۵۔ سیّد محمد جعفری
کا زمانہ سیاسی مد و جزر، معاشی کساد بازاری اور امن و امان کی ناگفتہ بہ صورتحال کے ساتھ ہندو مسلم فسادات کی اندوہ ناک داستانوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے تھا۔ لا الہ الا اللہ، یو۔ این۔ او، کنونشن مسلم لیگ، الیکشن کا ساقی نامہ، وزیروں کی نماز، کلرک، پرانا کوٹ، ابلیس کی فریاد وغیرہ ان کی اہم نظمیں ہیں۔
قیام پاکستان کے حصول کی سیاسی جدوجہد کے عہد میں سیّد محمد جعفری کی عمر ۴۲ سال تھی اور مسلمانوں کے دلوں میں بسنے والی تمنّاؤں کو انھوں نے بہت قریب سے دیکھا اور محسوس کیا، کیوں کہ یہی آرزوئیں ان کے سینے میں بھی بار آور تھیں۔ ان خوابوں کا خون ہوتے دیکھ کر سیّد محمد جعفری نے طنز و مزاح کا رُخ کیا۔ کئی دیگر موضوعات کے ساتھ وطن کی مٹی کی خوشبو ان کے کلام میں جگہ جگہ محسوس ہوتی ہے۔ مسلم لیگ جس کو سیاستدانوں اور فوجی آمروں نے ہمیشہ یرغمال بنائے رکھا، جب یرغمالی کا ایک نیا رُوپ اختیار کرتی ہے تو جعفری ’’کنونشن مسلم لیگ‘‘ کے عنوان سے پھٹ پڑتے ہیں :
آج کل ہیں حضرتِ ابلیس مسلم لیگ میں
دے رہے ہیں مشورے بے فیس مسلم لیگ میں
ہے علی بابا، الگ چالیس مسلم لیگ میں
توسنِ چالاک کے سائیس مسلم لیگ میں
لیگ کے گھوڑے کو پشتک اور دولتی سے ہے کام
بعد مرگ قائد اعظمؒ ہوا ہے بد کلام
اپنی اپنی ڈفلیاں ہیں اپنے اپنے راگ ہیں
چند ان میں نیولے ہیں ، چند ان میں ناگ ہیں
چند اک ایلسیشن، چند اک بل ڈاگ ہیں
جو مویشی لڑ رہے ہیں ان کے منہ میں جھاگ ہیں
ایسٹ پاکستان ہے اور ویسٹ پاکستان ہے
قوم زندہ ہے مگر اس کے لبوں پر جان ہے
سیّد محمد جعفری نے طنز و مزاح کو پھکڑ پن سے صاف کر کے ایک منفرد تخلیقی لہجہ عطا کیا اور جدید دور کی طنزیہ شاعری کے صفِ اوّل کے معماروں میں شمار ہوئے۔ ان کی طنزیہ شاعری کے نشتروں پر انور مسعود کا تبصرہ ملاحظہ ہو:
’’۔ ۔ ۔ سیّد محمد جعفری اپنے وطن کے سیاستدانوں کی نیتوں سے بخوبی واقف تھے، پاکستانی معاشرے میں پھیلی ہوئی ہوس کیشی، چور بازاری، دفتری کار گزاری اور ریا کاری کو بھی وہ خوب جانتے تھے۔ الیکشن کے ڈراموں کے بھی بڑے باریک بیں ناظر تھے۔ عالمی سیاست کے افق پر مغربی ممالک کی فتنہ پردازیوں کا بھی بھرپور ادراک رکھتے تھے اور ایشیائی ممالک میں برطانیہ اور امریکہ کی شر انگیزیوں اور ریشہ دوانیوں سے پوری طرح آگاہ تھے۔ اس آزارِ آگہی کو انھوں نے طنز و مزاح کا روپ دے کر اس طرح اپنا موضوع بنایا کہ ہمیں اپنے سامنے لا کھڑا کیا اور عالمی استعمار گروں کو بھی آئینہ دکھایا۔ ۔ ۔ ‘‘ [۱۹]
