Saturday, 15 November 2014


مرزا سلامت علی دبیر 

خاندانی شاعر نہ تھے۔ لڑکپن میں مرثیہ پڑھتے تھے۔ اس شوق نے منبر کی سیڑھی سے مرثیہ گوئی کے عرش کمال پر پہنچا دیا۔ میر مظفر حسین ضمیر کے شاگرد ہوئے اور کچھ استاد سے پایا ۔ اسے بلند اور روشن کر کے دکھایا۔ تمام عمر میں کسی اتفاقی سبب سے کوئی غزل یا شعر کہا ہو ، ورنہ مرثیہ گوئی کے فن کو لیا اور اس درجے تک پہنچا دیا ‘ جس کے آگے ترقی کا راستہ بند ہو گیا ۔ ابتدا سے اس شغل کو زاد آخرت کا سامان سمجھا اور نیک نیتی سے اس کا ثمرہ لیا۔ طبیعت بھی ایسی گداز پائی تھی جو کہ اس فن کے لیے نہایت موزوں اور مناسب تھی ۔ ان کی سلامت روی ، پرہیز گاری ،مسافر نوازی اور سخاوت نے صفت کمال کو زیادہ تر رونق دی تھی۔ 
شاگرد انِ الٰہی کی طبیعت بھی جذبہ الٰہی کا شوق رکھتی ہے۔ بچپن سے دل چونچال تھا۔ ابتدائے مشق میں کسی لفظ پر استاد کی اصلاح پسند نہ آئی ۔ شیخ ناسخ زندہ تھے‘ مگر بوڑھے ہو گئے تھے۔ ان کے پاس چلے گئے ۔ وہ اس وقت گھر کے صحن میں مونڈھے بچھائے جلسہ جمائے بیٹھے تھے۔ انہوں نے عرض کی کہ حضرت اس شعر میں مَیں نے تو یہ کہا ہے اور استاد نے یہ اصلاح دی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ استاد نے ٹھیک اصلاح دی ہے۔ انہوں نے پھر کہا کہ کتابوں میں تو اس طرح آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہیں‘جو تمہارے استاد نے بتایا ہے ‘ وہی درست ہے۔ انہوں نے پھر عرض کی کہ حضرت آپ کتاب کو ملاحظہ تو فرمائیں ۔ شیخ صاحب نے جھنجلا کر کہا ، ارے تو کتاب کو کیا جانے ؟ ہمارے سامنے کتاب کا نام لیتا ہے؟ ہم کتابیں دیکھتے دیکھتے خود کتاب بن گئے ہیں۔ ایسے غصے ہوئے کہ لکڑی سامنے رکھی تھی ‘ وہ لے کر اٹھے یہ بھاگے ،انہیں بھی ایسا جوش تھا کہ دروازے تک ان کا تعاقب کیا۔ 
لکھأو کے لڑانے اور چمکانے والے غضب تھے۔ آخر مرزا کا عالم شباب تھا اور کمال بھی عین شباب پر تھا کہ جوانی کا بڑھاپے سے معرکہ ہوا۔ نواب شرف الدولہ میر ضمیر کے بڑے قدر دان تھے۔ ان سے ہزاروں روپے کے سلوک کرتے تھے۔ ابتدا میں ان کے سبب سے اور پھر مرزا کے جو ہر کمال کے باعث سے ان کی بھی قدردانی کر تے تھے۔ ان کی مجلس میں اول مرزا بعد ان کے میر ضمیر پڑھا کرتے تھے۔ ایک موقع پر مرزا نے ایک مرثیہ لکھا‘ جس کا مطلع ہے۔ 
دست خدا کا قوت بازو حسین ہے
میر ضمیر کے سامنے جب اصلاح کے لیے پیش کیا تو انہیں اس کے نئے خیالات اور طرز بیان اور ترتیب مضامین پسند آئی۔ اسے توجہ سے بنایا اور اسی اثنا میں نواب کے ہاں ایک مجلس ہونے والی تھی۔ رشید شاگرد سے کہا کہ بھئی! اس مرثیے کو اس مجلس میں ہم پڑھیں گے ؟ یہ تسلیم کر کے تسلیم بجا لائے اور مرثیہ انہی کو دے دیا۔ 
