Thursday, 21 August 2014


مجازِ مرسل :   مجازِ مرسل میں صرف مجازی معنی لیے جاتے ہیں  حقیقی معنی بالکل چھوڑ دئےے جاتے ہیں  ۔کیونکہ مجازی معنی کے ساتھ حقیقی معنی بھی شامل ہوں  تو وہ کنایہ ہو جاتا ہے ۔مجاز مرسل میں کل کہہ کر جزو مراد لیا جاتا ہے ۔مثلاً میرؔ کا شعر ملاحظہ کیجئے۔

غضب آنکھیں  ستم ابرو عجب منہ کی صفائی ہے
خدا نے اپنے ہاتھوں  سے تیری صورت بنائی ہے
کوئی چیز پورے ہاتھوں  سے نہیں  بنائی جاتی بلکہ اسے بنانے کے لیے انگلیوں  کا استعمال کیا جاتا ہے یعنی یہاں  ہاتھوں  کہہ کر انگلیاں  مراد ہیں ۔
کبھی جزو سے کل بھی مراد لیتے ہیں  جیسے سردار کے لیے سر کا استعمال کریں ۔ مثلاً
آیا جو مے کدہ میں  تو بے دام پی گیا
زاہد بھی سر جھکائے کے کئی جام پی گیا
یہاں  جام پی گیا سے مراد شراب پینے کے ہیں ۔
مجازِ مرسل کی مکمل تعریف یوں  ہے کہ جب حقیقی او رمجازی معنی میں مشابہت کا تعلق ہو تووہ استعارہ کہلائے گا اور جب مشابہت کے علاوہ کوئی دوسرا تعلق ہو گا تو اس کو مجازِ مرسل کہیں  گے ۔
مجازِ مرسل کی کئی قسمیں  ہیں  یعنی ظرف کہہ کر مظروف مراد لیں  جیسے جام کہہ کر شرا ب مرادلی جائے یا مظروف کہہ کر ظرف مراد لیں  مثلاً کہیں  شربت طاق میں  رکھ دو یہاں  مظروف شربت کہہ کر ظرف یعنی شربت کی بوتل مراد لیا گیا ہے کیونکہ شربت طاق میں  نہیں  رکھا جاسکتا ہاں  شربت سے بھری بوتل طاق میں  رکھی جاسکتی ہے

No comments:

Post a Comment