Friday, 28 November 2014


Home » Class XII » XII Urdu » ڈاکٹر سید عبداللہ

ڈاکٹر سید عبداللہ
تعارف
ہزارہ جیسے پسماندہ علاقے کے ایک دوردراز پہاڑی گاوں میں پیدا ہونے والا ایک بے وسیلہ اور بے سہارا نوجوان مالی مشکلات کی سختیاں سہتا اور قدم قدم پر تلخی ایام کا مقابلہ کرتا بالاخر کامیابی منزل پر پہنچا۔ اپنی اعلی تعلیمی قابلیت اور قابل تقلید علمی و ادبی شہرت کے بل بوتے پر یونیورسٹی اورینٹل کالج کے پرنسپل ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ ثمرہ تھا سید عبداللہ کی خداداد لیاقت اور مسلسل محنت و مطالعہ کا۔ ان کی طبیعت میں تحمل و بردباری اور چیونٹی کی طرح اپنی دھن میں پوری تندہی سے کام میں جتے رہنے کا جوہر ہی ان کی کامیابی و سرفرازی کا ضامن بنا۔ یونیورسٹی لائبریری میں بحیثیت ریسرچ اسکالر ان کا قیام ان کی زندگی میں انقلاب کا باعث بنا۔ سالہا سال تک قلمی کتابوں کی ورق گردانی نے ان میں برداشت اور حوصلہ مندی کے جوہر کو مزید نکھار بخشا۔ انہیں یہ راز ہاتھ آگیا کہ متواتر مطالعہ اور کتب بینی ہی سے علمی گہرائی اور فکری بصیرت پیدا ہوتی ہے۔ یوں تو ڈاکٹر سید عبداللہ کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں مگر ان کی تین حیثیتیں سب سے نمایاں ہیں۔ وہ ایک بامور محقق، متوازن نقاد اور ہردلعزیز معلم تھے۔ تحقیقی میدان میں وہ حافظ شیرانی اور ڈاکٹر مولوی محمد شفیع کی روایت کے امین تھے۔ تنقیدی شعبے میں ان کا مسلک معتدل تھا۔ وہ مغربی اور مشرقی ادب اور تنقیدی روایات سے آگاہی رکھتے تھے۔ عربی، فارسی، اردو اور انگریزی ادب کا مطالعہ ان کا عمر بھر کا ساتھی رہا۔ ان کا کلاس لیکچر ہمیشہ نہایت مرتب اور معلومات افزا ہوتا تھا کہ طلبہ کی بہت سی مشکلات دور ہوجاتی تھیں۔ جس موضوع پر وہ خطاب کرتے اس میں کسی ابہام اور تشنگی کی گنجائش نہ رہتی اور انداز تخاطب اس قدر دلنشین ہوتا کہ طلبہ ان کے لیکچر کا ایک ایک لفظ نوٹ کرلیتے۔ طلبہ کے لئے وہ اپنی ذات میں ایک ادارہ تھے۔ بلاشبہ وہ دھن کے پکے ایک بڑے آدمی تھے اور بڑے آدمی کسی بڑے مقصد کے بغیر زندگی یوں ہی نہیں گزار دیتے۔ سید عبداللہ اردو کو پاکستان میں اس کا اصل اور جائز مقام دلانے کا عہد کرچکے تھے چنانچہ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے انہوں نے اپنی زندگی کی ہر کوشش کو وقف کئے رکھا۔
ڈاکٹر سید عبداللہ ایک وسیع المطالعہ شخصیت کے مالک تھے۔ اردو شاعری میں میر، غالب اور اقبال ان کے پسندیدہ شاعر تھے۔ ان کی تین کتابیں نقدِ میر، اطرافِ غالب اور مقاماتِ اقبال اس حقیقت کی گواہی دیتی ہیں۔ میر تقی میر سے ان کی عقیدت کی وجہ ان کی طبعی دردمندی تھے۔ ان کی طبیعت کا گداز اور سوز دروں اسی درد پسندی کی دین تھا۔ غالب کے ہاں فلسفہ زندگی اور انسانی نفسیات کا جو گہرا شعور پایا جاتا ہے۔ سید صاحب اس کے قدردان تھے اور اقبال کی ملی شاعری ان کے ہاں وج�¿ہ مقبولیت تھی۔
ڈاکٹر سید عبداللہ اعلی انتظامی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ اورینٹل کالج مشرقی زبانوں کا ادارہ ہے،سید صاحب کے زیر انتظام اس ادارے کو بہت فروغ حاصل ہوا اور پنجاب یونیورسٹی کے دوسرے شعبوں اور اداروں میں اسے امتیازی حیثیت حاصل ہوئی۔ اردو کو ملک کی سرکاری زبان کا درجہ دلانے اور ذریعہ تعلیم بنانے کے لئے سید صاحب نے ایک تحریک کو منظم کیا اور تنہااس کے لئے ایک ادارے کی طرح کام کیا۔ سرکاری و غیر سرکاری حلقوں میں انہوں نے محبان اردو کو متحد و منظم کرکے ایک مضبوط قومی تحریک کی راہ ہموار کی۔ برصغیر پاک و ہند کے علمی و ادبی حلقوں میں سید صاحب کو ایک بلند پایہ مرتبہ و مقام حاصل ہے۔ ان کے تحقیقی و تنقیدی کام کو اہلِ علم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔مشرقی علوم اور السنہ کے حلقوں اور اداروں میں سید عبداللہ ایک معتبر و مسلم شخصیت کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اسلوب تحریر
ڈاکٹر سید عبداللہ کے ہاں موضوعات کی وسعت پائی جاتی ہے۔ انہوں نے تقریباً نصف صدی تک اردو زبان تک اردو زبان و ادب کے سلسلے میں خدمات انجام دیں۔ اردو زبان کی لسانی و تاریخی حیثیت واہمیت پر انہوں نے تخلیقی و تنقیدی حوالے سے نہایت قابلِ قدر کام کیا۔ رومن اور عربی رسم الخط کے تقابلی مطالعے کے ذریعے اعلی تحقیقی مطالعہ پیش کیا۔ آپ کے اسلوبِ تحریر کی نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں:
تنوع اور وسعت
سید عبداللہ نے جہاں ٹھوس علمی و ادبی موضوعات پر قلم اٹھایا وہاں عصری مسائل بھی ان کی توجہ کا مرکز بنے۔ قومی زندگی میں وقتاً فوقتاً اٹھنے والے تہذیبی، سماجی اور عمرانی مسائل پر بھی انہوں نے عالمانہ اظہار خیال کیا۔ ان کا اندازِ بیان ہر موضوع کے لئے موزوں ہے۔
سائنسی اندازِ تحریر
ان کا طرزِ تحریر سائنٹیفک ہے۔ اس سلسلے میں وہ سرسید احمد خان کے پیرو نظر آتے ہیں۔ لیکن سرسید کے برعکس اسلوب کا حامل ہوتا ہے۔ چنانچہ ان کے اسلوب تحریر میں سرسید اور شبلی کا امتزاج پایا جاتا ہے۔
سادگی و روانی
سید عبداللہ کے نزدیک زبان خیال و فکر کے ابلاغ اور ادراک کا ذریعہ ہے۔ چنانچہ وہ کوشش کرتے ہیں کہ اپنی بات کو سادگی اور روانی کے ساتھ پیش کریں تاکہ قاری سہولت سے اسے سمجھ سکے۔ اس طرزِ تحریر کو سید صاحب مدعانگاری قرار دیتے ہیں۔
بے ساختگی و برجستگی
سید صاحب نے اکثر علمی، فکری اور تنقیدی موضوعات پر قلم اٹھایا ہے اور اس کے لئے انشاپردازا نہ اسلوب نگارش کے بجائے بے ساختہ سادہ اور برجستہ بات کہنا زیادہ مناسب حال ہوتا ہے۔ چنانچہ سید صاحب کے ہاں اس امر کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ وہ لفظی شان و شکوہ دکھانے کے بجائے اصل توجہ اس بات پر دیتے ہیں کہ ان کی بات بہتر طور پر قاری کی سمجھ میں آسکے۔
قوتِ استدلال
ڈاکٹر سید عبداللہ کے طرز تحریر میں منطق و استدلال کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ وہ اپنی بات میں دلیل سے وزن پیدا کرتے ہیں اور منطقی ربط کے ساتھ اپنی بات آگے بڑھاتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنی بات مربوط انداز میں صاف ستھرے طریقے سے ادا کرتے ہیں۔
ادبی چاشنی
موضوع کتنا بھی علمی، فکری اور تحقیقی ہو سید صاحب اپنے طرز تحریر سے اسے دلچسپ اور پرلطف بنادیتے ہیں۔ ان کے اسلوب میں خشکی اور بے لطفی نہیں بلکہ ان کے زبان و بیان میں ایک ادبی چاشنی کی گھلاوٹ موجود رہتی ہے۔ اس طرح قاری پوری دلچسپی دلچسپی کے ساتھ ان کی تحریروں کا مطالعہ کرتا ہے۔
مقصدیت
ڈاکٹر سید عبداللہ ادب کو زندگی کا خادم سمجھتے ہیں۔ اس لئے محض عبارت آرائی اور نری انشا پردازی کبھی ان کا مقصد نہیں بنتی چنانچہ ان کا علمی و فکری اسلوب تحریر تنقیدی نگاری کے لئے نہایت مناسب اور موزوں ہے۔ جس طرح وہ ایک متوازن نقاد تسلیم کئے جاتے ہیں اسی طرح ان کا طرزِ تحریر بھی متوازن اور معتدل ہوتا ہے اور مقصدیت کی شان رکھتا ہے۔
اختصار و جامعیت
اپنی تحریروں میں سید صاحب چھوٹے چھوٹے مگر بلیغ اور معنی خیز جملے استعمال کرتے ہیں، ان کے ہاں لفظوں کا استعمال باکفایت اور سادہ لیکن معانی سے پر ہوتا ہے۔ تھوڑے لفظوں میں بڑی بات کہنے کا انداز ان کے اسلوب تحریر کی خاص ادا ہے۔
ہلکا طنز
سید صاحب کی تحریروں میں کبھی طنز کا عنصر بھی آجاتا ہے مگر اس کی چبھن نہایت دھیمی اور قدرے دلکش ہوتی ہے۔ یہ طنز وہ کبھی بے ضرر جملے اور کبھی مناسب حال شعر یا مصرعہ کے ذریعے لاتے ہیں۔ اپنے مضمون اردو ذریعہ تعلیم میں انہوں نے میر تقی میر کے ایک شعر سے یہ کام لیا ہے
لگوائے پتھر اور برا بھی کہا کیے
تم نے حقوق دوستی کے سب ادا کیے
شگفتگی و رعنائی
ڈاکٹر سید عبداللہ عربی، فارسی کے عالم تھے۔ لیکن انہوں نے اپنی تحریروں کو علمی نقاہت سے بوجھل نہیں ہونے نہیں دیا۔ بے شک ان کے ہاں ڈاکٹر مولوی عبدالحق کی طرح ہندی الفاظ کے استعامل کی شعوری کوشش نہیں ملتی۔ لیکن زبان کے معاملے میں وہ لئے دیئے رہنے کی روایت کے قائل نہیں۔ چنانچہ ان کے ہاں بعض معروف انگریزی الفاظ استعمال کی بھی گنجائش نکلتی ہے۔ وہ ایک بڑے ماہر تعلیم بھی تھے اور زبان دانی کے عظیم عالم بھی۔ زبان کے معاملے میں وہ کسی نارواتعصب کے روادار نہ تھے۔ وہ اردو زبان میں وسعت و تنوع پیدا کرنے کے قائل تھے۔ چنانچہ زبان و بیان کے معاملے انہیں آزاد روی زیادہ پسند تھے۔ وہ اس بات کے بھی قائل تھے کہ حسن بیان فصاحت سے پیدا ہوتا ہے۔ اس نقطہ نظر نے ان کی تحریروں کو ایک قسم کی شگفتگی و رعنائی بخشی ہے۔
لغت سازی
کسی زبان کی ترقی و ترویج کے لئے ضروری ہے کہ اس کا دامن علمی و فکری اظہار کے لئے وسیع ہو۔ اس میں اتنی صلاحیت ہو کہ وہ دوسری زبانوں کے الفاظ و اصطلاحات کو اپنے اندر سمونے اور سمیٹنے کی گنجائش رکھتی ہو۔ محض شعرو ادب کے لئے محدود ہوجانے والی زبان کبھی زندہ زبان کا درجہ نہیں پاسکتی۔ زندہ اور پھلتے پھولتے رہنے والی زبان وہی ہو گی جو عام استعمال میں آئے گی۔ ان حقائق کے پیش نظر ڈاکٹر سید عبداللہ نے اردو کو دوسری زبانوں کی سیدھی سادھی آمیزش سے باثروت بنایا۔ نئے الفاظ اور اچھوتی تراکیب کے استعمال سے انہوں نے اردو کو علمی اظہار خیال کے لئے آسان تر بنانے کی کوشش کی۔ ان کے اس اندازِ بیان نے اردو نثر کو عام استعمال کے لئے حوصلہ افزائی کی۔ وہ اردو پر محض ادبی اجارہ داری تسلیم نہیں 