گھر میں آئے تو بعض احباب سے حال بیان کیا۔ مسودہ پاس تھا ‘ وہ بھی سنایا کچھ تو یاروں کا چمکانا ‘ کچھ اس سبب سے کہ ذوق شوق کے پھول ہمیشہ شبنم تعریف کے پیاسے ہیں اور نواب کو خبر پہنچ گئی تھی ۔ ادھر کے اشاروں میں انعام کی ہوا آئی۔ غرض انجام یہ ہوا کہ استاد مرثیہ صاف کر کے لے گئے کہ وہی پڑھیں گے ۔
بمو جب معمول کے اول مرزا صاحب منبر پر گئے اور وہی مرثیہ پڑھا۔ بڑی تعریفیں ہوئیں اور مرثیہ خوب سر سبز ہوا۔ استاد کہ ہمیشہ شاگرد کے پڑھنے پر باغ باغ ہو ا کرتے تھے اور تعریفیں کر کے دل بڑھاتے تھے ‘ اب خاموش بیٹھے ہیں۔ کچھ غصہ ‘ کچھ بے وفائی زمانہ کا خیال کچھ اپنی محنتوں کا افسوس اور فکریہ کہ اب میں پڑھوں گا تو کیا پڑھوں گا اور اس سے بڑھ کر کیا پڑھوں گا جس میں استادی کا رتبہ بڑھے نہیں تو اپنے درجے سے گرے بھی تو نہیں۔ غرض ان کے بعد یہ بڑھے اور شاگرد کو نقطہ مقابل کر کے بجائے خود استاد بنادیا اور وہی صورت ہو گئی کہ ایک مجلس میں دونوں کا اجتماع موقوف ہو گیا ۔ زمانے نے اپنے قاعدے کے بموجب چند روز مقابلو ں سے شاگرد کا دل بڑھایا اور آخر بڑھاپے کی سفارش سے استاد کو آرام کی اجازت دی ۔ وہ اپنے حریف میر خلیق کے سامنے گوشہ عزلت کا مقابلہ کرنے لگے اور یہاں میر انیس اور مرزا دبیر کے معرکے گرم ہو گئے۔ دونوں کے کمال نے سخن شناسوں کے ہجوم کو دو حصوں میں بانٹ لیا۔ آدھے انیسیے ہوگئے۔ آدھے دبیریے۔ ان کے کلام میں محاکمہ کرنے کا لطف جب ہے کہ ہر استاد کے ۴۔۴‘۵۔۵‘ مرثیے بجائے خود پڑھو اور پھر مجلسوں میں سن کر دیکھو کہ ہر ایک کا کلام اہل مجلس پر کس قدر کامیاب اور ناکام رہا۔ بے اس کے مزہ نہیں۔ میں اس نکتے پر میر انیس کے حال میں کاوش کرو ں گا،مگر اتنا یہاں بھی کہتا ہوں کہ میر انیس صاحب کلام ‘ لطف زبان ‘ چاشنی محاورہ ‘خوبی بندش ‘ احسن اسلوب مناسب مقام ‘طرز ادا اور سلسلے کی ترتیب میں جواب نہیں رکھتے اور یہی رعایتیں ان کی کم گوئی کا سبب تھیں ۔ مرزا دبیر صاحب شوکت الفاظ ‘مضامین کی آمد ‘ اس میں جا بجا غم انگیز اشارے در دخیز اعتراض حریفوں کا درست ہے کہ بعض ضعیف روایتیں اور دلخراش مضامین ایسے نظم ہو گئے ہیں ‘ جو مناسب نہ تھے لیکن انسان کی طبیعت ایسی واقع ہوئی ہے کہ جب ایک مقصود کو مدنظر رکھ کر اس پر متوجہ ہوتا ہے تو اور پہلوؤں کا خیال بہت کم رہتا ہے۔ نہیں ایسی مجلسوں میں پڑھنا ہوتا تھا‘ جہاں ہزار آدمی دوست دشمن جمع ہوتا تھا۔ تعریف کی بنیاد گریہ و بکا اور لطف سخن اور ایجاد مضامین پر ہوتی تھی۔ کمال یہ تھا کہ سب کو رلانا اور سب کے منہ سے تحسین کا نکالنا ۔ اس شوق کے جذبے اور فکر ایجاد کی محویت میں جو قلم سے نکل جائے تعجب نہیں۔ نکتہ چینی ایک چھوٹی سی بات ہے ‘ جہاں چاہا ‘ دو حرف لکھ دیے۔ جب انسان تمام عمر اس میں کھپا دے تب معلوم ہوتا ہے کہ کتنا کہا اور کیسا کہا۔ ایجاد و اختر اع کے لفظ پر ایک لطیفہ یا د آیا کہ اصولِ فن سے متعلق ہے ‘ اہل ذوق کے ملاحظہ کے لیے لکھتا ہوں۔
آتشی لطیفہ 
مرزا دبیر کی جوانی تھی اور شاعری بھی عین جوانی پر تھی کہ ایک دھوم دھام کا مرثیہ لکھا۔ اس کانمودار تمہید سے چہر ہ باندھا۔ رزمیہ وبزمیہ مضامین پر خوب زور طبع دکھایا۔ تازہ ایجاد یہ کیا کہ لشکر شام سے ایک بہادر پہلوان تیار کر کے میدان میں لائے اس کی ہیبت ناک مورت بدمہورت ‘ آمد کی آن بان ‘ اس کے اسلحہ جنگ ‘ ان کے خلاف قیاس مقادیر و وزن سے طوفان باندھے ‘پہلے اس سے کہ یہ مرثیہ پڑھا جائے ‘ شہر میں شہرہ ہو گیا۔ ایک مجلس قرار پائی۔ اس میں علاوہ معمولی سامعین کے سخن فہم اور اہل کمال اشخاص کو خاص طور پر بھی اطلاع دی گئی۔ روز معہود پر ہجوم خاص و عام ہوا۔ طلب کی تحریکیں اس اسلوب سے ہوئی تھیں۔ خواجہ آتش باوجود پیری و آزادی کے تشریف لائے مرثیہ شروع ہوا۔ سب لوگ بمو جب عادت کے تعریفوں کے غل مچاتے رہے‘ گریہ و بکا بھی خوب ہوا ۔ خواجہ صاحب خاموش سر جھکائے دو زانو بیٹھے جھومتے رہے۔ مرزا صاحب مرثیہ پڑھ کر منبر سے اترے ۔ جب دلوں کے جوش دھیمے ہوئے تو خواجہ صاحب کے پاس جا بیٹھے اور کہا کہ حضرت ! جو کچھ میں نے عرض کیا ‘ آپ نے سنا؟ فرمایا ہوں بھئی ! سنا۔ انہیں اتنی بات پر قناعت کب تھی؟ پھر کہا ‘ آپ کے سامنے پڑھنا گستاخی ہے لیکن آپ نے ملاخظہ فرمایا ؟ انہوں نے فرمایا ‘بھئی ! سنا تو سہی ‘ مگر میں سوچتا ہوں کہ یہ مرثیہ تھا یالندھور بن سعدان کی داستان تھی ‘ (واہ رے استاد کامل ! اتنے سے فقرے میں عمر بھر کے لیے اصلاح دے گیا مرزا صاحب نے ۲۹محرم ۱۲۹۲ھ کو ۷۲ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ اس مدت میں کم سے کم ۳ ہزار مرثیے لکھے ہوں ۔ سلاموں اور نوحوں اور رباعیوں کا کچھ شمار نہیں۔ ایک مرثیہ بے نقط لکھا ‘ جس کا مطلع ہے۔ 
ہم طالع ہما مراد ہم رسا ہو ا
اس میں اپنا تخلص بجائے دبیر کے عطا ر لکھا ہے اور کچھ شک نہیں کہ ان کے ساتھ ہندوستا ن میں مرثیہ گوئی کا خاتمہ ہو گیا ۔ نہ اب ویسا زمانہ آئے گا ،نہ ویسے صاحب کمال پیدا ہوں گے۔

No comments:

Post a Comment