیاہ کی رسمیں، زنانہ لباس، زیورات، ناچ رنگ وغیرہ کی دلچسپ تفصیلات و جزئیات موجود ہیں۔ اس اعتبار سے "سحر البیان" اپنے دور کی ثقافتی تاریخ کا معتبر ماخذ بھی ہے۔دوسری قابل ذکر مثنوی "گلزار ارم" ہے جس میں میر حسن نے لکھنؤ کی ہجو اور فیض آباد کی تعریف جی کھول کر کی ہے۔ "تذکرہ شعرائے اردو" بھی میر حسن کی اہم تصنیف ہے۔ یہ تذکرہ فارسی میں ہے۔ اس کی اہمیت کا سبب یہ ہے کہ اس میں میر حسن نے قدیم شاعروں اور اپنے ہمعصر شاعروں کا حال معتبر حوالوں کے ساتھ لکھا ہے۔ میر حسن کے بیٹے میر مستحسن خلیق بھی اپنے زمانے کے نامی شاعر تھے۔ میر خلیق کے بیٹے یعنی میر حسن کے پوتے میر انیس اپنی مرثیہ نگاری کے باعث اردو شاعری کے آسمان پر آفتاب بن کر چمکے۔
آرائشِ باغ۔۔۔۔۔۔۔سحر البیاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میر حسن
آرائش باغ۔۔
مثنوی سحرالبیان ( میر حسن )
مثنوی کا لفظ” مثنیٰ “ سے بنا ہے اور مثنیٰ کے معنی دو کے ہیں اصطلاح میں ایسی صنفِ سخن کوکہتے ہیں جس کے شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں اور ہر دوسرے شعر میں قافیہ بدل جائے ، مثنوی میں لمبے لمبے قصے بیان کئے جاتے ہیں نثر میں جو کام ایک ناول سے لیاجاتا ہے ، شاعری میں وہی کام مثنوی سے لیا جاتا ہے۔ یعنی دونوں ہی میں کہانی بیان کرتے ہیں،مثنوی ایران سے ہندوستان میں آئی ۔ اردو مثنوی کی ابتداءدکن سے ہوئی ، دکن کا پہلا مثنوی نگار نظامی بیدری تھا۔
مثنوی سحرالبیان:۔
اردو میں کافی تعداد میں مثنویاں کہی گئی ہیں مگر جو دلکشی اور ساحری مثنوی ”سحر البیان“ میں موجود ہے دوسری دوسری مثنویاں ان خوبیوں سے محروم ہیں اس لئے ہم بلا تکلف یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ سحرالبیان اردو کی بہترین مثنوی ہے۔
”سحر البیان “ اردو کی ان زندہ جاوید مثنویوں میں سے ہے جو ہر زمانہ میں عوام اور خواص میں یکساں طور پر مقبول رہی ہیں ۔”سحر البیان“ کے فنی محاسن کے سلسلے میں اس کی کردار نگاری پلاٹ ، جذبات نگاری ، مکالمہ نگاری ، مرقع نگاری ، منظر نگاری اور سراپا نگاری کے علاوہ ایک مربوط معاشرت کے ثقافتی کوائف کی تصویر بے حد کامیاب کھینچی گئی ہے۔
اس مثنوی سے میرحسن اور ان کی سوسائٹی کے مذہبی افکار اور اخلاقی اقدار پر روشنی پڑتی ہے جو اس معاشرت کے روائتی طرز فکر اور تصورِ زندگی کا جزو بن چکے ہیں ۔ ”سحرالبیان“ اس دور کے مذہبی معتقدات ، ذہنی امور اور اخلاقی تصورات کی عکاس ہے۔ یہ مثنوی دراصل اس طرز زندگی کی بہترین نمائندگی کرتی ہے اودھ کی اس فضا میں جہاں تکلف و تصنع کا دور دورہ تھا ۔ ایک تہذیب بن رہی تھی۔ ”سحرالبیان“ میں اس تہذیب کی تصویریں بھی محفوط ہیں۔
”سحرالبیان “ کا مطالعہ ہم مندرجہ زیل عنوانات کے تحت کرتے ہیں ہر عنوان میں اس کی خوبیوں اور فنی محاسن پر تنقید و تبصرہ کرکے اس کی قدر و قیمت نمایاں کی جائے گی۔
تہذیب و ثقافت کی عکاسی:۔
”سحر البیان“ کی فنی خوبیوں میں اس کی نمایاں خوبی تہذیب و ثقافت کی عکاسی ہے۔
میر حسن نے درحقیقت اس تہذیب و معاشرت کا گہری نظر سے مطالعہ کیا تھا ۔ اور وہ اس سے خوب واقف تھے
جذبات نگاری:۔
میر حسن کے ہاں جذبات نگاری کے بڑے ہی اچھے اور موثر مرقعے ملتے ہیں خوشی کے عالم میں خوشی اور غم و الم اور دکھ کے مواقع پر رقت طاری ہو جاتی ہے ۔
جزئیات نگاری:۔
میرحسن نے جس واقعے کا بھی ذکر کیا اس کے ہر اک جز کو مکمل بیان کردیا
اس طرح میر حسن نے پوری تفصیل کے ساتھ نجومیوں کے حرکات و سکنات کو بیان کیا ہے۔ اس طرح جب بادشاہ کا بیٹا ہوتا ہے تو رقص کا اہتمام ہوتا ہے۔ میر حسن نے رقص کا منظر نہایت دلفریب انداز میں پیش کیا ہے انہوں نے ایسی باریک باتوں کا ذکر کیا ہے جس پر ہر شاعر کی نظرنہیں پڑتی۔
وہ گھٹنا وہ بڑھنا ادائوں کے ساتھ
دکھا نا وہ رکھ رکھ کے چھاتی پہ ہاتھ
تصویر کشی:۔
”سحر البیان“ کا ایک بڑا کما ل اس کی تصویر کشی ہے۔ میر حسن نے جس منظر اور جس حالت کا جہاں بھی نقشہ کھینچا تصویر کشی کا حق ادا کردیا ۔ مولانا حالی مثنوی ” سحرالبیان“ کی اس خوبی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں،
”مسلمانوں کے اخیر دور میں سلاطین امراءکے یہاں جو حالتیں تھیں اور جو جو معاملات پیش آتے تھے۔ بعینہٰ ان کا چربہ اتار دیا ہے۔“
میر حسن نے منظر نگاری کی تصویر کشی کی ہے اس میں ایسی محاکات کا ثبوت دیا ہے پورا منظر ہماری آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے۔
تشبیہات
میرحسن کے ہاں حسین تشبیہات کے خزانے موجود ہیں ان کی تشبیہات کو پڑھ کر دل کلی کی طرح شگفتہ ہو جاتا ہے۔
صنعتوں کا استعمال:۔
میرحسن کے ہاں تشبیہا ت کے سلسلے میں قوس قزح کے جو رنگ ملتے ہیں وہ ان کی رنگینی فکر اور حسن ِ نظر کا ثبوت ہیں مگر ہم انہیں کلیتاً ان کے معاشرہ اور ماحول کی رنگینیوں سے الگ کرکے نہیں دیکھ سکتے ۔ اس دور کا مذاق ِ حسن بھی ان پر اپنے جمالیاتی تصورات کی شعائیں ڈال رہا تھا۔ میرحسن کے یہاں صنعتوں کا استعمال بھی ہے خاص طورپر صنعت ایہام
بقو ل کلیم الدین احمد، ”اہم چیز ”سحرالبیان“ میں طرز ادا ہے عبارت صاف ، پاکیزہ اور با محاورہ ہے میر حسن نے روزمرہ کا نچوڑ اس مثنوی میں رکھ دیا ہے۔
مجموعی جائزہ:۔
سحرالبیان میر حسن کی زندگی کے آخری دور کا کارنامہ ہے۔ انہوں نے اس کے لکھنے میں اپنی عمر کا ایک طویل حصہ صرف کیا۔ چنا نچہ و ہ خود اعتراف کرتے ہیں
ہر اک بات پر دل کو میں خوں کیا
تب اس طرح رنگین مضموں کیا
اس مثنوی کی سادگی پرکاری ،فن کارانہ نزاکت ، منظر کشی ، واقعہ نگاری، کردار نگاری اور تفصیل نگاری کو دیکھ کر عجیب کیفیت محسوس ہوتی ہے۔ خاص طورپر میرحسن کے انداز بیان نے اس نظم کوحیات جاوید سے ہمکنار کیا ۔ ان کی شاعرانہ انداز بیان، طرز ادا اور زبان پرقدرت نے مثنوی کو کہیں غیر دلچسپ نہیں ہونے
دیا۔

Friday, 28 November 2014


Home » Class XII » XII Urdu » ڈاکٹر سید عبداللہ

ڈاکٹر سید عبداللہ
تعارف
ہزارہ جیسے پسماندہ علاقے کے ایک دوردراز پہاڑی گاوں میں پیدا ہونے والا ایک بے وسیلہ اور بے سہارا نوجوان مالی مشکلات کی سختیاں سہتا اور قدم قدم پر تلخی ایام کا مقابلہ کرتا بالاخر کامیابی منزل پر پہنچا۔ اپنی اعلی تعلیمی قابلیت اور قابل تقلید علمی و ادبی شہرت کے بل بوتے پر یونیورسٹی اورینٹل کالج کے پرنسپل ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ ثمرہ تھا سید عبداللہ کی خداداد لیاقت اور مسلسل محنت و مطالعہ کا۔ ان کی طبیعت میں تحمل و بردباری اور چیونٹی کی طرح اپنی دھن میں پوری تندہی سے کام میں جتے رہنے کا جوہر ہی ان کی کامیابی و سرفرازی کا ضامن بنا۔ یونیورسٹی لائبریری میں بحیثیت ریسرچ اسکالر ان کا قیام ان کی زندگی میں انقلاب کا باعث بنا۔ سالہا سال تک قلمی کتابوں کی ورق گردانی نے ان میں برداشت اور حوصلہ مندی کے جوہر کو مزید نکھار بخشا۔ انہیں یہ راز ہاتھ آگیا کہ متواتر مطالعہ اور کتب بینی ہی سے علمی گہرائی اور فکری بصیرت پیدا ہوتی ہے۔ یوں تو ڈاکٹر سید عبداللہ کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں مگر ان کی تین حیثیتیں سب سے نمایاں ہیں۔ وہ ایک بامور محقق، متوازن نقاد اور ہردلعزیز معلم تھے۔ تحقیقی میدان میں وہ حافظ شیرانی اور ڈاکٹر مولوی محمد شفیع کی روایت کے امین تھے۔ تنقیدی شعبے میں ان کا مسلک معتدل تھا۔ وہ مغربی اور مشرقی ادب اور تنقیدی روایات سے آگاہی رکھتے تھے۔ عربی، فارسی، اردو اور انگریزی ادب کا مطالعہ ان کا عمر بھر کا ساتھی رہا۔ ان کا کلاس لیکچر ہمیشہ نہایت مرتب اور معلومات افزا ہوتا تھا کہ طلبہ کی بہت سی مشکلات دور ہوجاتی تھیں۔ جس موضوع پر وہ خطاب کرتے اس میں کسی ابہام اور تشنگی کی گنجائش نہ رہتی اور انداز تخاطب اس قدر دلنشین ہوتا کہ طلبہ ان کے لیکچر کا ایک ایک لفظ نوٹ کرلیتے۔ طلبہ کے لئے وہ اپنی ذات میں ایک ادارہ تھے۔ بلاشبہ وہ دھن کے پکے ایک بڑے آدمی تھے اور بڑے آدمی کسی بڑے مقصد کے بغیر زندگی یوں ہی نہیں گزار دیتے۔ سید عبداللہ اردو کو پاکستان میں اس کا اصل اور جائز مقام دلانے کا عہد کرچکے تھے چنانچہ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے انہوں نے اپنی زندگی کی ہر کوشش کو وقف کئے رکھا۔
ڈاکٹر سید عبداللہ ایک وسیع المطالعہ شخصیت کے مالک تھے۔ اردو شاعری میں میر، غالب اور اقبال ان کے پسندیدہ شاعر تھے۔ ان کی تین کتابیں نقدِ میر، اطرافِ غالب اور مقاماتِ اقبال اس حقیقت کی گواہی دیتی ہیں۔ میر تقی میر سے ان کی عقیدت کی وجہ ان کی طبعی دردمندی تھے۔ ان کی طبیعت کا گداز اور سوز دروں اسی درد پسندی کی دین تھا۔ غالب کے ہاں فلسفہ زندگی اور انسانی نفسیات کا جو گہرا شعور پایا جاتا ہے۔ سید صاحب اس کے قدردان تھے اور اقبال کی ملی شاعری ان کے ہاں وج�¿ہ مقبولیت تھی۔
ڈاکٹر سید عبداللہ اعلی انتظامی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ اورینٹل کالج مشرقی زبانوں کا ادارہ ہے،سید صاحب کے زیر انتظام اس ادارے کو بہت فروغ حاصل ہوا اور پنجاب یونیورسٹی کے دوسرے شعبوں اور اداروں میں اسے امتیازی حیثیت حاصل ہوئی۔ اردو کو ملک کی سرکاری زبان کا درجہ دلانے اور ذریعہ تعلیم بنانے کے لئے سید صاحب نے ایک تحریک کو منظم کیا اور تنہااس کے لئے ایک ادارے کی طرح کام کیا۔ سرکاری و غیر سرکاری حلقوں میں انہوں نے محبان اردو کو متحد و منظم کرکے ایک مضبوط قومی تحریک کی راہ ہموار کی۔ برصغیر پاک و ہند کے علمی و ادبی حلقوں میں سید صاحب کو ایک بلند پایہ مرتبہ و مقام حاصل ہے۔ ان کے تحقیقی و تنقیدی کام کو اہلِ علم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔مشرقی علوم اور السنہ کے حلقوں اور اداروں میں سید عبداللہ ایک معتبر و مسلم شخصیت کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اسلوب تحریر
ڈاکٹر سید عبداللہ کے ہاں موضوعات کی وسعت پائی جاتی ہے۔ انہوں نے تقریباً نصف صدی تک اردو زبان تک اردو زبان و ادب کے سلسلے میں خدمات انجام دیں۔ اردو زبان کی لسانی و تاریخی حیثیت واہمیت پر انہوں نے تخلیقی و تنقیدی حوالے سے نہایت قابلِ قدر کام کیا۔ رومن اور عربی رسم الخط کے تقابلی مطالعے کے ذریعے اعلی تحقیقی مطالعہ پیش کیا۔ آپ کے اسلوبِ تحریر کی نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں:
تنوع اور وسعت
سید عبداللہ نے جہاں ٹھوس علمی و ادبی موضوعات پر قلم اٹھایا وہاں عصری مسائل بھی ان کی توجہ کا مرکز بنے۔ قومی زندگی میں وقتاً فوقتاً اٹھنے والے تہذیبی، سماجی اور عمرانی مسائل پر بھی انہوں نے عالمانہ اظہار خیال کیا۔ ان کا اندازِ بیان ہر موضوع کے لئے موزوں ہے۔
سائنسی اندازِ تحریر
ان کا طرزِ تحریر سائنٹیفک ہے۔ اس سلسلے میں وہ سرسید احمد خان کے پیرو نظر آتے ہیں۔ لیکن سرسید کے برعکس اسلوب کا حامل ہوتا ہے۔ چنانچہ ان کے اسلوب تحریر میں سرسید اور شبلی کا امتزاج پایا جاتا ہے۔
سادگی و روانی
سید عبداللہ کے نزدیک زبان خیال و فکر کے ابلاغ اور ادراک کا ذریعہ ہے۔ چنانچہ وہ کوشش کرتے ہیں کہ اپنی بات کو سادگی اور روانی کے ساتھ پیش کریں تاکہ قاری سہولت سے اسے سمجھ سکے۔ اس طرزِ تحریر کو سید صاحب مدعانگاری قرار دیتے ہیں۔
بے ساختگی و برجستگی
سید صاحب نے اکثر علمی، فکری اور تنقیدی موضوعات پر قلم اٹھایا ہے اور اس کے لئے انشاپردازا نہ اسلوب نگارش کے بجائے بے ساختہ سادہ اور برجستہ بات کہنا زیادہ مناسب حال ہوتا ہے۔ چنانچہ سید صاحب کے ہاں اس امر کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ وہ لفظی شان و شکوہ دکھانے کے بجائے اصل توجہ اس بات پر دیتے ہیں کہ ان کی بات بہتر طور پر قاری کی سمجھ میں آسکے۔
قوتِ استدلال
ڈاکٹر سید عبداللہ کے طرز تحریر میں منطق و استدلال کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ وہ اپنی بات میں دلیل سے وزن پیدا کرتے ہیں اور منطقی ربط کے ساتھ اپنی بات آگے بڑھاتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنی بات مربوط انداز میں صاف ستھرے طریقے سے ادا کرتے ہیں۔
ادبی چاشنی
موضوع کتنا بھی علمی، فکری اور تحقیقی ہو سید صاحب اپنے طرز تحریر سے اسے دلچسپ اور پرلطف بنادیتے ہیں۔ ان کے اسلوب میں خشکی اور بے لطفی نہیں بلکہ ان کے زبان و بیان میں ایک ادبی چاشنی کی گھلاوٹ موجود رہتی ہے۔ اس طرح قاری پوری دلچسپی دلچسپی کے ساتھ ان کی تحریروں کا مطالعہ کرتا ہے۔
مقصدیت
ڈاکٹر سید عبداللہ ادب کو زندگی کا خادم سمجھتے ہیں۔ اس لئے محض عبارت آرائی اور نری انشا پردازی کبھی ان کا مقصد نہیں بنتی چنانچہ ان کا علمی و فکری اسلوب تحریر تنقیدی نگاری کے لئے نہایت مناسب اور موزوں ہے۔ جس طرح وہ ایک متوازن نقاد تسلیم کئے جاتے ہیں اسی طرح ان کا طرزِ تحریر بھی متوازن اور معتدل ہوتا ہے اور مقصدیت کی شان رکھتا ہے۔
اختصار و جامعیت
اپنی تحریروں میں سید صاحب چھوٹے چھوٹے مگر بلیغ اور معنی خیز جملے استعمال کرتے ہیں، ان کے ہاں لفظوں کا استعمال باکفایت اور سادہ لیکن معانی سے پر ہوتا ہے۔ تھوڑے لفظوں میں بڑی بات کہنے کا انداز ان کے اسلوب تحریر کی خاص ادا ہے۔
ہلکا طنز
سید صاحب کی تحریروں میں کبھی طنز کا عنصر بھی آجاتا ہے مگر اس کی چبھن نہایت دھیمی اور قدرے دلکش ہوتی ہے۔ یہ طنز وہ کبھی بے ضرر جملے اور کبھی مناسب حال شعر یا مصرعہ کے ذریعے لاتے ہیں۔ اپنے مضمون اردو ذریعہ تعلیم میں انہوں نے میر تقی میر کے ایک شعر سے یہ کام لیا ہے
لگوائے پتھر اور برا بھی کہا کیے
تم نے حقوق دوستی کے سب ادا کیے
شگفتگی و رعنائی
ڈاکٹر سید عبداللہ عربی، فارسی کے عالم تھے۔ لیکن انہوں نے اپنی تحریروں کو علمی نقاہت سے بوجھل نہیں ہونے نہیں دیا۔ بے شک ان کے ہاں ڈاکٹر مولوی عبدالحق کی طرح ہندی الفاظ کے استعامل کی شعوری کوشش نہیں ملتی۔ لیکن زبان کے معاملے میں وہ لئے دیئے رہنے کی روایت کے قائل نہیں۔ چنانچہ ان کے ہاں بعض معروف انگریزی الفاظ استعمال کی بھی گنجائش نکلتی ہے۔ وہ ایک بڑے ماہر تعلیم بھی تھے اور زبان دانی کے عظیم عالم بھی۔ زبان کے معاملے میں وہ کسی نارواتعصب کے روادار نہ تھے۔ وہ اردو زبان میں وسعت و تنوع پیدا کرنے کے قائل تھے۔ چنانچہ زبان و بیان کے معاملے انہیں آزاد روی زیادہ پسند تھے۔ وہ اس بات کے بھی قائل تھے کہ حسن بیان فصاحت سے پیدا ہوتا ہے۔ اس نقطہ نظر نے ان کی تحریروں کو ایک قسم کی شگفتگی و رعنائی بخشی ہے۔
لغت سازی
کسی زبان کی ترقی و ترویج کے لئے ضروری ہے کہ اس کا دامن علمی و فکری اظہار کے لئے وسیع ہو۔ اس میں اتنی صلاحیت ہو کہ وہ دوسری زبانوں کے الفاظ و اصطلاحات کو اپنے اندر سمونے اور سمیٹنے کی گنجائش رکھتی ہو۔ محض شعرو ادب کے لئے محدود ہوجانے والی زبان کبھی زندہ زبان کا درجہ نہیں پاسکتی۔ زندہ اور پھلتے پھولتے رہنے والی زبان وہی ہو گی جو عام استعمال میں آئے گی۔ ان حقائق کے پیش نظر ڈاکٹر سید عبداللہ نے اردو کو دوسری زبانوں کی سیدھی سادھی آمیزش سے باثروت بنایا۔ نئے الفاظ اور اچھوتی تراکیب کے استعمال سے انہوں نے اردو کو علمی اظہار خیال کے لئے آسان تر بنانے کی کوشش کی۔ ان کے اس اندازِ بیان نے اردو نثر کو عام استعمال کے لئے حوصلہ افزائی کی۔ وہ اردو پر محض ادبی اجارہ داری تسلیم نہیں 