Monday, 24 November 2014

استاد محترم  کا مرکزی خیال

استادِ محترم کا مرکزی خیال
ایک طنزیہ و مزاح کی چاشنی لیے شوکت صدیقی کا تحریر کردہ افسانہ ،جس مں ایک پڑھے لکھے جاہل معاشرے پر گہرا طنز کیا گیا ہے ۔پروفییسر صفدر کیانی سرمایا دار سیاستدان کو ایک ایسی تقریر لکھ کر دیتا ہے جس میں سوائے لغو اور مہمل باتوں کے کچھ نہیں ہوتا ۔مگر اس کی سوچ کے بر عکس صحافی حضرات اور عوام
تعریفوں کے پل باندھ دیتے ہیں اور وہ اس نا اۃلی پر گدھے کو سلام کرنے پر مجبور ہوتا ہے ۔
شوکت صدیقی
(۱۹۲۳ء ۔ ۲۰۰۶ء)

اردو کے معروف ناول و افسانہ نگار، صحافی شوکت صدیقی ۲۰ مارچ ۱۹۲۳ء کو لکھنو میں پیدا ہوئے۔ اسلامیہ ہائی سکول لکھنو سے میٹرک پاس کیا۔ ایف اے اور بی اے بطور پرائیویٹ امیدوار پاس کرنے کے بعد لکھنو یونیورسٹی سے ایم اے سیاسیات کیا اور پھر ماہنامہ ’’ترکش‘‘ لکھنو میں بطور ایڈیٹر ملازمت کا آغاز کیا۔ قیام پاکستان کے بعد ۱۹۴۷ء میں لکھنو سے کراچی منتقل ہو گئے۔ یہاں آپ نے مارننگ نیوز، ٹائمز آف
کراچی اور روزنامہ انجام اور مساوات میں بطور ایڈیٹر خدمات انجام دیں۔
شوکت صدیقی کے زیادہ تر افسانے جرم اور گناہ کی فضا میں پروان چڑھتے ہیں۔ انہوں نے نچلے طبقے کے ایسے کرداروں کی حقیقت پسندانہ عکاسی کی ہے جو آسانی سے طاغوتی طاقتوں کا آلہ کار بنائے جا سکتے ہیں۔ عمل اور مکافات عمل شوکت صدیقی کے افسانوں میں ساتھ ساتھ عمل پذیر ہوتے ہیں۔ وہ اپنے افسانوں میں غربت اور ہوس زر کی آویزش کو سماجی جرائم اور اخلاق باختہ کرداروں سے نمایاں کرتے ہیں۔ یہ انسانوں کے معاشرتی اور جذباتی المیوں کے مناظر کو حزیں اداسی سے سامنے لاتے ہیں۔
شوکت صدیقی نے افسانہ اور ناول نگاری میں بہت شہرت پائی۔ افسانوں کی سب سے پہلی کتاب ’’تیسرا آدمی‘‘ ۱۹۵۲ء میں منظر عام پر آئی۔ آپ کے ناول ’’خدا کی بستی‘‘ کو عالمی سطح پر بہت پذیرائی ملی اور اس ناول کے دنیا کی چالیس سے زائد مختلف زبانوں میں تراجم ہوئے۔ پاکستان ٹیلیویژن نے اس ناول پر ایک ڈرامہ سیریل بنائی۔ اس ناول کو ۱۹۶۰ء میں آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ آپ کا ضخیم ناول ’’جانگلوس‘‘ بھی پی ٹی وی سے ٹیلی کاسٹ کیا گیا۔ ۱۹۹۷ء میں آپ کو حکومت پاکستان کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس، ۲۰۰۲ء میں اکادمی ادبیا ت پاکستان کی طرف سے کمال فن ایوارڈ اور ۲۰۰۴ء میں عالمی فروغ اردو ادب ایوارڈ سے نوازا گیا۔

شوکت صدیقی کا انتقال ۱۸، دسمبر ۲۰۰۶ء کو کراچی میں ہوا اور ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودئہ خاک ہوئے

سوانح

شہزاد احمد نے 16 اپریل 1932کو مشرقی پنجاب کے مشہور تجارتی اور ادبی شہر امرتسر کے ایک ممتاز خاندان کے فرد ڈاکٹرحافظ بشیر کے گھرانے میں جنم لیا، گورنمنٹ کالج لاہور سے 1952ءمیں نفسیات اور 1955ء میں فلسفے میں پوسٹ گریجوایشن کی اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ ’’صدف‘‘ 1958ء میں ان کی غزلوں کا پہلا مجموعہ ہے۔ ان کی غزلوں کے مجموعے ’’جلتی بھجتی آنکھیں‘‘ 1969ء پر آدم جی ادبی انعام دیا گیا۔ ’’پیشانی میں سورج’‘ پر انہیں ہجرہ(اقبال) ایوارڈ دیا گیا۔ 1997ء میں ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی عطا کیا گیا۔ طالب علمی کے زمانے میں بھی ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا جاتا رہا، انہیں 1952 میں گورنمنٹ کالج لاہور کے ’’اکیڈمک رول آف آنر‘‘ سے نوازا گیا۔ وہ 1949،50 کے دوران فلاسوفیکل سوسائٹی کے سیکرٹی بھی رہے۔

شہزاد احمد شعر و نقد شعر کے علاوہ نفسیات اور فلسفہ کے موضوعات پر انتہائی اہم مضامین سپرد قلم کر چکے ہیں اور متعدد اہم ترین سائنسی موضوعات پر معروف کتب کے تراجم بھی ان کے نام کے ساتھ یادگار ہو چکے ہیں۔ اسلام اور فلسفہ ان کا محبوب موضوع ہے اور اس سلسلے میں ان کی تصانیف اور تراجم پاکستانی ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ انہیں انجمن ترقی ادب کا بہترین مضمون نویسی کا ایوارڈ 1958ء، نقوش ایورڈ 1989ء اور مسعود کھدر پوش ایوارڈ 1997ء بھی مل چکا ہے۔ ’’بیاض‘‘ لاہور ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف کے طور پر ان کے نام سے معنون ایک خصوصی شمارہ بھی شائع کر چکا ہے۔ شہزاداحمد کا انتقال یکم اگست 2012 بمطابق 12 رمضان المبارک 1433ھ بروز بدھ شام چار بجے لاہور میں ہوا۔ مرحوم کی عمر 80 برس تھی۔ شہزاد احمد نے سوگواران میں دو بیٹے اور تین بیٹاں چھوڑی ہیں۔ ا
شاعری

یوں تو ہماری شاعری کا بنیادی موضوع محبت اور اس سے وابستہ احساسات و جذبات کا فنکارانہ اظہار رہا ہے مگر شہزاد احمد اردو کا پہلاغزل گو ہے جس نے غزل کے اس بنیادی موضوع کو تجربے کے علاوہ علم کی سطح پر بھی برتا ہے اور یوں وہ محبت کی نفسیات کا ماہر غزل گو تسلیم کیا گیا ہے۔
انفرادیت

محبت کے موضوع کو علم کی سطح پر برتنے کا یہ مطلب ہرگزر نہیں کہ شہزاد احمد کی غزل علمی متانت اور پیوست کا شکار ہو گئی ہے۔ بلکہ جب شہزاد اس موضوع کو اپنی غزل میں کھپاتا ہے تو وہ نہ صرف اپنے تجربے اور مشاہدے سے بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے بلکہ علم نفسیات کے جدید اکتشافات سے بھی مسلح ہوتا ہے اور یوں اس کی غزل ، دیگر غزل گو شعرائ سے مختلف اور منفرد ہو جاتی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اتنی چاق و چوبند اور سچی اور کھری غزل کے لیے شہزاد احمد جو زبان استعمال کرتا ہے وہ اتنی سادہ اور سلیس ہوتی ہے کہ کسی ایک مصرعے سے بھی یہ گمان نہیں ہوتا کہ اس نے جو کچھ کہا ہے، انتہائی بے شاختگی سے کہا ہے اور صرف اس وقت کہا ہے جب شعر کہنے کے سوا اس کے لیے کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ کسی مقام پر بھی شہزاد احمد سے اپنے وسیع تجرباتی اورعلمی پس منظر کی اتراہٹ سرزد نہیں ہوتی ۔ اس دور میں شہزاد احمد کی غزل سے زیادہ اور اس سادگی کے باجوجود نہایت پرکار غزل شاید ہی کسی نے کہی ہو
نیا اسلوب

غزل میں اپنا ایک اسلوب پیدا کرنے کے بعد اب گزشتہ کچھ عرصے سے شہزاد احمد کی غزل میں ایک تبدیلی رونما ہو رہی ہے ۔ اسے شاید تبدیلی نہیں کہنا چاہیے کیونکہ تبدیلی کے ساتھ ترمیم کا تصور وابستہ ہے اور شہزاد کو اپنے موضوع میں کوئی ترمیم گوارا نہیں اور شاید اسے اس طرح کی ترمیم کی ضرورت بھی نہیں۔ چنانچہ اسے شہزاد کے منفرف اسلوب میں اضافہ قرار دے لیجیے کہ اب وہ غزل میں فرد اور ذات کی نفسیات کے ساتھ ہی پورے معاشرے کی نفسیات کو بھی سمونے لگا ہے اور اس کے سے خالص غزل گو کے موضوع میں اضافہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ بحیثیت فنکار ، شہزاد کا ایک موضوع سے دوسرے موضوع تک مربوط سفر ایک ارتقائی سفر ہے۔وہ فنکار بھی کیا جو ساری زندگی اپنے آپ ہی سے لڑتے بھڑتے گزار دے اور بالواسطہ طور پر اپنی ذات سے باہر کی دنیا کی فنی کر دے۔ اپنے آپ سے پنجہ آزما ہونا بھی ایک حقیقت ہے اور اس کا اظہار کفر نہیں ہے لیکن جب شاعر اپنے معاشرے اور اپنے عصر کے پس منظر میں اپنی ذات کے تجرباتی مطالعے پر قدرت حاصل کر لے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اس نے اپنی ذات سے بھی بڑی حقیقت کا اثبات کیا ہے اور شہزاد احد ان دونوں اسی اثبات کے سفر میں ہے۔
نظم

شہزاد احمد نے نظمیں بھی کہیں ۔ ان کی نظمیں ان کی غزل کے ایک ایک شعر کی تشریحات محسوس ہوتی ہیں۔ کہ ان میں غزل کا سا حسن و بے شاختگی ہے۔ نظم کے سلسلے میں مشکل یہ ہے کہ اس کے لیے خیال و احساس کی ایک جامعیت ۔۔۔۔۔۔ایک مرکزیت ضروری ہوتی ہے۔ اس لیے تو جس طرح ضروری نہیں کہ کامیاب نظم نگار اچھی غزل کہنے پر قادر ہو ۔ ماسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ کامیاب غزل گو اچھی نظم تخلیق کرنے پر قدرت رکھتا ہو ۔ مگر غزل گو شہزاد احمد نے اپنی تخلیقی ہمہ گیری سے ، اس مفروضے کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ اس کی نظمیں جہاں انسانی نفسیات کی بوقلمونی سے آراستہ ہیں۔ وہیں ان کا معیار بھی شہزاد کی غزل کی طرح صاف ستھرا اور بلند ہے۔ شہزاد احمد نے غزل اور نظم کے علاوہ نفسیات پر بھی کتابیں لکھی ہیں اور بعض غیر معمولی کتابوں کے ترجمے بھی کیے ہیں اور نفسیات اور فلسفے کے ساتھ ساتھ سائنسی موضوعات پر بھی بہت محنت اور کاوش سے لکھا ہے۔ شہزاد احمد اردو ادب کی ایک ہمہ گییر اور ہمہ صف اور سرمایہ افختار شخصیت ہیں



سون گڑیا (مرکزی خیال )
ایک علامتی افسانہ جسے الطاف فاطمہ کے قلم نے لکھا ۔دولت ،طاقت اور اقتدار جسم فروشی کی علامت سون گڑیا ۔۔۔۔۔دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نے ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کی ہے جس میں ہر فرد اس کے حصول کے لیےپریشان نظر آرہا ہے ۔افسانہ کا مرکزی کردار اسی خواہش کی زد میں آکر سون گڑیا سے شادی کی خواہش رکھتا ہے ۔
الطاف فاطمہ ۱۹۲۹ء کو لکھنو میں پیدا ہوئیں۔ ان کے خاندان میں کئی نامور ادیب پیدا ہوئے، جن میں نامور افسانہ نگار سید رفیق حسین کے علاوہ ’’نشتر‘‘ کے مصنف بھی شامل ہیں جو قرۃالعین حیدر کے مطابق ہندوستان کی کسی بھی زبان میں لکھا جانے والا پہلا ناول ہے۔ الطاف فاطمہ نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے، بی ایڈ کی اسناد حاصل کیں اور لاہور کے اسلامیہ کالج برائے خواتین اور اپوا کالج میں اردو کی تدریس سے وابستہ ہو گئیں۔



الطاف فاطمہ کی کتابوں میں ’’دستک نہ دو‘‘ کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ یہ ناول ٹیلیویژن پر قسط وار ڈرامے کے طور پر بھی دکھایا گیا اور اس کا انگریزی زبان میں ترجمہ بھی لندن سے شائع ہوا۔ ان کا ناول ’’نشان محفل‘‘ بھی بہت مقبول ہوا۔ الطاف فاطمہ جدید اردو ادب کا ممتاز نام ہیں۔ ان کے افسانوں کے کئی مجموعے اور ناول شائع ہو کر پڑھنے والوں میں مقبول ہو چکے ہیں۔

