Monday, 24 November 2014
سوانح
شہزاد احمد نے 16 اپریل 1932کو مشرقی پنجاب کے مشہور تجارتی اور ادبی شہر امرتسر کے ایک ممتاز خاندان کے فرد ڈاکٹرحافظ بشیر کے گھرانے میں جنم لیا، گورنمنٹ کالج لاہور سے 1952ءمیں نفسیات اور 1955ء میں فلسفے میں پوسٹ گریجوایشن کی اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ ’’صدف‘‘ 1958ء میں ان کی غزلوں کا پہلا مجموعہ ہے۔ ان کی غزلوں کے مجموعے ’’جلتی بھجتی آنکھیں‘‘ 1969ء پر آدم جی ادبی انعام دیا گیا۔ ’’پیشانی میں سورج’‘ پر انہیں ہجرہ(اقبال) ایوارڈ دیا گیا۔ 1997ء میں ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی عطا کیا گیا۔ طالب علمی کے زمانے میں بھی ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا جاتا رہا، انہیں 1952 میں گورنمنٹ کالج لاہور کے ’’اکیڈمک رول آف آنر‘‘ سے نوازا گیا۔ وہ 1949،50 کے دوران فلاسوفیکل سوسائٹی کے سیکرٹی بھی رہے۔
شہزاد احمد شعر و نقد شعر کے علاوہ نفسیات اور فلسفہ کے موضوعات پر انتہائی اہم مضامین سپرد قلم کر چکے ہیں اور متعدد اہم ترین سائنسی موضوعات پر معروف کتب کے تراجم بھی ان کے نام کے ساتھ یادگار ہو چکے ہیں۔ اسلام اور فلسفہ ان کا محبوب موضوع ہے اور اس سلسلے میں ان کی تصانیف اور تراجم پاکستانی ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ انہیں انجمن ترقی ادب کا بہترین مضمون نویسی کا ایوارڈ 1958ء، نقوش ایورڈ 1989ء اور مسعود کھدر پوش ایوارڈ 1997ء بھی مل چکا ہے۔ ’’بیاض‘‘ لاہور ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف کے طور پر ان کے نام سے معنون ایک خصوصی شمارہ بھی شائع کر چکا ہے۔ شہزاداحمد کا انتقال یکم اگست 2012 بمطابق 12 رمضان المبارک 1433ھ بروز بدھ شام چار بجے لاہور میں ہوا۔ مرحوم کی عمر 80 برس تھی۔ شہزاد احمد نے سوگواران میں دو بیٹے اور تین بیٹاں چھوڑی ہیں۔ ا
شاعری
یوں تو ہماری شاعری کا بنیادی موضوع محبت اور اس سے وابستہ احساسات و جذبات کا فنکارانہ اظہار رہا ہے مگر شہزاد احمد اردو کا پہلاغزل گو ہے جس نے غزل کے اس بنیادی موضوع کو تجربے کے علاوہ علم کی سطح پر بھی برتا ہے اور یوں وہ محبت کی نفسیات کا ماہر غزل گو تسلیم کیا گیا ہے۔
انفرادیت
محبت کے موضوع کو علم کی سطح پر برتنے کا یہ مطلب ہرگزر نہیں کہ شہزاد احمد کی غزل علمی متانت اور پیوست کا شکار ہو گئی ہے۔ بلکہ جب شہزاد اس موضوع کو اپنی غزل میں کھپاتا ہے تو وہ نہ صرف اپنے تجربے اور مشاہدے سے بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے بلکہ علم نفسیات کے جدید اکتشافات سے بھی مسلح ہوتا ہے اور یوں اس کی غزل ، دیگر غزل گو شعرائ سے مختلف اور منفرد ہو جاتی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اتنی چاق و چوبند اور سچی اور کھری غزل کے لیے شہزاد احمد جو زبان استعمال کرتا ہے وہ اتنی سادہ اور سلیس ہوتی ہے کہ کسی ایک مصرعے سے بھی یہ گمان نہیں ہوتا کہ اس نے جو کچھ کہا ہے، انتہائی بے شاختگی سے کہا ہے اور صرف اس وقت کہا ہے جب شعر کہنے کے سوا اس کے لیے کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ کسی مقام پر بھی شہزاد احمد سے اپنے وسیع تجرباتی اورعلمی پس منظر کی اتراہٹ سرزد نہیں ہوتی ۔ اس دور میں شہزاد احمد کی غزل سے زیادہ اور اس سادگی کے باجوجود نہایت پرکار غزل شاید ہی کسی نے کہی ہو