سیّد محمد جعفری تضمین کے ماہر تھے اس ضمن میں انھوں نے غالب و اقبال سے بھرپور استفادہ کیا۔ جعفری بنیادی طور پر طناز تھے اس لیے ان کے کلام میں اکثر مقامات پر مزاح کے ساتھ طنز کی نشتریت نمایاں ہے۔ ذیل کی نظموں میں اس کے نمونے دیکھیے:
لا الہ الا اللہ
زباں سے کہتا ہوں ہاں لا ا لہ الا اللہ
نہیں عمل سے عیاں لا الہ الا اللہ
الاٹ منٹ ہیں یاروں کی آستینوں میں
’’نہ ہے زمیں نہ مکاں لا الہ الا اللہ‘‘
مدیر و پیر و وزیر و سفیر و شیخ و کبیر
’’بتانِ وہم و گماں لا الہ الا اللہ‘‘
نمازی آئیں نہ آئیں اذان تو دے دوں
’’مجھے ہے حکمِ اذاں لا الہ الا اللہ‘‘
جو مولوی ہیں وہ کھاتے ہیں رات دن حلوے
’’بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا اللہ‘‘
وزیروں کی نماز
عید الاضحی کی نماز اور وہ انبوہ کثیر
جبکہ اللہ کے دربار میں تھے پاک وزیر
وہ مصلوں پہ مسلط تھے بہ حسن تقدیر
تھے ریزرو ان کے مصلّے، یہ مساوات کبیر
آج کل یہ ہے نماز اور کبھی وہ تھی نماز
’’ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمودو ایاز‘‘
پہلی صف میں وہ کھڑے تھے کہ جو تھے بندہ نواز
جیسے ایک رِند خرابات ہو ملّاؤں میں
آ کے بیٹھے بھی نہ تھے وہ کہ نکالے گئے
جیب کتری گئی ان کی یہ صلہ لے بھی گئے
کا زمانہ سیاسی مد و جزر، معاشی کساد بازاری اور امن و امان کی ناگفتہ بہ صورتحال کے ساتھ ہندو مسلم فسادات کی اندوہ ناک داستانوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے تھا۔ لا الہ الا اللہ، یو۔ این۔ او، کنونشن مسلم لیگ، الیکشن کا ساقی نامہ، وزیروں کی نماز، کلرک، پرانا کوٹ، ابلیس کی فریاد وغیرہ ان کی اہم نظمیں ہیں۔
قیام پاکستان کے حصول کی سیاسی جدوجہد کے عہد میں سیّد محمد جعفری کی عمر ۴۲ سال تھی اور مسلمانوں کے دلوں میں بسنے والی تمنّاؤں کو انھوں نے بہت قریب سے دیکھا اور محسوس کیا، کیوں کہ یہی آرزوئیں ان کے سینے میں بھی بار آور تھیں۔ ان خوابوں کا خون ہوتے دیکھ کر سیّد محمد جعفری نے طنز و مزاح کا رُخ کیا۔ کئی دیگر موضوعات کے ساتھ وطن کی مٹی کی خوشبو ان کے کلام میں جگہ جگہ محسوس ہوتی ہے۔ مسلم لیگ جس کو سیاستدانوں اور فوجی آمروں نے ہمیشہ یرغمال بنائے رکھا، جب یرغمالی کا ایک نیا رُوپ اختیار کرتی ہے تو جعفری ’’کنونشن مسلم لیگ‘‘ کے عنوان سے پھٹ پڑتے ہیں :
آج کل ہیں حضرتِ ابلیس مسلم لیگ میں
دے رہے ہیں مشورے بے فیس مسلم لیگ میں
ہے علی بابا، الگ چالیس مسلم لیگ میں
توسنِ چالاک کے سائیس مسلم لیگ میں
لیگ کے گھوڑے کو پشتک اور دولتی سے ہے کام
بعد مرگ قائد اعظمؒ ہوا ہے بد کلام
اپنی اپنی ڈفلیاں ہیں اپنے اپنے راگ ہیں
چند ان میں نیولے ہیں ، چند ان میں ناگ ہیں
چند اک ایلسیشن، چند اک بل ڈاگ ہیں
جو مویشی لڑ رہے ہیں ان کے منہ میں جھاگ ہیں
ایسٹ پاکستان ہے اور ویسٹ پاکستان ہے
قوم زندہ ہے مگر اس کے لبوں پر جان ہے
سیّد محمد جعفری نے طنز و مزاح کو پھکڑ پن سے صاف کر کے ایک منفرد تخلیقی لہجہ عطا کیا اور جدید دور کی طنزیہ شاعری کے صفِ اوّل کے معماروں میں شمار ہوئے۔ ان کی طنزیہ شاعری کے نشتروں پر انور مسعود کا تبصرہ ملاحظہ ہو:
’’۔ ۔ ۔ سیّد محمد جعفری اپنے وطن کے سیاستدانوں کی نیتوں سے بخوبی واقف تھے، پاکستانی معاشرے میں پھیلی ہوئی ہوس کیشی، چور بازاری، دفتری کار گزاری اور ریا کاری کو بھی وہ خوب جانتے تھے۔ الیکشن کے ڈراموں کے بھی بڑے باریک بیں ناظر تھے۔ عالمی سیاست کے افق پر مغربی ممالک کی فتنہ پردازیوں کا بھی بھرپور ادراک رکھتے تھے اور ایشیائی ممالک میں برطانیہ اور امریکہ کی شر انگیزیوں اور ریشہ دوانیوں سے پوری طرح آگاہ تھے۔ اس آزارِ آگہی کو انھوں نے طنز و مزاح کا روپ دے کر اس طرح اپنا موضوع بنایا کہ ہمیں اپنے سامنے لا کھڑا کیا اور عالمی استعمار گروں کو بھی آئینہ دکھایا۔ ۔ ۔ ‘‘ [۱۹]
سیّد محمد جعفری تضمین کے ماہر تھے اس ضمن میں انھوں نے غالب و اقبال سے بھرپور استفادہ کیا۔ جعفری بنیادی طور پر طناز تھے اس لیے ان کے کلام میں اکثر مقامات پر مزاح کے ساتھ طنز کی نشتریت نمایاں ہے۔ ذیل کی نظموں میں اس کے نمونے دیکھیے:
لا الہ الا اللہ
زباں سے کہتا ہوں ہاں لا ا لہ الا اللہ
نہیں عمل سے عیاں لا الہ الا اللہ
الاٹ منٹ ہیں یاروں کی آستینوں میں
’’نہ ہے زمیں نہ مکاں لا الہ الا اللہ‘‘
مدیر و پیر و وزیر و سفیر و شیخ و کبیر
’’بتانِ وہم و گماں لا الہ الا اللہ‘‘
نمازی آئیں نہ آئیں اذان تو دے دوں
’’مجھے ہے حکمِ اذاں لا الہ الا اللہ‘‘
جو مولوی ہیں وہ کھاتے ہیں رات دن حلوے
’’بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا اللہ‘‘
وزیروں کی نماز
عید الاضحی کی نماز اور وہ انبوہ کثیر
جبکہ اللہ کے دربار میں تھے پاک وزیر
وہ مصلوں پہ مسلط تھے بہ حسن تقدیر
تھے ریزرو ان کے مصلّے، یہ مساوات کبیر
آج کل یہ ہے نماز اور کبھی وہ تھی نماز
’’ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمودو ایاز‘‘
پہلی صف میں وہ کھڑے تھے کہ جو تھے بندہ نواز
جیسے ایک رِند خرابات ہو ملّاؤں میں
آ کے بیٹھے بھی نہ تھے وہ کہ نکالے گئے
جیب کتری گئی ان کی یہ صلہ لے بھی گئے
No comments:
Post a Comment