Monday, 24 November 2014

استاد محترم  کا مرکزی خیال

استادِ محترم کا مرکزی خیال
ایک طنزیہ و مزاح کی چاشنی لیے شوکت صدیقی کا تحریر کردہ افسانہ ،جس مں ایک پڑھے لکھے جاہل معاشرے پر گہرا طنز کیا گیا ہے ۔پروفییسر صفدر کیانی سرمایا دار سیاستدان کو ایک ایسی تقریر لکھ کر دیتا ہے جس میں سوائے لغو اور مہمل باتوں کے کچھ نہیں ہوتا ۔مگر اس کی سوچ کے بر عکس صحافی حضرات اور عوام
تعریفوں کے پل باندھ دیتے ہیں اور وہ اس نا اۃلی پر گدھے کو سلام کرنے پر مجبور ہوتا ہے ۔
شوکت صدیقی
(۱۹۲۳ء ۔ ۲۰۰۶ء)

اردو کے معروف ناول و افسانہ نگار، صحافی شوکت صدیقی ۲۰ مارچ ۱۹۲۳ء کو لکھنو میں پیدا ہوئے۔ اسلامیہ ہائی سکول لکھنو سے میٹرک پاس کیا۔ ایف اے اور بی اے بطور پرائیویٹ امیدوار پاس کرنے کے بعد لکھنو یونیورسٹی سے ایم اے سیاسیات کیا اور پھر ماہنامہ ’’ترکش‘‘ لکھنو میں بطور ایڈیٹر ملازمت کا آغاز کیا۔ قیام پاکستان کے بعد ۱۹۴۷ء میں لکھنو سے کراچی منتقل ہو گئے۔ یہاں آپ نے مارننگ نیوز، ٹائمز آف
کراچی اور روزنامہ انجام اور مساوات میں بطور ایڈیٹر خدمات انجام دیں۔
شوکت صدیقی کے زیادہ تر افسانے جرم اور گناہ کی فضا میں پروان چڑھتے ہیں۔ انہوں نے نچلے طبقے کے ایسے کرداروں کی حقیقت پسندانہ عکاسی کی ہے جو آسانی سے طاغوتی طاقتوں کا آلہ کار بنائے جا سکتے ہیں۔ عمل اور مکافات عمل شوکت صدیقی کے افسانوں میں ساتھ ساتھ عمل پذیر ہوتے ہیں۔ وہ اپنے افسانوں میں غربت اور ہوس زر کی آویزش کو سماجی جرائم اور اخلاق باختہ کرداروں سے نمایاں کرتے ہیں۔ یہ انسانوں کے معاشرتی اور جذباتی المیوں کے مناظر کو حزیں اداسی سے سامنے لاتے ہیں۔
شوکت صدیقی نے افسانہ اور ناول نگاری میں بہت شہرت پائی۔ افسانوں کی سب سے پہلی کتاب ’’تیسرا آدمی‘‘ ۱۹۵۲ء میں منظر عام پر آئی۔ آپ کے ناول ’’خدا کی بستی‘‘ کو عالمی سطح پر بہت پذیرائی ملی اور اس ناول کے دنیا کی چالیس سے زائد مختلف زبانوں میں تراجم ہوئے۔ پاکستان ٹیلیویژن نے اس ناول پر ایک ڈرامہ سیریل بنائی۔ اس ناول کو ۱۹۶۰ء میں آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ آپ کا ضخیم ناول ’’جانگلوس‘‘ بھی پی ٹی وی سے ٹیلی کاسٹ کیا گیا۔ ۱۹۹۷ء میں آپ کو حکومت پاکستان کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس، ۲۰۰۲ء میں اکادمی ادبیا ت پاکستان کی طرف سے کمال فن ایوارڈ اور ۲۰۰۴ء میں عالمی فروغ اردو ادب ایوارڈ سے نوازا گیا۔

شوکت صدیقی کا انتقال ۱۸، دسمبر ۲۰۰۶ء کو کراچی میں ہوا اور ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودئہ خاک ہوئے