نیا اسلوب
غزل میں اپنا ایک اسلوب پیدا کرنے کے بعد اب گزشتہ کچھ عرصے سے شہزاد احمد کی غزل میں ایک تبدیلی رونما ہو رہی ہے ۔ اسے شاید تبدیلی نہیں کہنا چاہیے کیونکہ تبدیلی کے ساتھ ترمیم کا تصور وابستہ ہے اور شہزاد کو اپنے موضوع میں کوئی ترمیم گوارا نہیں اور شاید اسے اس طرح کی ترمیم کی ضرورت بھی نہیں۔ چنانچہ اسے شہزاد کے منفرف اسلوب میں اضافہ قرار دے لیجیے کہ اب وہ غزل میں فرد اور ذات کی نفسیات کے ساتھ ہی پورے معاشرے کی نفسیات کو بھی سمونے لگا ہے اور اس کے سے خالص غزل گو کے موضوع میں اضافہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ بحیثیت فنکار ، شہزاد کا ایک موضوع سے دوسرے موضوع تک مربوط سفر ایک ارتقائی سفر ہے۔وہ فنکار بھی کیا جو ساری زندگی اپنے آپ ہی سے لڑتے بھڑتے گزار دے اور بالواسطہ طور پر اپنی ذات سے باہر کی دنیا کی فنی کر دے۔ اپنے آپ سے پنجہ آزما ہونا بھی ایک حقیقت ہے اور اس کا اظہار کفر نہیں ہے لیکن جب شاعر اپنے معاشرے اور اپنے عصر کے پس منظر میں اپنی ذات کے تجرباتی مطالعے پر قدرت حاصل کر لے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اس نے اپنی ذات سے بھی بڑی حقیقت کا اثبات کیا ہے اور شہزاد احد ان دونوں اسی اثبات کے سفر میں ہے۔
نظم
شہزاد احمد نے نظمیں بھی کہیں ۔ ان کی نظمیں ان کی غزل کے ایک ایک شعر کی تشریحات محسوس ہوتی ہیں۔ کہ ان میں غزل کا سا حسن و بے شاختگی ہے۔ نظم کے سلسلے میں مشکل یہ ہے کہ اس کے لیے خیال و احساس کی ایک جامعیت ۔۔۔۔۔۔ایک مرکزیت ضروری ہوتی ہے۔ اس لیے تو جس طرح ضروری نہیں کہ کامیاب نظم نگار اچھی غزل کہنے پر قادر ہو ۔ ماسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ کامیاب غزل گو اچھی نظم تخلیق کرنے پر قدرت رکھتا ہو ۔ مگر غزل گو شہزاد احمد نے اپنی تخلیقی ہمہ گیری سے ، اس مفروضے کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ اس کی نظمیں جہاں انسانی نفسیات کی بوقلمونی سے آراستہ ہیں۔ وہیں ان کا معیار بھی شہزاد کی غزل کی طرح صاف ستھرا اور بلند ہے۔ شہزاد احمد نے غزل اور نظم کے علاوہ نفسیات پر بھی کتابیں لکھی ہیں اور بعض غیر معمولی کتابوں کے ترجمے بھی کیے ہیں اور نفسیات اور فلسفے کے ساتھ ساتھ سائنسی موضوعات پر بھی بہت محنت اور کاوش سے لکھا ہے۔ شہزاد احمد اردو ادب کی ایک ہمہ گییر اور ہمہ صف اور سرمایہ افختار شخصیت ہیں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
Very helpful for me .Thank you writer
ReplyDelete