ان کی دیگر کتابوں میں چلتا مسافر، جب دیواریں گریہ کرتی ہیں، خواب گر، تار عنکبوت، وہ جسے چاہا گیا، نغمے کا قتل… شامل ہیں۔


الطاف فاطمہ آج کل لاہور میں ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہی ہیں لیکن ادبی کام مسلسل جاری ہے۔

Saturday, 15 November 2014



مرثیہ۔ ۔ تعارف

مرثیہ اردو کی ایک مقبول صنف سخن ہے جس کا شمار شاعری کی مقبول و معروف موضوعی اصناف میں ہوتا ہے۔ زمانہ قدیم میں دو بیتی، مربع، مثلث اور مخمس کے فارم میں بھی مرثیے رائج رہے۔ آج بھی غزل کے فارم کو شخصی مرثیوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ مرثیہ کو مسدس کی معروف شکل میں سب سے پہلے سودا نے استعمال کیا۔ انیس اور دبیر کے مرثیوں کی بے پناہ مقبولیت کے سبب مرثیوں کے ساتھ مسدس کی ہیئت مخصوص ہو گئی ہے۔
مرثیہ کے موجودہ اجزائے ترکیبی میر ضمیر نے متعین کئے جن کی پابندی کی جاتی ہے کبھی کبھی ان سے گریز بھی کیا گیا ہے۔ وہ اجزاء یہ ہیں (1) چہرہ (2) سراپا (3) رخصت (4) آمد (5) رجز (6) رزم (7)شہادت اور (8) بین
مرثیہ کی تہذیبی اور تمدنی اہمیت کے علاوہ اس کی ادبی اہمیت سے نکار نہیں کیا جاسکتا۔ مرثیہ کی مقبولیت کا راز جہاں مذہب سے وابستگی ہے وہیں تہذیبی اخلاقی اور ادبی محاسن میں بھی مضمر ہے۔ اس کی مقبولیت کے کئی اسباب ہیں جن میں سے زیادہ موثر اور مقبول عام سبب مرثیہ کی جذباتی اور مذہبی نوعیت ہے۔
مرثیہ کا فن
مسڈس، مرثیے کی انتہائی ترقی یافتہ شکل ہے۔ ابتداء میں مرثیہ دو بیتی، مثلث، مربع اور مخمس میں بھی لکھا گیا۔ سودا نے مرثیہ کو مسدس کی شکل میں روشناس کروایا۔ سودا سے قبل بھی مسدس کے فارم میں مرثیے لکھے گئے
مرثیے کے اجزائے ترکیبی
مرثیہ چونکہ واقعات کربلا پر مبنی ہے اس لئے اس میں واقعات کربلا کی تفصیل بیان ہوتی ہے۔ مثلاً جاں نثار ان حسین اور خانوادہ حسین کی سیر و شخصیت، کردار، جذبات، احساسات، اعزہ سے رخصتی، میدان کار زار میں ان بے سر و ساماں فدائیانِ حسین کی آمد، آلات حرب، جنگ کا منظر، گھوڑوں کی تیزی، تلواروں و نیزوں کی چمک دمک، فرات کے کناروں پر یزیدیوں کے پہرے، پیاسوں کی شہادت اور پھر ان کی زخم خوردہ لاشوں پر بین و بکا وغیرہ۔ ان واقعات و بیانات میں ایک منطقی ربط و تسلسل قائم رکھنے کی خاطر مرثیے کے لئے آٹھ اجزائے ترکیبی وضع کئے گئے :

(1) چہرہ
(2) ماجرا
(3) سراپا
(4) رخصت
(5) آمد
(6) رجز
(7) شہادت
(8) بین

مرثیے میں اجزائے ترکیبی کا یہ تعین استاد دبیر میر ضمیر نے کیا۔ لیکن اس کی پابندی پوری طرح نہیں ہوسکی۔ خود ضمیر اور بعد میں انیس و دبیر کے یہاں بھی اس کی پابندی نہیں ہوسکی۔ مثلاً مرزا سلامت علی دبیر کا ایک مشہور مرثیہ ہے ’’کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے’‘۔ یہ مرثیہ ’’آمد’‘ سے شروع ہوتا ہے۔

چہرہ
مرچیہ کی تمہید کو کہتے ہیں جس میں شاعر حمد، نعت، منقبت حضرت علی و امام حسین کے علاوہ مکہ سے سفر، سفر کے پرخطر حالات، گرمی کا موسم، صبح کا موسم بیان کرتا یا پھر اپنی شاعرانہ عظمت، قادر الکلامی، ثنا خوان حسین ہونے پر فخر کا اظہار کرتا ہے۔ کبھی پیاس کی کیفیت کی بیان کرتا ہے۔ عموماً موسم کے بیان میں گرمی کی شدت، صبح کا منظر، چڑیوں کی چہچہاہٹ، شبنم کا پھولوں پر گہرا آبدار بن کر چمکنا وغیرہ قسم کے مناظر تشبیہہ و استعارے اور صنائع بدائع کی زرتابی کے ساتھ قلم بند کرتے ہیں۔ انیس کے ایک مشہور مرثیے میں صبح کا منظر اس طرح بیان کیا گیا ہے :

وہ دشت، وہ نسیم کے جھونکے، وہ سبزہ زار
پھولوں پہ جا بہ جا وہ گہر ہائے آبدار

سراپا(ظاہری شخصیت)

عموماً یہ ایک طرح سے انصار حسینی کا تعارف ہوتا ہے۔ کبھی کبھی لشکر یزید کے ساتھیوں کا بھی سراپا لکھا گیا ہے۔ سراپا لکھنے میں شاعر اپنا زور قلم صرف کر دیتا ہے، جس سے شاعر کی اپنی محبت و عقیدت کا بھرپور اظہار ہوتا ہے تو دوسری طرف باطل یعنی یزیدیوں سے تنفر کا احساس ہوتا ہے۔ سراپا بیان کرتے وقت تشبیہات و استعارات سے مدد لی جاتی ہے۔ صنائع بدائع کے خزانے لٹا دئیے جاتے ہیں۔ دبیر نے ایک مرثیے میں بالکلیہ ہی علیحدہ انداز میں تصویر کشی کی ہے۔
آئینہ کہا رخ کو تو، کچھ بھی نہ ثنا کی
صنعت وہ سکندر کی، یہ صنعت ہے خدا کی

رخصت

میدان جنگ میں جانے کے لئے خیمہ حسین سے ایک بعد دیگرے جانباز، سر پر کفن باندھ کر نکلتے ہیں تو خیمے میں مکیں ، متعلقین اور مستورات انہیں بہ دل بریاں ، بہ چشم گریاں ، بہ لب لرزاں مگر بھرپور قوت ایمانی کے ساتھ رخصت کرتے ہیں۔ اہل خیمہ کو یقین ہے کہ یہ اب زندہ واپس نہیں آئیں گے۔ اس موقع پر وداع کرنے والے عزیزوں اور پیاروں کے جذبات محبت اور قوت ایمانی کے جو مرقعے مرثیوں میں کھینچے گئے ہیں وہ پڑھنے کے لائق ہیں۔

آمد

میدان جنگ میں آمد کا منظر زیادہ طویل نہیں ہوتا۔ یہ بند رخصت اور رجز سے جڑا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی آمد کے موقع پر گھوڑے کی تعریف بھی کی جاتی ہے۔

رجز

عربوں میں رواج تھا کہ دو حریف جب میدان جنگ میں آمنے سامنے ہوتے تو جنگ شروع ہونے سے قبل ایک دوسرے کو للکارتے، اپنی اور اپنے آبا و اجداد کی شجاعت، طاقت اور خاندانی عظمت، دینداری و قوت ایمانی وغیرہ کا ذکر کرتے تھے، جس میں جوش، غضب اور ولولہ ہوتا تھا۔ اس اظہار کو جو فصاحت و بلاغت کا مرقع ہوتا ہے اصطلاحاً ’ ’رجز’‘ کہتے ہیں۔ سبھی مرثیہ نگاروں نے اس حصے میں بلاغت و فصاحت کے دریا بہا دئیے ہیں۔ انیس کے ایک مرثیے سے رجز کا ایک بند ملاحظہ ہو۔ یہ رجز حضرت امام حسین کی زبانی ہے۔

دنیا ہو اک طرف تو لڑائی کو سر کروں
آئے غضب خدا کا ادھر، رخ جدھر کروں

بے جبرئیل کار قضا و قدر کروں
انگلی کے اک اشارے میں شق القمر کروں

طاقت اگر دکھاؤں ، رسالت مآب(ص) کی
رکھ دوں زمین پہ چیر کے ڈھال آفتاب کی

یہ مرثیے کا نہایت ہی اہم حصہ ہوتا ہے جس میں شاعر میدان جنگ کی تیاری، فوجوں کے ساز و سامان، گھوڑوں کی تعرے، ان کا غیض و غضب، براق کی سی تیز رفتاری، تلواروں کی چمک، نیزوں کی کڑک، سپاہیوں کی پھرتی، بے جگری سے لڑائی، جاں توڑ مقابلہ وغیرہ، ان تمام حالتوں اور کیفیتوں کو بڑی خوبی سے بیان کرتا ہے، جس سے اس کی بلندی خیال اور قوت اظہار کا پتہ چلتا ہے۔ یہ اشعار دیکھئے جن میں میدان جنگ کی تصویر ہو بہو سامنے آ جاتی ہے۔

نیزے ہلے، وہ چل گئیں چوٹیں کہ الاماں
ہر طعن قہر کی تھی، قیامت کی ہر تکاں

شہادت
مرثیوں میں یہ حصہ بھی بڑا جاندار ہوتا ہے کیونکہ اسی بیان پر بین کی شدت کا انحصار ہوتا ہے۔ اس حصے میں فوج حسینی کے شہید کی میدان میں جرأت، بہادری اور فن سپاہ گری کے کمالات بیان کرتے ہوئے زخموں سے چور چور نڈھال ہو کر گر جانے اور شہادت پانے کا ذکر آتا ہے۔ یہ مرثیہ کا بڑا دلدوز حصہ ہوتا ہے۔ حضرت علی اکبر کی شہادت پر امام حسین کا حال زار اور کیفیت انیس اس طرح بیان کرتے ہیں:

حضرت یہ کہتے تھے کہ چلا خلق سے پسر
اتنی زباں ہلی کہ خدا حافظ اے پسر

ہچکی جو آئی، تھام لیا ہاتھ سے جگر
انگڑائی لے کے رکھ دیا شہ کے قدم پہ سر

آباد گھر لٹا شہ والا کے سامنے
بیٹے کا دم نکل گیا بابا کے سامنے

بین

مرثیہ کا آخری جزو بین ہوتا ہے، جس میں مجاہد کی شہادت اور لاش کو خیمے میں لانے، خواتین کے رنج و الم اور بین و بکا کے جذبات کی عکاسی کی جاتی ہے۔ یہی دراصل مرثیے کا مقصد و منشاء ہوتا ہے۔ شاعر کا کمال یہ ہے کہ اس حصے کو اتنا پر اثر اور جاندار بنا دے کہ مجلس برپا ہو جائے۔

کہین کو مرثیہ شہدائے کربلا اور واقعات کربلا کے حالات بیان کرنے لکھا جاتا ہے، لیکن مرثیہ گو کی شان تخلیق اور قوت اظہار سے مرثیہ ایک ادبی شہکار بن جاتا ہے۔ اس ادبی شہکار میں وحدت میں کثرت کے جلوے نظر آتے ہیں۔ اس میں قصیدے کی شان و شکوہ، جلالت و بلاغت ہوتی ہے۔ مثنوی کی سادگی و سلاست اور قصہ پن، منظر نگاری، جذبات نگاری، کردار نگاری، مکالمہ نگاری، محاکات کے جاندار وسیع و ہمہ گیر مرقعے نظر آتے ہیں۔ کردار نگاری میں عموماً انیس نے اس بات کا لحاظ رکھا ہے کہ مکالمے کردار سے مطابقت رکھتے ہوں۔ صغریٰ، سکینہ، عون و محمد بچے ہیں تو وہ بچوں کی سی باتیں کرتے ہیں۔ حضرت عباس غصہ ور جوان ہیں تو وہ جوشیلی گفتگو کرتے ہیں ، عورتیں اپنے لب و لہجے روز مرہ و محاوروں کا استعمال کرتی ہیں۔ مرثیوں سے تشبیہ و استعارے کے خزانے میں بیش بہا اضافہ ہوا ہے۔ زندگی میں بعض مواقع آتے ہیں کہ آدمی کی قوت گویائی ساتھ نہیں دیتی۔ مرثیہ گویوں نے ایسے نازک موقعوں پر الفاظ کے موتی لٹا دئیے ہیں۔ حسن تعلیل کی ایک خوبصورت مثال دیکھئے :

پیاسی جو تھی سپاہ خدا تین رات کی
ساحل سے سر پٹکتی تھیں موجیں فرات کی

پیکر تراشی
مرثیوں کی دنیا میں جہاں پیکر تراشی بھی ہے صورت گری بھی ہے، بلندی تخیل بھی ہے اور اس کا اعلان بھی ہے کہ لفظ کا جادو بے جان اشیاء کو پیکر عطا کرتا ہے اور انہیں متحرک بنا دیتا ہے۔ صناعی، خیال کو حُسن عطا کرتی ہے اور وہ مذہب کلامی، تشبیہ، استعارہ، کنایہ اور تجینس کے تمام اقسام اور مروجہ لفظی اور معنوی صنعتیں مراثی میں ملتی ہیں جو ان کی تخلیق و تزئین میں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں۔

