Friday, 12 December 2014

آرائشِ باغ۔۔۔۔۔۔۔سحر البیاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میر حسن
آرائش باغ۔۔
مثنوی سحرالبیان ( میر حسن )
مثنوی کا لفظ” مثنیٰ “ سے بنا ہے اور مثنیٰ کے معنی دو کے ہیں اصطلاح میں ایسی صنفِ سخن کوکہتے ہیں جس کے شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں اور ہر دوسرے شعر میں قافیہ بدل جائے ، مثنوی میں لمبے لمبے قصے بیان کئے جاتے ہیں نثر میں جو کام ایک ناول سے لیاجاتا ہے ، شاعری میں وہی کام مثنوی سے لیا جاتا ہے۔ یعنی دونوں ہی میں کہانی بیان کرتے ہیں،مثنوی ایران سے ہندوستان میں آئی ۔ اردو مثنوی کی ابتداءدکن سے ہوئی ، دکن کا پہلا مثنوی نگار نظامی بیدری تھا۔
مثنوی سحرالبیان:۔
اردو میں کافی تعداد میں مثنویاں کہی گئی ہیں مگر جو دلکشی اور ساحری مثنوی ”سحر البیان“ میں موجود ہے دوسری دوسری مثنویاں ان خوبیوں سے محروم ہیں اس لئے ہم بلا تکلف یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ سحرالبیان اردو کی بہترین مثنوی ہے۔
”سحر البیان “ اردو کی ان زندہ جاوید مثنویوں میں سے ہے جو ہر زمانہ میں عوام اور خواص میں یکساں طور پر مقبول رہی ہیں ۔”سحر البیان“ کے فنی محاسن کے سلسلے میں اس کی کردار نگاری پلاٹ ، جذبات نگاری ، مکالمہ نگاری ، مرقع نگاری ، منظر نگاری اور سراپا نگاری کے علاوہ ایک مربوط معاشرت کے ثقافتی کوائف کی تصویر بے حد کامیاب کھینچی گئی ہے۔
اس مثنوی سے میرحسن اور ان کی سوسائٹی کے مذہبی افکار اور اخلاقی اقدار پر روشنی پڑتی ہے جو اس معاشرت کے روائتی طرز فکر اور تصورِ زندگی کا جزو بن چکے ہیں ۔ ”سحرالبیان“ اس دور کے مذہبی معتقدات ، ذہنی امور اور اخلاقی تصورات کی عکاس ہے۔ یہ مثنوی دراصل اس طرز زندگی کی بہترین نمائندگی کرتی ہے اودھ کی اس فضا میں جہاں تکلف و تصنع کا دور دورہ تھا ۔ ایک تہذیب بن رہی تھی۔ ”سحرالبیان“ میں اس تہذیب کی تصویریں بھی محفوط ہیں۔
”سحرالبیان “ کا مطالعہ ہم مندرجہ زیل عنوانات کے تحت کرتے ہیں ہر عنوان میں اس کی خوبیوں اور فنی محاسن پر تنقید و تبصرہ کرکے اس کی قدر و قیمت نمایاں کی جائے گی۔
تہذیب و ثقافت کی عکاسی:۔
”سحر البیان“ کی فنی خوبیوں میں اس کی نمایاں خوبی تہذیب و ثقافت کی عکاسی ہے۔
میر حسن نے درحقیقت اس تہذیب و معاشرت کا گہری نظر سے مطالعہ کیا تھا ۔ اور وہ اس سے خوب واقف تھے
جذبات نگاری:۔
میر حسن کے ہاں جذبات نگاری کے بڑے ہی اچھے اور موثر مرقعے ملتے ہیں خوشی کے عالم میں خوشی اور غم و الم اور دکھ کے مواقع پر رقت طاری ہو جاتی ہے ۔
جزئیات نگاری:۔
میرحسن نے جس واقعے کا بھی ذکر کیا اس کے ہر اک جز کو مکمل بیان کردیا
اس طرح میر حسن نے پوری تفصیل کے ساتھ نجومیوں کے حرکات و سکنات کو بیان کیا ہے۔ اس طرح جب بادشاہ کا بیٹا ہوتا ہے تو رقص کا اہتمام ہوتا ہے۔ میر حسن نے رقص کا منظر نہایت دلفریب انداز میں پیش کیا ہے انہوں نے ایسی باریک باتوں کا ذکر کیا ہے جس پر ہر شاعر کی نظرنہیں پڑتی۔
وہ گھٹنا وہ بڑھنا ادائوں کے ساتھ
دکھا نا وہ رکھ رکھ کے چھاتی پہ ہاتھ
تصویر کشی:۔
”سحر البیان“ کا ایک بڑا کما ل اس کی تصویر کشی ہے۔ میر حسن نے جس منظر اور جس حالت کا جہاں بھی نقشہ کھینچا تصویر کشی کا حق ادا کردیا ۔ مولانا حالی مثنوی ” سحرالبیان“ کی اس خوبی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں،
”مسلمانوں کے اخیر دور میں سلاطین امراءکے یہاں جو حالتیں تھیں اور جو جو معاملات پیش آتے تھے۔ بعینہٰ ان کا چربہ اتار دیا ہے۔“
میر حسن نے منظر نگاری کی تصویر کشی کی ہے اس میں ایسی محاکات کا ثبوت دیا ہے پورا منظر ہماری آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے۔
تشبیہات
میرحسن کے ہاں حسین تشبیہات کے خزانے موجود ہیں ان کی تشبیہات کو پڑھ کر دل کلی کی طرح شگفتہ ہو جاتا ہے۔
صنعتوں کا استعمال:۔
میرحسن کے ہاں تشبیہا ت کے سلسلے میں قوس قزح کے جو رنگ ملتے ہیں وہ ان کی رنگینی فکر اور حسن ِ نظر کا ثبوت ہیں مگر ہم انہیں کلیتاً ان کے معاشرہ اور ماحول کی رنگینیوں سے الگ کرکے نہیں دیکھ سکتے ۔ اس دور کا مذاق ِ حسن بھی ان پر اپنے جمالیاتی تصورات کی شعائیں ڈال رہا تھا۔ میرحسن کے یہاں صنعتوں کا استعمال بھی ہے خاص طورپر صنعت ایہام
بقو ل کلیم الدین احمد، ”اہم چیز ”سحرالبیان“ میں طرز ادا ہے عبارت صاف ، پاکیزہ اور با محاورہ ہے میر حسن نے روزمرہ کا نچوڑ اس مثنوی میں رکھ دیا ہے۔
مجموعی جائزہ:۔
سحرالبیان میر حسن کی زندگی کے آخری دور کا کارنامہ ہے۔ انہوں نے اس کے لکھنے میں اپنی عمر کا ایک طویل حصہ صرف کیا۔ چنا نچہ و ہ خود اعتراف کرتے ہیں
ہر اک بات پر دل کو میں خوں کیا
تب اس طرح رنگین مضموں کیا
اس مثنوی کی سادگی پرکاری ،فن کارانہ نزاکت ، منظر کشی ، واقعہ نگاری، کردار نگاری اور تفصیل نگاری کو دیکھ کر عجیب کیفیت محسوس ہوتی ہے۔ خاص طورپر میرحسن کے انداز بیان نے اس نظم کوحیات جاوید سے ہمکنار کیا ۔ ان کی شاعرانہ انداز بیان، طرز ادا اور زبان پرقدرت نے مثنوی کو کہیں غیر دلچسپ نہیں ہونے
دیا۔

No comments:

Post a Comment