احوال غزل خواجہ میر درد
خواجہ میر درد اردو کے عظیم شاعر ہیں۔ تصوف پر ان سے بہتر کسی نے نہیں کہا۔ تصوف خان کی زندگی کی بڑی حقیقت بلکہ اوڑھنا بچھونا ہے۔ ان کے کلام میں چاند کی سی پاکیزگی ، عظمتِ خیال اور جلوہ حق کی حکمرانی ہے اور زباں وبیاں کی سادگی اور دلکشی گویا سونے پہ سہاگہ ہے۔
شعر۱
تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے
کس لئے آئے تھے ہم کیا کرچلے
تشریح
یہ شعر درد کے رنگ اور طرز کی عکاسی کرتا ہے۔ درد کہتے ہیں کہ ہم اس دنیا میں آکر وہ وعہدوپیماں بھول گئے جو ہم نے اللہ سے روزِ اول کئے تھے۔ یعنی یہ کہ ہم اس کی ہدایت اور احکام کے مطابق زندگی بسر کریں گے اور اپنی پاکیزہ روح کی امانت کو دنیا کی آرائشوں سے آلودہ نہیں کریں گے اس کے برعکس ہم دنیا کی رنگینیوں میں کھوگئے اور خطاوں کے کتنے ہی الزامات اور تہمتیں اپنے ساتھ لے کر رخصت ہوئے۔
دوسرے مصرعے میں طنزیہ لہجے نے جان پیدا کردی ہے۔ کہنا چاہتے کہ ہم دنیا میں اس لئے ہرگز نہیں بھیجے گئے تھے کہ ہم گناہوں سے اپنی روح کو داغ دار کرلیں۔
شعر۲
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مرچلے
تشریح
درد نے اس شعر میں زندگی کو طوفان سی تشبیہہ دیتے ہوئے زندگی کی ایک بڑی حقیقت کو بے نقاب کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ کوئی زندگی ہے جس میں نہ کوئی آرام و سکون ہے نہ ہماری خوشی کو دخل ہے ایک پتوار نا�¶ ہے جو موجِ حادثہ میں بہتی جارہی ہے۔ جس طرح طوفان پر انسان کا کوئی بس نہیں چلتا اسی طرح ہم خیالات کے دھارے پر بہتے رہے اور زندگی میں درد و غم کے طوفان اٹھتے رہے۔ ہم بے اختیار جینے پر مجبور ہیںاور اسی حالت میں ہمیں اپنے غم کا پیمانہ بھرنا پڑا۔ درد کا شعر ہے کہ
تھا عالم جبر کیا بتائیں
کس طرح سے زیست کرگئے ہم
شعر۳
کیا ہمیں کام ان گلوں سے اے صبا
ایک دم آئے ادھر ادھر چلے
تشریح
درد اپنے مخصوص طرزِ اسلوب میں اس شعر میں بے ثباتی کے مضمون کو بڑی خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں۔ درد کہتے ہیں کہ ہمیں ان پھولوں سے یعنی دنیا کی رنگینیوں سے کیا کام، اس سے ہمارا کیا واسطہ جبکہ ہمارا قیام اس دنیا میں اتنا مختصر، اتنا عارضی ہے کہ ابھی آئے اور ابھی چلے، ہماری حیاتِ مختصر ہمیں مہلت ہی کب دیتی ہے کہ ہم دنیا کی رنگینیوں اور دلچسپیوں سے جی بھر کر لطف اندوز ہوں اور ان سے جی لگائیں۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے عدم کی کوچ کی تیاری کریں۔
آتش کا ایک شعر ہے
عدم کی کوچ لازم ہے فکرِ ہستی میں
نہ کوئی شہر نہ کوئی دیارِ یار میں ہے
شعر۴
دوستو! دیکھا تماشہ یاں کا بس
تم رہ بس، ہم تو اپنے گھر چلے
تشریح
درد کا یہ شعر ان کے مخصوص طرزِ فکر کی ترجمانی کرتا ہے۔ انسان اس دنیا میں عارضی قیام کے لئے آتا ہے اور اس سرائے فانی میں حیاتِ مختصر کے چند لمحات لئے ایک مہمان کی طرح اپنے اصل وطن یعنی خدا کے پاس لوٹ جاتا ہے۔ اس خیال سے درد نے یہ نقطہ پیدا کیا ہے کہ جب تک وہ اس سرائے فانی میں ہے طرح طرح کی پریشانیوں اور مشکلات سے دوچار رہے گا۔ یہ دنیا اسے راس نہ آئی اس لئے وہ دنیا والوں سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں کہ اے دوستو! ہم نے یہاں کا تماشہ خو ب دیکھا، یہ دنیا ہمیں ذرا بھی نہ بھائی تو تم اس دنیا میں رہو تم تو اس سے منہ موڑ کر اپنے خالقِ
حقیقی کے پاس جارہے ہیں۔
شعر۵
شمر کی مانند ہم اس بزم میں
چشمِ نم آئے تھے دامن تر چلے
تشریح
درد نے اپنے شعر مےں ایک بڑی حقیقت افروز بات کہی ہے۔ کہتے ہیں کہ جسطرح محفل میں شمع جلتی ہے اور روتی ہے اور آخر شب جب اس کی لو دم توڑتی ہے تو اسکا دمن قطرہ ہائے اشک (موم کا اشعارہ) سے بھرجاتا ہے۔ اسی طرح دنیا میںآئے تو اشک بار تھے اور اب جب کہ ہم اس دنیا سے رخصت ہورہے ہیں تو ہمارا دامن اشک ہائے ندامت (گناہوں) سے تر ہے جو ہم نے اپنی خطاوں، گناہوں اور لغزشوں پر بہائے۔ درد نے دامن تر سے بڑا خوبصورت کام لیا ہے۔ چشمِ نم کی رعایت سے ”دامن تر“ ہونے میں جو لفظی اور معنوی دلکشی پیدا ہوگئی ہے وہ تعریف سی بالاتر ہے۔
شعر۶
ساقیا! یاں لگ رہا ہے چل چلاو
جب تلک بس چل سکے ساغر چلے
تشریح
اس شعر میں درد کا مخصوص انداز فکر جلوہ گر ہے۔ درد اس دنیا کو میکدے سے تشبیہہ دےتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے ساقی! س حجم خان عالم“ سے سارے میخوا یکے بعد دیگرے اٹھتے چلے جارہے ہیں۔ اس بزم جہان سے لوگ ایک ایک کرکے رخصت ہورہے ہیں۔ اسی لئے جب تک ممکن ہو ہمیں زندگی سے لطف اندوز ہونے دے یعنی جو وقت ہمیں میسر ہے اس کو غنیمت جانیں۔
درد ہی ایک جگہ فرماتے ہیں
موت سے کس کو دستگاری ہے
آج وہ، کل ہماری باری ہے
شعر۷
درد کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے کدھر چلے
تشریح
اس شعر میں درد خود کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انسانی عقل قدرتِ خداوندی کے اس بھید کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ ان کی ابتداءاور ان کا آغاز کیا ہے اور اسے انجام کی بھی خبر نہیں کہ یہ کاروانِ حیات جس کے ساتھ وہ خود بھی رواں ہے کہاں جارہا ہے۔ یہ دنیا کا قافلہ کہاں سے آرہا ہے اور اس کا آخری مقام کہاں ہے
ازل سے ابد تک سفر ہی سفر ہے
مسافر ہیں سب لوگ چلتے رہیں گے
No comments:
Post a Comment