آخری پہلو یہ بھی قابل غور ہے کہ یہ عالمی ادب میں واحد صنف ہے جہاں موضوعات مذہب کا رنگ لئے ہوئے ہیں مگر دوسرے مذہب کے ماننے والے صنف مرثیہ سے نہ صرف یہ کہ دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ اس صنف میں طبع آزمائی بھی کرتے ہیں۔

اور وہ لوگ جو مذہباً، عقیدتاً مسلمان نہ تھے انہوں نے بھی مرثیے لکھے اور بڑی شان سے لکھے۔ تقریباً پانچ سو مرثیہ نگاروں میں سو مرثیہ نگار غیرمسلم ہیں۔ ان میں سیوا، کشن پرشاد شاد، الفت رائے الفت، کنورسین مضطر، مہاراجہ کلیان سنگھ، مکھن لال مکھن، راجہ بلوان سنگھ والی بنارس، روپ کماری، یا منی لال جوان، چھنولال دلگیر اور ڈاکٹر بتھونی لال وحشی مظفر پوری کے نام نامی ہیں۔ صر ف کچھ مثالیں اشارتاً پیش کی جاری ہیں۔ ان کے مرثیوں میں بھی وہ سارے اجزاء موجود ہیں جنہوں نے مرثیہ کو انفرادیت عطا کی ہے مثلاً روپ کماری کہتی ہیں :
ترکیبی منطقی ترتیب متعین کی۔ میر وسودا کے زمانے سے لے کر آج تک دیگر ہیئتوں میں بھی مرثیے لکھے گئے اور ا جزائے ترکیبی کی بھی پابندی میں تھوڑی بہت چھوٹ اختیار کی۔

مرثیے کی مقبولیت کے اسباب میں سب سے زیادہ اہمیت مذہبی جذبات کو حاصل ہے۔ اسی جذبے کی تسکین کے لئے اعلیٰ و ارفع مرثیے لکھے گئے۔ ان مرثیوں میں مذہب کا سہارا لے کر تہذیبی، جمالیاتی، اخلاقی اور ادبی قدروں کو بھی مرثیہ میں شامل کر لیا گیا۔ مرثیوں میں رشتوں کی پاسداری میں تہذیب کے متنوع عوامل شعوری اور غیر شعوری طور پر شامل ہو گئے ہیں۔ مرثیے کو پر اثر مقبول بنانے میں زبان و بیان کی جادوگری تشبیہ و استعارے، صنائع و بدائع کے خزانے لٹا دئیے گئے ہیں۔ مرثیہ نگاروں کی فہرست میں ہزاروں شاعروں کے نام آتے ہیں لیکن جو مقبولیت میر انیس اور مرزا دبیر کو حاصل ہے وہ کسی اور کو نہ مل سکی۔ ان شاعروں کا مشاہدہ تیز ہے، لفظوں کے انتخاب و ترتیب کا ان میں سلیقہ ہے، کلام میں فصاحت بھی ہے اور بلاغت بھی، کردار نگاری میں ان کا جواب نہیں ، جذبات اور مناظر قدرت کی عکاسی میں وہ اپنے جوہر دکھاتے ہیں۔ مرثیوں کی مقبولیت کا اہم راز یہ بھی ہے کہ اس میں نفسیات انسانی کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ کائنات کا مطالعہ مرثیہ کو وقعت عطا کرتا ہے۔ سیرت و پیکر تراشی سے مرثیوں میں جان پڑ گئی ہے۔ مرثیہ کہنے کو ایک صنف سخن ہے مگر اس میں دیگر اصناف کی بھی جھلکیاں نظر آتی ہیں گویا وحدت میں کثرت کے جلوے نظر آتے ہیں۔


مرثیہ۔ ۔ تعارف

مرثیہ اردو کی ایک مقبول صنف سخن ہے جس کا شمار شاعری کی مقبول و معروف موضوعی اصناف میں ہوتا ہے۔ زمانہ قدیم میں دو بیتی، مربع، مثلث اور مخمس کے فارم میں بھی مرثیے رائج رہے۔ آج بھی غزل کے فارم کو شخصی مرثیوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ مرثیہ کو مسدس کی معروف شکل میں سب سے پہلے سودا نے استعمال کیا۔ انیس اور دبیر کے مرثیوں کی بے پناہ مقبولیت کے سبب مرثیوں کے ساتھ مسدس کی ہیئت مخصوص ہو گئی ہے۔
مرثیہ کے موجودہ اجزائے ترکیبی میر ضمیر نے متعین کئے جن کی پابندی کی جاتی ہے کبھی کبھی ان سے گریز بھی کیا گیا ہے۔ وہ اجزاء یہ ہیں (1) چہرہ (2) سراپا (3) رخصت (4) آمد (5) رجز (6) رزم (7)شہادت اور (8) بین
مرثیہ کی تہذیبی اور تمدنی اہمیت کے علاوہ اس کی ادبی اہمیت سے نکار نہیں کیا جاسکتا۔ مرثیہ کی مقبولیت کا راز جہاں مذہب سے وابستگی ہے وہیں تہذیبی اخلاقی اور ادبی محاسن میں بھی مضمر ہے۔ اس کی مقبولیت کے کئی اسباب ہیں جن میں سے زیادہ موثر اور مقبول عام سبب مرثیہ کی جذباتی اور مذہبی نوعیت ہے۔
مرثیہ کا فن
مسڈس، مرثیے کی انتہائی ترقی یافتہ شکل ہے۔ ابتداء میں مرثیہ دو بیتی، مثلث، مربع اور مخمس میں بھی لکھا گیا۔ سودا نے مرثیہ کو مسدس کی شکل میں روشناس کروایا۔ سودا سے قبل بھی مسدس کے فارم میں مرثیے لکھے گئے
مرثیے کے اجزائے ترکیبی
مرثیہ چونکہ واقعات کربلا پر مبنی ہے اس لئے اس میں واقعات کربلا کی تفصیل بیان ہوتی ہے۔ مثلاً جاں نثار ان حسین اور خانوادہ حسین کی سیر و شخصیت، کردار، جذبات، احساسات، اعزہ سے رخصتی، میدان کار زار میں ان بے سر و ساماں فدائیانِ حسین کی آمد، آلات حرب، جنگ کا منظر، گھوڑوں کی تیزی، تلواروں و نیزوں کی چمک دمک، فرات کے کناروں پر یزیدیوں کے پہرے، پیاسوں کی شہادت اور پھر ان کی زخم خوردہ لاشوں پر بین و بکا وغیرہ۔ ان واقعات و بیانات میں ایک منطقی ربط و تسلسل قائم رکھنے کی خاطر مرثیے کے لئے آٹھ اجزائے ترکیبی وضع کئے گئے :

(1) چہرہ
(2) ماجرا
(3) سراپا
(4) رخصت
(5) آمد
(6) رجز
(7) شہادت
(8) بین

مرثیے میں اجزائے ترکیبی کا یہ تعین استاد دبیر میر ضمیر نے کیا۔ لیکن اس کی پابندی پوری طرح نہیں ہوسکی۔ خود ضمیر اور بعد میں انیس و دبیر کے یہاں بھی اس کی پابندی نہیں ہوسکی۔ مثلاً مرزا سلامت علی دبیر کا ایک مشہور مرثیہ ہے ’’کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے’‘۔ یہ مرثیہ ’’آمد’‘ سے شروع ہوتا ہے۔

چہرہ
مرچیہ کی تمہید کو کہتے ہیں جس میں شاعر حمد، نعت، منقبت حضرت علی و امام حسین کے علاوہ مکہ سے سفر، سفر کے پرخطر حالات، گرمی کا موسم، صبح کا موسم بیان کرتا یا پھر اپنی شاعرانہ عظمت، قادر الکلامی، ثنا خوان حسین ہونے پر فخر کا اظہار کرتا ہے۔ کبھی پیاس کی کیفیت کی بیان کرتا ہے۔ عموماً موسم کے بیان میں گرمی کی شدت، صبح کا منظر، چڑیوں کی چہچہاہٹ، شبنم کا پھولوں پر گہرا آبدار بن کر چمکنا وغیرہ قسم کے مناظر تشبیہہ و استعارے اور صنائع بدائع کی زرتابی کے ساتھ قلم بند کرتے ہیں۔ انیس کے ایک مشہور مرثیے میں صبح کا منظر اس طرح بیان کیا گیا ہے :

وہ دشت، وہ نسیم کے جھونکے، وہ سبزہ زار
پھولوں پہ جا بہ جا وہ گہر ہائے آبدار

سراپا(ظاہری شخصیت)

عموماً یہ ایک طرح سے انصار حسینی کا تعارف ہوتا ہے۔ کبھی کبھی لشکر یزید کے ساتھیوں کا بھی سراپا لکھا گیا ہے۔ سراپا لکھنے میں شاعر اپنا زور قلم صرف کر دیتا ہے، جس سے شاعر کی اپنی محبت و عقیدت کا بھرپور اظہار ہوتا ہے تو دوسری طرف باطل یعنی یزیدیوں سے تنفر کا احساس ہوتا ہے۔ سراپا بیان کرتے وقت تشبیہات و استعارات سے مدد لی جاتی ہے۔ صنائع بدائع کے خزانے لٹا دئیے جاتے ہیں۔ دبیر نے ایک مرثیے میں بالکلیہ ہی علیحدہ انداز میں تصویر کشی کی ہے۔
آئینہ کہا رخ کو تو، کچھ بھی نہ ثنا کی
صنعت وہ سکندر کی، یہ صنعت ہے خدا کی

رخصت

میدان جنگ میں جانے کے لئے خیمہ حسین سے ایک بعد دیگرے جانباز، سر پر کفن باندھ کر نکلتے ہیں تو خیمے میں مکیں ، متعلقین اور مستورات انہیں بہ دل بریاں ، بہ چشم گریاں ، بہ لب لرزاں مگر بھرپور قوت ایمانی کے ساتھ رخصت کرتے ہیں۔ اہل خیمہ کو یقین ہے کہ یہ اب زندہ واپس نہیں آئیں گے۔ اس موقع پر وداع کرنے والے عزیزوں اور پیاروں کے جذبات محبت اور قوت ایمانی کے جو مرقعے مرثیوں میں کھینچے گئے ہیں وہ پڑھنے کے لائق ہیں۔

آمد

میدان جنگ میں آمد کا منظر زیادہ طویل نہیں ہوتا۔ یہ بند رخصت اور رجز سے جڑا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی آمد کے موقع پر گھوڑے کی تعریف بھی کی جاتی ہے۔

رجز

عربوں میں رواج تھا کہ دو حریف جب میدان جنگ میں آمنے سامنے ہوتے تو جنگ شروع ہونے سے قبل ایک دوسرے کو للکارتے، اپنی اور اپنے آبا و اجداد کی شجاعت، طاقت اور خاندانی عظمت، دینداری و قوت ایمانی وغیرہ کا ذکر کرتے تھے، جس میں جوش، غضب اور ولولہ ہوتا تھا۔ اس اظہار کو جو فصاحت و بلاغت کا مرقع ہوتا ہے اصطلاحاً ’ ’رجز’‘ کہتے ہیں۔ سبھی مرثیہ نگاروں نے اس حصے میں بلاغت و فصاحت کے دریا بہا دئیے ہیں۔ انیس کے ایک مرثیے سے رجز کا ایک بند ملاحظہ ہو۔ یہ رجز حضرت امام حسین کی زبانی ہے۔

دنیا ہو اک طرف تو لڑائی کو سر کروں
آئے غضب خدا کا ادھر، رخ جدھر کروں

بے جبرئیل کار قضا و قدر کروں
انگلی کے اک اشارے میں شق القمر کروں

طاقت اگر دکھاؤں ، رسالت مآب(ص) کی
رکھ دوں زمین پہ چیر کے ڈھال آفتاب کی

یہ مرثیے کا نہایت ہی اہم حصہ ہوتا ہے جس میں شاعر میدان جنگ کی تیاری، فوجوں کے ساز و سامان، گھوڑوں کی تعرے، ان کا غیض و غضب، براق کی سی تیز رفتاری، تلواروں کی چمک، نیزوں کی کڑک، سپاہیوں کی پھرتی، بے جگری سے لڑائی، جاں توڑ مقابلہ وغیرہ، ان تمام حالتوں اور کیفیتوں کو بڑی خوبی سے بیان کرتا ہے، جس سے اس کی بلندی خیال اور قوت اظہار کا پتہ چلتا ہے۔ یہ اشعار دیکھئے جن میں میدان جنگ کی تصویر ہو بہو سامنے آ جاتی ہے۔

نیزے ہلے، وہ چل گئیں چوٹیں کہ الاماں
ہر طعن قہر کی تھی، قیامت کی ہر تکاں

شہادت
مرثیوں میں یہ حصہ بھی بڑا جاندار ہوتا ہے کیونکہ اسی بیان پر بین کی شدت کا انحصار ہوتا ہے۔ اس حصے میں فوج حسینی کے شہید کی میدان میں جرأت، بہادری اور فن سپاہ گری کے کمالات بیان کرتے ہوئے زخموں سے چور چور نڈھال ہو کر گر جانے اور شہادت پانے کا ذکر آتا ہے۔ یہ مرثیہ کا بڑا دلدوز حصہ ہوتا ہے۔ حضرت علی اکبر کی شہادت پر امام حسین کا حال زار اور کیفیت انیس اس طرح بیان کرتے ہیں:

حضرت یہ کہتے تھے کہ چلا خلق سے پسر
اتنی زباں ہلی کہ خدا حافظ اے پسر

ہچکی جو آئی، تھام لیا ہاتھ سے جگر
انگڑائی لے کے رکھ دیا شہ کے قدم پہ سر

آباد گھر لٹا شہ والا کے سامنے
بیٹے کا دم نکل گیا بابا کے سامنے

بین

مرثیہ کا آخری جزو بین ہوتا ہے، جس میں مجاہد کی شہادت اور لاش کو خیمے میں لانے، خواتین کے رنج و الم اور بین و بکا کے جذبات کی عکاسی کی جاتی ہے۔ یہی دراصل مرثیے کا مقصد و منشاء ہوتا ہے۔ شاعر کا کمال یہ ہے کہ اس حصے کو اتنا پر اثر اور جاندار بنا دے کہ مجلس برپا ہو جائے۔

کہین کو مرثیہ شہدائے کربلا اور واقعات کربلا کے حالات بیان کرنے لکھا جاتا ہے، لیکن مرثیہ گو کی شان تخلیق اور قوت اظہار سے مرثیہ ایک ادبی شہکار بن جاتا ہے۔ اس ادبی شہکار میں وحدت میں کثرت کے جلوے نظر آتے ہیں۔ اس میں قصیدے کی شان و شکوہ، جلالت و بلاغت ہوتی ہے۔ مثنوی کی سادگی و سلاست اور قصہ پن، منظر نگاری، جذبات نگاری، کردار نگاری، مکالمہ نگاری، محاکات کے جاندار وسیع و ہمہ گیر مرقعے نظر آتے ہیں۔ کردار نگاری میں عموماً انیس نے اس بات کا لحاظ رکھا ہے کہ مکالمے کردار سے مطابقت رکھتے ہوں۔ صغریٰ، سکینہ، عون و محمد بچے ہیں تو وہ بچوں کی سی باتیں کرتے ہیں۔ حضرت عباس غصہ ور جوان ہیں تو وہ جوشیلی گفتگو کرتے ہیں ، عورتیں اپنے لب و لہجے روز مرہ و محاوروں کا استعمال کرتی ہیں۔ مرثیوں سے تشبیہ و استعارے کے خزانے میں بیش بہا اضافہ ہوا ہے۔ زندگی میں بعض مواقع آتے ہیں کہ آدمی کی قوت گویائی ساتھ نہیں دیتی۔ مرثیہ گویوں نے ایسے نازک موقعوں پر الفاظ کے موتی لٹا دئیے ہیں۔ حسن تعلیل کی ایک خوبصورت مثال دیکھئے :

پیاسی جو تھی سپاہ خدا تین رات کی
ساحل سے سر پٹکتی تھیں موجیں فرات کی

پیکر تراشی
مرثیوں کی دنیا میں جہاں پیکر تراشی بھی ہے صورت گری بھی ہے، بلندی تخیل بھی ہے اور اس کا اعلان بھی ہے کہ لفظ کا جادو بے جان اشیاء کو پیکر عطا کرتا ہے اور انہیں متحرک بنا دیتا ہے۔ صناعی، خیال کو حُسن عطا کرتی ہے اور وہ مذہب کلامی، تشبیہ، استعارہ، کنایہ اور تجینس کے تمام اقسام اور مروجہ لفظی اور معنوی صنعتیں مراثی میں ملتی ہیں جو ان کی تخلیق و تزئین میں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں۔

آخری پہلو یہ بھی قابل غور ہے کہ یہ عالمی ادب میں واحد صنف ہے جہاں موضوعات مذہب کا رنگ لئے ہوئے ہیں مگر دوسرے مذہب کے ماننے والے صنف مرثیہ سے نہ صرف یہ کہ دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ اس صنف میں طبع آزمائی بھی کرتے ہیں۔

اور وہ لوگ جو مذہباً، عقیدتاً مسلمان نہ تھے انہوں نے بھی مرثیے لکھے اور بڑی شان سے لکھے۔ تقریباً پانچ سو مرثیہ نگاروں میں سو مرثیہ نگار غیرمسلم ہیں۔ ان میں سیوا، کشن پرشاد شاد، الفت رائے الفت، کنورسین مضطر، مہاراجہ کلیان سنگھ، مکھن لال مکھن، راجہ بلوان سنگھ والی بنارس، روپ کماری، یا منی لال جوان، چھنولال دلگیر اور ڈاکٹر بتھونی لال وحشی مظفر پوری کے نام نامی ہیں۔ صر ف کچھ مثالیں اشارتاً پیش کی جاری ہیں۔ ان کے مرثیوں میں بھی وہ سارے اجزاء موجود ہیں جنہوں نے مرثیہ کو انفرادیت عطا کی ہے مثلاً روپ کماری کہتی ہیں :
ترکیبی منطقی ترتیب متعین کی۔ میر وسودا کے زمانے سے لے کر آج تک دیگر ہیئتوں میں بھی مرثیے لکھے گئے اور ا جزائے ترکیبی کی بھی پابندی میں تھوڑی بہت چھوٹ اختیار کی۔

مرثیے کی مقبولیت کے اسباب میں سب سے زیادہ اہمیت مذہبی جذبات کو حاصل ہے۔ اسی جذبے کی تسکین کے لئے اعلیٰ و ارفع مرثیے لکھے گئے۔ ان مرثیوں میں مذہب کا سہارا لے کر تہذیبی، جمالیاتی، اخلاقی اور ادبی قدروں کو بھی مرثیہ میں شامل کر لیا گیا۔ مرثیوں میں رشتوں کی پاسداری میں تہذیب کے متنوع عوامل شعوری اور غیر شعوری طور پر شامل ہو گئے ہیں۔ مرثیے کو پر اثر مقبول بنانے میں زبان و بیان کی جادوگری تشبیہ و استعارے، صنائع و بدائع کے خزانے لٹا دئیے گئے ہیں۔ مرثیہ نگاروں کی فہرست میں ہزاروں شاعروں کے نام آتے ہیں لیکن جو مقبولیت میر انیس اور مرزا دبیر کو حاصل ہے وہ کسی اور کو نہ مل سکی۔ ان شاعروں کا مشاہدہ تیز ہے، لفظوں کے انتخاب و ترتیب کا ان میں سلیقہ ہے، کلام میں فصاحت بھی ہے اور بلاغت بھی، کردار نگاری میں ان کا جواب نہیں ، جذبات اور مناظر قدرت کی عکاسی میں وہ اپنے جوہر دکھاتے ہیں۔ مرثیوں کی مقبولیت کا اہم راز یہ بھی ہے کہ اس میں نفسیات انسانی کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ کائنات کا مطالعہ مرثیہ کو وقعت عطا کرتا ہے۔ سیرت و پیکر تراشی سے مرثیوں میں جان پڑ گئی ہے۔ مرثیہ کہنے کو ایک صنف سخن ہے مگر اس میں دیگر اصناف کی بھی جھلکیاں نظر آتی ہیں گویا وحدت میں کثرت کے جلوے نظر آت

مرزا سلامت علی دبیر 

خاندانی شاعر نہ تھے۔ لڑکپن میں مرثیہ پڑھتے تھے۔ اس شوق نے منبر کی سیڑھی سے مرثیہ گوئی کے عرش کمال پر پہنچا دیا۔ میر مظفر حسین ضمیر کے شاگرد ہوئے اور کچھ استاد سے پایا ۔ اسے بلند اور روشن کر کے دکھایا۔ تمام عمر میں کسی اتفاقی سبب سے کوئی غزل یا شعر کہا ہو ، ورنہ مرثیہ گوئی کے فن کو لیا اور اس درجے تک پہنچا دیا ‘ جس کے آگے ترقی کا راستہ بند ہو گیا ۔ ابتدا سے اس شغل کو زاد آخرت کا سامان سمجھا اور نیک نیتی سے اس کا ثمرہ لیا۔ طبیعت بھی ایسی گداز پائی تھی جو کہ اس فن کے لیے نہایت موزوں اور مناسب تھی ۔ ان کی سلامت روی ، پرہیز گاری ،مسافر نوازی اور سخاوت نے صفت کمال کو زیادہ تر رونق دی تھی۔ 
شاگرد انِ الٰہی کی طبیعت بھی جذبہ الٰہی کا شوق رکھتی ہے۔ بچپن سے دل چونچال تھا۔ ابتدائے مشق میں کسی لفظ پر استاد کی اصلاح پسند نہ آئی ۔ شیخ ناسخ زندہ تھے‘ مگر بوڑھے ہو گئے تھے۔ ان کے پاس چلے گئے ۔ وہ اس وقت گھر کے صحن میں مونڈھے بچھائے جلسہ جمائے بیٹھے تھے۔ انہوں نے عرض کی کہ حضرت اس شعر میں مَیں نے تو یہ کہا ہے اور استاد نے یہ اصلاح دی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ استاد نے ٹھیک اصلاح دی ہے۔ انہوں نے پھر کہا کہ کتابوں میں تو اس طرح آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہیں‘جو تمہارے استاد نے بتایا ہے ‘ وہی درست ہے۔ انہوں نے پھر عرض کی کہ حضرت آپ کتاب کو ملاحظہ تو فرمائیں ۔ شیخ صاحب نے جھنجلا کر کہا ، ارے تو کتاب کو کیا جانے ؟ ہمارے سامنے کتاب کا نام لیتا ہے؟ ہم کتابیں دیکھتے دیکھتے خود کتاب بن گئے ہیں۔ ایسے غصے ہوئے کہ لکڑی سامنے رکھی تھی ‘ وہ لے کر اٹھے یہ بھاگے ،انہیں بھی ایسا جوش تھا کہ دروازے تک ان کا تعاقب کیا۔ 
لکھأو کے لڑانے اور چمکانے والے غضب تھے۔ آخر مرزا کا عالم شباب تھا اور کمال بھی عین شباب پر تھا کہ جوانی کا بڑھاپے سے معرکہ ہوا۔ نواب شرف الدولہ میر ضمیر کے بڑے قدر دان تھے۔ ان سے ہزاروں روپے کے سلوک کرتے تھے۔ ابتدا میں ان کے سبب سے اور پھر مرزا کے جو ہر کمال کے باعث سے ان کی بھی قدردانی کر تے تھے۔ ان کی مجلس میں اول مرزا بعد ان کے میر ضمیر پڑھا کرتے تھے۔ ایک موقع پر مرزا نے ایک مرثیہ لکھا‘ جس کا مطلع ہے۔ 
دست خدا کا قوت بازو حسین ہے
میر ضمیر کے سامنے جب اصلاح کے لیے پیش کیا تو انہیں اس کے نئے خیالات اور طرز بیان اور ترتیب مضامین پسند آئی۔ اسے توجہ سے بنایا اور اسی اثنا میں نواب کے ہاں ایک مجلس ہونے والی تھی۔ رشید شاگرد سے کہا کہ بھئی! اس مرثیے کو اس مجلس میں ہم پڑھیں گے ؟ یہ تسلیم کر کے تسلیم بجا لائے اور مرثیہ انہی کو دے دیا۔ 
گھر میں آئے تو بعض احباب سے حال بیان کیا۔ مسودہ پاس تھا ‘ وہ بھی سنایا کچھ تو یاروں کا چمکانا ‘ کچھ اس سبب سے کہ ذوق شوق کے پھول ہمیشہ شبنم تعریف کے پیاسے ہیں اور نواب کو خبر پہنچ گئی تھی ۔ ادھر کے اشاروں میں انعام کی ہوا آئی۔ غرض انجام یہ ہوا کہ استاد مرثیہ صاف کر کے لے گئے کہ وہی پڑھیں گے ۔
بمو جب معمول کے اول مرزا صاحب منبر پر گئے اور وہی مرثیہ پڑھا۔ بڑی تعریفیں ہوئیں اور مرثیہ خوب سر سبز ہوا۔ استاد کہ ہمیشہ شاگرد کے پڑھنے پر باغ باغ ہو ا کرتے تھے اور تعریفیں کر کے دل بڑھاتے تھے ‘ اب خاموش بیٹھے ہیں۔ کچھ غصہ ‘ کچھ بے وفائی زمانہ کا خیال کچھ اپنی محنتوں کا افسوس اور فکریہ کہ اب میں پڑھوں گا تو کیا پڑھوں گا اور اس سے بڑھ کر کیا پڑھوں گا جس میں استادی کا رتبہ بڑھے نہیں تو اپنے درجے سے گرے بھی تو نہیں۔ غرض ان کے بعد یہ بڑھے اور شاگرد کو نقطہ مقابل کر کے بجائے خود استاد بنادیا اور وہی صورت ہو گئی کہ ایک مجلس میں دونوں کا اجتماع موقوف ہو گیا ۔ زمانے نے اپنے قاعدے کے بموجب چند روز مقابلو ں سے شاگرد کا دل بڑھایا اور آخر بڑھاپے کی سفارش سے استاد کو آرام کی اجازت دی ۔ وہ اپنے حریف میر خلیق کے سامنے گوشہ عزلت کا مقابلہ کرنے لگے اور یہاں میر انیس اور مرزا دبیر کے معرکے گرم ہو گئے۔ دونوں کے کمال نے سخن شناسوں کے ہجوم کو دو حصوں میں بانٹ لیا۔ آدھے انیسیے ہوگئے۔ آدھے دبیریے۔ ان کے کلام میں محاکمہ کرنے کا لطف جب ہے کہ ہر استاد کے ۴۔۴‘۵۔۵‘ مرثیے بجائے خود پڑھو اور پھر مجلسوں میں سن کر دیکھو کہ ہر ایک کا کلام اہل مجلس پر کس قدر کامیاب اور ناکام رہا۔ بے اس کے مزہ نہیں۔ میں اس نکتے پر میر انیس کے حال میں کاوش کرو ں گا،مگر اتنا یہاں بھی کہتا ہوں کہ میر انیس صاحب کلام ‘ لطف زبان ‘ چاشنی محاورہ ‘خوبی بندش ‘ احسن اسلوب مناسب مقام ‘طرز ادا اور سلسلے کی ترتیب میں جواب نہیں رکھتے اور یہی رعایتیں ان کی کم گوئی کا سبب تھیں ۔ مرزا دبیر صاحب شوکت الفاظ ‘مضامین کی آمد ‘ اس میں جا بجا غم انگیز اشارے در دخیز اعتراض حریفوں کا درست ہے کہ بعض ضعیف روایتیں اور دلخراش مضامین ایسے نظم ہو گئے ہیں ‘ جو مناسب نہ تھے لیکن انسان کی طبیعت ایسی واقع ہوئی ہے کہ جب ایک مقصود کو مدنظر رکھ کر اس پر متوجہ ہوتا ہے تو اور پہلوؤں کا خیال بہت کم رہتا ہے۔ نہیں ایسی مجلسوں میں پڑھنا ہوتا تھا‘ جہاں ہزار آدمی دوست دشمن جمع ہوتا تھا۔ تعریف کی بنیاد گریہ و بکا اور لطف سخن اور ایجاد مضامین پر ہوتی تھی۔ کمال یہ تھا کہ سب کو رلانا اور سب کے منہ سے تحسین کا نکالنا ۔ اس شوق کے جذبے اور فکر ایجاد کی محویت میں جو قلم سے نکل جائے تعجب نہیں۔ نکتہ چینی ایک چھوٹی سی بات ہے ‘ جہاں چاہا ‘ دو حرف لکھ دیے۔ جب انسان تمام عمر اس میں کھپا دے تب معلوم ہوتا ہے کہ کتنا کہا اور کیسا کہا۔ ایجاد و اختر اع کے لفظ پر ایک لطیفہ یا د آیا کہ اصولِ فن سے متعلق ہے ‘ اہل ذوق کے ملاحظہ کے لیے لکھتا ہوں۔
آتشی لطیفہ 
مرزا دبیر کی جوانی تھی اور شاعری بھی عین جوانی پر تھی کہ ایک دھوم دھام کا مرثیہ لکھا۔ اس کانمودار تمہید سے چہر ہ باندھا۔ رزمیہ وبزمیہ مضامین پر خوب زور طبع دکھایا۔ تازہ ایجاد یہ کیا کہ لشکر شام سے ایک بہادر پہلوان تیار کر کے میدان میں لائے اس کی ہیبت ناک مورت بدمہورت ‘ آمد کی آن بان ‘ اس کے اسلحہ جنگ ‘ ان کے خلاف قیاس مقادیر و وزن سے طوفان باندھے ‘پہلے اس سے کہ یہ مرثیہ پڑھا جائے ‘ شہر میں شہرہ ہو گیا۔ ایک مجلس قرار پائی۔ اس میں علاوہ معمولی سامعین کے سخن فہم اور اہل کمال اشخاص کو خاص طور پر بھی اطلاع دی گئی۔ روز معہود پر ہجوم خاص و عام ہوا۔ طلب کی تحریکیں اس اسلوب سے ہوئی تھیں۔ خواجہ آتش باوجود پیری و آزادی کے تشریف لائے مرثیہ شروع ہوا۔ سب لوگ بمو جب عادت کے تعریفوں کے غل مچاتے رہے‘ گریہ و بکا بھی خوب ہوا ۔ خواجہ صاحب خاموش سر جھکائے دو زانو بیٹھے جھومتے رہے۔ مرزا صاحب مرثیہ پڑھ کر منبر سے اترے ۔ جب دلوں کے جوش دھیمے ہوئے تو خواجہ صاحب کے پاس جا بیٹھے اور کہا کہ حضرت ! جو کچھ میں نے عرض کیا ‘ آپ نے سنا؟ فرمایا ہوں بھئی ! سنا۔ انہیں اتنی بات پر قناعت کب تھی؟ پھر کہا ‘ آپ کے سامنے پڑھنا گستاخی ہے لیکن آپ نے ملاخظہ فرمایا ؟ انہوں نے فرمایا ‘بھئی ! سنا تو سہی ‘ مگر میں سوچتا ہوں کہ یہ مرثیہ تھا یالندھور بن سعدان کی داستان تھی ‘ (واہ رے استاد کامل ! اتنے سے فقرے میں عمر بھر کے لیے اصلاح دے گیا مرزا صاحب نے ۲۹محرم ۱۲۹۲ھ کو ۷۲ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ اس مدت میں کم سے کم ۳ ہزار مرثیے لکھے ہوں ۔ سلاموں اور نوحوں اور رباعیوں کا کچھ شمار نہیں۔ ایک مرثیہ بے نقط لکھا ‘ جس کا مطلع ہے۔ 
ہم طالع ہما مراد ہم رسا ہو ا
اس میں اپنا تخلص بجائے دبیر کے عطا ر لکھا ہے اور کچھ شک نہیں کہ ان کے ساتھ ہندوستا ن میں مرثیہ گوئی کا خاتمہ ہو گیا ۔ نہ اب ویسا زمانہ آئے گا ،نہ ویسے صاحب کمال پیدا ہوں گے۔


