Friday, 12 December 2014


میاں خوجی کا جھانسا دینا 'رتن ناتھ سرشار کے ناول افسانہ آزاد سے اقتباس ہے
یہ سرشار کا سب سے اہم مشہور اور شاہکار ناول ہے۔ اس کی تصویر لکھنؤ کے سماجی پس منظر میں ابھرتی ہیں۔ وہ ان تصویروں میں رنگ بھرنے کے لئے لکھنؤ کی سماجی زندگی کی رنگینیوں سے کام لیتے ہیں۔ لکھنؤ سے شدید وابستگی ہی فسانۂ آزاد کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ سماجی زندگی کے ہمہ گیر پہلوؤں سے اتنا گہرا ربط و ضبط اور رشتہ و تعلق اردو کے کسی اور ناول میں کم ملتا ہے اور یہی خصوصیت اس کو اردو ناولوں کے بجائے ’’جدید داستان‘‘ کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔
’فسانۂ آزاد اگرچہ ایک رومانی داستان ہے اور ایک نہیں بیسوں حسن و عشق کی کہانیاں اس میں موجود ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ ایک مقصدی ناول ہے۔ مصنف کا مقصد اس ناول کو لکھنے سے یہ تھا کہ اپنے زمانے کی معاشرت اور تہذیب کی خامیاں اجاگر کر دے اور لوگوں کو نئے زمانے کے تقاضوں سے آگاہ اور نئی چیزوں سے روشناس کرائے۔ اس لیے اسے ایک اصلاحی معاشرتی ناول کہنا بے جا نہ ہو گا۔
اعتراضات کی بھر مار کے باوجود سرشار کی فسانہ آزاد کی اہمیت کو کوئی کم نہیں کر سکا ۔ یہی کتاب دراصل اپنے اصل معنوں میں ناول کے ليے سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ سرشار نے مکمل طور پر اپنے معاشرے کی بھر پور عکاسی کی ہے۔ اور اردو ادب کو ایک عظیم اور خوبصورت کردار خوجی سے بھی نوازا ہے۔ اسلوب اور زبان بیان کے حوالے سے بھی انھوں نے اپنی انفرادیت کو برقرار رکھا ہے بقول شوکت سبزواری: ” سرشار زندگی کے مصور نہیں نقاد ہیں، ان کی مصوری تخلیق حیات نہیں ، تنقید حیات ہے۔
پلاٹ
۔۔۔۔۔۔۔
قصہ یوں ہے کہ ایک جوان رعنا آزاد ایک پڑھی لکھی اور اونچے خاندان کی خاتون حسن آرا کی جھلک دیکھتے ہی اس پر ہزار جان سے فریفتہ ہو جاتے ہیں۔ حسن آرا بیگم شادی کے لیے یہ شرط لگاتی ہیں کہ وہ جنگ روم وروس میں شریک ہوں۔ آزاد یہ شرط بوجہ احسن پوری کرتے ہیں۔ اور حسن آرا اپنا وعدہ پورا کرتی ہیں۔ بقول علی عباس حسینی۔ ؂
اتنی سی بات تھی جسے افسانہ کر دیا

پنڈت رتن ناتھ سرشار 1846ء میں لکھنو میں ایک کشمیری گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابھی چار سال کے تھے کہ باپ کا انتقال ہوگیا۔ لکھنو ہی میں تعلیم حاصل کی اور عربی، فارسی اور انگریزی سے واقفیت حاصل کی۔ ایک سکول میں مدرسی کی خدمات پر مامور ہوئے اور (اودھ اخبار) اور (مرسلہ کشمیری) میں مضامین لکھنے لگے۔ اپنی خداداد قابلیت کی وجہ سے جلد ہی شہرت حاصل کرلی۔ اور 1878ء میں انہیں (اودھ اخبار) کا ایڈیٹر مقرر کر دیا گیا۔ فسانہ آزاد لکھنے کا سلسلہ یہیں سے شروع ہو۔ کچھ عرصہ تک الہ آباد ہائی کورٹ میں مترجم کی حیثیت سے کام کیا۔ 1895ء میں حیدر آباد چلے آئے۔ مہاراجہ کشن پرساد نے دو سو روپے وظیفہ مقرر کیا اسی دوران اخبار (دبدبہ آصفیہ) کی ادارت کرتے رہے ۔ آخر عمر میں شغل شراب نوشی حد سے بڑھ گیا چنانچہ اس عادت نے صحت پر برا اثر ڈالا اور 1903ء میں وفات پاگئے۔ مشہور تصانیف یہ ہیں۔ سیر کوہسار، جام سرشار، کامنی، خدائی فوجدار، فسانہ آزاد۔
خوجی کا کردار

