Monday, 25 August 2014

مضامین سرسید

سرسید احمد خان ٍ اردو زبان پر سرسید کے احسانا ت کا ذکر کرتے ہوئے مولوی عبدالحق صاحب فرماتے ہیں:
” اس نے زبان کو پستی سے نکالا، انداز بیان میں سادگی کے ساتھ قوت پیدا کی ، سنجیدہ مضامین کا ڈول ڈالا۔ سائنٹیفک سوسائٹی کی بنیاد ڈالی۔ جدید علوم و فنون کے ترجمے انگریزی سے کرائے ۔ خود کتابیں لکھیں اور دوسروں سے لکھوائیں۔ اخبار جاری کرکے اپنے انداز تحریر ، بے لاگ تنقید اور روشن صحافت کا مرتبہ بڑھایا”تہذیب الاخلاق “ کے ذریعے اردو ادب میں انقلاب پیدا کیا۔“
سرسید کے زمانے تک اردو کا سرمایہ صرف قصے کہانیاں ، داستانوں ، تذکروں ، سوانح عمریوں اور مکاتیب کی شکل میں موجود تھا۔ سرسید تک پہنچتے پہنچتے اردو نثر کم از کم دو کروٹیں لے چکی تھی جس سے پرانی نثر نگاری میں خاصی تبدیلی آچکی تھی۔خصوصاً غالب کے خطوط نثر پر کافی حد تک اثر انداز ہوئے اور اُن کی بدولت نثر میں مسجع و مقفٰی عبارت کی جگہ سادگی اور مدعا نگاری کو اختیار کیا گیا۔ لیکن اس سلسلے کو صرف اور صرف سرسید نے آگے بڑھایا اور اردو نثر کو اس کا مقام دلایا

جدید اردو نثر کے بانی:۔

بقول مولانا شبلی نعمانی،
” اردو انشاءپردازی کا جو آج انداز ہے اُس کے جد امجد اور امام سرسید تھے“
سرسید احمد خان ، ”اردو نثر “ کے بانی نہ سہی ، البتہ ”جدید اُردو نثر“ کے بانی ضرور ہیں۔ ان سے پہلے پائی جانی والی نثر میں فارسی زبان کی حد سے زیادہ آمیزش ہے۔ کسی نے فارسی تراکیب سے نثر کو مزین کرنے کی کوشش کی ہے اور کسی نے قافیہ بندی کے زور پر نثر کو شاعری سے قریب ترلانے کی جدوجہد کی ہے۔ ان کوششوں کے نتیجے میں اردو نثر تکلف اور تصنع کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔ سرسید احمد خان پہلے ادیب ہیں جنہوں نے اردو نثر کی خوبصورتی پر توجہ دینے کے بجائے مطلب نویسی پر زور دیاہے۔ ان کی نثر نویسی کا مقصد اپنی علمیت کا رعب جتانا نہیں ۔ بلکہ اپنے خیالات و نظریات کو عوام تک پہنچانا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جو کچھ لکھا ۔ نہایت آسان نثر میں لکھا ، تاکہ اسے عوام لوگ سمجھ سکیں۔اور یوں غالب کی تتبع میں انہوں نے جدید نثر کی ابتداءکی۔

رہنمائے قوم:۔

سرسید نے مسلمانوں کی رہنمائی دستگیری اور اصلاح کا کام اس وقت شروع کیا جب غدر کے بعد یہ قوم بے بسی کا شکار تھی۔ اور اس پر مایوسی طاری تھی۔ وہ بے یقینی کے عالم میں تھی اور اسے کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی تھی۔ اس کی تہذیب اور تمدن ادبار کا شکار تھی۔ عزت نفس ، مجروح اور فاری البالی عنقا تھی۔ حکمران قوم کا عتاب ، ہندو کی مکاری اور خود مسلمان قوم کی نااہلی اور احساس زیاں کی کمی ایسے عناصر تھے جن میں کسی قوم کا زندہ رہنا یا ترقی کی طرف بڑھنا معجزہ سے کم نہ تھا۔ سرسید رجائی فکر کے حامل ایک ایسے رہنما تھے جسے اس قوم کو موجودہ ادبار کے اندر بھی ترقی کرنے، آگے بڑھنے اور اپنا کھویا ہو امقام پانے کی لگن اور جوت نظر آئی۔ سرسید نے ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت اس قوم کی فلا ح و بہبود اور ترقی کے لئے ایک بھر پور اصلاحی تحریک کا آغاز کیا۔ اس منصوبہ بندی میں مسلمانوں کی تعلیمی ، تمدنی ، سیاسی ، مذہبی ، معاشی اور معاشرتی زندگی کو ترقی اور فلاح کے نئے راستے پر ڈالنا تھا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اس میں قنوطیت کو ختم کر کے اعتماد او ر یقین پیدا کرنا تھا۔

مضمون نگاری:۔

سرسید احمد خان کو اردو مضمون نگاری کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے ایک مغربی نثری صنف Essayکی طر ز پر اردو میں مضمون نگاری شروع کی ۔ وہ بیکن، ڈرائڈن ، ایڈیشن اور سٹیل جیسے مغربی مضمون نگاروں سے کافی حد تک متاثر تھے۔ انہوں نے بعض انگریزی انشائےہ نگاروں کے مضامین کو اردو میں منتقل کیا۔ انہوں نے اپنے رسالہ ”تہذیب الاخلاق“ میں انگریز انشائیہ نگاروں کے اسلوب کو کافی حد تک اپنایا اور دوسروں کو بھی اس طر ز پر لکھنے کی ترغیب دی۔
سید صاحب کے سارے مضامین Essayکی حد میں داخل نہیں ہو سکتے ، مگر مضامین کی کافی تعداد ایسی ہے جن کو اس صنف میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً تہذیب الاخلاق کے کچھ مضامین تعصب ، تعلیم و تربیت ، کاہلی ، اخلاق ، ریا ، مخالفت ، خوشامد ، بحث و تکرار، اپنی مدد آپ، عورتوں کے حقوق، ان سب مضامین میں ان کا اختصار قدر مشترک ہے ۔ جو ایک باقاعدہ مضمون کا بنیادی وصف ہے۔

