Saturday, 15 November 2014



مرثیہ۔ ۔ تعارف

مرثیہ اردو کی ایک مقبول صنف سخن ہے جس کا شمار شاعری کی مقبول و معروف موضوعی اصناف میں ہوتا ہے۔ زمانہ قدیم میں دو بیتی، مربع، مثلث اور مخمس کے فارم میں بھی مرثیے رائج رہے۔ آج بھی غزل کے فارم کو شخصی مرثیوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ مرثیہ کو مسدس کی معروف شکل میں سب سے پہلے سودا نے استعمال کیا۔ انیس اور دبیر کے مرثیوں کی بے پناہ مقبولیت کے سبب مرثیوں کے ساتھ مسدس کی ہیئت مخصوص ہو گئی ہے۔
مرثیہ کے موجودہ اجزائے ترکیبی میر ضمیر نے متعین کئے جن کی پابندی کی جاتی ہے کبھی کبھی ان سے گریز بھی کیا گیا ہے۔ وہ اجزاء یہ ہیں (1) چہرہ (2) سراپا (3) رخصت (4) آمد (5) رجز (6) رزم (7)شہادت اور (8) بین
مرثیہ کی تہذیبی اور تمدنی اہمیت کے علاوہ اس کی ادبی اہمیت سے نکار نہیں کیا جاسکتا۔ مرثیہ کی مقبولیت کا راز جہاں مذہب سے وابستگی ہے وہیں تہذیبی اخلاقی اور ادبی محاسن میں بھی مضمر ہے۔ اس کی مقبولیت کے کئی اسباب ہیں جن میں سے زیادہ موثر اور مقبول عام سبب مرثیہ کی جذباتی اور مذہبی نوعیت ہے۔
مرثیہ کا فن
مسڈس، مرثیے کی انتہائی ترقی یافتہ شکل ہے۔ ابتداء میں مرثیہ دو بیتی، مثلث، مربع اور مخمس میں بھی لکھا گیا۔ سودا نے مرثیہ کو مسدس کی شکل میں روشناس کروایا۔ سودا سے قبل بھی مسدس کے فارم میں مرثیے لکھے گئے
مرثیے کے اجزائے ترکیبی
مرثیہ چونکہ واقعات کربلا پر مبنی ہے اس لئے اس میں واقعات کربلا کی تفصیل بیان ہوتی ہے۔ مثلاً جاں نثار ان حسین اور خانوادہ حسین کی سیر و شخصیت، کردار، جذبات، احساسات، اعزہ سے رخصتی، میدان کار زار میں ان بے سر و ساماں فدائیانِ حسین کی آمد، آلات حرب، جنگ کا منظر، گھوڑوں کی تیزی، تلواروں و نیزوں کی چمک دمک، فرات کے کناروں پر یزیدیوں کے پہرے، پیاسوں کی شہادت اور پھر ان کی زخم خوردہ لاشوں پر بین و بکا وغیرہ۔ ان واقعات و بیانات میں ایک منطقی ربط و تسلسل قائم رکھنے کی خاطر مرثیے کے لئے آٹھ اجزائے ترکیبی وضع کئے گئے :

(1) چہرہ
(2) ماجرا
(3) سراپا
(4) رخصت
(5) آمد
(6) رجز
(7) شہادت
(8) بین

مرثیے میں اجزائے ترکیبی کا یہ تعین استاد دبیر میر ضمیر نے کیا۔ لیکن اس کی پابندی پوری طرح نہیں ہوسکی۔ خود ضمیر اور بعد میں انیس و دبیر کے یہاں بھی اس کی پابندی نہیں ہوسکی۔ مثلاً مرزا سلامت علی دبیر کا ایک مشہور مرثیہ ہے ’’کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے’‘۔ یہ مرثیہ ’’آمد’‘ سے شروع ہوتا ہے۔

چہرہ
مرچیہ کی تمہید کو کہتے ہیں جس میں شاعر حمد، نعت، منقبت حضرت علی و امام حسین کے علاوہ مکہ سے سفر، سفر کے پرخطر حالات، گرمی کا موسم، صبح کا موسم بیان کرتا یا پھر اپنی شاعرانہ عظمت، قادر الکلامی، ثنا خوان حسین ہونے پر فخر کا اظہار کرتا ہے۔ کبھی پیاس کی کیفیت کی بیان کرتا ہے۔ عموماً موسم کے بیان میں گرمی کی شدت، صبح کا منظر، چڑیوں کی چہچہاہٹ، شبنم کا پھولوں پر گہرا آبدار بن کر چمکنا وغیرہ قسم کے مناظر تشبیہہ و استعارے اور صنائع بدائع کی زرتابی کے ساتھ قلم بند کرتے ہیں۔ انیس کے ایک مشہور مرثیے میں صبح کا منظر اس طرح بیان کیا گیا ہے :

وہ دشت، وہ نسیم کے جھونکے، وہ سبزہ زار
پھولوں پہ جا بہ جا وہ گہر ہائے آبدار

سراپا(ظاہری شخصیت)

عموماً یہ ایک طرح سے انصار حسینی کا تعارف ہوتا ہے۔ کبھی کبھی لشکر یزید کے ساتھیوں کا بھی سراپا لکھا گیا ہے۔ سراپا لکھنے میں شاعر اپنا زور قلم صرف کر دیتا ہے، جس سے شاعر کی اپنی محبت و عقیدت کا بھرپور اظہار ہوتا ہے تو دوسری طرف باطل یعنی یزیدیوں سے تنفر کا احساس ہوتا ہے۔ سراپا بیان کرتے وقت تشبیہات و استعارات سے مدد لی جاتی ہے۔ صنائع بدائع کے خزانے لٹا دئیے جاتے ہیں۔ دبیر نے ایک مرثیے میں بالکلیہ ہی علیحدہ انداز میں تصویر کشی کی ہے۔
آئینہ کہا رخ کو تو، کچھ بھی نہ ثنا کی
صنعت وہ سکندر کی، یہ صنعت ہے خدا کی

رخصت

میدان جنگ میں جانے کے لئے خیمہ حسین سے ایک بعد دیگرے جانباز، سر پر کفن باندھ کر نکلتے ہیں تو خیمے میں مکیں ، متعلقین اور مستورات انہیں بہ دل بریاں ، بہ چشم گریاں ، بہ لب لرزاں مگر بھرپور قوت ایمانی کے ساتھ رخصت کرتے ہیں۔ اہل خیمہ کو یقین ہے کہ یہ اب زندہ واپس نہیں آئیں گے۔ اس موقع پر وداع کرنے والے عزیزوں اور پیاروں کے جذبات محبت اور قوت ایمانی کے جو مرقعے مرثیوں میں کھینچے گئے ہیں وہ پڑھنے کے لائق ہیں۔

آمد

میدان جنگ میں آمد کا منظر زیادہ طویل نہیں ہوتا۔ یہ بند رخصت اور رجز سے جڑا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی آمد کے موقع پر گھوڑے کی تعریف بھی کی جاتی ہے۔

رجز

عربوں میں رواج تھا کہ دو حریف جب میدان جنگ میں آمنے سامنے ہوتے تو جنگ شروع ہونے سے قبل ایک دوسرے کو للکارتے، اپنی اور اپنے آبا و اجداد کی شجاعت، طاقت اور خاندانی عظمت، دینداری و قوت ایمانی وغیرہ کا ذکر کرتے تھے، جس میں جوش، غضب اور ولولہ ہوتا تھا۔ اس اظہار کو جو فصاحت و بلاغت کا مرقع ہوتا ہے اصطلاحاً ’ ’رجز’‘ کہتے ہیں۔ سبھی مرثیہ نگاروں نے اس حصے میں بلاغت و فصاحت کے دریا بہا دئیے ہیں۔ انیس کے ایک مرثیے سے رجز کا ایک بند ملاحظہ ہو۔ یہ رجز حضرت امام حسین کی زبانی ہے۔

دنیا ہو اک طرف تو لڑائی کو سر کروں
آئے غضب خدا کا ادھر، رخ جدھر کروں

بے جبرئیل کار قضا و قدر کروں
انگلی کے اک اشارے میں شق القمر کروں

طاقت اگر دکھاؤں ، رسالت مآب(ص) کی
رکھ دوں زمین پہ چیر کے ڈھال آفتاب کی

یہ مرثیے کا نہایت ہی اہم حصہ ہوتا ہے جس میں شاعر میدان جنگ کی تیاری، فوجوں کے ساز و سامان، گھوڑوں کی تعرے، ان کا غیض و غضب، براق کی سی تیز رفتاری، تلواروں کی چمک، نیزوں کی کڑک، سپاہیوں کی پھرتی، بے جگری سے لڑائی، جاں توڑ مقابلہ وغیرہ، ان تمام حالتوں اور کیفیتوں کو بڑی خوبی سے بیان کرتا ہے، جس سے اس کی بلندی خیال اور قوت اظہار کا پتہ چلتا ہے۔ یہ اشعار دیکھئے جن میں میدان جنگ کی تصویر ہو بہو سامنے آ جاتی ہے۔