سوانح

شہزاد احمد نے 16 اپریل 1932کو مشرقی پنجاب کے مشہور تجارتی اور ادبی شہر امرتسر کے ایک ممتاز خاندان کے فرد ڈاکٹرحافظ بشیر کے گھرانے میں جنم لیا، گورنمنٹ کالج لاہور سے 1952ءمیں نفسیات اور 1955ء میں فلسفے میں پوسٹ گریجوایشن کی اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ ’’صدف‘‘ 1958ء میں ان کی غزلوں کا پہلا مجموعہ ہے۔ ان کی غزلوں کے مجموعے ’’جلتی بھجتی آنکھیں‘‘ 1969ء پر آدم جی ادبی انعام دیا گیا۔ ’’پیشانی میں سورج’‘ پر انہیں ہجرہ(اقبال) ایوارڈ دیا گیا۔ 1997ء میں ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی عطا کیا گیا۔ طالب علمی کے زمانے میں بھی ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا جاتا رہا، انہیں 1952 میں گورنمنٹ کالج لاہور کے ’’اکیڈمک رول آف آنر‘‘ سے نوازا گیا۔ وہ 1949،50 کے دوران فلاسوفیکل سوسائٹی کے سیکرٹی بھی رہے۔

شہزاد احمد شعر و نقد شعر کے علاوہ نفسیات اور فلسفہ کے موضوعات پر انتہائی اہم مضامین سپرد قلم کر چکے ہیں اور متعدد اہم ترین سائنسی موضوعات پر معروف کتب کے تراجم بھی ان کے نام کے ساتھ یادگار ہو چکے ہیں۔ اسلام اور فلسفہ ان کا محبوب موضوع ہے اور اس سلسلے میں ان کی تصانیف اور تراجم پاکستانی ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ انہیں انجمن ترقی ادب کا بہترین مضمون نویسی کا ایوارڈ 1958ء، نقوش ایورڈ 1989ء اور مسعود کھدر پوش ایوارڈ 1997ء بھی مل چکا ہے۔ ’’بیاض‘‘ لاہور ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف کے طور پر ان کے نام سے معنون ایک خصوصی شمارہ بھی شائع کر چکا ہے۔ شہزاداحمد کا انتقال یکم اگست 2012 بمطابق 12 رمضان المبارک 1433ھ بروز بدھ شام چار بجے لاہور میں ہوا۔ مرحوم کی عمر 80 برس تھی۔ شہزاد احمد نے سوگواران میں دو بیٹے اور تین بیٹاں چھوڑی ہیں۔ ا
شاعری

یوں تو ہماری شاعری کا بنیادی موضوع محبت اور اس سے وابستہ احساسات و جذبات کا فنکارانہ اظہار رہا ہے مگر شہزاد احمد اردو کا پہلاغزل گو ہے جس نے غزل کے اس بنیادی موضوع کو تجربے کے علاوہ علم کی سطح پر بھی برتا ہے اور یوں وہ محبت کی نفسیات کا ماہر غزل گو تسلیم کیا گیا ہے۔
انفرادیت

محبت کے موضوع کو علم کی سطح پر برتنے کا یہ مطلب ہرگزر نہیں کہ شہزاد احمد کی غزل علمی متانت اور پیوست کا شکار ہو گئی ہے۔ بلکہ جب شہزاد اس موضوع کو اپنی غزل میں کھپاتا ہے تو وہ نہ صرف اپنے تجربے اور مشاہدے سے بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے بلکہ علم نفسیات کے جدید اکتشافات سے بھی مسلح ہوتا ہے اور یوں اس کی غزل ، دیگر غزل گو شعرائ سے مختلف اور منفرد ہو جاتی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اتنی چاق و چوبند اور سچی اور کھری غزل کے لیے شہزاد احمد جو زبان استعمال کرتا ہے وہ اتنی سادہ اور سلیس ہوتی ہے کہ کسی ایک مصرعے سے بھی یہ گمان نہیں ہوتا کہ اس نے جو کچھ کہا ہے، انتہائی بے شاختگی سے کہا ہے اور صرف اس وقت کہا ہے جب شعر کہنے کے سوا اس کے لیے کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ کسی مقام پر بھی شہزاد احمد سے اپنے وسیع تجرباتی اورعلمی پس منظر کی اتراہٹ سرزد نہیں ہوتی ۔ اس دور میں شہزاد احمد کی غزل سے زیادہ اور اس سادگی کے باجوجود نہایت پرکار غزل شاید ہی کسی نے کہی ہو
نیا اسلوب

غزل میں اپنا ایک اسلوب پیدا کرنے کے بعد اب گزشتہ کچھ عرصے سے شہزاد احمد کی غزل میں ایک تبدیلی رونما ہو رہی ہے ۔ اسے شاید تبدیلی نہیں کہنا چاہیے کیونکہ تبدیلی کے ساتھ ترمیم کا تصور وابستہ ہے اور شہزاد کو اپنے موضوع میں کوئی ترمیم گوارا نہیں اور شاید اسے اس طرح کی ترمیم کی ضرورت بھی نہیں۔ چنانچہ اسے شہزاد کے منفرف اسلوب میں اضافہ قرار دے لیجیے کہ اب وہ غزل میں فرد اور ذات کی نفسیات کے ساتھ ہی پورے معاشرے کی نفسیات کو بھی سمونے لگا ہے اور اس کے سے خالص غزل گو کے موضوع میں اضافہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ بحیثیت فنکار ، شہزاد کا ایک موضوع سے دوسرے موضوع تک مربوط سفر ایک ارتقائی سفر ہے۔وہ فنکار بھی کیا جو ساری زندگی اپنے آپ ہی سے لڑتے بھڑتے گزار دے اور بالواسطہ طور پر اپنی ذات سے باہر کی دنیا کی فنی کر دے۔ اپنے آپ سے پنجہ آزما ہونا بھی ایک حقیقت ہے اور اس کا اظہار کفر نہیں ہے لیکن جب شاعر اپنے معاشرے اور اپنے عصر کے پس منظر میں اپنی ذات کے تجرباتی مطالعے پر قدرت حاصل کر لے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اس نے اپنی ذات سے بھی بڑی حقیقت کا اثبات کیا ہے اور شہزاد احد ان دونوں اسی اثبات کے سفر میں ہے۔
نظم

شہزاد احمد نے نظمیں بھی کہیں ۔ ان کی نظمیں ان کی غزل کے ایک ایک شعر کی تشریحات محسوس ہوتی ہیں۔ کہ ان میں غزل کا سا حسن و بے شاختگی ہے۔ نظم کے سلسلے میں مشکل یہ ہے کہ اس کے لیے خیال و احساس کی ایک جامعیت ۔۔۔۔۔۔ایک مرکزیت ضروری ہوتی ہے۔ اس لیے تو جس طرح ضروری نہیں کہ کامیاب نظم نگار اچھی غزل کہنے پر قادر ہو ۔ ماسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ کامیاب غزل گو اچھی نظم تخلیق کرنے پر قدرت رکھتا ہو ۔ مگر غزل گو شہزاد احمد نے اپنی تخلیقی ہمہ گیری سے ، اس مفروضے کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ اس کی نظمیں جہاں انسانی نفسیات کی بوقلمونی سے آراستہ ہیں۔ وہیں ان کا معیار بھی شہزاد کی غزل کی طرح صاف ستھرا اور بلند ہے۔ شہزاد احمد نے غزل اور نظم کے علاوہ نفسیات پر بھی کتابیں لکھی ہیں اور بعض غیر معمولی کتابوں کے ترجمے بھی کیے ہیں اور نفسیات اور فلسفے کے ساتھ ساتھ سائنسی موضوعات پر بھی بہت محنت اور کاوش سے لکھا ہے۔ شہزاد احمد اردو ادب کی ایک ہمہ گییر اور ہمہ صف اور سرمایہ افختار شخصیت ہیں



سون گڑیا (مرکزی خیال )
ایک علامتی افسانہ جسے الطاف فاطمہ کے قلم نے لکھا ۔دولت ،طاقت اور اقتدار جسم فروشی کی علامت سون گڑیا ۔۔۔۔۔دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نے ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کی ہے جس میں ہر فرد اس کے حصول کے لیےپریشان نظر آرہا ہے ۔افسانہ کا مرکزی کردار اسی خواہش کی زد میں آکر سون گڑیا سے شادی کی خواہش رکھتا ہے ۔
الطاف فاطمہ ۱۹۲۹ء کو لکھنو میں پیدا ہوئیں۔ ان کے خاندان میں کئی نامور ادیب پیدا ہوئے، جن میں نامور افسانہ نگار سید رفیق حسین کے علاوہ ’’نشتر‘‘ کے مصنف بھی شامل ہیں جو قرۃالعین حیدر کے مطابق ہندوستان کی کسی بھی زبان میں لکھا جانے والا پہلا ناول ہے۔ الطاف فاطمہ نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے، بی ایڈ کی اسناد حاصل کیں اور لاہور کے اسلامیہ کالج برائے خواتین اور اپوا کالج میں اردو کی تدریس سے وابستہ ہو گئیں۔