خوجی کا کردار[ترمیم]
خوجی کا پورا نام بدیع الزما ن ہے۔ فسانہ آزاد کے اگرچہ بعض دیگر کردار بھی مزاحیہ ہیں۔ لیکن ان سب سے خوجی کا کردار زیادہ مزاحیہ اور جاندار ہے۔ یہ کردار پورے ناو ل پر چھایا ہوا ہے۔ اور قارئین اسی کی بدولت ناول میں دلچسپی لیتے ہیں۔ یہ کردار ناول کے ہیرو کے کردار سے زیادہ متحرک اور دلچسپ ہے۔ بقول ناقدین، ” فسانہ آزاد کہانی تو آزاد کی ہے مگر اس کا ہیرو خوجی معلوم ہوتا ہے۔“

خوجی میاں آزاد کا ایک بے تکلف دوست ہے۔ وہ کوتاہ قد ، کوتاہ گردن ، منحنی سا، تنگ پیشانی والا دبلا پتلا شخص ہے۔ داڑھی اس کی بکرے کی طرح لمبی اور چہرہ صفاچٹ ہے۔ وہ سر پر ترکی ٹوپی پہنے رکھتا ہے۔ وہ ساٹھ برس کی عمر تک پہنچ چکا ہے ،لیکن اس کے باوجود خود کو جوانمرد سمجھتا ہے اور ابھی تک شادی کا خواستگار ہے۔

خود کو حسین و جمیل سمجھنے کی بناءپر وہ تصور کرتا ہے کہ دنیا کی ہر حسین و جمیل عورت اس پر فریفتہ ہو جاتی ہے۔ کبھی وہ مصر کی چھوکریوں کا ذکر کرتا ہے تو کبھی پولینڈ کی شہزادی کا جو اس کے تیئں اس پر عاشق ہو گئی تھی۔ دراصل وہ ہر حسینہ پر لٹو ہو جا تا ہے۔ اس نے کئی حسینائوں سے جوتیاں کھائی ہیں۔خصوصاً سرائے کی بھٹیارن اور بوا زعفران کے ہاتھوں اس کی کئی بار پٹائی ہوئی ہے۔ وہ خود کو طاقتور اور بہادر سمجھتا ہے اس ليے ذرا سی بات پر لڑائی جھگڑے پر اتر آتا ہے۔ اور اکثر مار کھاتا ہے۔ پٹنے سے اسے کوئی عارنہیں۔ اس پست قامت کو سرشار نے مجسم شامت دکھایا ہے۔

خوجی خود کو حسین و جمیل یہاں تک کہ یوسفِ ثانی تصور کرتا ہے۔ شرارت و خباثت اس کی گھٹی میں رچی ہوئی ہے۔ بات بات پر ڈینگیں مارنا اور لاف زنی کرنا اس کا کام ہے۔ وہ افیونی ہے اورافیون کو ”چینا بیگم “ کا نام دیتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ افیون ہر درد کا مداوا ہے اس کی بدولت فکر انسان کے قریب بھی نہیں پھٹکنے پاتی: ”خوجی کو اگر عشق ہے اور والہانہ عشق ہے تو صرف اپنی چینا بیگم سے۔ خواہ وہ لکھنو میں ہو یا بمبئی، ترکی یاجہاز میں اس کی چینا بیگم اس کے ساتھ رہے گی۔“

اندرونی طورپر وہ احساس کمتری کا شکار ہے۔ لیکن بظاہر احساسِ برتری جتاتا نظر آتا ہے۔ وہ بات با ت پر جھگڑا کرنے کا عادی ہے اور ہر جھگڑے کے وقت قرولی نکالنے کی دھمکی دیتاہے۔ خوجی کی ایک کمزوری یہ ہے کہ وہ پانی کے نام سے خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ ایک دفعہ آزاد اسے پانی میں غوطہ لگانے کے ليے کہتا ہے تو خوجی کہتا ہے: ” یوں ہی زہر کی پڑیا دے دو، گلا گھونٹ ڈالو، یہ دل لگی ہمیں پسند نہیں۔

No comments:

Post a Comment