نیزے ہلے، وہ چل گئیں چوٹیں کہ الاماں
ہر طعن قہر کی تھی، قیامت کی ہر تکاں

شہادت
مرثیوں میں یہ حصہ بھی بڑا جاندار ہوتا ہے کیونکہ اسی بیان پر بین کی شدت کا انحصار ہوتا ہے۔ اس حصے میں فوج حسینی کے شہید کی میدان میں جرأت، بہادری اور فن سپاہ گری کے کمالات بیان کرتے ہوئے زخموں سے چور چور نڈھال ہو کر گر جانے اور شہادت پانے کا ذکر آتا ہے۔ یہ مرثیہ کا بڑا دلدوز حصہ ہوتا ہے۔ حضرت علی اکبر کی شہادت پر امام حسین کا حال زار اور کیفیت انیس اس طرح بیان کرتے ہیں:

حضرت یہ کہتے تھے کہ چلا خلق سے پسر
اتنی زباں ہلی کہ خدا حافظ اے پسر

ہچکی جو آئی، تھام لیا ہاتھ سے جگر
انگڑائی لے کے رکھ دیا شہ کے قدم پہ سر

آباد گھر لٹا شہ والا کے سامنے
بیٹے کا دم نکل گیا بابا کے سامنے

بین

مرثیہ کا آخری جزو بین ہوتا ہے، جس میں مجاہد کی شہادت اور لاش کو خیمے میں لانے، خواتین کے رنج و الم اور بین و بکا کے جذبات کی عکاسی کی جاتی ہے۔ یہی دراصل مرثیے کا مقصد و منشاء ہوتا ہے۔ شاعر کا کمال یہ ہے کہ اس حصے کو اتنا پر اثر اور جاندار بنا دے کہ مجلس برپا ہو جائے۔

کہین کو مرثیہ شہدائے کربلا اور واقعات کربلا کے حالات بیان کرنے لکھا جاتا ہے، لیکن مرثیہ گو کی شان تخلیق اور قوت اظہار سے مرثیہ ایک ادبی شہکار بن جاتا ہے۔ اس ادبی شہکار میں وحدت میں کثرت کے جلوے نظر آتے ہیں۔ اس میں قصیدے کی شان و شکوہ، جلالت و بلاغت ہوتی ہے۔ مثنوی کی سادگی و سلاست اور قصہ پن، منظر نگاری، جذبات نگاری، کردار نگاری، مکالمہ نگاری، محاکات کے جاندار وسیع و ہمہ گیر مرقعے نظر آتے ہیں۔ کردار نگاری میں عموماً انیس نے اس بات کا لحاظ رکھا ہے کہ مکالمے کردار سے مطابقت رکھتے ہوں۔ صغریٰ، سکینہ، عون و محمد بچے ہیں تو وہ بچوں کی سی باتیں کرتے ہیں۔ حضرت عباس غصہ ور جوان ہیں تو وہ جوشیلی گفتگو کرتے ہیں ، عورتیں اپنے لب و لہجے روز مرہ و محاوروں کا استعمال کرتی ہیں۔ مرثیوں سے تشبیہ و استعارے کے خزانے میں بیش بہا اضافہ ہوا ہے۔ زندگی میں بعض مواقع آتے ہیں کہ آدمی کی قوت گویائی ساتھ نہیں دیتی۔ مرثیہ گویوں نے ایسے نازک موقعوں پر الفاظ کے موتی لٹا دئیے ہیں۔ حسن تعلیل کی ایک خوبصورت مثال دیکھئے :