الطاف فاطمہ کی کتابوں میں ’’دستک نہ دو‘‘ کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ یہ ناول ٹیلیویژن پر قسط وار ڈرامے کے طور پر بھی دکھایا گیا اور اس کا انگریزی زبان میں ترجمہ بھی لندن سے شائع ہوا۔ ان کا ناول ’’نشان محفل‘‘ بھی بہت مقبول ہوا۔ الطاف فاطمہ جدید اردو ادب کا ممتاز نام ہیں۔ ان کے افسانوں کے کئی مجموعے اور ناول شائع ہو کر پڑھنے والوں میں مقبول ہو چکے ہیں۔

ان کی دیگر کتابوں میں چلتا مسافر، جب دیواریں گریہ کرتی ہیں، خواب گر، تار عنکبوت، وہ جسے چاہا گیا، نغمے کا قتل… شامل ہیں۔


الطاف فاطمہ آج کل لاہور میں ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہی ہیں لیکن ادبی کام مسلسل جاری ہے۔

Saturday, 15 November 2014



مرثیہ۔ ۔ تعارف

مرثیہ اردو کی ایک مقبول صنف سخن ہے جس کا شمار شاعری کی مقبول و معروف موضوعی اصناف میں ہوتا ہے۔ زمانہ قدیم میں دو بیتی، مربع، مثلث اور مخمس کے فارم میں بھی مرثیے رائج رہے۔ آج بھی غزل کے فارم کو شخصی مرثیوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ مرثیہ کو مسدس کی معروف شکل میں سب سے پہلے سودا نے استعمال کیا۔ انیس اور دبیر کے مرثیوں کی بے پناہ مقبولیت کے سبب مرثیوں کے ساتھ مسدس کی ہیئت مخصوص ہو گئی ہے۔
مرثیہ کے موجودہ اجزائے ترکیبی میر ضمیر نے متعین کئے جن کی پابندی کی جاتی ہے کبھی کبھی ان سے گریز بھی کیا گیا ہے۔ وہ اجزاء یہ ہیں (1) چہرہ (2) سراپا (3) رخصت (4) آمد (5) رجز (6) رزم (7)شہادت اور (8) بین
مرثیہ کی تہذیبی اور تمدنی اہمیت کے علاوہ اس کی ادبی اہمیت سے نکار نہیں کیا جاسکتا۔ مرثیہ کی مقبولیت کا راز جہاں مذہب سے وابستگی ہے وہیں تہذیبی اخلاقی اور ادبی محاسن میں بھی مضمر ہے۔ اس کی مقبولیت کے کئی اسباب ہیں جن میں سے زیادہ موثر اور مقبول عام سبب مرثیہ کی جذباتی اور مذہبی نوعیت ہے۔
مرثیہ کا فن
مسڈس، مرثیے کی انتہائی ترقی یافتہ شکل ہے۔ ابتداء میں مرثیہ دو بیتی، مثلث، مربع اور مخمس میں بھی لکھا گیا۔ سودا نے مرثیہ کو مسدس کی شکل میں روشناس کروایا۔ سودا سے قبل بھی مسدس کے فارم میں مرثیے لکھے گئے
مرثیے کے اجزائے ترکیبی
مرثیہ چونکہ واقعات کربلا پر مبنی ہے اس لئے اس میں واقعات کربلا کی تفصیل بیان ہوتی ہے۔ مثلاً جاں نثار ان حسین اور خانوادہ حسین کی سیر و شخصیت، کردار، جذبات، احساسات، اعزہ سے رخصتی، میدان کار زار میں ان بے سر و ساماں فدائیانِ حسین کی آمد، آلات حرب، جنگ کا منظر، گھوڑوں کی تیزی، تلواروں و نیزوں کی چمک دمک، فرات کے کناروں پر یزیدیوں کے پہرے، پیاسوں کی شہادت اور پھر ان کی زخم خوردہ لاشوں پر بین و بکا وغیرہ۔ ان واقعات و بیانات میں ایک منطقی ربط و تسلسل قائم رکھنے کی خاطر مرثیے کے لئے آٹھ اجزائے ترکیبی وضع کئے گئے :

(1) چہرہ
(2) ماجرا
(3) سراپا
(4) رخصت
(5) آمد
(6) رجز
(7) شہادت
(8) بین

مرثیے میں اجزائے ترکیبی کا یہ تعین استاد دبیر میر ضمیر نے کیا۔ لیکن اس کی پابندی پوری طرح نہیں ہوسکی۔ خود ضمیر اور بعد میں انیس و دبیر کے یہاں بھی اس کی پابندی نہیں ہوسکی۔ مثلاً مرزا سلامت علی دبیر کا ایک مشہور مرثیہ ہے ’’کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے’‘۔ یہ مرثیہ ’’آمد’‘ سے شروع ہوتا ہے۔

چہرہ
مرچیہ کی تمہید کو کہتے ہیں جس میں شاعر حمد، نعت، منقبت حضرت علی و امام حسین کے علاوہ مکہ سے سفر، سفر کے پرخطر حالات، گرمی کا موسم، صبح کا موسم بیان کرتا یا پھر اپنی شاعرانہ عظمت، قادر الکلامی، ثنا خوان حسین ہونے پر فخر کا اظہار کرتا ہے۔ کبھی پیاس کی کیفیت کی بیان کرتا ہے۔ عموماً موسم کے بیان میں گرمی کی شدت، صبح کا منظر، چڑیوں کی چہچہاہٹ، شبنم کا پھولوں پر گہرا آبدار بن کر چمکنا وغیرہ قسم کے مناظر تشبیہہ و استعارے اور صنائع بدائع کی زرتابی کے ساتھ قلم بند کرتے ہیں۔ انیس کے ایک مشہور مرثیے میں صبح کا منظر اس طرح بیان کیا گیا ہے :

وہ دشت، وہ نسیم کے جھونکے، وہ سبزہ زار
پھولوں پہ جا بہ جا وہ گہر ہائے آبدار

سراپا(ظاہری شخصیت)

عموماً یہ ایک طرح سے انصار حسینی کا تعارف ہوتا ہے۔ کبھی کبھی لشکر یزید کے ساتھیوں کا بھی سراپا لکھا گیا ہے۔ سراپا لکھنے میں شاعر اپنا زور قلم صرف کر دیتا ہے، جس سے شاعر کی اپنی محبت و عقیدت کا بھرپور اظہار ہوتا ہے تو دوسری طرف باطل یعنی یزیدیوں سے تنفر کا احساس ہوتا ہے۔ سراپا بیان کرتے وقت تشبیہات و استعارات سے مدد لی جاتی ہے۔ صنائع بدائع کے خزانے لٹا دئیے جاتے ہیں۔ دبیر نے ایک مرثیے میں بالکلیہ ہی علیحدہ انداز میں تصویر کشی کی ہے۔
آئینہ کہا رخ کو تو، کچھ بھی نہ ثنا کی
صنعت وہ سکندر کی، یہ صنعت ہے خدا کی

رخصت

میدان جنگ میں جانے کے لئے خیمہ حسین سے ایک بعد دیگرے جانباز، سر پر کفن باندھ کر نکلتے ہیں تو خیمے میں مکیں ، متعلقین اور مستورات انہیں بہ دل بریاں ، بہ چشم گریاں ، بہ لب لرزاں مگر بھرپور قوت ایمانی کے ساتھ رخصت کرتے ہیں۔ اہل خیمہ کو یقین ہے کہ یہ اب زندہ واپس نہیں آئیں گے۔ اس موقع پر وداع کرنے والے عزیزوں اور پیاروں کے جذبات محبت اور قوت ایمانی کے جو مرقعے مرثیوں میں کھینچے گئے ہیں وہ پڑھنے کے لائق ہیں۔

آمد

میدان جنگ میں آمد کا منظر زیادہ طویل نہیں ہوتا۔ یہ بند رخصت اور رجز سے جڑا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی آمد کے موقع پر گھوڑے کی تعریف بھی کی جاتی ہے۔

رجز

عربوں میں رواج تھا کہ دو حریف جب میدان جنگ میں آمنے سامنے ہوتے تو جنگ شروع ہونے سے قبل ایک دوسرے کو للکارتے، اپنی اور اپنے آبا و اجداد کی شجاعت، طاقت اور خاندانی عظمت، دینداری و قوت ایمانی وغیرہ کا ذکر کرتے تھے، جس میں جوش، غضب اور ولولہ ہوتا تھا۔ اس اظہار کو جو فصاحت و بلاغت کا مرقع ہوتا ہے اصطلاحاً ’ ’رجز’‘ کہتے ہیں۔ سبھی مرثیہ نگاروں نے اس حصے میں بلاغت و فصاحت کے دریا بہا دئیے ہیں۔ انیس کے ایک مرثیے سے رجز کا ایک بند ملاحظہ ہو۔ یہ رجز حضرت امام حسین کی زبانی ہے۔

دنیا ہو اک طرف تو لڑائی کو سر کروں
آئے غضب خدا کا ادھر، رخ جدھر کروں

بے جبرئیل کار قضا و قدر کروں
انگلی کے اک اشارے میں شق القمر کروں

طاقت اگر دکھاؤں ، رسالت مآب(ص) کی
رکھ دوں زمین پہ چیر کے ڈھال آفتاب کی

یہ مرثیے کا نہایت ہی اہم حصہ ہوتا ہے جس میں شاعر میدان جنگ کی تیاری، فوجوں کے ساز و سامان، گھوڑوں کی تعرے، ان کا غیض و غضب، براق کی سی تیز رفتاری، تلواروں کی چمک، نیزوں کی کڑک، سپاہیوں کی پھرتی، بے جگری سے لڑائی، جاں توڑ مقابلہ وغیرہ، ان تمام حالتوں اور کیفیتوں کو بڑی خوبی سے بیان کرتا ہے، جس سے اس کی بلندی خیال اور قوت اظہار کا پتہ چلتا ہے۔ یہ اشعار دیکھئے جن میں میدان جنگ کی تصویر ہو بہو سامنے آ جاتی ہے۔

نیزے ہلے، وہ چل گئیں چوٹیں کہ الاماں
ہر طعن قہر کی تھی، قیامت کی ہر تکاں

شہادت
مرثیوں میں یہ حصہ بھی بڑا جاندار ہوتا ہے کیونکہ اسی بیان پر بین کی شدت کا انحصار ہوتا ہے۔ اس حصے میں فوج حسینی کے شہید کی میدان میں جرأت، بہادری اور فن سپاہ گری کے کمالات بیان کرتے ہوئے زخموں سے چور چور نڈھال ہو کر گر جانے اور شہادت پانے کا ذکر آتا ہے۔ یہ مرثیہ کا بڑا دلدوز حصہ ہوتا ہے۔ حضرت علی اکبر کی شہادت پر امام حسین کا حال زار اور کیفیت انیس اس طرح بیان کرتے ہیں:

حضرت یہ کہتے تھے کہ چلا خلق سے پسر
اتنی زباں ہلی کہ خدا حافظ اے پسر

ہچکی جو آئی، تھام لیا ہاتھ سے جگر
انگڑائی لے کے رکھ دیا شہ کے قدم پہ سر

آباد گھر لٹا شہ والا کے سامنے
بیٹے کا دم نکل گیا بابا کے سامنے

بین

مرثیہ کا آخری جزو بین ہوتا ہے، جس میں مجاہد کی شہادت اور لاش کو خیمے میں لانے، خواتین کے رنج و الم اور بین و بکا کے جذبات کی عکاسی کی جاتی ہے۔ یہی دراصل مرثیے کا مقصد و منشاء ہوتا ہے۔ شاعر کا کمال یہ ہے کہ اس حصے کو اتنا پر اثر اور جاندار بنا دے کہ مجلس برپا ہو جائے۔

کہین کو مرثیہ شہدائے کربلا اور واقعات کربلا کے حالات بیان کرنے لکھا جاتا ہے، لیکن مرثیہ گو کی شان تخلیق اور قوت اظہار سے مرثیہ ایک ادبی شہکار بن جاتا ہے۔ اس ادبی شہکار میں وحدت میں کثرت کے جلوے نظر آتے ہیں۔ اس میں قصیدے کی شان و شکوہ، جلالت و بلاغت ہوتی ہے۔ مثنوی کی سادگی و سلاست اور قصہ پن، منظر نگاری، جذبات نگاری، کردار نگاری، مکالمہ نگاری، محاکات کے جاندار وسیع و ہمہ گیر مرقعے نظر آتے ہیں۔ کردار نگاری میں عموماً انیس نے اس بات کا لحاظ رکھا ہے کہ مکالمے کردار سے مطابقت رکھتے ہوں۔ صغریٰ، سکینہ، عون و محمد بچے ہیں تو وہ بچوں کی سی باتیں کرتے ہیں۔ حضرت عباس غصہ ور جوان ہیں تو وہ جوشیلی گفتگو کرتے ہیں ، عورتیں اپنے لب و لہجے روز مرہ و محاوروں کا استعمال کرتی ہیں۔ مرثیوں سے تشبیہ و استعارے کے خزانے میں بیش بہا اضافہ ہوا ہے۔ زندگی میں بعض مواقع آتے ہیں کہ آدمی کی قوت گویائی ساتھ نہیں دیتی۔ مرثیہ گویوں نے ایسے نازک موقعوں پر الفاظ کے موتی لٹا دئیے ہیں۔ حسن تعلیل کی ایک خوبصورت مثال دیکھئے :

پیاسی جو تھی سپاہ خدا تین رات کی
ساحل سے سر پٹکتی تھیں موجیں فرات کی

پیکر تراشی
مرثیوں کی دنیا میں جہاں پیکر تراشی بھی ہے صورت گری بھی ہے، بلندی تخیل بھی ہے اور اس کا اعلان بھی ہے کہ لفظ کا جادو بے جان اشیاء کو پیکر عطا کرتا ہے اور انہیں متحرک بنا دیتا ہے۔ صناعی، خیال کو حُسن عطا کرتی ہے اور وہ مذہب کلامی، تشبیہ، استعارہ، کنایہ اور تجینس کے تمام اقسام اور مروجہ لفظی اور معنوی صنعتیں مراثی میں ملتی ہیں جو ان کی تخلیق و تزئین میں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں۔

آخری پہلو یہ بھی قابل غور ہے کہ یہ عالمی ادب میں واحد صنف ہے جہاں موضوعات مذہب کا رنگ لئے ہوئے ہیں مگر دوسرے مذہب کے ماننے والے صنف مرثیہ سے نہ صرف یہ کہ دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ اس صنف میں طبع آزمائی بھی کرتے ہیں۔

اور وہ لوگ جو مذہباً، عقیدتاً مسلمان نہ تھے انہوں نے بھی مرثیے لکھے اور بڑی شان سے لکھے۔ تقریباً پانچ سو مرثیہ نگاروں میں سو مرثیہ نگار غیرمسلم ہیں۔ ان میں سیوا، کشن پرشاد شاد، الفت رائے الفت، کنورسین مضطر، مہاراجہ کلیان سنگھ، مکھن لال مکھن، راجہ بلوان سنگھ والی بنارس، روپ کماری، یا منی لال جوان، چھنولال دلگیر اور ڈاکٹر بتھونی لال وحشی مظفر پوری کے نام نامی ہیں۔ صر ف کچھ مثالیں اشارتاً پیش کی جاری ہیں۔ ان کے مرثیوں میں بھی وہ سارے اجزاء موجود ہیں جنہوں نے مرثیہ کو انفرادیت عطا کی ہے مثلاً روپ کماری کہتی ہیں :
ترکیبی منطقی ترتیب متعین کی۔ میر وسودا کے زمانے سے لے کر آج تک دیگر ہیئتوں میں بھی مرثیے لکھے گئے اور ا جزائے ترکیبی کی بھی پابندی میں تھوڑی بہت چھوٹ اختیار کی۔

مرثیے کی مقبولیت کے اسباب میں سب سے زیادہ اہمیت مذہبی جذبات کو حاصل ہے۔ اسی جذبے کی تسکین کے لئے اعلیٰ و ارفع مرثیے لکھے گئے۔ ان مرثیوں میں مذہب کا سہارا لے کر تہذیبی، جمالیاتی، اخلاقی اور ادبی قدروں کو بھی مرثیہ میں شامل کر لیا گیا۔ مرثیوں میں رشتوں کی پاسداری میں تہذیب کے متنوع عوامل شعوری اور غیر شعوری طور پر شامل ہو گئے ہیں۔ مرثیے کو پر اثر مقبول بنانے میں زبان و بیان کی جادوگری تشبیہ و استعارے، صنائع و بدائع کے خزانے لٹا دئیے گئے ہیں۔ مرثیہ نگاروں کی فہرست میں ہزاروں شاعروں کے نام آتے ہیں لیکن جو مقبولیت میر انیس اور مرزا دبیر کو حاصل ہے وہ کسی اور کو نہ مل سکی۔ ان شاعروں کا مشاہدہ تیز ہے، لفظوں کے انتخاب و ترتیب کا ان میں سلیقہ ہے، کلام میں فصاحت بھی ہے اور بلاغت بھی، کردار نگاری میں ان کا جواب نہیں ، جذبات اور مناظر قدرت کی عکاسی میں وہ اپنے جوہر دکھاتے ہیں۔ مرثیوں کی مقبولیت کا اہم راز یہ بھی ہے کہ اس میں نفسیات انسانی کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ کائنات کا مطالعہ مرثیہ کو وقعت عطا کرتا ہے۔ سیرت و پیکر تراشی سے مرثیوں میں جان پڑ گئی ہے۔ مرثیہ کہنے کو ایک صنف سخن ہے مگر اس میں دیگر اصناف کی بھی جھلکیاں نظر آتی ہیں گویا وحدت میں کثرت کے جلوے نظر آتے ہیں۔


