Wednesday, 27 August 2014

ابو الاثرحفیظ جالندھری پاکستان کے قومی شاعر تھے۔ مگر ان کی مقبولیت بھارت میں کم نہیں تھی۔ تقسیم ملک سے قبل ہی وہ اپنی ادبی حیثیت منوا چکے تھے۔ ان کی دوسری شناخت ”شاہنامہ اسلام“ کے تناظر میں اسلامی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کا شعری حوالہ ہے۔ انہوں نے ثقافتی اکتساب کے حوالوں سے اعلیٰ اور ارفعیٰ اور افضل ہستیوں کی ایسی شعری پیکر تراشی کی کہ ان کی تخلیق بر صغیر ہندو پاک میں اپنی نوعیت کی واحد تخلیق قرار پائی۔ 

حفیظ جالندھری کی شاعری کی تیسری خوبی اس کی غنائیت ہے۔ وہ خود بھی مترنم تھے اس لیے انہوں نے ایسی لفظیات کا انتخاب کیا جو غنائیت کے پیکر پر پورے اترتے ہیں۔ غنائیت کا سبب ان کی گیت نگاری بھی ہے۔ انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں فوجی گیت لکھے تھے اور گیت کو بھی انہوں نے نئے پیکر عطا کیے۔ شاید اسی لیے آج تک حفیظ جالندھری کی شناخت ” ابھی تو میں جوان ہوں“ کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ بلا شبہ یہ ایک پر اثر گیت ہے کیوں کہ اس میں جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ اپنی جگہ پر نگینے کی طرح جڑے ہوئے ہیں اور سامع کے دل پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔ 

لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ حفیظ کی غزلوں کا سرمایہ کافی ہے اور حفیظ خود کو غزل گو کہلوانا پسند کرتے تھے۔ انہوں نے غزل میں بہت سے نئے تجربات کیے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سلیس زبان کا استعمال کیااور گرد و پیش کے واقعات کو اپنی غزلوں کا موضوع بنایا۔ ایک طرح سے انہوں نے غزل کو فطری پوشاک عطا کی۔ ان کے یہاں روایت سے بغاوت ملتی ہے۔ غنائیہ کے سبب زبردست رچاؤ ہے۔ ان کے کچھ اشعار تو آج کے حالات کا احاطہ کر لیتے ہیں۔ ان کی حیثیت ماوراے عصر ہے:
حفیظ جالندھری سے میری چند ملاقاتیں اس وقت ہوئیں جب وہ 1976ء میں بھارت تشریف لائے۔ ان کا قیام دہلی میں اپنی منہ بولی بیٹی اور مشہور صحافی و ادیبہ منورما دیوان کے گھر پر تھا۔ منورما دیوان کے شوہر معروف ادیب دیوان بریندر ناتھ ظفر پیامی میرے دوستوں میں تھے۔ میں جب ان کے گھر پر حفیظ جالندھری صاحب سے ملنے کے لیے گیا تو انہوں نے ان سے میرا تعارف بڑے جان دار الفاظ میں کروایا۔ حفیظ صاحب بہت ہی پر تپاک انداز میں ملے اور دیر تک شعر و سخن کی باتیں کرتے رہے۔

اس کے بعد وہ ایک مشاعرے میں پٹنہ بھی تشریف لائے۔ ان کی آمد سے استفادہ کرتے ہوئے ریاستی گورنر جگن ناتھ کوشل نے، جو اردو شاعری کے بے حد قدر داں اور حفیظ صاحب کے شاعری کے مداح تھے، حفیظ کے اعزاز میں ایوانِ گورنرمیں ایک بڑے مشاعرے کا اہتمام کیا اور ان کے تعارف میں پر زور تقریر کی۔ 

پاکستان میں اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی اور حفیظ صاحب چند وجوہات سے اس حکومت سے بہت شاکی تھے۔ تقریر میں تو اس کا اظہا رنہیں کیا لیکن اشعار میں کافی ہدف ملامت بنایا۔ انہوں نے مشاعرے میں جو اشعار پڑھے ان میں سے چند مجھے یاد ہیں:
شاد عظیم آباد ی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انہوں نے شاد کی مشہور غزل ”کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں“ کی زمین میں بھی ایک غزل سنائی تھی۔ جس کا مقطع تھا:

حفیظ اہل ادب کب مانتے تھے 
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں 

موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے حفیظ صاحب سے ایک تفصیلی انٹر ویو کیا تھا۔ وہ بار بار حکومت وقت کو ہدف بناتے تھے او ر ہم عصر شعرا پر بھی زبردست تنقید کرتے تھے۔ خاص طور سے فیض احمد فیض اور جوش ملیح آبادی ان کے نشانے پر تھے۔ انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ فیض اور ان کے کچھ ہم نشینوں نے اپنے قلم روس کے ہاتھوں بیچ دیے ہیں۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ کے جی بی کے کچھ اہم اشخا ص نے ان سے بھی رابطہ کیا تھا اور بڑی رقم دینے کی پیش کش کی تھی، مگر انہوں نے اپنا قلم فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔ 

اس وقت حفیظ صاحب عمر کی اس منزل میں تھے کہ انہیں ذرا ذرا سی بات پر غصہ آجاتا تھا اگر میں کریدنے کے لیے کچھ سوال کرتا تھا تو وہ غصے میں آکر ہلکی باتیں بولنے لگتے تھے۔ 

حفیظ جالندھری بہر حال اردو کے شعری ادب میں قابل ذکر حیثیت کے مالک ہیں اور انہوں نے اردو شاعری کو جو کچھ دیا ہے اس کا اردو ادب میں نمایاں مقام ہے۔ ان کے بہت سے اشعار سہلِ ممتنع کی حیثیت رکھتے ہیں:

دل ابھی تک جواں ہے پیارے
کس مصیبت میں جان ہے پیارے 
تلخ کر دی ہے زندگی اس نے 
کتنی میٹھی زبان ہے پیارے


حفیظ جالندھری 14 جنوری 1900ءکو جالندھر میں پیدا ہوئے تھے اور 21دسمبر 1982کو لاہور میں انتقال فرمایا۔ انہوں نے اپنی تخلیقات میں چار جلدوں میں شاہنامہ اسلام، نغمہ زاد ‘ سوز و ساز، تلخابہ شریں اور چراغ سحر چھوڑے۔ ان کی شعری کائنات چھ دہائیوں پر محیط ہے اور ان کا یہ دعویٰ درست ہے:

شعر وادب کی خدمت میں جو بھی حفیظ کا حصہ ہے
یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی باتیں نہیں 

No comments:

Post a Comment