پیاسی جو تھی سپاہ خدا تین رات کی
ساحل سے سر پٹکتی تھیں موجیں فرات کی

پیکر تراشی
مرثیوں کی دنیا میں جہاں پیکر تراشی بھی ہے صورت گری بھی ہے، بلندی تخیل بھی ہے اور اس کا اعلان بھی ہے کہ لفظ کا جادو بے جان اشیاء کو پیکر عطا کرتا ہے اور انہیں متحرک بنا دیتا ہے۔ صناعی، خیال کو حُسن عطا کرتی ہے اور وہ مذہب کلامی، تشبیہ، استعارہ، کنایہ اور تجینس کے تمام اقسام اور مروجہ لفظی اور معنوی صنعتیں مراثی میں ملتی ہیں جو ان کی تخلیق و تزئین میں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں۔

آخری پہلو یہ بھی قابل غور ہے کہ یہ عالمی ادب میں واحد صنف ہے جہاں موضوعات مذہب کا رنگ لئے ہوئے ہیں مگر دوسرے مذہب کے ماننے والے صنف مرثیہ سے نہ صرف یہ کہ دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ اس صنف میں طبع آزمائی بھی کرتے ہیں۔

اور وہ لوگ جو مذہباً، عقیدتاً مسلمان نہ تھے انہوں نے بھی مرثیے لکھے اور بڑی شان سے لکھے۔ تقریباً پانچ سو مرثیہ نگاروں میں سو مرثیہ نگار غیرمسلم ہیں۔ ان میں سیوا، کشن پرشاد شاد، الفت رائے الفت، کنورسین مضطر، مہاراجہ کلیان سنگھ، مکھن لال مکھن، راجہ بلوان سنگھ والی بنارس، روپ کماری، یا منی لال جوان، چھنولال دلگیر اور ڈاکٹر بتھونی لال وحشی مظفر پوری کے نام نامی ہیں۔ صر ف کچھ مثالیں اشارتاً پیش کی جاری ہیں۔ ان کے مرثیوں میں بھی وہ سارے اجزاء موجود ہیں جنہوں نے مرثیہ کو انفرادیت عطا کی ہے مثلاً روپ کماری کہتی ہیں :
ترکیبی منطقی ترتیب متعین کی۔ میر وسودا کے زمانے سے لے کر آج تک دیگر ہیئتوں میں بھی مرثیے لکھے گئے اور ا جزائے ترکیبی کی بھی پابندی میں تھوڑی بہت چھوٹ اختیار کی۔

مرثیے کی مقبولیت کے اسباب میں سب سے زیادہ اہمیت مذہبی جذبات کو حاصل ہے۔ اسی جذبے کی تسکین کے لئے اعلیٰ و ارفع مرثیے لکھے گئے۔ ان مرثیوں میں مذہب کا سہارا لے کر تہذیبی، جمالیاتی، اخلاقی اور ادبی قدروں کو بھی مرثیہ میں شامل کر لیا گیا۔ مرثیوں میں رشتوں کی پاسداری میں تہذیب کے متنوع عوامل شعوری اور غیر شعوری طور پر شامل ہو گئے ہیں۔ مرثیے کو پر اثر مقبول بنانے میں زبان و بیان کی جادوگری تشبیہ و استعارے، صنائع و بدائع کے خزانے لٹا دئیے گئے ہیں۔ مرثیہ نگاروں کی فہرست میں ہزاروں شاعروں کے نام آتے ہیں لیکن جو مقبولیت میر انیس اور مرزا دبیر کو حاصل ہے وہ کسی اور کو نہ مل سکی۔ ان شاعروں کا مشاہدہ تیز ہے، لفظوں کے انتخاب و ترتیب کا ان میں سلیقہ ہے، کلام میں فصاحت بھی ہے اور بلاغت بھی، کردار نگاری میں ان کا جواب نہیں ، جذبات اور مناظر قدرت کی عکاسی میں وہ اپنے جوہر دکھاتے ہیں۔ مرثیوں کی مقبولیت کا اہم راز یہ بھی ہے کہ اس میں نفسیات انسانی کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ کائنات کا مطالعہ مرثیہ کو وقعت عطا کرتا ہے۔ سیرت و پیکر تراشی سے مرثیوں میں جان پڑ گئی ہے۔ مرثیہ کہنے کو ایک صنف سخن ہے مگر اس میں دیگر اصناف کی بھی جھلکیاں نظر آتی ہیں گویا وحدت میں کثرت کے جلوے نظر آتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment