جوش ملیح آبادیتعارف
عام طور پر جوش ملیح آبادی شاعرِ انقلاب مشہور ہیں جیسا کہ وہ خود اعلان کرتے ہیں کہ
کام ہے میرا تغیر، نام ہے میرا شباب
میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب
مگر صحیح یہ ہے کہ شاعرِ بغاوت ہیں۔ انقلاب کا مطلب ایک نظام کو بدل کر دوسرا نظام لانے کی کوشش کرنا ہوتا ہے، جب کہ بغاوت صرف ایک نظام کو توڑ پھوڑ ڈالنے کا نام ہے۔ جوش کی شاعری میں کسی نئے نظام کا پیغام نہیں البتہ اس میں کئی طرح کی بغاوتیں ضرور پورے طمطراق کے ساتھ پائی جاتی ہیں۔
خصوصیاتِ شاعری
شاعرانہ صلاحیت
پہلی خصوصیت ان کی فطری اور موروثی شاعرانہ صلاحیت ہے۔ وہ ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جس میں کئی پشتوں سے شعر گوئی کاس چرچا تھا۔ اور یہ شاعرانہ صلاحیت جوش کو گویا وراثت میں ملی تھی۔
اسلوبِ بیان کی روانی
ان کی شاعری میں بے پناہ روانی اور سلاست ہے۔ الفاظ کا ایک دریا سا امنڈتا اور شور مچاتا ان کی ہر نظم میں آتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ان کا ذخیرہ الفاظ اتنا وسیع ہے کہ پوری اردو شاعری مین غالباً نظر اکبر آبادی اور انیس لکھنوی کے سوا کوئی شاعر اس معاملے میں جوش کی ٹکر کا نہیں ہے۔ مثلاً
برچھیاں، بھالے، کمانیں، تیر، تلواریں، کٹار
بیرقیں، پرچم، علم، گھوڑے قطار اندر قطار
علمِ بیان کا استعمال
جوش کی نظموں میں نئی نئی اور پے درپے تشبیہوں اور استعاروں کا ایسا برجستہ اور بے ساختہ استعمال ہے کہ پڑھنے والا ان کے الفاظ کی گھن گرج کے علاوہ ان تشبیہوں اور استعاروں کے طلسم مےں گرفتار ہوکر رہ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر
بھوکوں کی نظر میں بجلی ہے، توپوں کے دہانے ٹھنڈے ہیں
تقدیر کے لب کو جنبش ہے دم توڑ رہی ہیں تدبیریں
وزن و قافیہ کی پابندی
جوش اور جاہے کتنی ہی بغاوتیں کریں ان کا ہر شعر شاعری کے تمام اصولوں کے مطابق ہوتا ہے اور اردو شاعری میں رائج ہیں۔ اسی لئے وہ الفاظ کی کثرت و قدرت اور وزن قافیہ کی پابندی کے ذریعے قاری یا سامع کے ذہن پر چھا جاتے ہیں اور پورے زور اور وضاحت سے اپنے دل کی بات کہہ دیتے ہیں۔ عکسِ کلام درج ذیل ہے
کیا ہند کا زنداں کانپ رہا ہے، گونج رہی ہیں تکبیریں
اکتائے ہوئے ہیں شاید کچھ قیدی اور توڑ رہے ہیں زنجیریں
نرم عاشقانہ شاعری
بغاوت کی دھوم دھام اور آگ، بجلی، موت آندھی، جیسے الفاظ کے علاوہ جوش نے عشقیہ واردات بھی بڑی خوبی اور لطافت سے بیان کی ہیں۔ اس قسم کے کلام میں بھی بے پناہ روانی پائی جاتی ہے۔ مثلاً
سر پہ ترے رہیں سدا پھولوں کے تاج فصل گل
روح کو مست کردیا تیری ہوائے مست نے
جاکے، نسیم جاں ستاں، کہنا یہ بزم حسن میں
بھیجا ہے نغمہ و سلام جوش سحر پر مست نے
کل چونک کر اس نے، بقاضائے خمار
انگڑائی جو لی، ٹوٹ گیا رات کا ہار
اور سرخ ہتھیلیوں سے آنکھیں جو ملیں
ڈوروں سے ابل بڑی دو دھاری تلوار
منظر نگاری
مختلف مناظر فطرت کو بھی جوش نے بڑی مہارت، خوبصورتی اور روانی سے بیان کیا ہے۔ مثلاً صبح کا منظر دیکھئے
نظر جھکائے عروس فطرت جبیں سے زلفیں ہٹارہی ہے
سحر کا تارا ہے زلزلے میں، افق کی لو تھرتھرا رہی ہے
طیور، بزم سحر کے مطرب، لچکتی شاخوں پہ گا رہے ہیں
نسیم فردوس کی سہیلی گلوں کو جھولا جھلا رہی ہے
شلو کا پہنے ہوئے گلابی، گلاب کی پنکھڑی چمن میں
رنگی ہوئی سرخ اوڑھنی کا ہوا میں پلو سکھا رہی ہے
اسی طرح دیہات کے ایک بازار میں دوپہر کا منظر اس طرح دکھاتے ہیں
دوپہر، بازار کا دن، گاوں کی خلقت کا شور
خون کی پیاسی شعاعیں، روح فرسا لو کا زور
آگ کی رو، کاروبار زندگی کا پیچ و تاب
تند شعلے، سرخ ذرے، گرم جھونکے، آفتاب
شور، ہلچل، غلغلہ، ہیجان، لو، گرمی، غبار
بیل، گھوڑے، بکریاں، بھیڑیں قطار اندر قطار
مکھیوں کی بھنبھناہٹ، گڑ کی بو، مرچوں دھانس
خربوزے، آلو، کھلی، گیہوں، کدو، تربوز، گھانس
مضطرب اور پریشان روح
جوش نے اپنے دور کے نوجوانوں کی اضطرابی اور پریشانی بھی بڑی وضاحت سے جابجا بیاب کی ہے
کیا شیخ، ملے گا گلفشانی کرکے
توہین مزاج نوجوانی کرکے
تو آتش دوزخ سے ڈراتا ہے انہیں
جو آگ کو پی جاتے ہیں پانی کرکے
ہنگامہ خیزی
ایک باغی شاعر کے ہاں گھن گرج، دھماکے، جھنکاریں جیسی چیزیں قدرتاً ہوتی ہیں۔ جوش کے ہاں بھی یہی تمام خصوصیات نمایاں ہیں، جن میں الفاظ کی دھوم دھام سے خوب کام لیاگیا ہے۔ جیسے
سنبھلو، کہ وہ زنداں گونج اٹھا، جھپٹو کہ وہ قیدی چھوٹ گئے
اٹھو کہ وہ بیٹھیں دیواریں، دوڑو کے وہ ٹوٹیں زنجیریں
No comments:
Post a Comment