سرسید کا اسلوب:۔

اس سے پہلے کہ ہم سرسید کے تصور اسلوب کے بارے میں لکھیں ۔ اپنے اسلوب کے بارے میں سرسید کے قول کو نقل کرتے ہیں،
” ہم نے انشائیہ کا ایک ایسا طرز نکالا ہے جس میں ہر بات کو صاف صاف ، جیسی کہ دل میں موجود ہو ، منشیانہ تکلفات سے بچ کر ، راست پیرایہ اور بیان کرنے کی کوشش کی ہے اور لوگوں کو بھی تلقین کی ہے۔
دراصل سرسید احمد خان ”ادب برائے ادب“ کے قائل نہیں ، بلکہ وہ ادب کو مقصدیت کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔ وہ کسی خاص طبقہ کے لئے نہیں لکھتے ۔ بلکہ اپنی قو م کے سب افراد کے لئے لکھتے ہیں۔ جن کی وہ اصلاح کے خواہاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام سے قریب تر ہونے کے لئے انہوں نے تکلف اور تصنع کا طریقہ اپنانے سے گریز کیا اور سہل نگاری کو اپنا شعار بنایاہے۔ کیونکہ وہ مضمون نگاری میں اپنے دل کی بات دوسروں کے دل تک پہنچانے کے خواہاں ہیں۔ان کی تحریر کی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں۔

سادگی:۔

سرسید احمد کی نثر سادہ ، سہل اور آسان ہوتی ہے اور اسے پڑھتے ہوئے قاری کو کوئی الجھن محسوس نہیں کرتا ۔ ذیل میں ان کے ایک مضمون ”دنیا بہ امید قائم ہے“ سے ایک اقتباس دیا جار ہا ہے۔ جو سادگی کا خوبصورت نمونہ ہے۔ اس مضمون میں وہ خوشامد کے بارے میں کتنے آسان اور سادہ الفاظ میں بات کر رہے ہیں:
”جبکہ خوشامد کے اچھا لگنے کی بیماری انسان کو لگ جاتی ہے تو اس کے دل میں ایک ایسا مادہ پیدا ہو جاتا ہے جو ہمیشہ زہریلی باتوں کے زہر کو چوس لینے کی خواہش رکھتا ہے۔ جس طرح کہ خوش گلو گانے والے کی راگ اور خوش آئند با جے کی آواز انسان کے دل کو نرم کر دیتی ہے۔ اسی طرح خوشامد بھی انسان کو ایسا پگھلا دیتی ہے کہ ہر ایک کانٹے کے چبھنے کی جگہ اس میں ہو جاتی ہے۔“

بے تکلفی اور بے ساختگی:۔

سرسید احمد خان نہایت بے تکلفی سے بات کرنے کے عادی ہیں۔ وہ عام مضمون نگاروں کی طرح بات کو گھما پھرا کر بیان کرنے کے قائل نہیں۔ ان کی تحریریں پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ان میں آمد ہے آورد نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ فی البدیہ بات چیت کر رہے ہیں۔ یہ بات ان کی تحاریر میں بے ساختگی کا ثبوت ہے۔ لیکن بعض ناقدین کے خیال میں اس بے ساختگی کی وجہ سے ان کی تحریر کا ادبی حسن کم ہو گیا ہے ۔ لیکن اگر یہ بھی تو سوچیے کہ جب آدمی بے ساختہ طور پر باتیں کرتا ہے، تو وہ فقرات اور تراکیب کو مدنظر نہیں رکھتا ۔ آپس کی باتیں ادبی محاسن کی حامل ہوں، نہ ہوں ان میں بے ساختگی کا عنصر ضرور شامل ہوتا ہے۔ ویسے بھی سرسید احمد خان کا مقصد خود کو ایک ادیب منوانا نہیں تھا ۔ بلکہ تحریروں کے ذریعے اپنی بات دوسروں تک پہنچانا تھا۔ سر سید کی بے ساختگی کا نمونہ دیکھیے ، وہ اپنے مضمون” امید کی خوشی “ میں لکھتے ہیں۔
”تیرے ہی سبب سے ہمارے خوابیدہ خیال جاگتے ہیں ۔ تیری ہی برکت سے خوشی ،خوشی کے لئے۔ نام آوری ، نام آوری کے لئے ، بہادری ،بہادری کے لئے، فیاضی ، فیاضی کے لئے، محبت ، محبت کے لئے ، نیکی ، نیکی کے لئے تیار ہے۔ انسان کی تمام خوبیاں اور ساری نیکیاں تیری ہی تابع اور تیری ہی فرمانبردار ہیں۔“

مدعا نویسی:۔

سرسید کے مضامین میں مقصد کا عنصر غالب ہے اور وہ ہمیشہ اپنے مقصد ہی کی بات کرتے ہیں۔ ان کی کسی بھی تحریر کے ایک دو پیراگراف پڑھ کر ہمیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ ہمیں کس جانب لے جانا چاہتے ہیں۔ اور ان کا اصل مقصد کیاہے وہ اپنے مدعا کو چھپاتے نہیں بلکہ صاف صاف بیان کردیتے ہیں۔ کوئی مضمون تحریر کرتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ ایک بلند پایہ ادیب ہیں۔ وہ صرف یہ یاد رکھتے ہیں کہ وہ ایک مصلح قوم ہے۔ اس ضمن میں وہ اپنے نظریات کو واضح طور بیان کر دینے کے عادی ہیں۔ ان کی تحریروں میں مقصدیت و افادیت کا عنصر اس حد تک غالب ہے کہ انہیں زبان کے حسن اور ادب کی نزاکت و جمال پر توجہ دینے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ نزاکت خیال اور خیال آفرینی ان کے نزدیک تصنع کاری ہے۔ جو عبارت کا مفہوم سمجھنے میں قاری کے لئے دقت کا موجب بنتی ہے۔

