:شیخ غلام ہمدانی مصحفی کی غزل کی تشریح
1۔آج سب تم سے ورے بیٹھے ہیں
ایک ہم کے کہ پرے بیٹھے ہیں
تشریح:شیخ غلام ہمدانی مصھفی کی غزل سے یہ شعر لیا گیا ہے ۔
شاعر اپنے محبوب شکوہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہر کسی کو تمہاری قربت حاصل ہے تمہارے پاس ہیں ۔صرف میں ہی ہوں جو تم سے دور بیٹھا ہوں تنہا ہوں ۔
2۔پھٹ چکا جب سے گریباں، تب سے
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں
تشریح:
مصحفی پریشانی کے عالم میں کہتے ہیں کہ میں دیوانگی کی اخری حد تک پہنچ چکا ہوں۔ ۔مصحفی محاورہ استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب میں فارغ بیٹھا ہوں اور کرنے کو کچھ نہیں بچاکیونکہ جنون کی آخری حد کو چھو کر گریبان چاک کر لیا ہے ۔
3۔شیشہء مے کی طرح اے ساقی
چھیڑ مت ہم کو ،بھرے بیٹھے ہیں
تشریح:
مصحفی یہان تشبیہ استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شراب سے بھرے ہوئے جام کی طرح بھرا بیٹھا ہوں۔مجھے مت چھیڑو کہ چھلک پڑوں گا،یہاں ان کے کہنے کا مقصد ہے کہ وہ غم اور کرب کی کیفیعت سے دوچار ہیں اور یا زرہ سے بات پر پھٹ پڑیں گے
4۔قتل کا کس کے ارادہ ہے جو آپ
ہاتھ قبصے پہ دھرے بیٹھے ہیں
تشریح:
یہ ایک واقعاتی شعر ہے جس میں شاعر دیکھتا ہے کہ اس کے محبوب نے ہاتھ میں تلوار پکڑی ہوئی ہے ۔اور شاعر حہران ہو کر پوچھتا ہے کہ آج کس کے قتل کا ارادہ ہے ،
5۔،مصحفی یار کے گھر کے آگے
ہم سے کتنے نگھرے بیٹھے ہیں
تشریح:
یہاں شاعر کہتے ہیں کہ ایک میں ہی نہیں میرے محبوب کے دروازے پہ کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اپنا گھر بار چھوڑ کر محبوب کے دروازے کو ہی اپنی مسکن بنا لیا ہے ۔
No comments:
Post a Comment