مرثیہ۔ ۔ تعارف

مرثیہ اردو کی ایک مقبول صنف سخن ہے جس کا شمار شاعری کی مقبول و معروف موضوعی اصناف میں ہوتا ہے۔ زمانہ قدیم میں دو بیتی، مربع، مثلث اور مخمس کے فارم میں بھی مرثیے رائج رہے۔ آج بھی غزل کے فارم کو شخصی مرثیوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ مرثیہ کو مسدس کی معروف شکل میں سب سے پہلے سودا نے استعمال کیا۔ انیس اور دبیر کے مرثیوں کی بے پناہ مقبولیت کے سبب مرثیوں کے ساتھ مسدس کی ہیئت مخصوص ہو گئی ہے۔
مرثیہ کے موجودہ اجزائے ترکیبی میر ضمیر نے متعین کئے جن کی پابندی کی جاتی ہے کبھی کبھی ان سے گریز بھی کیا گیا ہے۔ وہ اجزاء یہ ہیں (1) چہرہ (2) سراپا (3) رخصت (4) آمد (5) رجز (6) رزم (7)شہادت اور (8) بین
مرثیہ کی تہذیبی اور تمدنی اہمیت کے علاوہ اس کی ادبی اہمیت سے نکار نہیں کیا جاسکتا۔ مرثیہ کی مقبولیت کا راز جہاں مذہب سے وابستگی ہے وہیں تہذیبی اخلاقی اور ادبی محاسن میں بھی مضمر ہے۔ اس کی مقبولیت کے کئی اسباب ہیں جن میں سے زیادہ موثر اور مقبول عام سبب مرثیہ کی جذباتی اور مذہبی نوعیت ہے۔
مرثیہ کا فن
مسڈس، مرثیے کی انتہائی ترقی یافتہ شکل ہے۔ ابتداء میں مرثیہ دو بیتی، مثلث، مربع اور مخمس میں بھی لکھا گیا۔ سودا نے مرثیہ کو مسدس کی شکل میں روشناس کروایا۔ سودا سے قبل بھی مسدس کے فارم میں مرثیے لکھے گئے
مرثیے کے اجزائے ترکیبی
مرثیہ چونکہ واقعات کربلا پر مبنی ہے اس لئے اس میں واقعات کربلا کی تفصیل بیان ہوتی ہے۔ مثلاً جاں نثار ان حسین اور خانوادہ حسین کی سیر و شخصیت، کردار، جذبات، احساسات، اعزہ سے رخصتی، میدان کار زار میں ان بے سر و ساماں فدائیانِ حسین کی آمد، آلات حرب، جنگ کا منظر، گھوڑوں کی تیزی، تلواروں و نیزوں کی چمک دمک، فرات کے کناروں پر یزیدیوں کے پہرے، پیاسوں کی شہادت اور پھر ان کی زخم خوردہ لاشوں پر بین و بکا وغیرہ۔ ان واقعات و بیانات میں ایک منطقی ربط و تسلسل قائم رکھنے کی خاطر مرثیے کے لئے آٹھ اجزائے ترکیبی وضع کئے گئے :

(1) چہرہ
(2) ماجرا
(3) سراپا
(4) رخصت
(5) آمد
(6) رجز
(7) شہادت
(8) بین

مرثیے میں اجزائے ترکیبی کا یہ تعین استاد دبیر میر ضمیر نے کیا۔ لیکن اس کی پابندی پوری طرح نہیں ہوسکی۔ خود ضمیر اور بعد میں انیس و دبیر کے یہاں بھی اس کی پابندی نہیں ہوسکی۔ مثلاً مرزا سلامت علی دبیر کا ایک مشہور مرثیہ ہے ’’کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے’‘۔ یہ مرثیہ ’’آمد’‘ سے شروع ہوتا ہے۔

چہرہ
مرچیہ کی تمہید کو کہتے ہیں جس میں شاعر حمد، نعت، منقبت حضرت علی و امام حسین کے علاوہ مکہ سے سفر، سفر کے پرخطر حالات، گرمی کا موسم، صبح کا موسم بیان کرتا یا پھر اپنی شاعرانہ عظمت، قادر الکلامی، ثنا خوان حسین ہونے پر فخر کا اظہار کرتا ہے۔ کبھی پیاس کی کیفیت کی بیان کرتا ہے۔ عموماً موسم کے بیان میں گرمی کی شدت، صبح کا منظر، چڑیوں کی چہچہاہٹ، شبنم کا پھولوں پر گہرا آبدار بن کر چمکنا وغیرہ قسم کے مناظر تشبیہہ و استعارے اور صنائع بدائع کی زرتابی کے ساتھ قلم بند کرتے ہیں۔ انیس کے ایک مشہور مرثیے میں صبح کا منظر اس طرح بیان کیا گیا ہے :

وہ دشت، وہ نسیم کے جھونکے، وہ سبزہ زار
پھولوں پہ جا بہ جا وہ گہر ہائے آبدار

سراپا(ظاہری شخصیت)

عموماً یہ ایک طرح سے انصار حسینی کا تعارف ہوتا ہے۔ کبھی کبھی لشکر یزید کے ساتھیوں کا بھی سراپا لکھا گیا ہے۔ سراپا لکھنے میں شاعر اپنا زور قلم صرف کر دیتا ہے، جس سے شاعر کی اپنی محبت و عقیدت کا بھرپور اظہار ہوتا ہے تو دوسری طرف باطل یعنی یزیدیوں سے تنفر کا احساس ہوتا ہے۔ سراپا بیان کرتے وقت تشبیہات و استعارات سے مدد لی جاتی ہے۔ صنائع بدائع کے خزانے لٹا دئیے جاتے ہیں۔ دبیر نے ایک مرثیے میں بالکلیہ ہی علیحدہ انداز میں تصویر کشی کی ہے۔
آئینہ کہا رخ کو تو، کچھ بھی نہ ثنا کی
صنعت وہ سکندر کی، یہ صنعت ہے خدا کی

رخصت

میدان جنگ میں جانے کے لئے خیمہ حسین سے ایک بعد دیگرے جانباز، سر پر کفن باندھ کر نکلتے ہیں تو خیمے میں مکیں ، متعلقین اور مستورات انہیں بہ دل بریاں ، بہ چشم گریاں ، بہ لب لرزاں مگر بھرپور قوت ایمانی کے ساتھ رخصت کرتے ہیں۔ اہل خیمہ کو یقین ہے کہ یہ اب زندہ واپس نہیں آئیں گے۔ اس موقع پر وداع کرنے والے عزیزوں اور پیاروں کے جذبات محبت اور قوت ایمانی کے جو مرقعے مرثیوں میں کھینچے گئے ہیں وہ پڑھنے کے لائق ہیں۔

آمد

میدان جنگ میں آمد کا منظر زیادہ طویل نہیں ہوتا۔ یہ بند رخصت اور رجز سے جڑا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی آمد کے موقع پر گھوڑے کی تعریف بھی کی جاتی ہے۔

رجز

عربوں میں رواج تھا کہ دو حریف جب میدان جنگ میں آمنے سامنے ہوتے تو جنگ شروع ہونے سے قبل ایک دوسرے کو للکارتے، اپنی اور اپنے آبا و اجداد کی شجاعت، طاقت اور خاندانی عظمت، دینداری و قوت ایمانی وغیرہ کا ذکر کرتے تھے، جس میں جوش، غضب اور ولولہ ہوتا تھا۔ اس اظہار کو جو فصاحت و بلاغت کا مرقع ہوتا ہے اصطلاحاً ’ ’رجز’‘ کہتے ہیں۔ سبھی مرثیہ نگاروں نے اس حصے میں بلاغت و فصاحت کے دریا بہا دئیے ہیں۔ انیس کے ایک مرثیے سے رجز کا ایک بند ملاحظہ ہو۔ یہ رجز حضرت امام حسین کی زبانی ہے۔