شگفتگی اور ظرافت:۔

سرسید کی تحاریر میں کافی حد تک شگفتگی پائی جاتی ہے۔ وہ اپنے مضامین میں شگفتگی پیدا کرنے کے لئے کبھی کبھی ظرافت سے بھی کام لیتے ہیں۔ لیکن اس میں پھکڑ پن پیدا نہیں ہونے دیتے۔اس کے متعلق ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں،
”سرسید کی تحریروں میں ظرافت اسی حد تک ہے، جس حد تک ان کی سنجیدگی ، متانت اور مقصد کو گوارا ہے۔“
ذیل میں اُن کی ظرافت کی ایک مثال مندرجہ ذیل ہے،
” اس نے کہا کیا عجب ہے کہ میں بھی نہ مروں ، کیونکہ خدا اس پر قادر ہے ایک ایسا شخص پیدا کرے، جس کو موت نہ ہو اور مجھ کو امید ہے کہ شاید وہ شخص میں ہوں۔ یہ قول تو ایک ظرافت(ظریف) کا تھا مگر سچ یہ ہے کہ زندگی کی امید ہی موت کا رنج مٹاتی ہے۔“

متانت اور سنجیدگی:۔

سرسید کے زیادہ تر مضامین سنجیدہ ہوتے ہیں ، وہ چونکہ ادب میں افادیت کے قائل ہیں، اس لئے ہر بات پر سنجیدگی سے غور کرتے اور اسے سنجیدہ انداز ہی سے بیان کرتے ہیں۔ اکثر مقامات پر ان کے مصلحانہ انداز فکر نے ان کی تحریروں میں اس حدتک سنجیدگی پیدا کر دی ہے۔ کہ شگفتگی کا عنصر غائب ہو گیا ہے۔بقول سید عبداللہ،
”سرسید کے مقالا ت کی زبان عام فہم ضرور ہے۔ ان کا انداز بیان بھی گفتگو کا انداز بیان ہے مگر سنجیدگی او ر متانت شگفتگی پیدانہیں ہونے دی ۔ البتہ ایسے مقامات جن میں ترغیبی عنصر کی کمی ہے۔“

اثر آفرینی :۔

سرسید احمد خاں اپنی تحاریر میں اثر پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ ان کے بات کرنے کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے۔ کہ کسی نہ کسی ڈھب سے قاری کے ذہن پر اثر انداز ہوا جائے اور اسے اپنے نظریات کی لپیٹ میں لے لیا جائے۔ اس مقصد کے لئے وہ کئی حربے اختیار کرتے ہیں۔ مذہب اور اخلاقیات کا حربہ اثر آفرینی کے لئے ان کا سب سے بڑا حربہ ہے۔ اس ضمن میں وہ اشارات و کنایات، تشبیہات اور دیگر ادبی حربوں سے بھی کام لیتے ہیں۔ لیکن قدرے کم، بقول ڈاکٹر سید عبداللہ،
”اثر و تاثیر کی وجہ تو یہ ہے کہ ان کے خیالات میں خلوص اور سچائی ہے۔ یعنی دل سے بات نکلتی ہے ۔ کل پر اثر کرتی ہے۔“

روانی:۔

سرسید کا قلم رواں ہے۔ وہ جس موضوع پر لکھتے ہیں، بے تکان لکھتے چلے جاتے ہیں۔ ان کی بعض تحریریں پڑھ کر تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی مشتاق کھلاڑی بلادم لئے بھاگتا ہی چلا جاتا ہے۔بقول ڈاکٹر سیدعبداللہ:
”وہ ہر مضمون پر بے تکان اور بے تکلف لکھنے پر قادر تھے چنانچہ انہوں نے تاریخ ، فن تعمیر ، سیرت ، فلسفہ ، مذہب ، قانون ، سیاسیات ، تعلیم ، اخلاقیات مسائل ملکی ، وعظ و تدکیر ، سب مضامین میں ان کا رواں قلم یکساں پھرتی اور ہمواری کے ساتھ رواں دواں معلوم ہوتا ہے۔ یہ ان کی قدرت کا کرشمہ ہے۔“

متنوع اسلوب:۔

سرسید کانظریہ تھا کہ ہر صنف نثر ایک خاص طرز نگارش کی متقاضی ہے۔ مثلاً تاریخ نگاری، فلسفہ ، سوانح عمر ی الگ الگ اسلوب بیان کا تقاضہ کرتی ہیں۔ چنانچہ ہر صنف نثر کوسب سے پہلے اپنے صنفی تقاضوں کو پورا کرنا چاہیے ۔ چنانچہ ہر لکھنے والے صنفی تقاضوں کے مطابق اسلوب اختیارکرنا چاہیے۔
سرسید کے ہاں موضوعات کا تنوع اور رنگارنگی ہے اور سرسید کے اسلوب نگارش کی یہ خوبی اور کمال ہے کہ انہوں نے موضوع کی مناسبت سے اسلوب نگارش اختیار کیا ہے۔ چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کو بیان پر اس حد تک قدرت حاصل تھی کہ وہ سیاسی ، سماجی ، مذہبی ، علمی، ادبی ، اخلاقی، ہر قسم کے موضوعات پر لکھتے وقت موضوع جس قسم کے اسلوب بیان کا متقاضی ہوتا اس قسم کا اسلوب اختیار کرتے۔

