مرکزی خیال ۔پطرس بخاری (شخصیت نگاری) ۔۔۔۔۔۔۔تحریر فارغ بخاری
صحیح بخاری کے عنوان سے پطرس بخاری کا خاکہ”البم “ کا تیسرا خاکہ ہے۔ جسے ہم توصیفی خاکہ کہہ سکتے ہیں۔پطرس باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ اور اُن کی شخصیت کے اسی پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس خاکہ کا اسلوب شوخ اور مزاح کی چاشنی ليے ہوئے ہے۔ پطرس کو اپنے عہد میں بھی خوب پذیرائی ملی اور آج بھی انہیں چاہا جاتا ہے۔ یہ اعزاز بہت کم فنکاروں کو اُن کی زندگی میں ملتا ہے۔ فارغ بخاری اس حقیقت کی نشاندہی کچھ ایسے دلچسپ پیرائے میں بیان کرتے ہیں،” مرنے کے بعد توخیراس کی تعریف و توصیف ہونی ہی تھی ۔ ستم تو یہ ہے کہ زندگی میں بھی ا س بھلے آدمی کے خلاف کسی کو زبان کھولنے کی توفیق نہ ہوئی۔ اور ہر شخص اس کے حق میں”نقوش “‘ کا پطرس نمبر ثابت ہوا۔“
اس خاکے میں پطرس کی شخصیت سے فارغ بخاری کو زیادہ واقفیت نہیں اور وہ سنی سنائی باتوں کو موضوع بناتے ہیں ۔ پطرس کی شخصیت کے بجائے اُن کی فنی عظمت پر زیادہ بات کی گئی ہے۔ اس طرح یہ خاکہ ایک تنقیدی مضمون معلوم ہوتا ہے۔
فارغ بخاری
11 نومبر 1917ء اردو کے ممتاز شاعر، ادیب اور نقاد فارغ بخاری کی تاریخ پیدائش ہے۔
فارغ بخاری کا اصل نام سید میر احمد شاہ تھا اور وہ پشاور میں پیدا ہوئے تھے۔ابتدا ہی سے ادب کے ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے اور اس سلسلے میں انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کی انہوں نے رضا ہمدانی کے ہمراہ پشتو زبان و ادب اور ثقافت کے فروغ کے لئے بیش بہا کام کیا۔ ان کی مشترکہ تصانیف میں ادبیات سرحد، پشتو لوک گیت، سرحد کے لوک گیت، پشتو شاعری اور پشتو نثر شامل ہیں۔ ان کے شعری مجموعوں میں زیرو بم، شیشے کے پیراہن، خوشبو کا سفر، پیاسے ہاتھ، آئینے صدائوں کے اور غزلیہ کے نام سرفہرست تھے۔ ان کی نثری کتب میں شخصی خاکوں کے دو مجموعے البم، مشرقی پاکستان کا رپورتاژ، برات عاشقاں اور خان عبدالغفار خان کی سوانح عمری باچا خان شامل ہیں۔
فارغ بخاری کا انتقال 13 اپریل 1997ء کو پشاورمیں ہوا اور وہ پشاور ہی میں آسودۂ خاک ہوئے۔
No comments:
Post a Comment