شوکت صدیقی
(۱۹۲۳ء ۔ ۲۰۰۶ء)
اردو کے معروف ناول و افسانہ نگار، صحافی شوکت صدیقی ۲۰ مارچ ۱۹۲۳ء کو لکھنو میں پیدا ہوئے۔ اسلامیہ ہائی سکول لکھنو سے میٹرک پاس کیا۔ ایف اے اور بی اے بطور پرائیویٹ امیدوار پاس کرنے کے بعد لکھنو یونیورسٹی سے ایم اے سیاسیات کیا اور پھر ماہنامہ ’’ترکش‘‘ لکھنو میں بطور ایڈیٹر ملازمت کا آغاز کیا۔ قیام پاکستان کے بعد ۱۹۴۷ء میں لکھنو سے کراچی منتقل ہو گئے۔ یہاں آپ نے مارننگ نیوز، ٹائمز آف
کراچی اور روزنامہ انجام اور مساوات میں بطور ایڈیٹر خدمات انجام دیں۔
شوکت صدیقی کے زیادہ تر افسانے جرم اور گناہ کی فضا میں پروان چڑھتے ہیں۔ انہوں نے نچلے طبقے کے ایسے کرداروں کی حقیقت پسندانہ عکاسی کی ہے جو آسانی سے طاغوتی طاقتوں کا آلہ کار بنائے جا سکتے ہیں۔ عمل اور مکافات عمل شوکت صدیقی کے افسانوں میں ساتھ ساتھ عمل پذیر ہوتے ہیں۔ وہ اپنے افسانوں میں غربت اور ہوس زر کی آویزش کو سماجی جرائم اور اخلاق باختہ کرداروں سے نمایاں کرتے ہیں۔ یہ انسانوں کے معاشرتی اور جذباتی المیوں کے مناظر کو حزیں اداسی سے سامنے لاتے ہیں۔
شوکت صدیقی نے افسانہ اور ناول نگاری میں بہت شہرت پائی۔ افسانوں کی سب سے پہلی کتاب ’’تیسرا آدمی‘‘ ۱۹۵۲ء میں منظر عام پر آئی۔ آپ کے ناول ’’خدا کی بستی‘‘ کو عالمی سطح پر بہت پذیرائی ملی اور اس ناول کے دنیا کی چالیس سے زائد مختلف زبانوں میں تراجم ہوئے۔ پاکستان ٹیلیویژن نے اس ناول پر ایک ڈرامہ سیریل بنائی۔ اس ناول کو ۱۹۶۰ء میں آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ آپ کا ضخیم ناول ’’جانگلوس‘‘ بھی پی ٹی وی سے ٹیلی کاسٹ کیا گیا۔ ۱۹۹۷ء میں آپ کو حکومت پاکستان کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس، ۲۰۰۲ء میں اکادمی ادبیا ت پاکستان کی طرف سے کمال فن ایوارڈ اور ۲۰۰۴ء میں عالمی فروغ اردو ادب ایوارڈ سے نوازا گیا۔
شوکت صدیقی کا انتقال ۱۸، دسمبر ۲۰۰۶ء کو کراچی میں ہوا اور ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودئہ خاک ہوئے
No comments:
Post a Comment