خلوص و سچائی:۔

سرسید کے فقروں اور پیراگراف میں تناسب اور موزونیت کی کمی ہے ۔ جملے طویل ہیں۔انگریزی الفاظ کا استعمال بھی طبع نازک پر گراں گزرتا ہے۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سرسید کی تحریریں ادبیت سے خالی ہیں۔ خلوص اور سچائی ادب کی جان ہے۔ سرسید اکھڑی اکھڑی تحریروں ، بے رنگ اور بے کیف ، جملوں ، بوجھل ، ثقیل اور طویل عبارتوں کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ کہ لکھنے والا ، محسوس کرکے لکھ رہا ہے۔ کسی جذبے کے تحت لکھ رہا ہے۔اس کے پیش نظرنہ کوئی ذاتی غرض ہے اور نہ اسے کسی سے کوئی بغض و عناد اور ذاتی رنجش ہے۔ ان تحریروں کو دیکھ کر جہاں ہم سچائی محسوس کرتے ہیں جو دل پر اثر کرتی ہے، وہاں ان کی تحریروں میں مقصد کی جلالت اور عظمت پائی جاتی ہے۔

پھیکا پن:۔

سرسید کی تحریریں یقین و اعتماد تو پیدا کرتی ہیں مگر قاری کو محظوظ اور مسرور بہت کم کرتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مقصد کی رو میں بہتے چلے جاتے ہیں۔ وہ خیالات کے اظہار میں اتنے بے تکلف اور بے ساختہ ہو جاتے ہیں کہ لفظوں کی خوبصورتی ، فقروں کی ہم آہنگی کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ وہ کسی پابندی ، رکاوٹ اور احتیاط کا لحاظ نہیں کرتے۔وہ اسلوب اور شوکت الفاظ پر مطلب اور مدعا کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس طرح سرسید کی تحریروں میں حسن کی کمی پیدا ہو جاتی ہے۔ اور یہی کمی اس کے اسلوب کا خاصہ بھی بن جاتی ہے۔ اور ان کی تحریر ہمہ رنگ خیالات ادا کرنے کے قابل ہو جاتی ہے۔ مولانا حالی اُن کے بارے میں لکھتے ہیں،
” کسی شخص کے گھر میں آگ لگی ہو تو وہ لوگوں کو پکارے کہ آؤ اس آگ کو بجھائو ۔ اس میں الفاظ کی ترتیب اور فقروں کی ترکیب کا خیال نہیں ہوتا کیونکہ ان کے پاس ایک دعوت تھی ، اس دعوت کو دینے کے لئے انہیں جو بھی الفاظ ملے، بیان کر دئیے۔“

مجموعی جائزہ:۔

جب ہم سرسید کی ادبی کاوشوں کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ خود اپنی ذات میں دبستان نظر آتے ہیں۔ سرسید نے اپنی تصانیف کے ذریعے اپنے زمانے کے مصنفوں اور ادیبوں کو بہت سے خیالات دئیے۔ ان کے فکری اور تنقیدی خیالات سے ان کا دور خاصہ متاثر ہوا۔ ان سے ان کے رفقاءہی خاص متاثر نہیں ہوئے۔ بلکہ وہ لوگ بھی متاثر ہوئے جو ان کے دائرے سے باہر بلکہ مخالف تھے۔ خالص ادب اور عام تصانیف دونوں میں زمانے نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ اور ادب میں ایک خاص قسم کی معقولیت ، نیا پن ، ہمہ گیری ایک مقصد اور سنجیدگی پیدا ہو گئی جس کے سبب ادب بیکاروں کا مشغلہ نہ رہا بلکہ ادب برائے زندگی بن گیا۔ اُن کے اپنے رفقاءنے اُن کے اس مشن کو اور بھی آگے بڑھایا ۔ مولانا الطاف حسین حالی، مولانا شبلی نعمانی ، مولو ی ذکا اللہ ، چراغ علی، محسن الملک ، اور مولوی نذیر احمد جیسے لوگوں کی نظریات میں سرسید کی جھلک نمایا ں ہے۔ بقول ڈاکٹر سید عبداللہ
”سرسید کا ہم عصر ہر ادیب ایک دیو ادب تھا، اور کسی نہ کسی رنگ میں سرسید سے متاثر تھا۔“
سر سید احمد خان ایک تعارف
سنگِ تربت ہے مرا گرویدہِ تقدیر دیکھ
چشم باطن سے اس لوح کی تحریر دیکھ

سر سید احمد خان جیسا مردِ مومن کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ یہ انہیں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہم میں معاشرے کے دردواَلم کا احساس موجود ہے۔ وہ ایک ایسے دور میں پیدا ہوئے جب مسلمانانِ ہند انگریز کی غلامی میںگمراہی و ضلالت کی تاریک چادر اوڑھے سو رہے تھے‘ انسانی ضمیر کچلا جا رہا تھا ‘ انسانیت پس رہی تھی اور صاحبِ دولت طبقہ غیر ملکی آقاﺅں کی سرپرستی میں کمزور اور بے حس عوام پرحکومت کر رہا تھا۔ یہ دنیا کا اصول ہے کہ جب ظلم و ستم کی تاریک گھٹائیںاندھیروں کاروپ اختیار کر لیتی ہیں تو انہی مظلوموںمیں سے ایک ایسی کرن پھوٹتی ہے جو بڑی تیزی سے اس تاریکی کو چیرتی ہوئی ہر طرف اجالا پھیلا دیتی ہے ۔ اسی کرن کی بدولت نورپھیلتاہے‘ اذانیں سنی جاتی ہیں‘ پرندے چہکتے ہیں اور انسانیت خوابِ غفلت سے بیدار ہو کر عباد ت گاہوں کا رخ کرتی ہے۔ سر سید احمدخان اس کی ایک تابندہ مثال ہیں۔
اٹھارویں صدی میں سر سیّدمعاشرے کی اصلاح کا بیڑا اپنے سر لیتے ہے۔ ان کے کارخانہئِ فکر میں ایسے گہر ہائے آبدا ر تخلیق پاتے ہیں جن کی تابانیاں صفحہِ قرطاس پر منتقل ہونے کے بعد نہ صرف مسلمانانِ ہند کو صراطِ مستقیم پر گامزن کرتی ہیں بلکہ اردو ادب کی لا متناہی ترقی کا سبب بھی بنتی ہیں۔ آپ اردو ادب کو سادگی اور سلاست کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں اورتحریروں میں مقصدیت پیدا کرتے ہیں۔آپ کی اردو ادب کے لئے اَن گنت خدمات کے باعث آپ کو جدید اردو ادب کا بانی کے لقب سے بھی جانا جاتا ہے۔
طرزِ تحریر کی خصوصیات
سر سیّد احمد کے طرزِ تحریر کی خصوصیات درج ذیل ہیں۔
(۱) مقصدیت
سر سیّد احمد خان کی زندگی کا مقصد برِصغیر کے مسلمانوں کو حُسن و عشق کی فضاﺅں سے نکال کر میدانِ عمل میں لے جانا تھا۔ اس وقت کے ادیب طرزِ بیان پر زور دیتے تھے اور ان کی تحریریں بے مقصد ہوتی تھیں۔ انہوں نے زمانے کی اس روایت سے بغاوت کرتے ہوئے تحریروں میں طرزِ بیان سے زیادہ مقصدیت پرزور دیا اور ایسی تحریریں قلم بند کی جن سے قوم میں شعور پیدا ہو۔ سر سید کا کہنا ہے۔
ایک اچھا ادیب وہی ہے جو کسی مقصد کے تحت لکھے۔
بطور مثال ایک مضمون میں لکھتے ہیں۔

پس اے میرے نوجوان ہم وطنو! اور میری قوم کے بچو! اپنی قوم کی بھلائی پر کوشش کرو تاکہ آخری وقت میں اس بڈھے کی طرح نہ پچھتاﺅ۔ ہمارا زمانہ تو آخر ہے‘ اب خدا سے یہ دعا ہے کہ کوئی نوجوان اٹھے اور اپنی قوم کی بھلائی میں کوشش کرے۔ آمین !
(۲) اضطراب
سر سید کی شخصیت ایک پُر جوش شخصیت تھی اور وہ ایک انقلابی ذہن کے مالک تھے۔ وہ چونکہ اس مقصد کی تحت لکھتے تھے کہ قوم کو بیدار کیا جائے اس لئے ان کی تحریروں میں ایک اضطرابی کیفیت پائی جاتی ہے۔ وہ اپنا مدعا بیان کرتے وقت اس قدر پر جوش ہو جاتے کہ انہیں جملوں کی خوبصورتی اور فقروں کی ہم آہنگی میں دلچسپی نہیں رہتی اور ان کا قلم جذبات کی رو میں بہہ جاتا۔
(۳) انگریزی الفاظ
سر سید چونکہ جملوں کی ساخت کو اہمیت نہیں دیتے تھے اس لئے ان کی تحریروں میں انگریزی کے الفاظ بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ ان کا کمال یہ ہے کہ ان الفاظ کے استعمال کے باوجود ان کی تحریریں پُر اثر ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک جگہ وہ لکھتے ہیں۔
علیگڑھ کالج کے اسٹوڈنٹس میںسے ون پرسنٹ بھی نہیں ہیں جنہیں ہائی سروسز کے قابل سمجھا جائے۔
(۴) استدلالی تحریریں
سر سیّد احمد خان نے تحریک چونکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت چلائی تھی اس لئے انہوں نے تحریروں میں اپنا مقصد دلائل کے ساتھ واضح کیا ہے ۔ انہوں نے علمی‘ ادبی‘ دینی‘ اخلاقی اور معاشرتی تحریروں میں جذباتی اندازِ بیان اختیار کرنے کے بجائے استدلال سے کام لیا ہے اور ہر بات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ بقول ڈاکٹر سید عبداللہ۔
ان کی تحریروں میں منطقیانہ استدلال پایا جاتا ہے جو ہر قسم کے علمی اور تعلیمی مباحثے کے لئے موضوع ہے۔
(۵) سادگی و سلاست
سر سیّد احمد خان کے دور میں جتنے بھی مشہور و معروف ادیب گزرے ہیں وہ اپنے نثر کے طرز تحریر پر توجہ دیتے تھے اور اردو نثر میں شاعرانہ رنگینی اور آرائشوں کا بہت دخل تھا۔ اردو نثر طوالت اور بے جا تکلفات سے بوجھل ہو رہی تھی۔ سر سیّد ان پابندیوں کو خیرباد کہتے ہوئے اپنی تحریروں میں سادہ اور فطری انداز اختیار کرتے ہیں اور صاف اور آسان عبارات میں اپنا مقصد بیان کرتے ہیں۔ بقول ابو اللّیث صدّیقی۔
زندگی کی جو سادگی اور توانائی سر سید کے کردار میں پائی جاتی ہے وہی اُن کی تحریروں میں بھی موجود ہے۔
بطور مثال نمونہ پیش ہے۔
اے مسلمان بھائیو ! کیا تمہاری یہی حالت نہیں ہے ؟ تم نے اس عمدہ گورنمنٹ سے جو تم پر حکومت کر رہی ہے‘ کیا فائدہ اٹھایا ؟
(۶) پُر اثر مضامین
سر سیّد احمد خان نے اردو ادب کو جو سرمایہ فراہم کیا وہ ایسے مضامین کا سرمایہ ہے جن کا مطالعہ کرنے سے قاری کی وہی کیفیت ہو جاتی ہے جو مصنف کی تحریر کے وقت ہوتی ہے۔ ان کی تحریروں سے ان کی شخصیت کا جوش جھلکتا ہے اور ان کے نثر پارے شمشیرِ آبدار کی سی کاٹ رکھتے ہیں۔ بقول حالی۔
جس طرح تلوار کی کاٹ درحقیقت ایک باڑ میں نہیں بلکہ سپاہی کے کرخت ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اسی طرح کلام کی تاثیر اس کے نڈر دل میں اور بے لاگ زبان میں ہے۔
(۷) تنوعِ مضامین
سر سیّد احمد خان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کے مضامین میں حیرت انگیز تنوع پایا جاتا ہے۔ وہ موضوعِ مضمون کے ساتھ پورا انصاف کرتے ہیں اور مضمون کو اسی کی مناسبت سے قلم بند کرتے ہیں۔ ان کے اسلوب میں ہر رنگ کا جلوہ حسبِ موقع موجود ہے۔ اگر ان کی ادبی تحریروں‘ علمی و تحقیقی مقالوں اور عدالتی فیصلوں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو بہ اعتبارِ موضوع نمایاں فرق نظر آتا ہے۔
(۸) تمثیلی اندازِ بیان
سر سید احمد خان نے اپنے بیشتر مضامین میں تشبیہات و استعارات کا استعمال کیا ہے اور موضوع کو دلچسپ بنانے کے لئے تمثیل کا رنگ اپنایا ہے۔ ان کے یہ مضامین حکایتی اسلوب کی وجہ سے نہایت دلچسپ اور اثر انگیز ہیں۔
امید کی خوشی اور گزرا ہوا زمانہ میں سر سیّد کا یہ رنگ جھلکتا ہے۔ ان مضامین میں انہوں نے دلچسپ اور ثمثیلی انداز میں اپنا مافی الضمیربیان کیا ہے۔
(۹) بے ساختگی
مصنف کی تحریروں میں ایک بے تکلفی اور بے ساختگی سی پائی جاتی ہے۔ وہ اپنا مقصد اس طرح بیان کرتے ہیں گویا قاری ان کے سامنے بیٹھا ان سے ہمکلام ہو۔ ان کے مضامین ہر قسم کی بناوٹ سے پاک اور سچائی کے جذبے سے پُر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی بات سیدھی دل میں اترتی ہے اور اثر رکھتی ہے۔
ناقدین کی آراہ
مختلف تنقیدنگار سر سیّد کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں اور مختلف انداز میں سر سیّد کی تعریف بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ شبلی نغمانی سر سیّد کے بارے میں بیان کرتے ہیں۔
سر سیّد نے اردو انشاءپردازی کو اس رتبے پر پہنچا دیا جس کے آگے اب ایک قدم بڑھنا بھی ممکن نہیں۔
بابائے اردو مولوی عبد الحق لکھتے ہیں۔
یہ سرسیّد ہی کا کارنامہ تھا جن کی بدولت ایک صدی کے قلیل عرصے میں اردو ادب کہیں کا کہیں پہنچ گیا۔
ڈاکٹر احسن فاروقی کا بیان ہے کہ۔
اپنے عمل سے انہوں نے یہ واضح کر دیا ہے کہ نثر نگاروں کے بنیادی اصول کیا ہونے چاہیے ان کو اسی میں کمال حاصل ہے اور اسی کمال کی وجہ سے وہ اردو نثر نگاری کے سرتاج رہیں گے۔
حاصلِ تحریر
سر سیّد احمد خان کی تحریروں میں اردو ادب کا ایک تاریخی موڑ ہے۔ انہوں نے سلیس اور سہل اندازِ بیان کو فروغ دے کر دامنِ اردو کو وسیع کیا۔ اردو نثر شاعرانہ ذوق‘ مشکل اور تشبیہات سے بھری ہوئی تھی۔ آپ نے اُسے سلاست‘ سادگی اوراستدلالیت میں تبدیل کیا اور اردو ادب کو فطری طرزِ تحریر سے مہکا دیا۔ آج سرسیّد ہی کی بدولت اردو ایک مشہور و معروف زبان ہے اور ہم فخر سے اردو کو اپنی قومی زبان تسلیم کرتے ہیں۔ حالی نے شاید ٹھیک ہی کہا تھا
ترے احسان رہ رہ کر سدا یاد آئیں گے اُن کو
کریں گے ذکر ہر مجلس میں اور دہرائینگے اُن کو
Fahim Patel

By Fahim Patel

- See more at: http://www.guesspapers.net/5905/%D8%B3%D8%B1-%D8%B3%DB%8C%D8%AF-%D8%A7%D8%AD%D9%85%D8%AF-%D8%AE%D8%A7%D9%86/#sthash.S9KZhSL1.dpuf
سر سید احمد خان ایک تعارف
سنگِ تربت ہے مرا گرویدہِ تقدیر دیکھ
چشم باطن سے اس لوح کی تحریر دیکھ

سر سید احمد خان جیسا مردِ مومن کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ یہ انہیں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہم میں معاشرے کے دردواَلم کا احساس موجود ہے۔ وہ ایک ایسے دور میں پیدا ہوئے جب مسلمانانِ ہند انگریز کی غلامی میںگمراہی و ضلالت کی تاریک چادر اوڑھے سو رہے تھے‘ انسانی ضمیر کچلا جا رہا تھا ‘ انسانیت پس رہی تھی اور صاحبِ دولت طبقہ غیر ملکی آقاﺅں کی سرپرستی میں کمزور اور بے حس عوام پرحکومت کر رہا تھا۔ یہ دنیا کا اصول ہے کہ جب ظلم و ستم کی تاریک گھٹائیںاندھیروں کاروپ اختیار کر لیتی ہیں تو انہی مظلوموںمیں سے ایک ایسی کرن پھوٹتی ہے جو بڑی تیزی سے اس تاریکی کو چیرتی ہوئی ہر طرف اجالا پھیلا دیتی ہے ۔ اسی کرن کی بدولت نورپھیلتاہے‘ اذانیں سنی جاتی ہیں‘ پرندے چہکتے ہیں اور انسانیت خوابِ غفلت سے بیدار ہو کر عباد ت گاہوں کا رخ کرتی ہے۔ سر سید احمدخان اس کی ایک تابندہ مثال ہیں۔
اٹھارویں صدی میں سر سیّدمعاشرے کی اصلاح کا بیڑا اپنے سر لیتے ہے۔ ان کے کارخانہئِ فکر میں ایسے گہر ہائے آبدا ر تخلیق پاتے ہیں جن کی تابانیاں صفحہِ قرطاس پر منتقل ہونے کے بعد نہ صرف مسلمانانِ ہند کو صراطِ مستقیم پر گامزن کرتی ہیں بلکہ اردو ادب کی لا متناہی ترقی کا سبب بھی بنتی ہیں۔ آپ اردو ادب کو سادگی اور سلاست کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں اورتحریروں میں مقصدیت پیدا کرتے ہیں۔آپ کی اردو ادب کے لئے اَن گنت خدمات کے باعث آپ کو جدید اردو ادب کا بانی کے لقب سے بھی جانا جاتا ہے۔
طرزِ تحریر کی خصوصیات
سر سیّد احمد کے طرزِ تحریر کی خصوصیات درج ذیل ہیں۔
(۱) مقصدیت
سر سیّد احمد خان کی زندگی کا مقصد برِصغیر کے مسلمانوں کو حُسن و عشق کی فضاﺅں سے نکال کر میدانِ عمل میں لے جانا تھا۔ اس وقت کے ادیب طرزِ بیان پر زور دیتے تھے اور ان کی تحریریں بے مقصد ہوتی تھیں۔ انہوں نے زمانے کی اس روایت سے بغاوت کرتے ہوئے تحریروں میں طرزِ بیان سے زیادہ مقصدیت پرزور دیا اور ایسی تحریریں قلم بند کی جن سے قوم میں شعور پیدا ہو۔ سر سید کا کہنا ہے۔
ایک اچھا ادیب وہی ہے جو کسی مقصد کے تحت لکھے۔
بطور مثال ایک مضمون میں لکھتے ہیں۔

