شیخ غلام علی ہمدانی مصحفی:۔
(1751ء۔۔۔۔1825ء)مصحفیمصحفی، شیخ غلام ہمدانی (۱۸۲۴ - ۱۷۵۰) امروہہ کے رہنے والے تھے۔ جوانی میں دہلی آئے۔ تعلیم کی شروعات امروہہ میں، تکمیل دہلی میں ہوئی۔ ذوق شاعری دہلی میں پروان چڑھا جس کو وہ اپنا وطن جانتے تھے۔ ۲۲ سال کی عمر میں تنگ دستی سے پریشان ہو کر پہلے آنولہ گئے، پھر ٹانڈہ اور پھر لکھنؤ پہنچے۔ ایک سال بعد دہلی واپس آ گئے۔ مشق سخن جاری رہی اور بہت جلد اساتذہ سخن میں شمار ہونے لگے۔ بارہ سال بعد نواب آصف الدولہ کے دور میں مستقلاً لکھنؤ کی سکونت اختیار کر لی۔ یہاں انشاء پہلے ہی سے موجود تھے۔ انھیں کے توسط سے نواب سلیمان شکوہ کی سرکار میں بازیابی ہوئی اور ان ہی کے دربار میں انشاء اللہ خاں سے کوب معرکے بھی ہوئے۔ سلیمان شکوہ نے انشاء کا ساتھ دیا۔ نتیجتاً دربار سے تعلق ختم کر کے نواب مرزا محمد تقی سے وابستہ ہو گئے۔ آخری عمر تنگدستی میں گزری۔ مصحفی کی تصنیفوں میں نو دیوان، اردو شاعروں کے دو تذکرے، "تذکرہ ہندی"، "ریاض الفصحا" اور فارسی شاعروں کا ایک تذکرہ "عقدِ ثریا" دست یاب ہیں۔ فارسی کا ایک دیوان بھی نظیری کے جواب میں مرتب کیا تھا۔ مصحفی نے شاگردوں کی کثیر تعداد چھوڑی اور ان کا اثر دور تک پھیلا۔
مصحفی دہلی سے ہجرت کرکے لکھنو آئے۔ ان کی شاعری کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا شعری مزاج دہلی میں صورت پذیر ہوا لیکن لکھنوکے ماحول ، دربارداری کے تقاضوں اور سب سے بڑھ کر انشائ سے مقابلوں نے انہیں لکھنوی طرز اپنانے پرمجبور کیا۔ ان کا منتخب کلام کسی بھی بڑے شاعر سے کم نہیں۔ اگر جذبات کی ترجمانی میں میر تک پہنچ جاتے ہیں تو جرات اور انشائ کے مخصوص میدان میں بھی پیچھے نہیں رہتے۔ یوں دہلویت اور لکھنویت کے امتزاج نے شاعری میں شیرینی ، نمکینی پیدا کر دی ہے۔ ایک طرف جنسیت کا صحت مندانہ شعور ہے تو دوسری طرف تصوف اور اخلاقی مضامین بھی مل جاتے ہیں۔
جمنا میں کل نہا کر جب اس نے بال باندھے
ہم نے بھی اپنے جی میں کیا کیا خیال باندھے
وہ جو ملتا نہیں ہم اس کی گلی میں دل کو
در و دیوار سے بہلا کے چلے آتے ہیں
تیرے کوچے میں اس بہانے ہمیں دن سے رات کرنا
کبھی اس سے بات کرنا کبھی اس سے با
No comments:
Post a Comment