حضرت فاطمہ رضہ کی رخصتی
>حضرت فاطمہ رضہ کی رخصتی
تعارف
قومی ترانے کے خالق ابوالاثر حفیظ جالندھری کا شمار اردو کے قادرالکلام شعراء میں ہوتا ہے۔ یہ نظم حضرت فاطمتہ الزھرا رضہ کی رخصتی ان کی شاہکار نظم ہے جو شاہنامہ اسلام سے ماخوذ ہے۔ بیانیہ شاعری میں یہ نظم منظر نگاری اور واقعہ نگاری کا شاہکار ہے۔ اس میں انہوں نے شگفتہ بیانی کے وہ پھول کھلائے ہیں جنہوں نے شاھنامہ اسلام کو ایک سدابہار نظم بنادیا۔
مرکزی خیال
دنیا بیٹیوں کو جہیز میں ایک جہاں دیتی ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لاڈلی صاحبزادی کو جو جہیز دیا وہ حیا کی چادر، پاکدامنی جا ہانگ اور صبروقناعت کے گہنے تھے۔ عفت و پاکدامنی کے زیور سے آراستہ اور ہمیشہ خدا کے آگے سجدہ ریز پیشانی لے کہ وہ اپنی سسرال گئیں۔
حضرت فاطمہ رضہ کی شادی حضرت علی رضہ کے ساتھ نہایت سادگی سے ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنگِ بدر سے تشریف لاچکے تھے۔ باہمی راضامندی سے انتہائی سادگی کے ساتھ یہ پروقار اور عظیم تقریب اپنے انجام کو پہنچی۔ حضرت علی رضہ نے اپنی زرہ بیچ کر مہر ادا کیا اور دعوتِ ولیمہ کی۔
حضرت فاطمہ رضہ کی ذاتِ گرامی وہ ذات تھی جسمیں نیک بختی اور سعادت کا اعلی نمونہ موجود تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ رضہ کو ورثے میں شرم و حیا اور صدق و صفا کی دولت ملی تھی۔ فیاضی ایسی ملی تھی کہ جس کی شہادت قرآن نے دی تھی۔ آپ کو سچائی اور نیکی کا پیکر کہا گیا۔ حضرت علی رضہ بے حد خوش بخت تھے کہ آپ کو ایسی رفیقِ حیات ملیں۔ اپنے مقدس باپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے رخصت ہوکرجب آپ حضرت علی رضہ کے گھر آئیں تو اگرچہ دولتِ دنیاویآپ کے ساتھ نہ تھی البتہ دولتِ صبروفا اور قناعت و شکر سے مالامال تھیں۔ ایک کھر درے بان کی چارپائی، دو آٹا پیسنے کی چکیاں، مٹی کے دو گھڑے، چمڑے کا ایک گداجس میں کھجوروں کے پتے بھرے تھے، ایک پانی بھرنے کی مشک، یہ وہ مقدس جہیز تھا جس پر حوروں کے دل قربان تھے۔ آپ رضہ کا اصل جہیز تو وہ اعلی تربیت تھی، وہ اوصافِ مبارکہ تھے جو آپ رضہ کو سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان کی بدولت حاصل ہوئی
No comments:
Post a Comment