پس اے میرے نوجوان ہم وطنو! اور میری قوم کے بچو! اپنی قوم کی بھلائی پر کوشش کرو تاکہ آخری وقت میں اس بڈھے کی طرح نہ پچھتاﺅ۔ ہمارا زمانہ تو آخر ہے‘ اب خدا سے یہ دعا ہے کہ کوئی نوجوان اٹھے اور اپنی قوم کی بھلائی میں کوشش کرے۔ آمین !
(۲) اضطراب
سر سید کی شخصیت ایک پُر جوش شخصیت تھی اور وہ ایک انقلابی ذہن کے مالک تھے۔ وہ چونکہ اس مقصد کی تحت لکھتے تھے کہ قوم کو بیدار کیا جائے اس لئے ان کی تحریروں میں ایک اضطرابی کیفیت پائی جاتی ہے۔ وہ اپنا مدعا بیان کرتے وقت اس قدر پر جوش ہو جاتے کہ انہیں جملوں کی خوبصورتی اور فقروں کی ہم آہنگی میں دلچسپی نہیں رہتی اور ان کا قلم جذبات کی رو میں بہہ جاتا۔
(۳) انگریزی الفاظ
سر سید چونکہ جملوں کی ساخت کو اہمیت نہیں دیتے تھے اس لئے ان کی تحریروں میں انگریزی کے الفاظ بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ ان کا کمال یہ ہے کہ ان الفاظ کے استعمال کے باوجود ان کی تحریریں پُر اثر ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک جگہ وہ لکھتے ہیں۔
علیگڑھ کالج کے اسٹوڈنٹس میںسے ون پرسنٹ بھی نہیں ہیں جنہیں ہائی سروسز کے قابل سمجھا جائے۔
(۴) استدلالی تحریریں
سر سیّد احمد خان نے تحریک چونکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت چلائی تھی اس لئے انہوں نے تحریروں میں اپنا مقصد دلائل کے ساتھ واضح کیا ہے ۔ انہوں نے علمی‘ ادبی‘ دینی‘ اخلاقی اور معاشرتی تحریروں میں جذباتی اندازِ بیان اختیار کرنے کے بجائے استدلال سے کام لیا ہے اور ہر بات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ بقول ڈاکٹر سید عبداللہ۔
ان کی تحریروں میں منطقیانہ استدلال پایا جاتا ہے جو ہر قسم کے علمی اور تعلیمی مباحثے کے لئے موضوع ہے۔
(۵) سادگی و سلاست
سر سیّد احمد خان کے دور میں جتنے بھی مشہور و معروف ادیب گزرے ہیں وہ اپنے نثر کے طرز تحریر پر توجہ دیتے تھے اور اردو نثر میں شاعرانہ رنگینی اور آرائشوں کا بہت دخل تھا۔ اردو نثر طوالت اور بے جا تکلفات سے بوجھل ہو رہی تھی۔ سر سیّد ان پابندیوں کو خیرباد کہتے ہوئے اپنی تحریروں میں سادہ اور فطری انداز اختیار کرتے ہیں اور صاف اور آسان عبارات میں اپنا مقصد بیان کرتے ہیں۔ بقول ابو اللّیث صدّیقی۔
زندگی کی جو سادگی اور توانائی سر سید کے کردار میں پائی جاتی ہے وہی اُن کی تحریروں میں بھی موجود ہے۔
بطور مثال نمونہ پیش ہے۔
اے مسلمان بھائیو ! کیا تمہاری یہی حالت نہیں ہے ؟ تم نے اس عمدہ گورنمنٹ سے جو تم پر حکومت کر رہی ہے‘ کیا فائدہ اٹھایا ؟
(۶) پُر اثر مضامین
سر سیّد احمد خان نے اردو ادب کو جو سرمایہ فراہم کیا وہ ایسے مضامین کا سرمایہ ہے جن کا مطالعہ کرنے سے قاری کی وہی کیفیت ہو جاتی ہے جو مصنف کی تحریر کے وقت ہوتی ہے۔ ان کی تحریروں سے ان کی شخصیت کا جوش جھلکتا ہے اور ان کے نثر پارے شمشیرِ آبدار کی سی کاٹ رکھتے ہیں۔ بقول حالی۔
جس طرح تلوار کی کاٹ درحقیقت ایک باڑ میں نہیں بلکہ سپاہی کے کرخت ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اسی طرح کلام کی تاثیر اس کے نڈر دل میں اور بے لاگ زبان میں ہے۔
(۷) تنوعِ مضامین
سر سیّد احمد خان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کے مضامین میں حیرت انگیز تنوع پایا جاتا ہے۔ وہ موضوعِ مضمون کے ساتھ پورا انصاف کرتے ہیں اور مضمون کو اسی کی مناسبت سے قلم بند کرتے ہیں۔ ان کے اسلوب میں ہر رنگ کا جلوہ حسبِ موقع موجود ہے۔ اگر ان کی ادبی تحریروں‘ علمی و تحقیقی مقالوں اور عدالتی فیصلوں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو بہ اعتبارِ موضوع نمایاں فرق نظر آتا ہے۔
(۸) تمثیلی اندازِ بیان
سر سید احمد خان نے اپنے بیشتر مضامین میں تشبیہات و استعارات کا استعمال کیا ہے اور موضوع کو دلچسپ بنانے کے لئے تمثیل کا رنگ اپنایا ہے۔ ان کے یہ مضامین حکایتی اسلوب کی وجہ سے نہایت دلچسپ اور اثر انگیز ہیں۔
امید کی خوشی اور گزرا ہوا زمانہ میں سر سیّد کا یہ رنگ جھلکتا ہے۔ ان مضامین میں انہوں نے دلچسپ اور ثمثیلی انداز میں اپنا مافی الضمیربیان کیا ہے۔
(۹) بے ساختگی
مصنف کی تحریروں میں ایک بے تکلفی اور بے ساختگی سی پائی جاتی ہے۔ وہ اپنا مقصد اس طرح بیان کرتے ہیں گویا قاری ان کے سامنے بیٹھا ان سے ہمکلام ہو۔ ان کے مضامین ہر قسم کی بناوٹ سے پاک اور سچائی کے جذبے سے پُر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی بات سیدھی دل میں اترتی ہے اور اثر رکھتی ہے۔
ناقدین کی آراہ
مختلف تنقیدنگار سر سیّد کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں اور مختلف انداز میں سر سیّد کی تعریف بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ شبلی نغمانی سر سیّد کے بارے میں بیان کرتے ہیں۔
سر سیّد نے اردو انشاءپردازی کو اس رتبے پر پہنچا دیا جس کے آگے اب ایک قدم بڑھنا بھی ممکن نہیں۔
بابائے اردو مولوی عبد الحق لکھتے ہیں۔
یہ سرسیّد ہی کا کارنامہ تھا جن کی بدولت ایک صدی کے قلیل عرصے میں اردو ادب کہیں کا کہیں پہنچ گیا۔
ڈاکٹر احسن فاروقی کا بیان ہے کہ۔
اپنے عمل سے انہوں نے یہ واضح کر دیا ہے کہ نثر نگاروں کے بنیادی اصول کیا ہونے چاہیے ان کو اسی میں کمال حاصل ہے اور اسی کمال کی وجہ سے وہ اردو نثر نگاری کے سرتاج رہیں گے۔
حاصلِ تحریر
سر سیّد احمد خان کی تحریروں میں اردو ادب کا ایک تاریخی موڑ ہے۔ انہوں نے سلیس اور سہل اندازِ بیان کو فروغ دے کر دامنِ اردو کو وسیع کیا۔ اردو نثر شاعرانہ ذوق‘ مشکل اور تشبیہات سے بھری ہوئی تھی۔ آپ نے اُسے سلاست‘ سادگی اوراستدلالیت میں تبدیل کیا اور اردو ادب کو فطری طرزِ تحریر سے مہکا دیا۔ آج سرسیّد ہی کی بدولت اردو ایک مشہور و معروف زبان ہے اور ہم فخر سے اردو کو اپنی قومی زبان تسلیم کرتے ہیں۔ حالی نے شاید ٹھیک ہی کہا تھا
ترے احسان رہ رہ کر سدا یاد آئیں گے اُن کو
کریں گے ذکر ہر مجلس میں اور دہرائینگے اُن کو
Fahim Patel

By Fahim Patel

- See more at: http://www.guesspapers.net/5905/%D8%B3%D8%B1-%D8%B3%DB%8C%D8%AF-%D8%A7%D8%AD%D9%85%D8%AF-%D8%AE%D8%A7%D9%86/#sthash.S9KZhSL1.dpuf

No comments:

Post a Comment