مرکزی خیال ۔پطرس بخاری (شخصیت نگاری) ۔۔۔۔۔۔۔تحریر فارغ بخاری 

صحیح بخاری کے عنوان سے پطرس بخاری کا خاکہ”البم “ کا تیسرا خاکہ ہے۔ جسے ہم توصیفی خاکہ کہہ سکتے ہیں۔پطرس باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ اور اُن کی شخصیت کے اسی پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس خاکہ کا اسلوب شوخ اور مزاح کی چاشنی ليے ہوئے ہے۔ پطرس کو اپنے عہد میں بھی خوب پذیرائی ملی اور آج بھی انہیں چاہا جاتا ہے۔ یہ اعزاز بہت کم فنکاروں کو اُن کی زندگی میں ملتا ہے۔ فارغ بخاری اس حقیقت کی نشاندہی کچھ ایسے دلچسپ پیرائے میں بیان کرتے ہیں،
” مرنے کے بعد توخیراس کی تعریف و توصیف ہونی ہی تھی ۔ ستم تو یہ ہے کہ زندگی میں بھی ا س بھلے آدمی کے خلاف کسی کو زبان کھولنے کی توفیق نہ ہوئی۔ اور ہر شخص اس کے حق میں”نقوش “‘ کا پطرس نمبر ثابت ہوا۔“
اس خاکے میں پطرس کی شخصیت سے فارغ بخاری کو زیادہ واقفیت نہیں اور وہ سنی سنائی باتوں کو موضوع بناتے ہیں ۔ پطرس کی شخصیت کے بجائے اُن کی فنی عظمت پر زیادہ بات کی گئی ہے۔ اس طرح یہ خاکہ ایک تنقیدی مضمون معلوم ہوتا ہے۔


فارغ بخاری


11 نومبر 1917ء اردو کے ممتاز شاعر، ادیب اور نقاد فارغ بخاری کی تاریخ پیدائش ہے۔
فارغ بخاری کا اصل نام سید میر احمد شاہ تھا اور وہ پشاور میں پیدا ہوئے تھے۔ابتدا ہی سے ادب کے ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے اور اس سلسلے میں انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کی انہوں نے رضا ہمدانی کے ہمراہ پشتو زبان و ادب اور ثقافت کے فروغ کے لئے بیش بہا کام کیا۔ ان کی مشترکہ تصانیف میں ادبیات سرحد، پشتو لوک گیت، سرحد کے لوک گیت، پشتو شاعری اور پشتو نثر شامل ہیں۔ ان کے شعری مجموعوں میں زیرو بم، شیشے کے پیراہن، خوشبو کا سفر، پیاسے ہاتھ، آئینے صدائوں کے اور غزلیہ کے نام سرفہرست تھے۔ ان کی نثری کتب میں شخصی خاکوں کے دو مجموعے البم، مشرقی پاکستان کا رپورتاژ، برات عاشقاں اور خان عبدالغفار خان کی سوانح عمری باچا خان شامل ہیں۔
فارغ بخاری کا انتقال 13 اپریل 1997ء کو پشاورمیں ہوا اور وہ پشاور ہی میں آسودۂ خاک ہوئے۔


احمد شاہ پطرس بخاریایک تعارف


سیّد احمد شاہ بخاری خالص مزاح کے علم بردار قلمکار ہیں۔آپ نے اس مشکل ترین صنفِ ادب میں خامہ فرسائی کی اور قارئین سے زبردست دادِ تحسین وصول کی۔ آپ نے اپنے مضامین میں مزاح نگاری کونہایت خوبصورت انداز میں استعمال کیا ۔آپ کی ذہانت کی عکاس آپ کی وہ تحریریں ہیں جن میں واقفیت، حسنِ تعمیر، علمی ظرافت، زیرِ لب تبسم، شوخی، طنز اور مزاح کا بھرپور عکس نظر آتا ہے۔ پطرس کے زورِ قلم کا کُل اثاثہ ۵۵۱ صفحات کا کتابچہ المعروف بہ مضامینِ پطرس ہے۔ ان چند مضامین نے اردو ادب کی صنفِ مزاح میں ایک انقلاب برپا کر دیا اور پطرس اس حلقے میں سب سے ممتاز ہو گئے۔ اُن کے قلم کی تخلیق دائمی شہرت اور عظمت کا سبب بنی اور انہوں نے اپنے ہم عصر مزاح نگاروں کے درمیان ایک نمایاں مقام حاصل کر لیا۔
بقول آل احمد سرور:

پطرس نے بہت تھوڑے مضامین لکھے، مگر پھر بھی ہماری چوٹی کے مزاح نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ اتنا تھوڑا سرمایہ لے کر بقائے دوام کے دربار میں بہت کم لوگ داخل ہوئے ہیں۔

طرزِ تحریر کی خصوصیات

پطرس کے طرزِ تحریر کی خصوصیات درج ذیل ہیں۔

(۱) اسلوب کی شگفتگی
پطرس بخاری زبان و بیان کی سادگی سے کام لیتے ہوئے الفاظوں سے اس طرح کھیلتے ہیں کہ ان کو دل سے داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ سادگی، صفائی، روانی ، محاورات کے برجستہ استعمال اور شگفتگی کی بدولت اُن کے مضامین میں ایک کشش ہے۔ آپ کی تحریروں کے مطالعے کے بعد ایسا لگتا ہے گویا اپنے کسی دوست سے نہایت بے تکلفانہ انداز میں ہمکلام ہیں۔
وہ اپنی کتاب مضامینِ پطرس کے دیباچہ میں رقم طراز ہیں:

اگر یہ کتاب آپ کو کسی نے مفت میں بھیجی ہے تو مجھ پر احسان کیا ہے۔ اگر آپ نے کہیں سے چُرائی ہے تو میں آپ کے ذوق کی داد دیتا ہوں۔ اپنے پیسوں سے خریدی ہے تو مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔ اب بہتر یہ ہے کہ اس کو اچھا سمجھ کر اپنی حماقت کو حق بجانب ثابت کریں۔

(۲) ظرافت کی خصلت
پطرس کے مضامین میں جو مزاح نظر آتا ہے وہ خالصتاً مزاح ہے۔ اس میں بدتمیزی، طنز، تمسخر اور عامیانہ پن جیسی اصناف سے زبردستی ہنسانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ آپ کی نگارش میں مزاح وشوخی کی آفاقی خصلت ہے جو ہر موڑ پر نظر آتی ہے۔ آپ نے شرارت کے سلیقے کو برقرار رکھتے ہوئے ظرافت کے میدان کو وسیع و غیرمحدود کر دیا ہے۔
مثال کے طور پر وہ ہاسٹل میں پڑھنا میں لکھتے ہیں:

اب قاعدے کی رو سے ہمیں بی۔اے کا سرٹیفکیٹ مل جانا چاہیے تھا۔ لیکن یونیورسٹی کی اس طِفلانہ ضد کا کیا علاج کہ تینوں مضمونوں میں بیک وقت پاس ہونا ضروری ہے۔

(۳) واقعہ نگاری
واقعہ نگاری پطرس کے نگارش کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ وہ لفظوں کے انتخاب اور فقروں کی ترتیب کا حسن استعمال کرتے ہوئے مضحکہ خیز واقعات کی تصویرکشی ایسی مہارت اور خوبصورتی سے کرتے ہیں کہ چشم تصور اُن کو ہو بہو اپنے سامنے محسوس کرتی ہے۔
مثال کے طورپر ”مرحوم کی یاد میں“ کے اس اقتباس میں وہحُسنِ انتخاب سے ایک مزاح آمیز ماحول پیدا کرتے ہیں:

تمام بوجھ دونوں ہاتھوں پر تھا جو ہینڈل پر رکھے تھے اور برابر جھٹکے کھا رہے تھے۔ اب میری حالت تصور میں لائیں تو معلوم ہوگا جیسے کوئی عورت آٹاگوندھ رہی ہے۔

