Saturday, 15 November 2014


اردو لٹریچر کے عناصر ِ خمسہ
پیراگراف
سر سید سے معقولات الگ کر لیجیئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اجن کو کسی اور اور سہاے کی ضرورت نہیں ۔
صفحہ نمبر24

یہ اقتباس مہد افادی کے مضمون "اردو لٹریچر کے عناسر خمسہ " سے لیا گیا ہے ۔اس مضمون میں اردو ادب کے پانچ بڑے ادیبوں کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے جو ادبکے مختلف اصناف کے دائرے کے آپ مالک تھے ۔
اس اقتباس میں ان کے دائرہ کمالات کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہوئے مصنف کہتے ہیں کہ سرسید سے دلائل کو الگ کردینے سے سرسید کچھ نہین ہیں ،مولوی نذیر احمد نے ناول اور قصے مین مذہبی پس منظر میں لکھے ہین ۔مذہب کے بغیر وہ لقمہ بھی نہیں توڑ سکتے ۔شبلی تاریخ کے بانی ہیں اور تاریخ لے لی جائے تو تقریباً خالی ہیں ،حالی نے نثر میں صرف سوانح عمری لکھی ہے مگر انشائیہ لکھنے والے آمحمد حسین آزاد مکمل ہیں انہیں کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں ۔
Lik
e



پیراگراف
ایک مغربی شاعر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور افسانے کا لطف آئے ۔
صفحہ نمبر24

یہ اقتباس مہد افادی کے مضمون "اردو لٹریچر کے عناسر خمسہ " سے لیا گیا ہے ۔اس مضمون میں اردو ادب کے پانچ بڑے ادیبوں کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے جو ادبکے مختلف اصناف کے دائرے کے آپ مالک تھے ۔

جن میں ڈپٹی نذیر احمد بحیثت ناول نگار،مولانا محمد حسین آزاد اشائیہ پرداز ۔الطاف حسین حالی شاعری ،سرسید احمد خان مضمون نگاری اور مولانا شبلی نعمانی تارٰیخ اور فلسفہ کے بانی تھے
اس اقتباس میں مغربی شاعر جس نے فطرت پر مصوری کو ترجیع دی ہے ،کے خیال کے مطابق خوبصورت موتیوں کا خوبصورت آواز کے ساتھ زمیں پر بکھر جانا رواں بہتے پانی سے زیادہ خوبصورت ہے ۔مگر اس سے کہین زیادہ خوبصورت کسی مصنف کی خوبصورت تخلیق ہے جس میں بے ساسختگی بدرجہ اتم موجود ہو اور اس کی اضافی خوبی کے روکھے پھیکے مسائل کو بھی اس خوبصورت کے ساتھ اپنے اندر جزب کر سکے ہلکا پھلکا اندازٰ تحریر افسانے کا لطف دے ،طبیعت کو زرہ بھی بوجھل نہیں ہونے دیتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو ادب کے عناصر ِ خمسہ
عبارت کی تشریح
اردو یعنی کل کی چھوکری اتنی زور دار ہوگئی ہے کہ السنہ یورپ یعنی مغربی بہنون سے بے تکلف آنکھیں ملا سکتی ہے ان مین سے ہر شخص مختص النوع خصائصِ ادبی کے ساتھ اپنے اپنے دائرے کا آپ مالک ہے ۔اور جس طرح القدما یعنی کلاسیکس آج واجب التعظیم ہے ایک وقت آئے کاگا جب ان کی ادبیات کا بیشت حصہ لائقِ پرستش اور غیر فانی سمجھا جائے گا ۔

تشریح سیاق و اسباق
دی گئی عبارت عظمیم نقاد مہدی آفادی کے قلم سے کھے گئے مضمون اردو لٹریچر کے عناصرِ خمسہ سے لی گئی ہے ۔
اس مضمون میں اردو ؒادب کے پانچ بڑے ادبوں کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے ۔جو اپنے اپنے شعبوں میں مہارت رکھتے تھے ۔جن میں سرسید احمد خان ۔مضمون نگار ،ڈپٹی نذیر احمد ناول نویس اور قصہ گو ،پورفیسر محمد حسین آزاد شاندار اسلوب یا انشائیہ پرداز، الطاف حسین حالی شاعری اور مولانا شبلی نعمانی فلسفہ اور تارٰیخ میں نمایاں مقام رکھتے ہیں ان ہی عناصر یا ادیبوں نے اردو میں اتنا کام کیا کہ اردو کا دامن مالا مال کر دیا اور آج اردو جو کہ کم عمر ہونے کے باوجود یورپ بین القوامی زبانوں کے ساتھ مقابلہ کر سکتی ہے ۔اور آنے واے وقت میں ان ادیبوں کی بیشتر تصانیف کو جو لائقِ تحسین ہیں ، ہمیشہ یاد رکھا جائے گا یہ کلاسیک کا درجہ رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہدی افادی
(1868-1921) گورکھپور کے ایک علم دوست گھرانے کے تھے۔ جوانی میں نوکری کے ساتھ ساتھ لکھنے کا شوق بھی پیدا ہوا۔ سرسید تحریک سے بہت متاثر تھے۔ ادب میں افادیت کے قائل تھے۔ اپنے اسلوب تحریر میں منفرد تھے۔ انکی تنقیدی تحریروں کا انداز تاثراتی ہے۔ مزاج میں جمال پرستی بہت تھی۔ اسکا اثر انکے اسلوب پر بھی پڑا۔ تنقیدی مضامین کے علاوہ مکتوب نگاری میں بھی مہدی کی منفرد حیثیت ہے۔ "افادات مہدی" انکی مشہور کتاب ہے۔

No comments:

Post a Comment