دنیا ہو اک طرف تو لڑائی کو سر کروں
آئے غضب خدا کا ادھر، رخ جدھر کروں

بے جبرئیل کار قضا و قدر کروں
انگلی کے اک اشارے میں شق القمر کروں

طاقت اگر دکھاؤں ، رسالت مآب(ص) کی
رکھ دوں زمین پہ چیر کے ڈھال آفتاب کی

یہ مرثیے کا نہایت ہی اہم حصہ ہوتا ہے جس میں شاعر میدان جنگ کی تیاری، فوجوں کے ساز و سامان، گھوڑوں کی تعرے، ان کا غیض و غضب، براق کی سی تیز رفتاری، تلواروں کی چمک، نیزوں کی کڑک، سپاہیوں کی پھرتی، بے جگری سے لڑائی، جاں توڑ مقابلہ وغیرہ، ان تمام حالتوں اور کیفیتوں کو بڑی خوبی سے بیان کرتا ہے، جس سے اس کی بلندی خیال اور قوت اظہار کا پتہ چلتا ہے۔ یہ اشعار دیکھئے جن میں میدان جنگ کی تصویر ہو بہو سامنے آ جاتی ہے۔

نیزے ہلے، وہ چل گئیں چوٹیں کہ الاماں
ہر طعن قہر کی تھی، قیامت کی ہر تکاں

شہادت
مرثیوں میں یہ حصہ بھی بڑا جاندار ہوتا ہے کیونکہ اسی بیان پر بین کی شدت کا انحصار ہوتا ہے۔ اس حصے میں فوج حسینی کے شہید کی میدان میں جرأت، بہادری اور فن سپاہ گری کے کمالات بیان کرتے ہوئے زخموں سے چور چور نڈھال ہو کر گر جانے اور شہادت پانے کا ذکر آتا ہے۔ یہ مرثیہ کا بڑا دلدوز حصہ ہوتا ہے۔ حضرت علی اکبر کی شہادت پر امام حسین کا حال زار اور کیفیت انیس اس طرح بیان کرتے ہیں:

حضرت یہ کہتے تھے کہ چلا خلق سے پسر
اتنی زباں ہلی کہ خدا حافظ اے پسر

ہچکی جو آئی، تھام لیا ہاتھ سے جگر
انگڑائی لے کے رکھ دیا شہ کے قدم پہ سر

آباد گھر لٹا شہ والا کے سامنے
بیٹے کا دم نکل گیا بابا کے سامنے

بین

مرثیہ کا آخری جزو بین ہوتا ہے، جس میں مجاہد کی شہادت اور لاش کو خیمے میں لانے، خواتین کے رنج و الم اور بین و بکا کے جذبات کی عکاسی کی جاتی ہے۔ یہی دراصل مرثیے کا مقصد و منشاء ہوتا ہے۔ شاعر کا کمال یہ ہے کہ اس حصے کو اتنا پر اثر اور جاندار بنا دے کہ مجلس برپا ہو جائے۔

کہین کو مرثیہ شہدائے کربلا اور واقعات کربلا کے حالات بیان کرنے لکھا جاتا ہے، لیکن مرثیہ گو کی شان تخلیق اور قوت اظہار سے مرثیہ ایک ادبی شہکار بن جاتا ہے۔ اس ادبی شہکار میں وحدت میں کثرت کے جلوے نظر آتے ہیں۔ اس میں قصیدے کی شان و شکوہ، جلالت و بلاغت ہوتی ہے۔ مثنوی کی سادگی و سلاست اور قصہ پن، منظر نگاری، جذبات نگاری، کردار نگاری، مکالمہ نگاری، محاکات کے جاندار وسیع و ہمہ گیر مرقعے نظر آتے ہیں۔ کردار نگاری میں عموماً انیس نے اس بات کا لحاظ رکھا ہے کہ مکالمے کردار سے مطابقت رکھتے ہوں۔ صغریٰ، سکینہ، عون و محمد بچے ہیں تو وہ بچوں کی سی باتیں کرتے ہیں۔ حضرت عباس غصہ ور جوان ہیں تو وہ جوشیلی گفتگو کرتے ہیں ، عورتیں اپنے لب و لہجے روز مرہ و محاوروں کا استعمال کرتی ہیں۔ مرثیوں سے تشبیہ و استعارے کے خزانے میں بیش بہا اضافہ ہوا ہے۔ زندگی میں بعض مواقع آتے ہیں کہ آدمی کی قوت گویائی ساتھ نہیں دیتی۔ مرثیہ گویوں نے ایسے نازک موقعوں پر الفاظ کے موتی لٹا دئیے ہیں۔ حسن تعلیل کی ایک خوبصورت مثال دیکھئے :

پیاسی جو تھی سپاہ خدا تین رات کی
ساحل سے سر پٹکتی تھیں موجیں فرات کی

پیکر تراشی
مرثیوں کی دنیا میں جہاں پیکر تراشی بھی ہے صورت گری بھی ہے، بلندی تخیل بھی ہے اور اس کا اعلان بھی ہے کہ لفظ کا جادو بے جان اشیاء کو پیکر عطا کرتا ہے اور انہیں متحرک بنا دیتا ہے۔ صناعی، خیال کو حُسن عطا کرتی ہے اور وہ مذہب کلامی، تشبیہ، استعارہ، کنایہ اور تجینس کے تمام اقسام اور مروجہ لفظی اور معنوی صنعتیں مراثی میں ملتی ہیں جو ان کی تخلیق و تزئین میں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں۔

آخری پہلو یہ بھی قابل غور ہے کہ یہ عالمی ادب میں واحد صنف ہے جہاں موضوعات مذہب کا رنگ لئے ہوئے ہیں مگر دوسرے مذہب کے ماننے والے صنف مرثیہ سے نہ صرف یہ کہ دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ اس صنف میں طبع آزمائی بھی کرتے ہیں۔

اور وہ لوگ جو مذہباً، عقیدتاً مسلمان نہ تھے انہوں نے بھی مرثیے لکھے اور بڑی شان سے لکھے۔ تقریباً پانچ سو مرثیہ نگاروں میں سو مرثیہ نگار غیرمسلم ہیں۔ ان میں سیوا، کشن پرشاد شاد، الفت رائے الفت، کنورسین مضطر، مہاراجہ کلیان سنگھ، مکھن لال مکھن، راجہ بلوان سنگھ والی بنارس، روپ کماری، یا منی لال جوان، چھنولال دلگیر اور ڈاکٹر بتھونی لال وحشی مظفر پوری کے نام نامی ہیں۔ صر ف کچھ مثالیں اشارتاً پیش کی جاری ہیں۔ ان کے مرثیوں میں بھی وہ سارے اجزاء موجود ہیں جنہوں نے مرثیہ کو انفرادیت عطا کی ہے مثلاً روپ کماری کہتی ہیں :
ترکیبی منطقی ترتیب متعین کی۔ میر وسودا کے زمانے سے لے کر آج تک دیگر ہیئتوں میں بھی مرثیے لکھے گئے اور ا جزائے ترکیبی کی بھی پابندی میں تھوڑی بہت چھوٹ اختیار کی۔

مرثیے کی مقبولیت کے اسباب میں سب سے زیادہ اہمیت مذہبی جذبات کو حاصل ہے۔ اسی جذبے کی تسکین کے لئے اعلیٰ و ارفع مرثیے لکھے گئے۔ ان مرثیوں میں مذہب کا سہارا لے کر تہذیبی، جمالیاتی، اخلاقی اور ادبی قدروں کو بھی مرثیہ میں شامل کر لیا گیا۔ مرثیوں میں رشتوں کی پاسداری میں تہذیب کے متنوع عوامل شعوری اور غیر شعوری طور پر شامل ہو گئے ہیں۔ مرثیے کو پر اثر مقبول بنانے میں زبان و بیان کی جادوگری تشبیہ و استعارے، صنائع و بدائع کے خزانے لٹا دئیے گئے ہیں۔ مرثیہ نگاروں کی فہرست میں ہزاروں شاعروں کے نام آتے ہیں لیکن جو مقبولیت میر انیس اور مرزا دبیر کو حاصل ہے وہ کسی اور کو نہ مل سکی۔ ان شاعروں کا مشاہدہ تیز ہے، لفظوں کے انتخاب و ترتیب کا ان میں سلیقہ ہے، کلام میں فصاحت بھی ہے اور بلاغت بھی، کردار نگاری میں ان کا جواب نہیں ، جذبات اور مناظر قدرت کی عکاسی میں وہ اپنے جوہر دکھاتے ہیں۔ مرثیوں کی مقبولیت کا اہم راز یہ بھی ہے کہ اس میں نفسیات انسانی کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ کائنات کا مطالعہ مرثیہ کو وقعت عطا کرتا ہے۔ سیرت و پیکر تراشی سے مرثیوں میں جان پڑ گئی ہے۔ مرثیہ کہنے کو ایک صنف سخن ہے مگر اس میں دیگر اصناف کی بھی جھلکیاں نظر آتی ہیں گویا وحدت میں کثرت کے جلوے نظر آت