(۴) عکاسِِ زندگانی
مصنف نے معاشرے اور روزمرّہ زندگی کا بھرپورتجزیہ کیا ہے اور اِس جائزے سے انسانی زندگی کے نازک ، لطیف اور نرم و ملائم پہلوﺅں پر قلم اُٹھایا ہے۔ آپ کی تحریروں میں پیش کئے گئے کرداروںاور واقعات کا تعلق کسی خاص معاشرے سے نہیں ، بلکہ آپ نے تمام تہذیبوں میں پائی جانے والی یکساں صفات کی عکاسی کی ہے۔ اسی لئے پطرس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ:

پطرس نے اپنی ظرافت کا مواد زندوں سے لیا ہے۔

ہاسٹل میں پڑھنا دنیا کے تمام طالب علموں کی عمومیت اور ہمہ گیری کی بہترین ترجمانی کرتا ہے۔

(۵) تحریف (Parody)
احمد شاہ پطرس بخاری نے اپنی تحریروں میں تحریف نگاری کو نہایت مہارت سے پروکر ایک انوکھی خوبصورتی پیدا کر دی ہے۔ آپ نے اس مشکل فن سے شوخ اور ظریف رنگ پیدا کیا اور قارئین کے لئے ہنسنے کے دلکش مواقع پیدا کئے ہیں۔
مثال کے طور ایک مصنف نے لکھا ہے:

بچہ انگوٹھا چوس رہا ہے اور باپ اُسے دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہا ہے۔

پطرس اس کو یوں بیان کرتے ہیں:

باپ انگوٹھا چوس رہا ہے، بچہ حسبِ معمول آنکھیں کھولے پڑا ہے۔

بعض مواقعات پر آپ نے یہ کمال اشعار سے بھی ظاہر کیا ہے۔ وہ غالب کے شعر کی تحریف کچھ اس طرح کرتے ہیں کہوں کس سے میں کہ کیا ہے سگ رہ بری بلا ہے

مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
اصل شعر کچھ اس طرح سے ہے
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شبِ غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا

(۶) مغربی ثقافت کا رنگ
احمد شاہ بخاری چونکہ بین الاقوامی کانفرنسوں میں پاکستان کی نمائندگی کرتے رہے ہیں اس لئے اُن کا مغربی ادب کا بھرپور مطالعہ تھا۔ انہوں نے مغربی مزاح نگاری کا گہرا تجزیہ کیا اور اُس کی تمام تر خوبصورتی اور لطافتوںکو سمیٹ کر مشرقی رنگ میں ڈھالا۔ آپ کے مضامین میں جو ثقافتِ مغرب کا رنگ نظر آتا ہے وہ قاری کو ذرا بھی گراں نہیں گزرتا اور نہ کسی تحریر کا ترجمہ معلوم ہوتا ہے۔
بقول پروفیسر تمکین:

پطرس نے انگریزی ادب کی روح کو ہندوستانی وجود دے کر اپنی نگارش میں ایک خاص لطف و نکھار اور رکھ رکھاﺅ پیدا کر دیا ہے جو اپنی وضع کی ایک ہی چیز ہے۔

(۷) کردار نگاری
پطرس کے طرزِ تحریر میں ایک اور خوبی پائی جاتی ہے کہ وہ کرداروں کے ذریعے ایک لطف اندوز ماحول پیدا کرتے ہیں۔ انسانی فکروشعورکے تمام پہلوﺅں پر مکمل عبور رکھتے ہوئے آپ اس طرح اپنے مضمون کو جملہ بہ جملہ تخلیق کرتے ہیں کہ مطالعہ کرنے والاشخص ایک مزاح آمیز ماحول میں گم ہو جاتا ہے اور بے اختیار مسکرا دیتا ہے۔

مرید پور کا پیر میں پیر کا کردار، ہاسٹل میں پڑھنا میں طالب علم کا کردار ، یہاں تک کہ کتّے میں کتوں کا کردار اس کی بہترین مثالیں ہیں۔

(۸) اِختصاروجامعیت
پطرس کے مختلف مضامین ایک کامل اور ماہر ادیب کے فنون کی عکاسی کرتے ہیں۔ آپ اپنی بات کہنے پرمکمل عبور رکھتے ہیں او ر بڑے سے بڑے موضوع کو نہایت مختصر ،جامع ور دل نشین انداز میں رقم کر دیتے ہیں۔ آپ کا حسنِ انتخاب ہی وہ وجہ ہے جس کی بدولت آپ کا سرمایہ ادب لافانی بن گیا۔مثال کے طور پر ”ہاسٹل میں پڑھنا“ میں انہوںنے ایک جملے سے کیا بات کہہ ڈالی:

ہم پہ تو جو ظلم ہوا سو ہوا، یونیورسٹی والوں کی حماقت ملاحظہ فرمائیے، کہ ہمیں پاس کر کے اپنی آمدنی کا ایک مستقل ذریعہ ہاتھ سے گنوا بیٹھے۔

ناقدین کی آرائ

مختلف نقاد پطرس کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں اور اپنے اپنے انداز میں پطرس کی تعریف بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ حکیم
یوسف حسن پطرس کے بارے میںکہتے ہیں:

اگر میں یہ کہ دوں تو بے جا نہ ہوگا کہ ہند وپاکستان کے تمام مزاحیہ کتابوں کو ترازو کے ایک پلڑے میں ڈالا جائے اور پطرس کے مضامین دوسرے پلڑے میں رکھے جائیں تو پطرس کے مضامین بھاری رہیں گے۔

غلام مصطفی تبسم لکھتے ہیں:

بخاری کی نظر بڑی وسیع اور گہری ہے اور پھر اُسے بیان پر قدرت حاصل ہے۔یہی وجہ ہے کہ اُس کا مزاح پڑھنے والوںکی دل میں شگفتگی پیدا کر دیتا ہے۔

ڈاکٹر خورشید السلام کا بیان ہے کہ:

اُن کے اندازِ فکر اور طرزِ بیان میں انگریزی ادب کا اثر موجود ہے اور اندازِبیان میں تخیّل کا عمل فرحت اللہ بیگ سے زیادہ قریب ہے۔

حاصلِ تحریر

اردو ادب کے گلشنِ مزاح میں پطرس نے جو پھول کھلائے ہیں اُن کی خوشبو آج تک علم دوست لوگوں کے اذہان کو مہکا رہی ہے۔آپ نے چند مضامین میں مزاح نگاری کے جوجوہر دکھائے وہ دادِ تحسین کا باعث بنے اور آپ کو شہرت کی معراج تک لے گئے۔ آپ کا ہر مضمون قابلِ قدر ہے اور مزاح نگاری کی نئی نئی جہتوں سے روشناس کراتے ہوئے مسکراہٹوں کے مواقع پیدا کرتا ہے۔ احمد شاہ پطرس بخاری اس شعبہ ادب میں ہمیشہ ممتاز رہیں گے اور اُن کا نام تاقیامت زندہ رہے گا۔



جوش ملیح آبادیتعارف


عام طور پر جوش ملیح آبادی شاعرِ انقلاب مشہور ہیں جیسا کہ وہ خود اعلان کرتے ہیں کہ

کام ہے میرا تغیر، نام ہے میرا شباب
میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب

مگر صحیح یہ ہے کہ شاعرِ بغاوت ہیں۔ انقلاب کا مطلب ایک نظام کو بدل کر دوسرا نظام لانے کی کوشش کرنا ہوتا ہے، جب کہ بغاوت صرف ایک نظام کو توڑ پھوڑ ڈالنے کا نام ہے۔ جوش کی شاعری میں کسی نئے نظام کا پیغام نہیں البتہ اس میں کئی طرح کی بغاوتیں ضرور پورے طمطراق کے ساتھ پائی جاتی ہیں۔

خصوصیاتِ شاعری

شاعرانہ صلاحیت
پہلی خصوصیت ان کی فطری اور موروثی شاعرانہ صلاحیت ہے۔ وہ ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جس میں کئی پشتوں سے شعر گوئی کاس چرچا تھا۔ اور یہ شاعرانہ صلاحیت جوش کو گویا وراثت میں ملی تھی۔

اسلوبِ بیان کی روانی
ان کی شاعری میں بے پناہ روانی اور سلاست ہے۔ الفاظ کا ایک دریا سا امنڈتا اور شور مچاتا ان کی ہر نظم میں آتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ان کا ذخیرہ الفاظ اتنا وسیع ہے کہ پوری اردو شاعری مین غالباً نظر اکبر آبادی اور انیس لکھنوی کے سوا کوئی شاعر اس معاملے میں جوش کی ٹکر کا نہیں ہے۔ مثلاً

برچھیاں، بھالے، کمانیں، تیر، تلواریں، کٹار
بیرقیں، پرچم، علم، گھوڑے قطار اندر قطار

علمِ بیان کا استعمال
جوش کی نظموں میں نئی نئی اور پے درپے تشبیہوں اور استعاروں کا ایسا برجستہ اور بے ساختہ استعمال ہے کہ پڑھنے والا ان کے الفاظ کی گھن گرج کے علاوہ ان تشبیہوں اور استعاروں کے طلسم مےں گرفتار ہوکر رہ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر

بھوکوں کی نظر میں بجلی ہے، توپوں کے دہانے ٹھنڈے ہیں
تقدیر کے لب کو جنبش ہے دم توڑ رہی ہیں تدبیریں

وزن و قافیہ کی پابندی
جوش اور جاہے کتنی ہی بغاوتیں کریں ان کا ہر شعر شاعری کے تمام اصولوں کے مطابق ہوتا ہے اور اردو شاعری میں رائج ہیں۔ اسی لئے وہ الفاظ کی کثرت و قدرت اور وزن قافیہ کی پابندی کے ذریعے قاری یا سامع کے ذہن پر چھا جاتے ہیں اور پورے زور اور وضاحت سے اپنے دل کی بات کہہ دیتے ہیں۔ عکسِ کلام درج ذیل ہے

کیا ہند کا زنداں کانپ رہا ہے، گونج رہی ہیں تکبیریں
اکتائے ہوئے ہیں شاید کچھ قیدی اور توڑ رہے ہیں زنجیریں

نرم عاشقانہ شاعری
بغاوت کی دھوم دھام اور آگ، بجلی، موت آندھی، جیسے الفاظ کے علاوہ جوش نے عشقیہ واردات بھی بڑی خوبی اور لطافت سے بیان کی ہیں۔ اس قسم کے کلام میں بھی بے پناہ روانی پائی جاتی ہے۔ مثلاً

سر پہ ترے رہیں سدا پھولوں کے تاج فصل گل
روح کو مست کردیا تیری ہوائے مست نے
جاکے، نسیم جاں ستاں، کہنا یہ بزم حسن میں
بھیجا ہے نغمہ و سلام جوش سحر پر مست نے

کل چونک کر اس نے، بقاضائے خمار
انگڑائی جو لی، ٹوٹ گیا رات کا ہار
اور سرخ ہتھیلیوں سے آنکھیں جو ملیں
ڈوروں سے ابل بڑی دو دھاری تلوار

منظر نگاری
مختلف مناظر فطرت کو بھی جوش نے بڑی مہارت، خوبصورتی اور روانی سے بیان کیا ہے۔ مثلاً صبح کا منظر دیکھئے

نظر جھکائے عروس فطرت جبیں سے زلفیں ہٹارہی ہے
سحر کا تارا ہے زلزلے میں، افق کی لو تھرتھرا رہی ہے
طیور، بزم سحر کے مطرب، لچکتی شاخوں پہ گا رہے ہیں
نسیم فردوس کی سہیلی گلوں کو جھولا جھلا رہی ہے
شلو کا پہنے ہوئے گلابی، گلاب کی پنکھڑی چمن میں
رنگی ہوئی سرخ اوڑھنی کا ہوا میں پلو سکھا رہی ہے
اسی طرح دیہات کے ایک بازار میں دوپہر کا منظر اس طرح دکھاتے ہیں
دوپہر، بازار کا دن، گاوں کی خلقت کا شور
خون کی پیاسی شعاعیں، روح فرسا لو کا زور

آگ کی رو، کاروبار زندگی کا پیچ و تاب
تند شعلے، سرخ ذرے، گرم جھونکے، آفتاب

شور، ہلچل، غلغلہ، ہیجان، لو، گرمی، غبار
بیل، گھوڑے، بکریاں، بھیڑیں قطار اندر قطار

مکھیوں کی بھنبھناہٹ، گڑ کی بو، مرچوں دھانس
خربوزے، آلو، کھلی، گیہوں، کدو، تربوز، گھانس

مضطرب اور پریشان روح
جوش نے اپنے دور کے نوجوانوں کی اضطرابی اور پریشانی بھی بڑی وضاحت سے جابجا بیاب کی ہے

کیا شیخ، ملے گا گلفشانی کرکے
توہین مزاج نوجوانی کرکے
تو آتش دوزخ سے ڈراتا ہے انہیں
جو آگ کو پی جاتے ہیں پانی کرکے

ہنگامہ خیزی
ایک باغی شاعر کے ہاں گھن گرج، دھماکے، جھنکاریں جیسی چیزیں قدرتاً ہوتی ہیں۔ جوش کے ہاں بھی یہی تمام خصوصیات نمایاں ہیں، جن میں الفاظ کی دھوم دھام سے خوب کام لیاگیا ہے۔ جیسے

سنبھلو، کہ وہ زنداں گونج اٹھا، جھپٹو کہ وہ قیدی چھوٹ گئے
اٹھو کہ وہ بیٹھیں دیواریں، دوڑو کے وہ ٹوٹیں زنجیریں

شکستِ زنداں کا خواب
تعارف

اس نظم کے خالق جوش ملیح آبادی ہیں جن کو عام طور پر شاعرِ انقلاب کہا جاتا ہے۔ اس لئے انہوں نے متحدہ لیکن محکوم ہندوستان میں اپنی شاعری کے ذریعے اہلِ وطن میں انقلابی خیالات کا طوفان اٹھایا۔ غیر ملکی حکمرانوں کی غلامی کے خلاف نفرت پیدا کی اور جدوجہد آزادی کے لئے جوانانِ وطن کا لہو گرمایا۔

مرکزی خیال

اس نظم میںشاعر نے ہندوستان کی تحریک آزادی کے لئے قید خانے آباد کرنے والےہم وطنوں کو آزادی حاصل ہونے کا حسین خواب دکھایا ہے۔ ظالم غیر ملکی آقاوں کے ظلم کا خاتمہ ہونے والے ہے اور آزادی کی نعمت ملنے والی ہے۔ تحریک آزادی کے سپاہی دو فلک شگاف نعرے لگائیں گے جن کی گونج سے قید خانے لرز اٹھیں گے۔ اوپر پر جوش نوجوان بڑھ کر ہر طرف آزادی کا جھنڈا لہرادیں گے۔

خلاصہ

شاعر کہتا ہے کہ انگریز حکمرانوں نے برصغیر پاک و ہند کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔ یوں پورا ملک ایک وسیع قید خانے کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ ان حالات میں سامراجی حکمرانوں کے خلاف ملک میں نفرت کا الاو روشن ہوچکا ہے۔ تحریک آزادی ایک بپھرے ہوئے طوفان کی طرح پھیل رہی ہے۔ آزادی کے متوالوں سے دھڑا دھڑ جیلیں بھری جارہی ہیں، مگر ان ظالمانہ ہتھکنڈوں سے تحریکِ آزادی کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ہندوستان کا یہ قیدخانہ آزادی کے نعروں سے گونجنے لگا ہے۔ ہم وطن قیدی غلامی کی زنجیریں توڑنے کا عزم کرچکے ہیں۔ ان کے سینوں میں جذبات کی طغیانی بھری ہے اور ان کی آنکھیں تلواروں کی چمک سے روشن ہیں۔ غریب ہندوستانیوں کی جرات آفریں جدوجہد کے آگے حکمرانوں کی ساری تدبیریں ناکام ہورہی ہیں اور ان کے سفاکانہ مظالم کی بساط لپٹ رہی ہے۔ انہیں شائد معلوم نہیں تھا کہ وہ جن ہندوستانیوں کی زبان بندی کررہے ہیں وہ جب آزادی کی زبان بولنے پر آئیں گے تو ایوانِ اقتتدار کی اونچی فصیلیں ان کی جوشیلی تقریروں کی گونج سے تھرانے لگیں گی۔ اے اہلِ وطن! جنگ کا بگل بج چکا۔ انگریزی راج کے خاتمے کا وقت آپہنچا۔ تمہاری جدوجہد آزادی کامیابی کی منزل پر آپہنچی، اٹھو اور آخری وار کرکے برطانوی حکومت کے لڑکھڑاتے ہوئے اقتدار کے پرزے اڑادو۔ برطانوی حکومت کے لئے اب اس سرزمین پر کہیں جائے پناہ نہیں

ڈپٹی نذیر احمد دہلوی
ایک تعارف


اردو ادب پر سحروطلسم کی گھٹائیں‘ مافوق الفطرت فضائیں‘ تضع و مبالغہ کی بلائیں چھائی ہوئی تھیں۔ ایسے میں ہم ایک ادیب کو دعائیںدیں‘ یہ ادیب ڈپٹی نذیر احمد ہیں جو سرسید احمد خان کی اصلاحی تحریک میں ان کے اہم رفیقِ کار تھے۔ انھوں نے اپنے قلم کی تمام تر توانیاں معاشرے کی اصلاح کے لئے وقف کردیں۔ اس مقصد کے لئے انھوںنے ناول نگاری کی صنف کو اپنا یا۔
پروفیسر آل آل احمدسرور کہتے ہیں:

انگریزی میں رچرڈسن اور فیلڈنگ ناول کے موجد کہے جاتے ہیں ہمارے یہاں نذیر احمد کی کہانیاں کو ناول کا اولین نمونہ کہا جاسکتا ہے۔

بقول شاعر

جو ضیاءدیتی ہے پنہاں لفظ کی تنویر میں
وہ نظر آتی ہے مجھ کو اس کی ہر تحریر میں
اس کے ہر ناول سے جلوہ گر ہے اصلاحی جمال
اس نے دل کی نیکیاں بھر دی ہیں ہر تصویر میں

طرزِ تحریر کی خصوصیات

ڈپٹی نذیر احمد کے طرزِ تحریر کی نمایاں خصوصیات ذیل میں درج ہیں۔

(۱) رواں اسلوب
مولوی صاحب کا طرزِ تحریر سادہ اور رواں ہے۔ وہ دہلی کی ٹھےٹ اور ٹکسالی زبان میں لکھتے ہیں۔ محاورات کا استعمال بھی بڑی سلیقہ مندی سے کرتے ہیں۔ محاورات کے بر محل استعمال سے ان کی زبان میں تاثیر پیدا ہوگئی ہے ۔ بقول فرحت اللہ بیگ:

ان کا یہ شوق کچھ حد سے بڑھا ہوا ہے کہ بعض اوقات وہ محاورات استعمال نہیں کرتے زبردستی ٹھونستے ہیں۔

(۲) ناول نویسی کے بانی
نذیر احمد اردو کے پہلے ناول نگار ہیں ان کا ناول ”مراة العروس“ اردو کا اولین ناول ہے۔ کچھ لوگ ناول نگاری کا بانی پنڈت رتن ناتھ کو تصور کرتے ہے لیکن مراة العروس جو کہ نذیر احمد کا ناول ہے ۹۶۸۱ میں شائع ہوچکا تھا جبکہ رتن ناتھ کا ناول ”فسانہ آزاد“ ۹۷۸۱ میں شائع ہوا۔
ڈاکٹر ابوللیث صدیقی کہتے ہیں:

نذیر احمد کو بلاشبہ جدید اردو ناول کا پیش رو قرار دینا چائیے۔

(۳) روایت شکنی
نذیر احمد نے پہلی بار غیر فطری رنگ کو چھوڑ کر سادی اور حقیقی زندگی میں قدم رکھا۔ انہوںنے جنوں‘ بھوتوں‘ پریوں اور مافوق الفطرت کرداروں کے بجائے اپنے ناول کے کردار ہماری گرد و پیش کی زندگی سے منتخب کیے۔ اس طرح انہوں نے صدیوں پرانا بندھن توڑنے میں پہل کی جن کے پیچھے زندگی کی بےشمار حقیقتیں چھپی ہوئی تھےں اور جس کو ہمارے افسانوی ادب نے چھپارکھا تھا ان کا سب سے بڑا کمال بھی یہی ہے کہ انہوں نے کہانی میں اصلیت کا رنگ بھرا۔
ڈاکٹر ابو للیث صدیقی کہتے ہیں:

قدیم قصے بادشاہوں‘ وزیروں‘ سوداگروں‘ شہزادوں یا پھر جنوں اور پریوں کے محور پر گھومتے تھے‘ عوام کو اس بارگاہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ تھی‘ نذیر کے ناولوں میں عوام اس بزم میں پہلی بار شریک ہوئے۔

(۴) مقصدیت
نذیر احمد بھی اپنے دور کے دوسرے ادیبوں کی طرح مقصدیت کی پیداوار تھے۔ یہ ایک ایسا دور تھا جس میں ہر ادیب قوم کی اصلاح کی خاطر کام کرتا تھا گو کہ ہر ایک کا دائرہ عمل الگ الگ تھا۔ نذیر احمد نے بھی اپنے قصوں سے دین داری‘ خداپرستی اور اصلاحِ معاشرت کا کام لیا۔ ان کے ناول کسی نہ کسی مقصد کے تحت لکھے جاتے تھے وہ قصہ نویس سے زیادہ واعظ تھے۔
آل احمد سرور کہتے ہیں:

نذیر احمد سب کچھ بھول سکتے ہیں لیکن وہ مقصد نہیں بھول سکتے جس کے تحت وہ قصے لکھتے تھے۔ ان کے ناول جتنے اچھے وعظ ہیں اتنے اچھے قصے نہیں۔

(۵) پرچوش اندازِ بیان
نذیر احمد کا اندازِ بیان پرزور اور پرچوش ہے۔ ان کے کرداروں کی گفتگو بعض اوقات سراپا تقریر معلوم ہوتی ہے۔
ڈاکٹر سید عبداللہ کہتے ہیں:

نذیر احمد ہی اردو کے وہ انشاپرداز ہیں جن کی باتیں زوردار ہوتی ہےں۔ حالی کی آواز دھیمی‘ لحجہ مسکینوں جیسا۔ شبلی پکی مگر مختصر بات کہنے والے‘ آزاد میٹھی میٹھی‘ کبھی کبھی مختصر کہانیاں سنانے والے۔ ان میں نذیر احمد ہی وہ انشاپرداز ہیں جو پرزور انداز میں بات کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔

(۶) مثالی کردار نگاری
ان کے کردار زیادہ تر مثالی ہوتے جو اگر نیک ہیں تو فرشتے اور بد ہیں تو شیطان۔ اسطرح وہ ارتقائی مدارج سے دور رہتے تھے۔
پروفیسر منظور حسین شور کہتے ہیں:

ان کے کردارمیکانکی طور پر عقل کے ایسے پتلے ہیں جو حسن و شباب اور محبت کے لطیف جذبات سے عاری ہیں۔ جن کے بغیر انسان فرشتہ ہو سکتا ہے لیکن انسان نہیں۔

(۷) معاشرے کی عکاسی
سرسید احمد خان نے اصلاح کا جو کام شروع کیا تھا۔ نذیر احمد نے اپنی تحریروں سے اسے قوت بخشی۔ نذیر احمد کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے تمام قصوں میں ہماری معاشرتی زندگی کی سچی تصویر پیش کی ہے۔ انہوں نے قصوں سے مافوق الفطرت عناصر کی بھرمار کو خارج کرکے حقائق نگاری اور واقعیت کا رنگ بھر کر زندگی کی عکاسی کا ڈھنگ سکھایا۔ انھون نے طوطا مینا کی کہانیوں سے نکل کر اصلاح مواشرت اور اخلاق کے تانے بانے سے اپنے ناول مکمل کیے۔ وہ پہلے آدمی ہیں جنہوںنے ادب کو زندگی کے قریب کردیا۔
آل احمد سرور کہتے ہیں:

ماحول کی مصوری ان کے یہاں بہت اچھے طرح کی گئی ہے۔ اسلامی سوسائٹی اور خاص کر اسلامی خاندانوں کی اندرونی معاشرت کی جو تصویریں نذیر احمد نے کھینچی ہیں وہ ایسی سچی اور بے لاگ ہے کہ آنکھوں کے سامنے نقشہ پھر جاتا ہے۔

(۸) شوخی و ظرافت
نذیر احمد کی نثر کا ایک خاص جوہر ان ظریفانہ رنگ ہے۔ جو انکے ناولوں لیکچروں اور مضامین میں نمایاں ہے۔ وہ عمل زندگی میں بھی زیادہ خشک نہ تھے۔ نہایت زندہ دل اور ظریف آدمی تھے اور یہی ظرافت و زندہ دلی ان کی تحریروں میں پائی جاتی ہے انکی ظرافت اپنے نامور ہم عصر آزاد کی طرح شگفتگی کے دائرے سے آگے نہیں بڑھی۔ وہ تبسم تو بن جاتی ہے۔ مگر قہقہے سے گریز کرتی ہے البتہ وہ تقریروں میں طنز کے تیر چلانے سے نہیں چوکتے تھے۔
ڈاکٹر حسن فاروقی کہتے ہیں:

انہوں نے اہم معاشرتی مسائل کو دلچسپ فرضی قصوں کے ذریعے اس طرح پیش کیا ۔ جیسے کڑوی دوا کو حلق سے اتارنے کے لئے اس پر شکر لپیٹ دی جاتی ہے۔

(۹) بے تکلفی
ان کا تعلق بھی چونکہ دبستانِ سرسید سے تھا۔ چنانچہ ان کی تحریروں میں بے تکلفی اور بے ساختگی کا عنصر نمایاں ملتا ہے۔ یہ اپنے ناولوں میں اور اپنی تحریروں میں اپنے موضوع کو بے ساختگی کے ساتھ کرتے چلے جاتے ہیں اور کسی قسم کی بناوٹ‘ یا تکلف سے کام نہیں لیتے بلکہ اپنے موضوع کو انتہائی رواں انداز میں پیش کرتے ہیں اگرچہ کہ ان کے مضامین میںطوالت کے باوجود بھی بے تکلفی کا عنصر کثرت کے ساتھ جھلکتا ہے۔

حاصلِ تحریر

یہ تھیں اردو کے پہلے ناول نگار مولوی نذیر احمد کی نمایاں خصوصیات۔ انکے ناولوں کو کوئی ناول نہیں مانتا نہ مانے۔ ان کو ناول نگار کہنے میں کسی کو حجاب سے تو ہواکرے مگر ناول نگاری کی تاریخ ان کو خراجِ تحسین پیش کیے بغیر ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتی