Friday, 12 December 2014
سحرالبیان کا پلاٹ:۔
جہاں تک اس مثنوی کے پلاٹ کا تعلق ہے ، اس میں کوئی نیا پن نہیں اس کہانی کے اجزا ءمختلف منشور اور منظوم ، قدیم داستانوں میں بکھرے پڑے ہیں اور اس کی کہانی سیدھے سادھے انداز میں یوں ہے،
کسی ملک میں ایک بادشاہ تھا جو اپنی منصف مزاجی کی وجہ سے رعایا میں ہر دلعزیز تھا ۔ بادشاہ کو تمام نعمتیں میسر تھیں مگر اولاد جیسی نعمت سے محرومی اس کی زندگی کی سب سے بڑی محرومی تھی۔ اس محرومی و مایوسی کے عالم میں بادشاہ دنیا ترک کر دینے کا ارادہ کر لیتا ہے۔ وزیروں کے مشورے پر وہ سردست اس فیصلے پر عمل درآمد روک دیتا ہے۔ شاہی نجومی بادشاہ کے ہاں چاند سے بچے کی پیدائش کی خوشخبری دیتے ہیں ۔ لیکن اس کی سلامتی و زندگی میں چند خطروں کی نشان دہی کرتے ہوئے اس احتیاط کی تلقین کرتے ہیں کہ بارہ سال کی عمر تک اسے محل کے اندر رکھا جائے اور رات کھلے آسما ن تلے سونے نہ دیا جائے کچھ عرصے بعد واقعی بادشاہ کے ہاں لڑکا پیدا ہوتا ہے۔ اس کا نام اس کی خوبصورتی اور مردانہ وجاہت کے پیش نظر ” بے نظیر “ رکھا جاتا ہے۔ تمام شاہی تکلفات اور ناز و نعم کے ساتھ ۱۲ سال تک اسے محل کے اندر رکھا جاتا ہے۔ مگر سال کے آخری دن جب اس کی عمر بادشاہ کے حساب سے پورے بارہ سال ہوگئی تھی (حالانکہ اتفاق سے ایک دن کم تھا) وہ رات کو ضد کرکے چھت پر سو جاتا ہے ۔ آدھی رات کے قریب ماہ رخ پری کا گزر وہاں سے ہوا ۔ اسے سوتے میں دیکھ کر اس پر عاشق ہوئی۔ او ر اپنے ساتھ پرستان میں لے گئی۔ شہزادے کی گم شدگی پر صبح محل میں قیامت کا منظر پربا ہو جاتا ہے۔ بڑی تلاش کی گئی مگر شہزادے کو نہ ملنا تھا نہ ملا۔ ماہ رخ پری طرح طرح سے شہزادے کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ شہزادہ اپنی صغر سنی کے باعث اداس ، ملول اور پریشان رہتا ہے۔ اس پریشانی کو دور کرنے کے لئے ماہ رخ پری اسے کل کا گھوڑا دیتی ہے۔ اس گھوڑے پر سیر کرتا پھرتا شہزادہ ”بدر منیر شہزادی “ کے باغ میں اترتا ہے دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر عاشق ہوجاتے ہیں اچانک ایک دن ایک دیوان دونوں کووصل کی حالت میں دیکھ لیتا ہے۔ اس کی اطلا ع ما ہ رخ پری کو ہوتی ہے تو وہ انتہائی غضبناک ہو کر شہزادے کو واپس آنے پر کوہ قاف کے اندھے کنوئیں میں ڈلوا دیتی ہے ۔ بد منیر کا عجیب حال ہے اس کی راز دار سہیلی وزیر زاد ی نجم النساءبے نظیر کی تلاش میں نکلتی ہے۔ اور آخر کار بڑی مشکلوں سے جنوں کے بادشاہ کے بیٹے فیروز شاہ کی مدد سے بے نظیر کو رہائی دلاتی ہے۔ دونوں کی شادی وہ جاتی ہے خود نجم النساءفیروز شاہ کے ساتھ بیاہ کر لیتی ہے۔ اور یوں یہ مثنوی طرب ناک انجام کو پہنچتی ہے۔
ڈاکٹر وحید قریشی پلاٹ کا تجزیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ،
” فنی لحاظ سے ”سحرالبیان“ کا جائزہ لیا جائے تو اس ضمن میں میر حسن کی ذہانت ، پلاٹ کی تشکیل میں بروئے کار نظرآتی ہے ”سحرالبیان“ اردو کے چند عظیم مثنویوں میں سے ہے اس میں اگرچہ محدود زندگی کی تصویر کشی کی گئی ہے لیکن اپنی محدودیت کے باوجود میر حسن نے جس زندگی کو پیش کیا ہے وہ ہمارے لئے دلچسپی کا وافر سامان مہیا کرتی ہے۔ مثنوی کی شہرت اور مقبولیت کا راز میر حسن کی اعلیٰ صلاحیت میں مضمر ہے۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment