Saturday, 30 August 2014

خلاصہ نظم (چارہ گری ) ۔۔۔۔۔ترجمہ انشاء جی (بارھویں جماعت
عشق کی انسان سے قربانی کا طلبگا ر  ہے ۔ابھی عشق کی وادی میں قدم رکھا ہی الیکن پریشانیوں سے اور صعوبتوں سے گھبرا  راہبر یا چارہ گر کی تلاش شروع کردی ہے ۔۔یہ کٹھن راستہ صبر کا مطالبہ کرتا ہے ۔تجھے اس راستے پر چلتے ہوئے چارہ گر کا ہر فرمان دل و جان سی ہی مشکلاتے تسلیم کرنا ہوگا۔۔حالات کیسے ہیپریشان کن کیون نہ ہوں۔صبرکا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاھہیئے ۔کوئی شکایت زباں پر نہین آنا چاھہیئے ۔دنیا محبت کرنے والے کے راستے میں حائل ہوتی ہی ہے تم یہ ہی کہنا کہ وہ بھلائی کر رہے ہیں ۔صبر کرو اور ان کے رویئے پر غصے میں نہ آؤ یہ ہی کہو کہ اچھا کیا ۔۔۔۔۔۔
صبر کرنے والوں نے ہمیشہ کامیابی حاصل کی ہے ۔مغرور اور متکب لوگ ہمیشہ رسوا ہوتے ہیں ۔نا امید اور لاچار اور کمزور لوگ صبر کے لطف سے نا آشنا رہتے ہیں ۔جو شخص اپنئے نفس اپنی خواہشات پر قابو نہٰن پاسکتا وہ ہمیشہ پشیمان رہتا ہے ۔حسد اور کینہ رکھنے والے لوگ ہمیشہ محبت کی دولت سے محروم رہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان کی جھلی خالی رہتی ہے
:شیخ غلام ہمدانی مصحفی کی غزل کی تشریح

1۔آج سب تم سے ورے بیٹھے ہیں
ایک ہم کے کہ پرے بیٹھے ہیں

تشریح:شیخ غلام  ہمدانی مصھفی کی غزل سے یہ شعر لیا گیا ہے ۔
شاعر اپنے محبوب  شکوہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہر کسی کو تمہاری قربت حاصل ہے تمہارے پاس ہیں ۔صرف میں ہی ہوں جو تم سے دور بیٹھا ہوں تنہا ہوں ۔

2۔پھٹ چکا جب سے گریباں، تب سے
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں

تشریح:
مصحفی پریشانی کے عالم میں کہتے ہیں کہ میں دیوانگی  کی اخری حد تک پہنچ چکا ہوں۔ ۔مصحفی محاورہ استعمال کرتے ہوئے کہتے  ہیں کہ  اب میں فارغ بیٹھا ہوں اور کرنے کو کچھ نہیں بچاکیونکہ جنون کی آخری حد کو چھو کر گریبان چاک کر لیا ہے ۔

3۔شیشہء مے کی طرح اے ساقی
چھیڑ مت ہم کو ،بھرے بیٹھے ہیں

تشریح:
مصحفی یہان تشبیہ استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شراب سے بھرے ہوئے جام کی طرح بھرا بیٹھا ہوں۔مجھے مت چھیڑو کہ چھلک پڑوں گا،یہاں ان کے کہنے کا مقصد ہے کہ وہ غم اور کرب کی کیفیعت سے دوچار ہیں اور یا زرہ سے بات پر پھٹ پڑیں گے

4۔قتل کا کس کے ارادہ ہے جو آپ
ہاتھ قبصے پہ دھرے بیٹھے ہیں

تشریح:
یہ ایک واقعاتی شعر ہے جس میں شاعر دیکھتا ہے کہ اس کے محبوب نے ہاتھ میں تلوار پکڑی ہوئی ہے ۔اور شاعر حہران ہو کر پوچھتا ہے کہ آج کس کے قتل کا ارادہ ہے ،

5۔،مصحفی یار کے گھر کے آگے
    ہم سے کتنے نگھرے بیٹھے ہیں

تشریح:
یہاں شاعر کہتے ہیں کہ ایک میں ہی نہیں میرے محبوب کے دروازے پہ کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اپنا گھر بار چھوڑ کر محبوب کے دروازے کو ہی اپنی مسکن بنا لیا ہے ۔


تبصرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مضمون اپنی مدد آپ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(سرسید احمد خان
سر سید احم خان مصلح قوم تھے ۔انہوں نے ہندوستانیوں کی ترقی کے لیئے آواز بلند کی ۔وہ ہندوءوں اور مسلمانوں سب کے خیر خواۃ تھے ۔لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ ہندوؤں  کسی طرح بھی مسلمانوں کو ترقی کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے تو انہوں نے صرف مسلمانوں کی ترقی و بہبود کے لیئے کوششیں شروع کی ۔اردو ہندی جھگڑے نے سر سید کی آنکھیں  کھولدی ۔سر سید دل سے چاھنے لگے کہ مسلمان ترقی کر کے برصغیر کے دوسری قوموں کے ساتھ شانہ بشانہ چل سکیں ۔سر سید نے مسممانوں کی ترقی کے لیئے قلہم کا سہا لیا اور بےشمار مقالات لکھے انہی میں سے ایک مصمون "اپنی مدد آپ"  ہے ۔۔۔۔۔اس میں سر سید نےعام دلائل  کے علاوہ  قراآن َ پاک  کی اس آیت کا حوالہ دیا ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ االلہ ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں ۔۔۔۔۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو آپ جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا ۔
یہ حقیقت ہے کہ شخصی ترقی شخصی محنت اپنی مدد آپ ہی کی بدو؛ت ہے ۔دنیا کی مختلف قوموں کے عروج  زوال پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ صرف انہی اقوام نے ترقی کی ہے جو اپنی مدد آپ کے اصول پر عم پیرا تھے ،جنہوں نے اس عمل سے غفلت کی انہوں نے زلت و رسوائ دیکھی ۔۔۔۔
سر سید کا یہ مصمون حقیقی معنوں میں ایک ایسی حقیقت ہے جس پر قوموں کی ترقی کا دارومدار ہے ،اندازِ تحریر سادہ اور ناصحانہ ہے ۔۔۔جو کہ سرسید کی تحریروں کا خاصہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

Friday, 29 August 2014

شیخ غلام علی ہمدانی مصحفی:۔

(1751ء۔۔۔۔1825ء)مصحفی
مصحفی، شیخ غلام ہمدانی (۱۸۲۴ - ۱۷۵۰) امروہہ کے رہنے والے تھے۔ جوانی میں دہلی آئے۔ تعلیم کی شروعات امروہہ میں، تکمیل دہلی میں ہوئی۔ ذوق شاعری دہلی میں پروان چڑھا جس کو وہ اپنا وطن جانتے تھے۔ ۲۲ سال کی عمر میں تنگ دستی سے پریشان ہو کر پہلے آنولہ گئے، پھر ٹانڈہ اور پھر لکھنؤ پہنچے۔ ایک سال بعد دہلی واپس آ گئے۔ مشق سخن جاری رہی اور بہت جلد اساتذہ سخن میں شمار ہونے لگے۔ بارہ سال بعد نواب آصف الدولہ کے دور میں مستقلاً لکھنؤ کی سکونت اختیار کر لی۔ یہاں انشاء پہلے ہی سے موجود تھے۔ انھیں کے توسط سے نواب سلیمان شکوہ کی سرکار میں بازیابی ہوئی اور ان ہی کے دربار میں انشاء اللہ خاں سے کوب معرکے بھی ہوئے۔ سلیمان شکوہ نے انشاء کا ساتھ دیا۔ نتیجتاً دربار سے تعلق ختم کر کے نواب مرزا محمد تقی سے وابستہ ہو گئے۔ آخری عمر تنگدستی میں گزری۔ مصحفی کی تصنیفوں میں نو دیوان، اردو شاعروں کے دو تذکرے، "تذکرہ ہندی"، "ریاض الفصحا" اور فارسی شاعروں کا ایک تذکرہ "عقدِ ثریا" دست یاب ہیں۔ فارسی کا ایک دیوان بھی نظیری کے جواب میں مرتب کیا تھا۔ مصحفی نے شاگردوں کی کثیر تعداد چھوڑی اور ان کا اثر دور تک پھیلا۔

مصحفی دہلی سے ہجرت کرکے لکھنو آئے۔ ان کی شاعری کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا شعری مزاج دہلی میں صورت پذیر ہوا لیکن لکھنوکے ماحول ، دربارداری کے تقاضوں اور سب سے بڑھ کر انشائ سے مقابلوں نے انہیں لکھنوی طرز اپنانے پرمجبور کیا۔ ان کا منتخب کلام کسی بھی بڑے شاعر سے کم نہیں۔ اگر جذبات کی ترجمانی میں میر تک پہنچ جاتے ہیں تو جرات اور انشائ کے مخصوص میدان میں بھی پیچھے نہیں رہتے۔ یوں دہلویت اور لکھنویت کے امتزاج نے شاعری میں شیرینی ، نمکینی پیدا کر دی ہے۔ ایک طرف جنسیت کا صحت مندانہ شعور ہے تو دوسری طرف تصوف اور اخلاقی مضامین بھی مل جاتے ہیں۔
جمنا میں کل نہا کر جب اس نے بال باندھے
ہم نے بھی اپنے جی میں کیا کیا خیال باندھے

وہ جو ملتا نہیں ہم اس کی گلی میں دل کو
در و دیوار سے بہلا کے چلے آتے ہیں

تیرے کوچے میں اس بہانے ہمیں دن سے رات کرنا
کبھی اس سے بات کرنا کبھی اس سے با

سرسید احمد خان

حالات ِ زندگی

سرسید احمد خان ۷۱۸۱ءمیں دہلی میں پیدا ہوا۔ والد کا نام میر تقی تھا جو ایک درویش منش بزرگ تھے۔ سرسید کی پرورش میں ان کی والدہ عزیز النساء بیگم کا بڑا ہاتھ تھا۔ جنہوں نے سرسید کی تعلیم و تربیت زمانے کی ضروریات کے مطابق کی۔۸۳۸۱ءمیں سرسید دہلی میں سرشتہ دار کے عہدہ پر مقرر ہوئے اس کے بعد منصفی کا امتحان پاس کرکے منصف ہوگئے۔ ۲۴۸۱ءمیں بہادر شاہ ظفر کی طرف سے ان کو جواد الدولہ عارف جنگ کا خطاب ملا۔


تصانیف

سرسید کی مشہور تصانیف میں مندرجہ ذیل شامل ہیں:

  • آثار الضادید
  • آئین اکبری
  • تاریخ ضلع بجنور
  • رسالہ اسباب بغاوت ہند
  • تصحیح تاریخ فیروز شاہ
  • تین الکلام
  • تفسیر الکلام
  • تفسیرالقرآن
  • خطباتِ احمدیہ


طرزِ تحریر کی نمایاں خصوصیات

سرسید کے طرزِ تحریر کی نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں:
'قدیم رنگ
سرسید نے سب سے پہلے اپنے بھائی کے اخبار سید الاخبار میں مضامین لکھنا شروع کئے۔ آثارالضادید میں وہی قدیم اسلوبِ بیان ملتا ہے۔ بلکہ ۷۵۸۱ءتک سرسید نے جو کچھ لکھا ہے امیں یہی رنگ نمایاں ہے۔ یعنی الفاظ کا بے محل استعمال اور قواعد سے بے پروا۔
وہ تحریر یا تقریر کی رو میں گرامر کی کچھ پرواہ نہیں کرتے تھے ۔وہ ان قیدوں سے جو شاعروں اور منشیوں نے مقرر کی ہیں بالکل آزاد ہیں۔ (حالی)
وہ دور ہی ایسا تھا کہ قواعد کی پابندی سخت نہ تھی۔ الفاظ کی بے ترتیبی عام تھی۔ اردو فقروں میں اکثر دھوکہ ہوتا تھا کہ فارسی کا ترجمہ ہیں لیکن سرسید کو اس امر کا احساس تھا کہ اس قسم کی تحریر بہتر نہیں ہے۔
جدید رنگ
سرسید کی شخصیت بڑی زمانہ شناس تھی۔ انہوں نے زمانے کا رنگ پہچان لیا تھا۔ جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد مسلمانوں کی سیاسی، تمدنی، تہذیبی اور معاشرتی زندگی کا نظام درہم برہم ہوچکا تھا۔ سرسید نے ایک مصلح قوم ہونے کی حیثیت سے اپنا مقصد حیات، مسلک زندگی اور لائحہ عمل متعین کرلیا اور تحریرو تقریر کے ذریعہ قومی و ملکی، مذہبی، معاشرتی، اخلاقی، علمی اور تعلیمی خدمات شروع کیں۔ انہوں نے آثار الضادید کو آسان زبان میں شائع کیا۔
سادگی و روانی
نثر کا روز مرہ کی سادہ بات چیت کی زبان سے قریب تر ہونا بہت ضروری ہے۔ سرسید نے اپنی نثر کو اسی نصب العین پر پورا اتارنے کی پوری کوشش کی ہے۔ اس میدان میں وہ اسٹیل اور ایڈیسن سے متاثر نظر آتے ہیں۔ جس طرح ایڈیسن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے ادب کو درباروں اور محلوں سے نکال کر قہوہ خانوں اور بازارون تک پہنچا دیا۔ اسی طرح سرسید نے اردو ادب کو خانقاہ، دربار اور کوچہ و بام سے نکال کر دفتروں، تعلیم گاہوں اور متوسط طبقے کے دل و دماغ تک پہنچا دیا اور اس سے زندگی کی رہنمائی کا کام لیا اور اردو نثر کو اس قابل بنادیا کہ وہ علمی کام کرسکے۔ سرسید پیچیدہ سیاسی مسائل، مذہبی نکات، اور دشوار اصلاحی مباحث کو بھی نہایت صفائی، سادگی اور بے تکلفی کے ساتھ بیان کردیتے ہیں۔ سرسید نے فلسفیانہ، سائنسی اور تنقیدی مضامین میں بھی سادگی کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور ہر جگہ موضوع کی فطرت کے مطابق زبان استعمال کی ہے۔ انہوں نے کسی بحث میں بھی اصطلاحیں استعمال نہیں کی ہیں بلکہ ہر جگہ ان کی زبان عام فہم اور رواں ہے۔ ان کی تحریر کا جادو ہر شخص کو مسحور کرلیتا ہے۔ ان کا سب سے بڑا کمال اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب وہ کسی عملی مسئلہ پر بحث شروع کرتے ہیں اور ان کی بحث اتنی سادہ، رواں اور مدلل ہوتی ہے اسے تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں ہوتا۔
مقصدیت
یہ مقولہ کہ طرزِ ادا مصنف کی ہستی کا آئینہ دار ہوتا ہے سرسید پر صادق آتا ہے۔ ان کے طرزِ تحریر میں ان کی ہمہ گیر شخصیت ان کی زندگی اور ان کے ماحول کا مشترکہ ہاتھ تھا۔ سرسید پہلے ایک مصلح تھے پھر ایک ادیب ۔ ان کا طرز ایک ذریعہ تھا مقصد نہیںتھا۔ اپنی بات دوسروں تک پہنچانا یہی حقیقت سرسید کے انداز کا راز ہے۔ انہوں نے اپنی نثر سے قومی اصلاح کا کام لیا ہے۔ یہی وجہ تھی جو سرسید کے لئے کہا گیا:
سرسید سے معقولات الگ کرلیجئے تو وہ کچھ نہیں رہتے۔ (مہدی آفادی)
تہذیب الاخلاق کے تمام مضامین میں مقصدیت اور تبلیغی رنگ پایا جاتا ہے۔ تبلیغی نثر اردو میں سرسید سے پہلے بھی موجود تھی لیکن اس کی زبان صاف اور سادہ نہیں تھی۔
ظرافت
سرسید ایڈیسن اور اسٹیل سے متاثر ضرور نظر آتے ہیں لیکن انہوں نے ان کا مکمل رنگ اختیار کیا ہے۔ کیونکہ ایڈیسن نے اصلاح احوال کے لئے مزاحیہ انداز اختیار کیا ہے اور اپنے معاشرے کی بد اخلاقیوں اور برائیوں کا دل کھول کر تمسخر اڑایا ہے۔ سرسید میں مزاح نگار کی صلاحیتیں کم تھےں اس لئے وہ مکمل طور پر ان کا رنگ اختیار نہ کرسکے۔ انہوں نے کوشش ضرور کی ہے اور اس سے موقع محل کے مطابق کام لیا ہے۔ اس کی بہترین مثال ان کے مضمون طریق تناول طعام میں ملتی ہے۔ جس میں انہوں نے مزاحیہ انداز میں یہ بتایا ہے کہ مسلمان کس برے طریقے سے کھانا کھاتے ہیں۔
تمثیلی رنگ
مقالات میں تمثیلی رنگ اختیار کرنے کا سہرا سرسید کے سر ہے۔ اس سلسلہ میں ان مضامین میں امید کی خوشی سے بہتر مضمون شاید ہی دوسری زبانوں میں اردو ادب میں تو اس کا ثانی نہیں ملتا۔ سرسید کی فطرت میں چھپی ہوئی رومانیت اس مضمون میں نمایاں ہے۔ اور اس نے اردو نثر نگاری میں ایک نیا باب کھالا ہے۔ اس کا مقابلہ چارلس لیمپ کے مضمون ڈریم چلڈرن سے کیا جاسکتا ہے۔
مقالہ نگاری
اردو ادب کی تاریخ میں سرسید پہلے شخص ہیں جہنوں نے فن مقالہ نگاری کی ابتدا کی۔ سرسید کے اخبارسوسائٹی گزٹ اورتہذیب الاخلاق سے پہلے بہت سے اخباروں اور رسالوں میں مذہبی، اخلاقی اور علمی مقالے شائع ہوئے تھے۔ لیکن سرسید نے نئے موضوعات پر قلم اٹھایا، خوشامد، بحث و تکرار، رسم ورواج اور سویلزیشن وغیرہ پر انہوں نے صاف اور سادہ زبان میں مقالے لکھے۔ سرسید نے آزادی رائے پر ایک اصلاحی مقالہ تحقیقی رنگ میں لکھا۔
تہذیب الاخلاق
انگلستان سے واپسی پر انہوں نے انگلستان کے مشہور اخبارات اسپیکٹیٹر اور ٹیٹلڑ کے انداز پر رسالہ تہذیب الاخلاق نکالا۔ اس سے انہوں نے نہ صرف اپنی نثر نگاری کی ابتدا کی بلکہ اردو نثرنگاری کے لئے ایک صحیح اور سیدھا راستہ کھول دیا۔
سرسید نے کام کی زبان میں کام کی باتیں لکھنا سکھائیں۔ تہذیب الاخلاق نے مردہ قوم میں زندہ دلی کی ایک لہر پیدا کردی ۔ قوم میں ایک غیر معمولی جوش عمل پیدا ہوا ایک نئی زندگی نے انگڑائی لی جس نے ہر شعبہ فکر کو بدل دیا۔ (پروفیسر آل احمد سرور)
دبستانِ سرسید
سرسید انیسویں صدی کے ہندوستان کی عظیم شخصیت رہبر و مصلح تھے۔ وہ مسلمانوں کے اخلاق، مذہب، معاشرتی زندگی، تعلیم، رسم و رواج اور زبان و ادب وغیرہ کی اصلاح کرنا چاہتے تھے۔ اس اصلاحی کوشش میں ان کو محسن الملک، مولوی چراغ علی، مولوی ذکاءاللہ، حالی نذیر احمد، شبلی نعمانی اور مولوی زین العابدین جیسی شخصیتیں مل گئیں۔ جنہوں نے سرسید کے دوش بدوش اس عظیم مقصد کی تکمیل کی کوشش کی جس کے لئے سرسید نے اپنی پوری زندگی وقف کردی۔ اس تحریک نے مسلمانوں کی کایا پلٹ دی۔
عظمتِ سرسید
سرسید کی عظمت کو ان الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے:
سرسید نے ادب اور معقولات پر جس حد تک مجتہدانہ رنگ چڑھایادراصل ان کی اولیات میں داخل ہونے کے لائق ہے۔ یہ ان ہی کے قلم کی آواز بازگشت ہے جو ملک مےں بڑے بڑے مصنف کے لئے دلیل راہ بنی۔ آج جو خےالات بڑی آب و تاب اور عالمانہ سنجیدگی کے ساتھ مختلف لباس میں جلو ہ گرکئے جاتے ہیں دراصل اسی زبردست اور مستقل شخصیت کے عوارض ہیں۔ ورنہ پہلے یہ جنس گراں باوصف استطاعت اچھے اچھوں کی دسترس سے باہر تھی۔ سرسید کے کمالات ادبی کا عدم اعتراف صرف ناشکری صرف ناشکری ہی نہیں بلکہ تاریخی غلطیہے۔ (مہدی آفادی)

Wednesday, 27 August 2014

ابو الاثرحفیظ جالندھری پاکستان کے قومی شاعر تھے۔ مگر ان کی مقبولیت بھارت میں کم نہیں تھی۔ تقسیم ملک سے قبل ہی وہ اپنی ادبی حیثیت منوا چکے تھے۔ ان کی دوسری شناخت ”شاہنامہ اسلام“ کے تناظر میں اسلامی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کا شعری حوالہ ہے۔ انہوں نے ثقافتی اکتساب کے حوالوں سے اعلیٰ اور ارفعیٰ اور افضل ہستیوں کی ایسی شعری پیکر تراشی کی کہ ان کی تخلیق بر صغیر ہندو پاک میں اپنی نوعیت کی واحد تخلیق قرار پائی۔ 

حفیظ جالندھری کی شاعری کی تیسری خوبی اس کی غنائیت ہے۔ وہ خود بھی مترنم تھے اس لیے انہوں نے ایسی لفظیات کا انتخاب کیا جو غنائیت کے پیکر پر پورے اترتے ہیں۔ غنائیت کا سبب ان کی گیت نگاری بھی ہے۔ انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں فوجی گیت لکھے تھے اور گیت کو بھی انہوں نے نئے پیکر عطا کیے۔ شاید اسی لیے آج تک حفیظ جالندھری کی شناخت ” ابھی تو میں جوان ہوں“ کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ بلا شبہ یہ ایک پر اثر گیت ہے کیوں کہ اس میں جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ اپنی جگہ پر نگینے کی طرح جڑے ہوئے ہیں اور سامع کے دل پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔ 

لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ حفیظ کی غزلوں کا سرمایہ کافی ہے اور حفیظ خود کو غزل گو کہلوانا پسند کرتے تھے۔ انہوں نے غزل میں بہت سے نئے تجربات کیے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سلیس زبان کا استعمال کیااور گرد و پیش کے واقعات کو اپنی غزلوں کا موضوع بنایا۔ ایک طرح سے انہوں نے غزل کو فطری پوشاک عطا کی۔ ان کے یہاں روایت سے بغاوت ملتی ہے۔ غنائیہ کے سبب زبردست رچاؤ ہے۔ ان کے کچھ اشعار تو آج کے حالات کا احاطہ کر لیتے ہیں۔ ان کی حیثیت ماوراے عصر ہے:
حفیظ جالندھری سے میری چند ملاقاتیں اس وقت ہوئیں جب وہ 1976ء میں بھارت تشریف لائے۔ ان کا قیام دہلی میں اپنی منہ بولی بیٹی اور مشہور صحافی و ادیبہ منورما دیوان کے گھر پر تھا۔ منورما دیوان کے شوہر معروف ادیب دیوان بریندر ناتھ ظفر پیامی میرے دوستوں میں تھے۔ میں جب ان کے گھر پر حفیظ جالندھری صاحب سے ملنے کے لیے گیا تو انہوں نے ان سے میرا تعارف بڑے جان دار الفاظ میں کروایا۔ حفیظ صاحب بہت ہی پر تپاک انداز میں ملے اور دیر تک شعر و سخن کی باتیں کرتے رہے۔

اس کے بعد وہ ایک مشاعرے میں پٹنہ بھی تشریف لائے۔ ان کی آمد سے استفادہ کرتے ہوئے ریاستی گورنر جگن ناتھ کوشل نے، جو اردو شاعری کے بے حد قدر داں اور حفیظ صاحب کے شاعری کے مداح تھے، حفیظ کے اعزاز میں ایوانِ گورنرمیں ایک بڑے مشاعرے کا اہتمام کیا اور ان کے تعارف میں پر زور تقریر کی۔ 

پاکستان میں اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی اور حفیظ صاحب چند وجوہات سے اس حکومت سے بہت شاکی تھے۔ تقریر میں تو اس کا اظہا رنہیں کیا لیکن اشعار میں کافی ہدف ملامت بنایا۔ انہوں نے مشاعرے میں جو اشعار پڑھے ان میں سے چند مجھے یاد ہیں:
شاد عظیم آباد ی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انہوں نے شاد کی مشہور غزل ”کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں“ کی زمین میں بھی ایک غزل سنائی تھی۔ جس کا مقطع تھا:

حفیظ اہل ادب کب مانتے تھے 
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں 

موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے حفیظ صاحب سے ایک تفصیلی انٹر ویو کیا تھا۔ وہ بار بار حکومت وقت کو ہدف بناتے تھے او ر ہم عصر شعرا پر بھی زبردست تنقید کرتے تھے۔ خاص طور سے فیض احمد فیض اور جوش ملیح آبادی ان کے نشانے پر تھے۔ انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ فیض اور ان کے کچھ ہم نشینوں نے اپنے قلم روس کے ہاتھوں بیچ دیے ہیں۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ کے جی بی کے کچھ اہم اشخا ص نے ان سے بھی رابطہ کیا تھا اور بڑی رقم دینے کی پیش کش کی تھی، مگر انہوں نے اپنا قلم فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔ 

اس وقت حفیظ صاحب عمر کی اس منزل میں تھے کہ انہیں ذرا ذرا سی بات پر غصہ آجاتا تھا اگر میں کریدنے کے لیے کچھ سوال کرتا تھا تو وہ غصے میں آکر ہلکی باتیں بولنے لگتے تھے۔ 

حفیظ جالندھری بہر حال اردو کے شعری ادب میں قابل ذکر حیثیت کے مالک ہیں اور انہوں نے اردو شاعری کو جو کچھ دیا ہے اس کا اردو ادب میں نمایاں مقام ہے۔ ان کے بہت سے اشعار سہلِ ممتنع کی حیثیت رکھتے ہیں:

دل ابھی تک جواں ہے پیارے
کس مصیبت میں جان ہے پیارے 
تلخ کر دی ہے زندگی اس نے 
کتنی میٹھی زبان ہے پیارے


حفیظ جالندھری 14 جنوری 1900ءکو جالندھر میں پیدا ہوئے تھے اور 21دسمبر 1982کو لاہور میں انتقال فرمایا۔ انہوں نے اپنی تخلیقات میں چار جلدوں میں شاہنامہ اسلام، نغمہ زاد ‘ سوز و ساز، تلخابہ شریں اور چراغ سحر چھوڑے۔ ان کی شعری کائنات چھ دہائیوں پر محیط ہے اور ان کا یہ دعویٰ درست ہے:

شعر وادب کی خدمت میں جو بھی حفیظ کا حصہ ہے
یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی باتیں نہیں 

احوال        غزل خواجہ میر درد
خواجہ میر درد اردو کے عظیم شاعر ہیں۔ تصوف پر ان سے بہتر کسی نے نہیں کہا۔ تصوف خان کی زندگی کی بڑی حقیقت بلکہ اوڑھنا بچھونا ہے۔ ان کے کلام میں چاند کی سی پاکیزگی ، عظمتِ خیال اور جلوہ حق کی حکمرانی ہے اور زباں وبیاں کی سادگی اور دلکشی گویا سونے پہ سہاگہ ہے۔

شعر۱
تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے
کس لئے آئے تھے ہم کیا کرچلے
تشریح
یہ شعر درد کے رنگ اور طرز کی عکاسی کرتا ہے۔ درد کہتے ہیں کہ ہم اس دنیا میں آکر وہ وعہدوپیماں بھول گئے جو ہم نے اللہ سے روزِ اول کئے تھے۔ یعنی یہ کہ ہم اس کی ہدایت اور احکام کے مطابق زندگی بسر کریں گے اور اپنی پاکیزہ روح کی امانت کو دنیا کی آرائشوں سے آلودہ نہیں کریں گے اس کے برعکس ہم دنیا کی رنگینیوں میں کھوگئے اور خطاوں کے کتنے ہی الزامات اور تہمتیں اپنے ساتھ لے کر رخصت ہوئے۔
دوسرے مصرعے میں طنزیہ لہجے نے جان پیدا کردی ہے۔ کہنا چاہتے کہ ہم دنیا میں اس لئے ہرگز نہیں بھیجے گئے تھے کہ ہم گناہوں سے اپنی روح کو داغ دار کرلیں۔

شعر۲
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مرچلے
تشریح
درد نے اس شعر میں زندگی کو طوفان سی تشبیہہ دیتے ہوئے زندگی کی ایک بڑی حقیقت کو بے نقاب کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ کوئی زندگی ہے جس میں نہ کوئی آرام و سکون ہے نہ ہماری خوشی کو دخل ہے ایک پتوار نا�¶ ہے جو موجِ حادثہ میں بہتی جارہی ہے۔ جس طرح طوفان پر انسان کا کوئی بس نہیں چلتا اسی طرح ہم خیالات کے دھارے پر بہتے رہے اور زندگی میں درد و غم کے طوفان اٹھتے رہے۔ ہم بے اختیار جینے پر مجبور ہیںاور اسی حالت میں ہمیں اپنے غم کا پیمانہ بھرنا پڑا۔ درد کا شعر ہے کہ
تھا عالم جبر کیا بتائیں
کس طرح سے زیست کرگئے ہم
شعر۳
کیا ہمیں کام ان گلوں سے اے صبا
ایک دم آئے ادھر ادھر چلے
تشریح
درد اپنے مخصوص طرزِ اسلوب میں اس شعر میں بے ثباتی کے مضمون کو بڑی خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں۔ درد کہتے ہیں کہ ہمیں ان پھولوں سے یعنی دنیا کی رنگینیوں سے کیا کام، اس سے ہمارا کیا واسطہ جبکہ ہمارا قیام اس دنیا میں اتنا مختصر، اتنا عارضی ہے کہ ابھی آئے اور ابھی چلے، ہماری حیاتِ مختصر ہمیں مہلت ہی کب دیتی ہے کہ ہم دنیا کی رنگینیوں اور دلچسپیوں سے جی بھر کر لطف اندوز ہوں اور ان سے جی لگائیں۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے عدم کی کوچ کی تیاری کریں۔
آتش کا ایک شعر ہے
عدم کی کوچ لازم ہے فکرِ ہستی میں
نہ کوئی شہر نہ کوئی دیارِ یار میں ہے
شعر۴
دوستو! دیکھا تماشہ یاں کا بس
تم رہ بس، ہم تو اپنے گھر چلے
تشریح
درد کا یہ شعر ان کے مخصوص طرزِ فکر کی ترجمانی کرتا ہے۔ انسان اس دنیا میں عارضی قیام کے لئے آتا ہے اور اس سرائے فانی میں حیاتِ مختصر کے چند لمحات لئے ایک مہمان کی طرح اپنے اصل وطن یعنی خدا کے پاس لوٹ جاتا ہے۔ اس خیال سے درد نے یہ نقطہ پیدا کیا ہے کہ جب تک وہ اس سرائے فانی میں ہے طرح طرح کی پریشانیوں اور مشکلات سے دوچار رہے گا۔ یہ دنیا اسے راس نہ آئی اس لئے وہ دنیا والوں سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں کہ اے دوستو! ہم نے یہاں کا تماشہ خو ب دیکھا، یہ دنیا ہمیں ذرا بھی نہ بھائی تو تم اس دنیا میں رہو تم تو اس سے منہ موڑ کر اپنے خالقِ
حقیقی کے پاس جارہے ہیں۔

شعر۵
شمر کی مانند ہم اس بزم میں
چشمِ نم آئے تھے دامن تر چلے
تشریح
درد نے اپنے شعر مےں ایک بڑی حقیقت افروز بات کہی ہے۔ کہتے ہیں کہ جسطرح محفل میں شمع جلتی ہے اور روتی ہے اور آخر شب جب اس کی لو دم توڑتی ہے تو اسکا دمن قطرہ ہائے اشک (موم کا اشعارہ) سے بھرجاتا ہے۔ اسی طرح دنیا میںآئے تو اشک بار تھے اور اب جب کہ ہم اس دنیا سے رخصت ہورہے ہیں تو ہمارا دامن اشک ہائے ندامت (گناہوں) سے تر ہے جو ہم نے اپنی خطاوں، گناہوں اور لغزشوں پر بہائے۔ درد نے دامن تر سے بڑا خوبصورت کام لیا ہے۔ چشمِ نم کی رعایت سے ”دامن تر“ ہونے میں جو لفظی اور معنوی دلکشی پیدا ہوگئی ہے وہ تعریف سی بالاتر ہے۔

شعر۶
ساقیا! یاں لگ رہا ہے چل چلاو
جب تلک بس چل سکے ساغر چلے
تشریح
اس شعر میں درد کا مخصوص انداز فکر جلوہ گر ہے۔ درد اس دنیا کو میکدے سے تشبیہہ دےتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے ساقی! س حجم خان عالم“ سے سارے میخوا یکے بعد دیگرے اٹھتے چلے جارہے ہیں۔ اس بزم جہان سے لوگ ایک ایک کرکے رخصت ہورہے ہیں۔ اسی لئے جب تک ممکن ہو ہمیں زندگی سے لطف اندوز ہونے دے یعنی جو وقت ہمیں میسر ہے اس کو غنیمت جانیں۔
درد ہی ایک جگہ فرماتے ہیں
موت سے کس کو دستگاری ہے
آج وہ، کل ہماری باری ہے

شعر۷
درد کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے کدھر چلے
تشریح
اس شعر میں درد خود کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انسانی عقل قدرتِ خداوندی کے اس بھید کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ ان کی ابتداءاور ان کا آغاز کیا ہے اور اسے انجام کی بھی خبر نہیں کہ یہ کاروانِ حیات جس کے ساتھ وہ خود بھی رواں ہے کہاں جارہا ہے۔ یہ دنیا کا قافلہ کہاں سے آرہا ہے اور اس کا آخری مقام کہاں ہے
ازل سے ابد تک سفر ہی سفر ہے
مسافر ہیں سب لوگ چلتے رہیں گے

>حضرت فاطمہ رضہ کی رخصتی
تعارف
قومی ترانے کے خالق ابوالاثر حفیظ جالندھری کا شمار اردو کے قادرالکلام شعراء میں ہوتا ہے۔ یہ نظم حضرت فاطمتہ الزھرا رضہ کی رخصتی ان کی شاہکار نظم ہے جو شاہنامہ اسلام سے ماخوذ ہے۔ بیانیہ شاعری میں یہ نظم منظر نگاری اور واقعہ نگاری کا شاہکار ہے۔ اس میں انہوں نے شگفتہ بیانی کے وہ پھول کھلائے ہیں جنہوں نے شاھنامہ اسلام کو ایک سدابہار نظم بنادیا۔
مرکزی خیال
دنیا بیٹیوں کو جہیز میں ایک جہاں دیتی ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لاڈلی صاحبزادی کو جو جہیز دیا وہ حیا کی چادر، پاکدامنی جا ہانگ اور صبروقناعت کے گہنے تھے۔ عفت و پاکدامنی کے زیور سے آراستہ اور ہمیشہ خدا کے آگے سجدہ ریز پیشانی لے کہ وہ اپنی سسرال گئیں۔
حضرت فاطمہ رضہ کی شادی حضرت علی رضہ کے ساتھ نہایت سادگی سے ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنگِ بدر سے تشریف لاچکے تھے۔ باہمی راضامندی سے انتہائی سادگی کے ساتھ یہ پروقار اور عظیم تقریب اپنے انجام کو پہنچی۔ حضرت علی رضہ نے اپنی زرہ بیچ کر مہر ادا کیا اور دعوتِ ولیمہ کی۔
حضرت فاطمہ رضہ کی ذاتِ گرامی وہ ذات تھی جسمیں نیک بختی اور سعادت کا اعلی نمونہ موجود تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ رضہ کو ورثے میں شرم و حیا اور صدق و صفا کی دولت ملی تھی۔ فیاضی ایسی ملی تھی کہ جس کی شہادت قرآن نے دی تھی۔ آپ کو سچائی اور نیکی کا پیکر کہا گیا۔ حضرت علی رضہ بے حد خوش بخت تھے کہ آپ کو ایسی رفیقِ حیات ملیں۔ اپنے مقدس باپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے رخصت ہوکرجب آپ حضرت علی رضہ کے گھر آئیں تو اگرچہ دولتِ دنیاویآپ کے ساتھ نہ تھی البتہ دولتِ صبروفا اور قناعت و شکر سے مالامال تھیں۔ ایک کھر درے بان کی چارپائی، دو آٹا پیسنے کی چکیاں، مٹی کے دو گھڑے، چمڑے کا ایک گداجس میں کھجوروں کے پتے بھرے تھے، ایک پانی بھرنے کی مشک، یہ وہ مقدس جہیز تھا جس پر حوروں کے دل قربان تھے۔ آپ رضہ کا اصل جہیز تو وہ اعلی تربیت تھی، وہ اوصافِ مبارکہ تھے جو آپ رضہ کو سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان کی بدولت حاصل ہوئی 

Tuesday, 26 August 2014

Home » Class XI » XI Urdu » ابنِ انشائ



ابنِ انشائ ایک تعارف
ابنِ انشاءشاعر بھی ہیں‘ ادیب بھی۔ انہوں نے غزلیں‘ نظمیں اور گیت لکھے۔ شاعری میں ان کا ایک مخصوص انداز ہے۔ وہ کبھی کبیرداس کا لہجہ اختیار کرتے ہیں اور انسان دوستی کا پرچار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ایک انسان کو دوسرے انسان سے محبت کا سبق دیتے ہیں۔ کہیں اپنے اشعار میں زندگی کی اداسیوں ‘ محرومیوں اور دکھوں کا میرتقی میر کی طرح اظہار کرتے ہیں اور کہیں نظیر اکبر آبادی کی طرح علاقائی اور عوامی انداز اختیار کرتی ہیں اور بڑی سادگی‘ روانی اور عوامی زبان میں عوام کے احساس کو اردو ادب کا جامہ پہناتے ہیں۔
نثر کے میدان میں انہوں نے طنز نگاری کا انداز اختیار کیا۔ طنز میں مزاح کی آمیزش نے ان کی تحریروں کو زیادہ پر اثر بنایا دیا۔ عوام سے قریب ہونے کے لئے انہوں نے اخبارات میں کالم نویسی کا آغاز کیا‘ سفرنامے لکھے‘ اس طرح اپنے مشاہدات اور تجربات کو طنز و مزاح کے پیرائے میں بیان کرکے شہرت حاصل کی۔ اردو ادب کی ان مختلف اصناف میں ابنِ انشاءنے بڑا نام کمایا۔ طبیعت کی جولانی اور شگفتگی‘ مزاج کی حس لطافت و ظرافت اور طنز کی تراش و خراش‘ غرضیکہ سب ہی کچھ ان کی تحریروں سے نمایاں ہے۔
تصانیف
شعری کلام
  • چاند نگر ( پہلا مجموعہ
  • اس بستی کے اک کوچے میں دوسرا مجموعہ
  • چینی نظمیں
نثری تصانیف
  • اردو کی آخری کتاب
  • خمار گندم
  • چلتے ہو تو چین کو چلئے
  • آوارہ گرد کی ڈائری
  • دنیا گول ہے
  • ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں
طرزِ تحریر کی خصوصیات
ابنِ انشاءکے طرزِ تحریر کی نمایاں خصوصیات ذیل میں درج ہیں۔
(۱) تسلسلِ مشاہدہ
سفرنامہ چونکہ چشم دیدواقعات پر مشتمل ہوتا ہے اس لئے اس میں شروع سے آخر تک تسلسل کا ہونا ضروری ہے ۔ ابنِ انشاءکے سفرناموں میں یہ خوبی نظر آتی ہے کہ وہ اپنے مشاہدات کو باہم گڈمڈ نہیں کرتے وہ بڑے سلیقے سے مختلف وقعات کو ایک کڑی میں پروتے ہیں۔ ہر مشاہدہ کو علیحدہ علیحدہ بیان کرتے ہیں ۔ وہ تسلسل کے ساتھ ایک منظر کے بعد دوسرامنظر سامنے لاتے ہیں۔ اس طرح ان کا سفرنامہ مشاہدات اور تجربات کا ایک رنگین دفتر بن جاتا ہے۔ وہ تیکھے طنز اور شائستہ مسکراہٹوں سے اپنی تحریر کو اور زیادہ پر اثر بنادیتے ہیں۔
(۲) طنز و مزاح کی آمیزش
ابنِ انشاءاپنی تحریروں میں طنز و مزاح کو بڑے دلکش پیرائے میں استعمال کرنے کا فن جانتے ہیں اس لئے ان کے سفرناموں میں طنزومزاح کی آمیزش سے دلچسپی اور شگفتگی پیدا ہو گئی ہے۔ وہ جملوں اور فقروں میں طنز کی کیفیت شامل کرکے واقعات کے تانے بانے کو اس طرح ترتیب دیتے ہیں کہ قاری کا انہماک بڑھتا چلا جاتا ہے اور پھر مزاح کی باتیں مان کر اور پر لطف اور دلکش بنا دیتی ہے۔
(۳) مشاہدات میں قاری کی شمولیت
یوں تو سفرنامہ ذاتی مشاہدات اور تجربات کو تحریر کرنے کا نام ہے لیکن سفرنامہ کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ لکھنے والا اپنے مشاہدات کو اس طرح پیش کرے کہ قاری کی نگاہوں کے سامنے بھی وہ مناظر آجائیں اور وہ بھی خود کو ہمسفر محسوس کرے۔ انشاءکے سفرناموں میں خصوصیت موجود ہے۔ پہلے جو سفرنامے لکھے گئے ان میں مشاہدات و تجربات کے برعکس واقعات کا بیان ہواکرتے تھا لیکن انشاءکے سفر ناموں میں ان کے مشاہدے اس کے اثرات اور تجربات کی کرنیں پھوٹتی ہیں۔ وہ آنکھ بند کرکے سفر نہیں کرتے بلکہ کھلی آنکھوں سے جذبات و احساسات کو بیدار کرکے چیزوں کو دیکھتے اور ان کا تجزیہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قاری پوری سفر میں ان کا ہمسفر ہوتا ہے اور جو کچھ وہ محسوس کرتے ہیں وہی قاری بھی محسوس کرتا ہے۔
(۴) منظر کشی
سفرنامے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ واقعات کے بیان کے ساتھ ماحول کی منظرکشی بھی کی جائے جو کچھ دیکھاجائے۔ کیونکہ کائنات میں ہر طرف فطرت کے مناظر پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کاپر اثر بیان دل و دماغ کو متاثر کرتا ہے۔ وہ مناظر کی اس طرح تصویر کشی کرتے ہیں کہ کوئی بات رہ نہیں جاتی اور جس منظر سے کوئی خاص تاثر پیدا کرنا ہوتا ہے تو وہ اپنے مخصوص انداز اور تخیل کی رنگ آمیزی سی اسے اور بھی پر اثر اور نمایاں کرکے پیش کرتے ہیں اور قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے گویا وہ بھی اس منظر کو دیکھ رہا ہے یا خود وہاں موجود ہے۔
(۵) طنز و مزاح میں متانت
ابنِ انشاءچونکہ اپنی تحریروں کو طنز و مزاح سے پر اثر بنانے کے عادی ہیں۔ اس لئے ان کی ہر تحریر میں ان کا یہ رنگ جھلکتا ہے۔ ان کے سفرنامے ان کے اس اندازِ تحریر کی واضح مثالیں ہیں۔ طنز و مزاح بڑے شعور اور سلیقے کا کام ہے ورنہ تحریر میں پھکڑ پن پیدا ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ متانت اور سنجیدگی کے ساتھ طنز و مزاح کے میدان میں قدم رکھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اس میں بڑے شعور اور سلیقے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اس کے ذریعے ایک طرف لوگوں کو ان کی خامیوں اور کمزوریوں کو دکھانا مقصود ہوتا ہے تو دوسری طرف لوگوں کے شعور کو بیدار کرنا ہوتا ہے جس میں تضحیک نہیں اصلاح کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک کامیاب مزاح نگار کا کام یہی ہے کہ وہ ہنسی ہنسی میں طنز کے ہلکے نشتر سے زخموں کو کریدے اور اس طرح اپنا مافی اضمیر بیان کردے کہ بات بھی بری نہ لگے اور دل پر بھی اثر کرجائے۔ ابنِ انشاءکے یہاں طنز و مزاح کی یہی خوبی پوری آب وتاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ ان کے مزاج کی شگفتگی اور لہجے کی متانت کے سبب اس کے یہاںمزاح کی کیفیت زیرِ لب تبسم تک رہتی ہے قہقہوں میں تبدیل نہیں ہوتی۔ یہی صورت طنز کی ہے۔ وہ فقروں اور جملوں کو کچھ اس طرح ترتیب دیتے ہےں کہ ان میں چھپے ہوئے طنز کو معلوم کرکے قاری اول اپنے دل و دماغ کے نہاں خانوں میں لطافت اور شگفتگی محسوس کرتا ہے لیکن بعد میں اس کی کاٹ کا احساس کرکے تڑپ اٹھتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہنا چاہئے وہ نہایت متانت اورسنجیدگی کے ساتھ طنز و مزاح کی فضا قائم کرکے اپنے مقصد تحریر کو نمایاں کرتے ہیں اور اسی ہنر مندی نے انہیں بطور ایک کامیاب طنز و مزاح نگار پیش کیا ہے۔
(۶) زبان و بیان
ابنِ انشاءکی زبان سادہ اور عام فہم ہے وہ نہایت سادہ انداز میں اپنی بات بیان کردیتے ہیں۔ کیونکہ ان کے پیشِ نظر عام قاری ہے جو ان کی تحریروں کو پڑھے گا۔ اس لئے وہ اس بات کا بطور خاص خیال رکھتے ہیں کہ بات سادہ اور پر اثر انداز میں کہی جائے۔ ان کی منفرد تحریر خود منہ سے بولتی ہے کہ اس کے خالق ابنِ انشاءہیں۔ اپنے اسی اسلوبِ نگارش کی وجہ سے انہوں نے موجودہ دور کے ادب میں اپنے لئے ایک باوقار مقام بنایا ہے۔ بحیثیت مجموعی ان کی تحریروں میں طنز و مزاح بھی ہے۔ لطف و اثر بھی‘ شگفتگی بھی ہے۔ دلکشی بھی‘ جذبات و احساسات بھی ہیں تو معاشرت و ثقافت پر اظہار ِ خیال بھی۔ یہی سب چیزیں ہیں جو انہیں ایک منفرد منفرد نثرنگار اور شاعر کی حیثیت سے ادبی دنیا میں پیش کرتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کی شاعری اور مضامین آج بھی عوام اور خواص میں مقبول ہیں۔
- See more at: http://www.guesspapers.net/5914/%D8%A7%D8%A8%D9%86%D9%90-%D8%A7%D9%86%D8%B4%D8%A7%D8%A6/#sthash.mpvDWUBp.dpuf
Home » Class XI » XI Urdu » ابنِ انشائ



ابنِ انشائ ایک تعارف
ابنِ انشاءشاعر بھی ہیں‘ ادیب بھی۔ انہوں نے غزلیں‘ نظمیں اور گیت لکھے۔ شاعری میں ان کا ایک مخصوص انداز ہے۔ وہ کبھی کبیرداس کا لہجہ اختیار کرتے ہیں اور انسان دوستی کا پرچار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ایک انسان کو دوسرے انسان سے محبت کا سبق دیتے ہیں۔ کہیں اپنے اشعار میں زندگی کی اداسیوں ‘ محرومیوں اور دکھوں کا میرتقی میر کی طرح اظہار کرتے ہیں اور کہیں نظیر اکبر آبادی کی طرح علاقائی اور عوامی انداز اختیار کرتی ہیں اور بڑی سادگی‘ روانی اور عوامی زبان میں عوام کے احساس کو اردو ادب کا جامہ پہناتے ہیں۔
نثر کے میدان میں انہوں نے طنز نگاری کا انداز اختیار کیا۔ طنز میں مزاح کی آمیزش نے ان کی تحریروں کو زیادہ پر اثر بنایا دیا۔ عوام سے قریب ہونے کے لئے انہوں نے اخبارات میں کالم نویسی کا آغاز کیا‘ سفرنامے لکھے‘ اس طرح اپنے مشاہدات اور تجربات کو طنز و مزاح کے پیرائے میں بیان کرکے شہرت حاصل کی۔ اردو ادب کی ان مختلف اصناف میں ابنِ انشاءنے بڑا نام کمایا۔ طبیعت کی جولانی اور شگفتگی‘ مزاج کی حس لطافت و ظرافت اور طنز کی تراش و خراش‘ غرضیکہ سب ہی کچھ ان کی تحریروں سے نمایاں ہے۔
تصانیف
شعری کلام
  • چاند نگر ( پہلا مجموعہ
  • اس بستی کے اک کوچے میں دوسرا مجموعہ
  • چینی نظمیں
نثری تصانیف
  • اردو کی آخری کتاب
  • خمار گندم
  • چلتے ہو تو چین کو چلئے
  • آوارہ گرد کی ڈائری
  • دنیا گول ہے
  • ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں
طرزِ تحریر کی خصوصیات
ابنِ انشاءکے طرزِ تحریر کی نمایاں خصوصیات ذیل میں درج ہیں۔
(۱) تسلسلِ مشاہدہ
سفرنامہ چونکہ چشم دیدواقعات پر مشتمل ہوتا ہے اس لئے اس میں شروع سے آخر تک تسلسل کا ہونا ضروری ہے ۔ ابنِ انشاءکے سفرناموں میں یہ خوبی نظر آتی ہے کہ وہ اپنے مشاہدات کو باہم گڈمڈ نہیں کرتے وہ بڑے سلیقے سے مختلف وقعات کو ایک کڑی میں پروتے ہیں۔ ہر مشاہدہ کو علیحدہ علیحدہ بیان کرتے ہیں ۔ وہ تسلسل کے ساتھ ایک منظر کے بعد دوسرامنظر سامنے لاتے ہیں۔ اس طرح ان کا سفرنامہ مشاہدات اور تجربات کا ایک رنگین دفتر بن جاتا ہے۔ وہ تیکھے طنز اور شائستہ مسکراہٹوں سے اپنی تحریر کو اور زیادہ پر اثر بنادیتے ہیں۔
(۲) طنز و مزاح کی آمیزش
ابنِ انشاءاپنی تحریروں میں طنز و مزاح کو بڑے دلکش پیرائے میں استعمال کرنے کا فن جانتے ہیں اس لئے ان کے سفرناموں میں طنزومزاح کی آمیزش سے دلچسپی اور شگفتگی پیدا ہو گئی ہے۔ وہ جملوں اور فقروں میں طنز کی کیفیت شامل کرکے واقعات کے تانے بانے کو اس طرح ترتیب دیتے ہیں کہ قاری کا انہماک بڑھتا چلا جاتا ہے اور پھر مزاح کی باتیں مان کر اور پر لطف اور دلکش بنا دیتی ہے۔
(۳) مشاہدات میں قاری کی شمولیت
یوں تو سفرنامہ ذاتی مشاہدات اور تجربات کو تحریر کرنے کا نام ہے لیکن سفرنامہ کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ لکھنے والا اپنے مشاہدات کو اس طرح پیش کرے کہ قاری کی نگاہوں کے سامنے بھی وہ مناظر آجائیں اور وہ بھی خود کو ہمسفر محسوس کرے۔ انشاءکے سفرناموں میں خصوصیت موجود ہے۔ پہلے جو سفرنامے لکھے گئے ان میں مشاہدات و تجربات کے برعکس واقعات کا بیان ہواکرتے تھا لیکن انشاءکے سفر ناموں میں ان کے مشاہدے اس کے اثرات اور تجربات کی کرنیں پھوٹتی ہیں۔ وہ آنکھ بند کرکے سفر نہیں کرتے بلکہ کھلی آنکھوں سے جذبات و احساسات کو بیدار کرکے چیزوں کو دیکھتے اور ان کا تجزیہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قاری پوری سفر میں ان کا ہمسفر ہوتا ہے اور جو کچھ وہ محسوس کرتے ہیں وہی قاری بھی محسوس کرتا ہے۔
(۴) منظر کشی
سفرنامے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ واقعات کے بیان کے ساتھ ماحول کی منظرکشی بھی کی جائے جو کچھ دیکھاجائے۔ کیونکہ کائنات میں ہر طرف فطرت کے مناظر پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کاپر اثر بیان دل و دماغ کو متاثر کرتا ہے۔ وہ مناظر کی اس طرح تصویر کشی کرتے ہیں کہ کوئی بات رہ نہیں جاتی اور جس منظر سے کوئی خاص تاثر پیدا کرنا ہوتا ہے تو وہ اپنے مخصوص انداز اور تخیل کی رنگ آمیزی سی اسے اور بھی پر اثر اور نمایاں کرکے پیش کرتے ہیں اور قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے گویا وہ بھی اس منظر کو دیکھ رہا ہے یا خود وہاں موجود ہے۔
(۵) طنز و مزاح میں متانت
ابنِ انشاءچونکہ اپنی تحریروں کو طنز و مزاح سے پر اثر بنانے کے عادی ہیں۔ اس لئے ان کی ہر تحریر میں ان کا یہ رنگ جھلکتا ہے۔ ان کے سفرنامے ان کے اس اندازِ تحریر کی واضح مثالیں ہیں۔ طنز و مزاح بڑے شعور اور سلیقے کا کام ہے ورنہ تحریر میں پھکڑ پن پیدا ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ متانت اور سنجیدگی کے ساتھ طنز و مزاح کے میدان میں قدم رکھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اس میں بڑے شعور اور سلیقے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اس کے ذریعے ایک طرف لوگوں کو ان کی خامیوں اور کمزوریوں کو دکھانا مقصود ہوتا ہے تو دوسری طرف لوگوں کے شعور کو بیدار کرنا ہوتا ہے جس میں تضحیک نہیں اصلاح کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک کامیاب مزاح نگار کا کام یہی ہے کہ وہ ہنسی ہنسی میں طنز کے ہلکے نشتر سے زخموں کو کریدے اور اس طرح اپنا مافی اضمیر بیان کردے کہ بات بھی بری نہ لگے اور دل پر بھی اثر کرجائے۔ ابنِ انشاءکے یہاں طنز و مزاح کی یہی خوبی پوری آب وتاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ ان کے مزاج کی شگفتگی اور لہجے کی متانت کے سبب اس کے یہاںمزاح کی کیفیت زیرِ لب تبسم تک رہتی ہے قہقہوں میں تبدیل نہیں ہوتی۔ یہی صورت طنز کی ہے۔ وہ فقروں اور جملوں کو کچھ اس طرح ترتیب دیتے ہےں کہ ان میں چھپے ہوئے طنز کو معلوم کرکے قاری اول اپنے دل و دماغ کے نہاں خانوں میں لطافت اور شگفتگی محسوس کرتا ہے لیکن بعد میں اس کی کاٹ کا احساس کرکے تڑپ اٹھتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہنا چاہئے وہ نہایت متانت اورسنجیدگی کے ساتھ طنز و مزاح کی فضا قائم کرکے اپنے مقصد تحریر کو نمایاں کرتے ہیں اور اسی ہنر مندی نے انہیں بطور ایک کامیاب طنز و مزاح نگار پیش کیا ہے۔
(۶) زبان و بیان
ابنِ انشاءکی زبان سادہ اور عام فہم ہے وہ نہایت سادہ انداز میں اپنی بات بیان کردیتے ہیں۔ کیونکہ ان کے پیشِ نظر عام قاری ہے جو ان کی تحریروں کو پڑھے گا۔ اس لئے وہ اس بات کا بطور خاص خیال رکھتے ہیں کہ بات سادہ اور پر اثر انداز میں کہی جائے۔ ان کی منفرد تحریر خود منہ سے بولتی ہے کہ اس کے خالق ابنِ انشاءہیں۔ اپنے اسی اسلوبِ نگارش کی وجہ سے انہوں نے موجودہ دور کے ادب میں اپنے لئے ایک باوقار مقام بنایا ہے۔ بحیثیت مجموعی ان کی تحریروں میں طنز و مزاح بھی ہے۔ لطف و اثر بھی‘ شگفتگی بھی ہے۔ دلکشی بھی‘ جذبات و احساسات بھی ہیں تو معاشرت و ثقافت پر اظہار ِ خیال بھی۔ یہی سب چیزیں ہیں جو انہیں ایک منفرد منفرد نثرنگار اور شاعر کی حیثیت سے ادبی دنیا میں پیش کرتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کی شاعری اور مضامین آج بھی عوام اور خواص میں مقبول ہیں۔
- See more at: http://www.guesspapers.net/5914/%D8%A7%D8%A8%D9%86%D9%90-%D8%A7%D9%86%D8%B4%D8%A7%D8%A6/#sthash.mpvDWUBp.dpuf
Home » Class XI » XI Urdu » ابنِ انشائ



ابنِ انشائ ایک تعارف
ابنِ انشاءشاعر بھی ہیں‘ ادیب بھی۔ انہوں نے غزلیں‘ نظمیں اور گیت لکھے۔ شاعری میں ان کا ایک مخصوص انداز ہے۔ وہ کبھی کبیرداس کا لہجہ اختیار کرتے ہیں اور انسان دوستی کا پرچار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ایک انسان کو دوسرے انسان سے محبت کا سبق دیتے ہیں۔ کہیں اپنے اشعار میں زندگی کی اداسیوں ‘ محرومیوں اور دکھوں کا میرتقی میر کی طرح اظہار کرتے ہیں اور کہیں نظیر اکبر آبادی کی طرح علاقائی اور عوامی انداز اختیار کرتی ہیں اور بڑی سادگی‘ روانی اور عوامی زبان میں عوام کے احساس کو اردو ادب کا جامہ پہناتے ہیں۔
نثر کے میدان میں انہوں نے طنز نگاری کا انداز اختیار کیا۔ طنز میں مزاح کی آمیزش نے ان کی تحریروں کو زیادہ پر اثر بنایا دیا۔ عوام سے قریب ہونے کے لئے انہوں نے اخبارات میں کالم نویسی کا آغاز کیا‘ سفرنامے لکھے‘ اس طرح اپنے مشاہدات اور تجربات کو طنز و مزاح کے پیرائے میں بیان کرکے شہرت حاصل کی۔ اردو ادب کی ان مختلف اصناف میں ابنِ انشاءنے بڑا نام کمایا۔ طبیعت کی جولانی اور شگفتگی‘ مزاج کی حس لطافت و ظرافت اور طنز کی تراش و خراش‘ غرضیکہ سب ہی کچھ ان کی تحریروں سے نمایاں ہے۔
تصانیف
شعری کلام
  • چاند نگر ( پہلا مجموعہ
  • اس بستی کے اک کوچے میں دوسرا مجموعہ
  • چینی نظمیں
نثری تصانیف
  • اردو کی آخری کتاب
  • خمار گندم
  • چلتے ہو تو چین کو چلئے
  • آوارہ گرد کی ڈائری
  • دنیا گول ہے
  • ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں
طرزِ تحریر کی خصوصیات
ابنِ انشاءکے طرزِ تحریر کی نمایاں خصوصیات ذیل میں درج ہیں۔
(۱) تسلسلِ مشاہدہ
سفرنامہ چونکہ چشم دیدواقعات پر مشتمل ہوتا ہے اس لئے اس میں شروع سے آخر تک تسلسل کا ہونا ضروری ہے ۔ ابنِ انشاءکے سفرناموں میں یہ خوبی نظر آتی ہے کہ وہ اپنے مشاہدات کو باہم گڈمڈ نہیں کرتے وہ بڑے سلیقے سے مختلف وقعات کو ایک کڑی میں پروتے ہیں۔ ہر مشاہدہ کو علیحدہ علیحدہ بیان کرتے ہیں ۔ وہ تسلسل کے ساتھ ایک منظر کے بعد دوسرامنظر سامنے لاتے ہیں۔ اس طرح ان کا سفرنامہ مشاہدات اور تجربات کا ایک رنگین دفتر بن جاتا ہے۔ وہ تیکھے طنز اور شائستہ مسکراہٹوں سے اپنی تحریر کو اور زیادہ پر اثر بنادیتے ہیں۔
(۲) طنز و مزاح کی آمیزش
ابنِ انشاءاپنی تحریروں میں طنز و مزاح کو بڑے دلکش پیرائے میں استعمال کرنے کا فن جانتے ہیں اس لئے ان کے سفرناموں میں طنزومزاح کی آمیزش سے دلچسپی اور شگفتگی پیدا ہو گئی ہے۔ وہ جملوں اور فقروں میں طنز کی کیفیت شامل کرکے واقعات کے تانے بانے کو اس طرح ترتیب دیتے ہیں کہ قاری کا انہماک بڑھتا چلا جاتا ہے اور پھر مزاح کی باتیں مان کر اور پر لطف اور دلکش بنا دیتی ہے۔
(۳) مشاہدات میں قاری کی شمولیت
یوں تو سفرنامہ ذاتی مشاہدات اور تجربات کو تحریر کرنے کا نام ہے لیکن سفرنامہ کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ لکھنے والا اپنے مشاہدات کو اس طرح پیش کرے کہ قاری کی نگاہوں کے سامنے بھی وہ مناظر آجائیں اور وہ بھی خود کو ہمسفر محسوس کرے۔ انشاءکے سفرناموں میں خصوصیت موجود ہے۔ پہلے جو سفرنامے لکھے گئے ان میں مشاہدات و تجربات کے برعکس واقعات کا بیان ہواکرتے تھا لیکن انشاءکے سفر ناموں میں ان کے مشاہدے اس کے اثرات اور تجربات کی کرنیں پھوٹتی ہیں۔ وہ آنکھ بند کرکے سفر نہیں کرتے بلکہ کھلی آنکھوں سے جذبات و احساسات کو بیدار کرکے چیزوں کو دیکھتے اور ان کا تجزیہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قاری پوری سفر میں ان کا ہمسفر ہوتا ہے اور جو کچھ وہ محسوس کرتے ہیں وہی قاری بھی محسوس کرتا ہے۔
(۴) منظر کشی
سفرنامے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ واقعات کے بیان کے ساتھ ماحول کی منظرکشی بھی کی جائے جو کچھ دیکھاجائے۔ کیونکہ کائنات میں ہر طرف فطرت کے مناظر پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کاپر اثر بیان دل و دماغ کو متاثر کرتا ہے۔ وہ مناظر کی اس طرح تصویر کشی کرتے ہیں کہ کوئی بات رہ نہیں جاتی اور جس منظر سے کوئی خاص تاثر پیدا کرنا ہوتا ہے تو وہ اپنے مخصوص انداز اور تخیل کی رنگ آمیزی سی اسے اور بھی پر اثر اور نمایاں کرکے پیش کرتے ہیں اور قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے گویا وہ بھی اس منظر کو دیکھ رہا ہے یا خود وہاں موجود ہے۔
(۵) طنز و مزاح میں متانت
ابنِ انشاءچونکہ اپنی تحریروں کو طنز و مزاح سے پر اثر بنانے کے عادی ہیں۔ اس لئے ان کی ہر تحریر میں ان کا یہ رنگ جھلکتا ہے۔ ان کے سفرنامے ان کے اس اندازِ تحریر کی واضح مثالیں ہیں۔ طنز و مزاح بڑے شعور اور سلیقے کا کام ہے ورنہ تحریر میں پھکڑ پن پیدا ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ متانت اور سنجیدگی کے ساتھ طنز و مزاح کے میدان میں قدم رکھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اس میں بڑے شعور اور سلیقے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اس کے ذریعے ایک طرف لوگوں کو ان کی خامیوں اور کمزوریوں کو دکھانا مقصود ہوتا ہے تو دوسری طرف لوگوں کے شعور کو بیدار کرنا ہوتا ہے جس میں تضحیک نہیں اصلاح کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک کامیاب مزاح نگار کا کام یہی ہے کہ وہ ہنسی ہنسی میں طنز کے ہلکے نشتر سے زخموں کو کریدے اور اس طرح اپنا مافی اضمیر بیان کردے کہ بات بھی بری نہ لگے اور دل پر بھی اثر کرجائے۔ ابنِ انشاءکے یہاں طنز و مزاح کی یہی خوبی پوری آب وتاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ ان کے مزاج کی شگفتگی اور لہجے کی متانت کے سبب اس کے یہاںمزاح کی کیفیت زیرِ لب تبسم تک رہتی ہے قہقہوں میں تبدیل نہیں ہوتی۔ یہی صورت طنز کی ہے۔ وہ فقروں اور جملوں کو کچھ اس طرح ترتیب دیتے ہےں کہ ان میں چھپے ہوئے طنز کو معلوم کرکے قاری اول اپنے دل و دماغ کے نہاں خانوں میں لطافت اور شگفتگی محسوس کرتا ہے لیکن بعد میں اس کی کاٹ کا احساس کرکے تڑپ اٹھتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہنا چاہئے وہ نہایت متانت اورسنجیدگی کے ساتھ طنز و مزاح کی فضا قائم کرکے اپنے مقصد تحریر کو نمایاں کرتے ہیں اور اسی ہنر مندی نے انہیں بطور ایک کامیاب طنز و مزاح نگار پیش کیا ہے۔
(۶) زبان و بیان
ابنِ انشاءکی زبان سادہ اور عام فہم ہے وہ نہایت سادہ انداز میں اپنی بات بیان کردیتے ہیں۔ کیونکہ ان کے پیشِ نظر عام قاری ہے جو ان کی تحریروں کو پڑھے گا۔ اس لئے وہ اس بات کا بطور خاص خیال رکھتے ہیں کہ بات سادہ اور پر اثر انداز میں کہی جائے۔ ان کی منفرد تحریر خود منہ سے بولتی ہے کہ اس کے خالق ابنِ انشاءہیں۔ اپنے اسی اسلوبِ نگارش کی وجہ سے انہوں نے موجودہ دور کے ادب میں اپنے لئے ایک باوقار مقام بنایا ہے۔ بحیثیت مجموعی ان کی تحریروں میں طنز و مزاح بھی ہے۔ لطف و اثر بھی‘ شگفتگی بھی ہے۔ دلکشی بھی‘ جذبات و احساسات بھی ہیں تو معاشرت و ثقافت پر اظہار ِ خیال بھی۔ یہی سب چیزیں ہیں جو انہیں ایک منفرد منفرد نثرنگار اور شاعر کی حیثیت سے ادبی دنیا میں پیش کرتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کی شاعری اور مضامین آج بھی عوام اور خواص میں مقبول ہیں۔
- See more at: http://www.guesspapers.net/5914/%D8%A7%D8%A8%D9%86%D9%90-%D8%A7%D9%86%D8%B4%D8%A7%D8%A6/#sthash.mpvDWUBp.dpuf

Monday, 25 August 2014



ابنِ انشائ

ایک تعارف
ابنِ انشاءشاعر بھی ہیں‘ ادیب بھی۔ انہوں نے غزلیں‘ نظمیں اور گیت لکھے۔ شاعری میں ان کا ایک مخصوص انداز ہے۔ وہ کبھی کبیرداس کا لہجہ اختیار کرتے ہیں اور انسان دوستی کا پرچار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ایک انسان کو دوسرے انسان سے محبت کا سبق دیتے ہیں۔ کہیں اپنے اشعار میں زندگی کی اداسیوں ‘ محرومیوں اور دکھوں کا میرتقی میر کی طرح اظہار کرتے ہیں اور کہیں نظیر اکبر آبادی کی طرح علاقائی اور عوامی انداز اختیار کرتی ہیں اور بڑی سادگی‘ روانی اور عوامی زبان میں عوام کے احساس کو اردو ادب کا جامہ پہناتے ہیں۔
نثر کے میدان میں انہوں نے طنز نگاری کا انداز اختیار کیا۔ طنز میں مزاح کی آمیزش نے ان کی تحریروں کو زیادہ پر اثر بنایا دیا۔ عوام سے قریب ہونے کے لئے انہوں نے اخبارات میں کالم نویسی کا آغاز کیا‘ سفرنامے لکھے‘ اس طرح اپنے مشاہدات اور تجربات کو طنز و مزاح کے پیرائے میں بیان کرکے شہرت حاصل کی۔ اردو ادب کی ان مختلف اصناف میں ابنِ انشاءنے بڑا نام کمایا۔ طبیعت کی جولانی اور شگفتگی‘ مزاج کی حس لطافت و ظرافت اور طنز کی تراش و خراش‘ غرضیکہ سب ہی کچھ ان کی تحریروں سے نمایاں ہے۔
تصانیف
شعری کلام
  • چاند نگر ( پہلا مجموعہ
  • اس بستی کے اک کوچے میں دوسرا مجموعہ
  • چینی نظمیں
نثری تصانیف
  • اردو کی آخری کتاب
  • خمار گندم
  • چلتے ہو تو چین کو چلئے
  • آوارہ گرد کی ڈائری
  • دنیا گول ہے
  • ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں
طرزِ تحریر کی خصوصیات
ابنِ انشاءکے طرزِ تحریر کی نمایاں خصوصیات ذیل میں درج ہیں۔
(۱) تسلسلِ مشاہدہ
سفرنامہ چونکہ چشم دیدواقعات پر مشتمل ہوتا ہے اس لئے اس میں شروع سے آخر تک تسلسل کا ہونا ضروری ہے ۔ ابنِ انشاءکے سفرناموں میں یہ خوبی نظر آتی ہے کہ وہ اپنے مشاہدات کو باہم گڈمڈ نہیں کرتے وہ بڑے سلیقے سے مختلف وقعات کو ایک کڑی میں پروتے ہیں۔ ہر مشاہدہ کو علیحدہ علیحدہ بیان کرتے ہیں ۔ وہ تسلسل کے ساتھ ایک منظر کے بعد دوسرامنظر سامنے لاتے ہیں۔ اس طرح ان کا سفرنامہ مشاہدات اور تجربات کا ایک رنگین دفتر بن جاتا ہے۔ وہ تیکھے طنز اور شائستہ مسکراہٹوں سے اپنی تحریر کو اور زیادہ پر اثر بنادیتے ہیں۔
(۲) طنز و مزاح کی آمیزش
ابنِ انشاءاپنی تحریروں میں طنز و مزاح کو بڑے دلکش پیرائے میں استعمال کرنے کا فن جانتے ہیں اس لئے ان کے سفرناموں میں طنزومزاح کی آمیزش سے دلچسپی اور شگفتگی پیدا ہو گئی ہے۔ وہ جملوں اور فقروں میں طنز کی کیفیت شامل کرکے واقعات کے تانے بانے کو اس طرح ترتیب دیتے ہیں کہ قاری کا انہماک بڑھتا چلا جاتا ہے اور پھر مزاح کی باتیں مان کر اور پر لطف اور دلکش بنا دیتی ہے۔
(۳) مشاہدات میں قاری کی شمولیت
یوں تو سفرنامہ ذاتی مشاہدات اور تجربات کو تحریر کرنے کا نام ہے لیکن سفرنامہ کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ لکھنے والا اپنے مشاہدات کو اس طرح پیش کرے کہ قاری کی نگاہوں کے سامنے بھی وہ مناظر آجائیں اور وہ بھی خود کو ہمسفر محسوس کرے۔ انشاءکے سفرناموں میں خصوصیت موجود ہے۔ پہلے جو سفرنامے لکھے گئے ان میں مشاہدات و تجربات کے برعکس واقعات کا بیان ہواکرتے تھا لیکن انشاءکے سفر ناموں میں ان کے مشاہدے اس کے اثرات اور تجربات کی کرنیں پھوٹتی ہیں۔ وہ آنکھ بند کرکے سفر نہیں کرتے بلکہ کھلی آنکھوں سے جذبات و احساسات کو بیدار کرکے چیزوں کو دیکھتے اور ان کا تجزیہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قاری پوری سفر میں ان کا ہمسفر ہوتا ہے اور جو کچھ وہ محسوس کرتے ہیں وہی قاری بھی محسوس کرتا ہے۔
(۴) منظر کشی
سفرنامے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ واقعات کے بیان کے ساتھ ماحول کی منظرکشی بھی کی جائے جو کچھ دیکھاجائے۔ کیونکہ کائنات میں ہر طرف فطرت کے مناظر پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کاپر اثر بیان دل و دماغ کو متاثر کرتا ہے۔ وہ مناظر کی اس طرح تصویر کشی کرتے ہیں کہ کوئی بات رہ نہیں جاتی اور جس منظر سے کوئی خاص تاثر پیدا کرنا ہوتا ہے تو وہ اپنے مخصوص انداز اور تخیل کی رنگ آمیزی سی اسے اور بھی پر اثر اور نمایاں کرکے پیش کرتے ہیں اور قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے گویا وہ بھی اس منظر کو دیکھ رہا ہے یا خود وہاں موجود ہے۔
(۵) طنز و مزاح میں متانت
ابنِ انشاءچونکہ اپنی تحریروں کو طنز و مزاح سے پر اثر بنانے کے عادی ہیں۔ اس لئے ان کی ہر تحریر میں ان کا یہ رنگ جھلکتا ہے۔ ان کے سفرنامے ان کے اس اندازِ تحریر کی واضح مثالیں ہیں۔ طنز و مزاح بڑے شعور اور سلیقے کا کام ہے ورنہ تحریر میں پھکڑ پن پیدا ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ متانت اور سنجیدگی کے ساتھ طنز و مزاح کے میدان میں قدم رکھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اس میں بڑے شعور اور سلیقے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اس کے ذریعے ایک طرف لوگوں کو ان کی خامیوں اور کمزوریوں کو دکھانا مقصود ہوتا ہے تو دوسری طرف لوگوں کے شعور کو بیدار کرنا ہوتا ہے جس میں تضحیک نہیں اصلاح کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک کامیاب مزاح نگار کا کام یہی ہے کہ وہ ہنسی ہنسی میں طنز کے ہلکے نشتر سے زخموں کو کریدے اور اس طرح اپنا مافی اضمیر بیان کردے کہ بات بھی بری نہ لگے اور دل پر بھی اثر کرجائے۔ ابنِ انشاءکے یہاں طنز و مزاح کی یہی خوبی پوری آب وتاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ ان کے مزاج کی شگفتگی اور لہجے کی متانت کے سبب اس کے یہاںمزاح کی کیفیت زیرِ لب تبسم تک رہتی ہے قہقہوں میں تبدیل نہیں ہوتی۔ یہی صورت طنز کی ہے۔ وہ فقروں اور جملوں کو کچھ اس طرح ترتیب دیتے ہےں کہ ان میں چھپے ہوئے طنز کو معلوم کرکے قاری اول اپنے دل و دماغ کے نہاں خانوں میں لطافت اور شگفتگی محسوس کرتا ہے لیکن بعد میں اس کی کاٹ کا احساس کرکے تڑپ اٹھتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہنا چاہئے وہ نہایت متانت اورسنجیدگی کے ساتھ طنز و مزاح کی فضا قائم کرکے اپنے مقصد تحریر کو نمایاں کرتے ہیں اور اسی ہنر مندی نے انہیں بطور ایک کامیاب طنز و مزاح نگار پیش کیا ہے۔
(۶) زبان و بیان
ابنِ انشاءکی زبان سادہ اور عام فہم ہے وہ نہایت سادہ انداز میں اپنی بات بیان کردیتے ہیں۔ کیونکہ ان کے پیشِ نظر عام قاری ہے جو ان کی تحریروں کو پڑھے گا۔ اس لئے وہ اس بات کا بطور خاص خیال رکھتے ہیں کہ بات سادہ اور پر اثر انداز میں کہی جائے۔ ان کی منفرد تحریر خود منہ سے بولتی ہے کہ اس کے خالق ابنِ انشاءہیں۔ اپنے اسی اسلوبِ نگارش کی وجہ سے انہوں نے موجودہ دور کے ادب میں اپنے لئے ایک باوقار مقام بنایا ہے۔ بحیثیت مجموعی ان کی تحریروں میں طنز و مزاح بھی ہے۔ لطف و اثر بھی‘ شگفتگی بھی ہے۔ دلکشی بھی‘ جذبات و احساسات بھی ہیں تو معاشرت و ثقافت پر اظہار ِ خیال بھی۔ یہی سب چیزیں ہیں جو انہیں ایک منفرد منفرد نثرنگار اور شاعر کی حیثیت سے ادبی دنیا میں پیش کرتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کی شاعری اور مضامین آج بھی عوام اور خواص میں مقبول ہیں۔



ایک شام ماضی کی محرابوں میں

حوالہ
مندرجہ بالا اقتباس ایک شام ماضی کی محرابوں میں سے لیا گیا ہے۔ یہ سفرنامہ ابنِ انشائ نے تحریر کیا ہے۔
تعارفِ مصنف
ابن انشاءدورِ حاضر کے مشہور و معروف مزاح نگار اور کالم نگار ہیں۔ ان کے سفرنامے ان کے نثری اسلوب کے آئینہ دار ہیں۔ ان کی تحریریں سادہ‘ رواں‘ برجستہ اور پرمزاح ہوتی ہیں۔ ان کے سفرناموں کے مطالعے کے دوران ایسا محسوس ہوتا ہے گویا قاری ان کے ساتھ موجود ہے اور ان کے ساتھ ساتھ سفر کررہا ہے۔ کسی بھی موڑ پر قاری کو اجنبیت محسوس نہیں ہوتی۔
بقول ابراہیم جلیس
ابنِ انشاءعہدِ حاضر کا منفرد مزاح نگار ہے جس کے کالم اور سفرنامے اس کی پرمزاح نثرنگاری کے عکاس ہیں۔
سفرنامے کا تعارف
اپنے اس سفرنامے میں ابنِ انشاءدمشق کے حوالے سے مختلف مقامات کی سیر کا حال بیان کررہے ہیں۔ جن میں کوچہ بازار‘ مقبرے‘ مساجد اور تاریخی مقامات وغیرہ شامل ہیں۔ اس سفرنامے کے ذریعے انہوں نے قارئین کو بتانا چاہا ہے کہ ان کا ماضی کیا تھا‘ کتنا عظیم تھا‘ کس قدر جاہ حشمت سے بھرا ہوا تھا اور کس قدر بہادری اورشجاعت کے کارناموں سے پر تھا۔ انہوں نے اس طرف بھی نشاندہی کی ہے کہ اس وقت میں اور اب میں کتنا فرق ہوگیا ہے اور مسلمان کس قدر پستی میں گرگئے ہیں۔
اقتباس ۱
سامنے اس فاتح کی آرام گاہ تھی جس کے پرچم کے آگے مشرق اور مغرب سرنگوں تھے۔ جس نے یورپ کے متحدہ لشکروں کا سامنا کیا اور اپنی فتوحات اور حسنِ اخلاق کی داستانیں چھوڑ گیا۔ آج جب کہ سرزمینِ شام کے ایک کونے اور بیتِ المقدس کو غاصبوں نے دبا رکھا تھا اور فلسطین کے مہاجر صحرا میں دربدر پھر رہے تھے یہ فاتح لمبی تانے سورہا تھا۔ ہم نے کہا اے غازی! اٹھ کے اب نہیں اٹھے گا تو کب اٹھے گا کیا خوب قیامت کا بھی ہوگا کوئی دن اور؟
تشریح
مندرجہ بالا اقتباس میں مصنف اس وقت کا ذکر کررہا ہے جب وہ سلطان صلاح الدین کے مزار میں داخل ہوتا ہے۔ مصنف کہتا ہے کہ جب وہ چھوٹے دروازے سے اندر داخل ہوئے تو سامنے مسلمانوں کے عظیم فاتح سلطان صلاح الدین کی قبر تھی۔ جس میں وہ آرام فرمارہے تھے۔ مصنف کہتا ہے کہ یہ وہ عظیم‘ بے باک اور مخلص مجاہدِ دین ہے جس کی بہادری و سرفروشی کی داستانیں دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہیں اور جس کی عظمت کا اعتراف ہر قوم اور ہر دور کے لوگوں نے کیا ہے۔ یہی وہ مردِ مجاہد ہے جو اس سلطانی امت کا سربراہ رہا ہے اور جس کے دور میں مسلمانوں نے کفار و مشرکین کے بڑے بڑے لشکروں کو شکستِ فاش عطا کی۔ اس باہمت رہنما کی بدولت ہی مسلمان اس کرئہ ارض کے کونے کونے میں پھیل گئے اور دشمنانِ دین پر اسلام کی دھاک اور اسلام کا رعب و دبدبہ بیٹھ گیا۔ مشرکین و عیسائی اس مردِ مجاہد سے اِس قدر خوفزدہ ہوگئے کے لوگوں سے اس کا نام لے کر جنگ کے لئے مالِ غنیمت لے جایا کرتے۔ یہ بہادر انسان جہان جہان اسلام کے نام پر امن کے جھنڈے گاڑھتا وہاں وہاں اس کے حسنِ اخلاق کی داستانیں مشہور ہوجاتیں۔ اس کا بے داغ کردار ہی مسلمانوں کے حسنِ اخلاق اور بلند کردار کی ضمانت بنا۔
مصنف یہ عظیم و الشان تاریخ بیان کرنے کے بعد کہتا ہے کہ دورِحاضر میں بھی امتِ مسلمہ کو ایسے ہی مومن کی ضرورت ہے جو دنیا کے بے گھر اور پستی میں گھرے ہوئے مسلمانوں کو دوبارہ عظمتِ رفتہ کی طرف لوٹا دے اور یہ ملت ایک بار پھر دنیا کی امامت کا منصب سنبھال لے۔ فلسطین میں جس طرح مسلمانوں کو بے دردی سے بے گھر کیا گیا اور بیت المقدس پر یہودیوں نے جس ہٹ دھرمی سے قبضہ کیا وہ مسلمانوں کو للکار للکار کر کہہ رہا ہے کہ ہے کوئی غازی جو اٹھے اور اپنی مدد کرے۔ اس قوم کو ذہنی و جسمانی غلامی کی ذنجیروں سے آزاد کرائے۔
مصنف کے ذہن میں یہ تمام واقعات بالکل واضح طورپر سامنے آجاتے ہیںاور وہ جوش و جذبات میں بے اختیار اس عظیم رہنما سے مخاطب ہو جاتے ہیں کہ اے فاتح! مسلمانوں کا اب بہت برا حال ہے۔ دنیا بھر میں جگہ جگہ اللہ کے بندے تیرے منتظر ہیں۔ اتنے ظلم و ستم ہیں گویا قیامت کے مناظر ہمارے سامنے گھوم رہے ہیں۔ قیامت کے روز تو سب کو دوبارہ اٹھایا جائے گا‘ تو کب اٹھے گا کہ قیامت بھی آپہنچی ہے۔

مضامین سرسید

سرسید احمد خان ٍ اردو زبان پر سرسید کے احسانا ت کا ذکر کرتے ہوئے مولوی عبدالحق صاحب فرماتے ہیں:
” اس نے زبان کو پستی سے نکالا، انداز بیان میں سادگی کے ساتھ قوت پیدا کی ، سنجیدہ مضامین کا ڈول ڈالا۔ سائنٹیفک سوسائٹی کی بنیاد ڈالی۔ جدید علوم و فنون کے ترجمے انگریزی سے کرائے ۔ خود کتابیں لکھیں اور دوسروں سے لکھوائیں۔ اخبار جاری کرکے اپنے انداز تحریر ، بے لاگ تنقید اور روشن صحافت کا مرتبہ بڑھایا”تہذیب الاخلاق “ کے ذریعے اردو ادب میں انقلاب پیدا کیا۔“
سرسید کے زمانے تک اردو کا سرمایہ صرف قصے کہانیاں ، داستانوں ، تذکروں ، سوانح عمریوں اور مکاتیب کی شکل میں موجود تھا۔ سرسید تک پہنچتے پہنچتے اردو نثر کم از کم دو کروٹیں لے چکی تھی جس سے پرانی نثر نگاری میں خاصی تبدیلی آچکی تھی۔خصوصاً غالب کے خطوط نثر پر کافی حد تک اثر انداز ہوئے اور اُن کی بدولت نثر میں مسجع و مقفٰی عبارت کی جگہ سادگی اور مدعا نگاری کو اختیار کیا گیا۔ لیکن اس سلسلے کو صرف اور صرف سرسید نے آگے بڑھایا اور اردو نثر کو اس کا مقام دلایا

جدید اردو نثر کے بانی:۔

بقول مولانا شبلی نعمانی،
” اردو انشاءپردازی کا جو آج انداز ہے اُس کے جد امجد اور امام سرسید تھے“
سرسید احمد خان ، ”اردو نثر “ کے بانی نہ سہی ، البتہ ”جدید اُردو نثر“ کے بانی ضرور ہیں۔ ان سے پہلے پائی جانی والی نثر میں فارسی زبان کی حد سے زیادہ آمیزش ہے۔ کسی نے فارسی تراکیب سے نثر کو مزین کرنے کی کوشش کی ہے اور کسی نے قافیہ بندی کے زور پر نثر کو شاعری سے قریب ترلانے کی جدوجہد کی ہے۔ ان کوششوں کے نتیجے میں اردو نثر تکلف اور تصنع کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔ سرسید احمد خان پہلے ادیب ہیں جنہوں نے اردو نثر کی خوبصورتی پر توجہ دینے کے بجائے مطلب نویسی پر زور دیاہے۔ ان کی نثر نویسی کا مقصد اپنی علمیت کا رعب جتانا نہیں ۔ بلکہ اپنے خیالات و نظریات کو عوام تک پہنچانا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جو کچھ لکھا ۔ نہایت آسان نثر میں لکھا ، تاکہ اسے عوام لوگ سمجھ سکیں۔اور یوں غالب کی تتبع میں انہوں نے جدید نثر کی ابتداءکی۔

رہنمائے قوم:۔

سرسید نے مسلمانوں کی رہنمائی دستگیری اور اصلاح کا کام اس وقت شروع کیا جب غدر کے بعد یہ قوم بے بسی کا شکار تھی۔ اور اس پر مایوسی طاری تھی۔ وہ بے یقینی کے عالم میں تھی اور اسے کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی تھی۔ اس کی تہذیب اور تمدن ادبار کا شکار تھی۔ عزت نفس ، مجروح اور فاری البالی عنقا تھی۔ حکمران قوم کا عتاب ، ہندو کی مکاری اور خود مسلمان قوم کی نااہلی اور احساس زیاں کی کمی ایسے عناصر تھے جن میں کسی قوم کا زندہ رہنا یا ترقی کی طرف بڑھنا معجزہ سے کم نہ تھا۔ سرسید رجائی فکر کے حامل ایک ایسے رہنما تھے جسے اس قوم کو موجودہ ادبار کے اندر بھی ترقی کرنے، آگے بڑھنے اور اپنا کھویا ہو امقام پانے کی لگن اور جوت نظر آئی۔ سرسید نے ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت اس قوم کی فلا ح و بہبود اور ترقی کے لئے ایک بھر پور اصلاحی تحریک کا آغاز کیا۔ اس منصوبہ بندی میں مسلمانوں کی تعلیمی ، تمدنی ، سیاسی ، مذہبی ، معاشی اور معاشرتی زندگی کو ترقی اور فلاح کے نئے راستے پر ڈالنا تھا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اس میں قنوطیت کو ختم کر کے اعتماد او ر یقین پیدا کرنا تھا۔

مضمون نگاری:۔

سرسید احمد خان کو اردو مضمون نگاری کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے ایک مغربی نثری صنف Essayکی طر ز پر اردو میں مضمون نگاری شروع کی ۔ وہ بیکن، ڈرائڈن ، ایڈیشن اور سٹیل جیسے مغربی مضمون نگاروں سے کافی حد تک متاثر تھے۔ انہوں نے بعض انگریزی انشائےہ نگاروں کے مضامین کو اردو میں منتقل کیا۔ انہوں نے اپنے رسالہ ”تہذیب الاخلاق“ میں انگریز انشائیہ نگاروں کے اسلوب کو کافی حد تک اپنایا اور دوسروں کو بھی اس طر ز پر لکھنے کی ترغیب دی۔
سید صاحب کے سارے مضامین Essayکی حد میں داخل نہیں ہو سکتے ، مگر مضامین کی کافی تعداد ایسی ہے جن کو اس صنف میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً تہذیب الاخلاق کے کچھ مضامین تعصب ، تعلیم و تربیت ، کاہلی ، اخلاق ، ریا ، مخالفت ، خوشامد ، بحث و تکرار، اپنی مدد آپ، عورتوں کے حقوق، ان سب مضامین میں ان کا اختصار قدر مشترک ہے ۔ جو ایک باقاعدہ مضمون کا بنیادی وصف ہے۔

سرسید کا اسلوب:۔

اس سے پہلے کہ ہم سرسید کے تصور اسلوب کے بارے میں لکھیں ۔ اپنے اسلوب کے بارے میں سرسید کے قول کو نقل کرتے ہیں،
” ہم نے انشائیہ کا ایک ایسا طرز نکالا ہے جس میں ہر بات کو صاف صاف ، جیسی کہ دل میں موجود ہو ، منشیانہ تکلفات سے بچ کر ، راست پیرایہ اور بیان کرنے کی کوشش کی ہے اور لوگوں کو بھی تلقین کی ہے۔
دراصل سرسید احمد خان ”ادب برائے ادب“ کے قائل نہیں ، بلکہ وہ ادب کو مقصدیت کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔ وہ کسی خاص طبقہ کے لئے نہیں لکھتے ۔ بلکہ اپنی قو م کے سب افراد کے لئے لکھتے ہیں۔ جن کی وہ اصلاح کے خواہاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام سے قریب تر ہونے کے لئے انہوں نے تکلف اور تصنع کا طریقہ اپنانے سے گریز کیا اور سہل نگاری کو اپنا شعار بنایاہے۔ کیونکہ وہ مضمون نگاری میں اپنے دل کی بات دوسروں کے دل تک پہنچانے کے خواہاں ہیں۔ان کی تحریر کی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں۔

سادگی:۔

سرسید احمد کی نثر سادہ ، سہل اور آسان ہوتی ہے اور اسے پڑھتے ہوئے قاری کو کوئی الجھن محسوس نہیں کرتا ۔ ذیل میں ان کے ایک مضمون ”دنیا بہ امید قائم ہے“ سے ایک اقتباس دیا جار ہا ہے۔ جو سادگی کا خوبصورت نمونہ ہے۔ اس مضمون میں وہ خوشامد کے بارے میں کتنے آسان اور سادہ الفاظ میں بات کر رہے ہیں:
”جبکہ خوشامد کے اچھا لگنے کی بیماری انسان کو لگ جاتی ہے تو اس کے دل میں ایک ایسا مادہ پیدا ہو جاتا ہے جو ہمیشہ زہریلی باتوں کے زہر کو چوس لینے کی خواہش رکھتا ہے۔ جس طرح کہ خوش گلو گانے والے کی راگ اور خوش آئند با جے کی آواز انسان کے دل کو نرم کر دیتی ہے۔ اسی طرح خوشامد بھی انسان کو ایسا پگھلا دیتی ہے کہ ہر ایک کانٹے کے چبھنے کی جگہ اس میں ہو جاتی ہے۔“

بے تکلفی اور بے ساختگی:۔

سرسید احمد خان نہایت بے تکلفی سے بات کرنے کے عادی ہیں۔ وہ عام مضمون نگاروں کی طرح بات کو گھما پھرا کر بیان کرنے کے قائل نہیں۔ ان کی تحریریں پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ان میں آمد ہے آورد نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ فی البدیہ بات چیت کر رہے ہیں۔ یہ بات ان کی تحاریر میں بے ساختگی کا ثبوت ہے۔ لیکن بعض ناقدین کے خیال میں اس بے ساختگی کی وجہ سے ان کی تحریر کا ادبی حسن کم ہو گیا ہے ۔ لیکن اگر یہ بھی تو سوچیے کہ جب آدمی بے ساختہ طور پر باتیں کرتا ہے، تو وہ فقرات اور تراکیب کو مدنظر نہیں رکھتا ۔ آپس کی باتیں ادبی محاسن کی حامل ہوں، نہ ہوں ان میں بے ساختگی کا عنصر ضرور شامل ہوتا ہے۔ ویسے بھی سرسید احمد خان کا مقصد خود کو ایک ادیب منوانا نہیں تھا ۔ بلکہ تحریروں کے ذریعے اپنی بات دوسروں تک پہنچانا تھا۔ سر سید کی بے ساختگی کا نمونہ دیکھیے ، وہ اپنے مضمون” امید کی خوشی “ میں لکھتے ہیں۔
”تیرے ہی سبب سے ہمارے خوابیدہ خیال جاگتے ہیں ۔ تیری ہی برکت سے خوشی ،خوشی کے لئے۔ نام آوری ، نام آوری کے لئے ، بہادری ،بہادری کے لئے، فیاضی ، فیاضی کے لئے، محبت ، محبت کے لئے ، نیکی ، نیکی کے لئے تیار ہے۔ انسان کی تمام خوبیاں اور ساری نیکیاں تیری ہی تابع اور تیری ہی فرمانبردار ہیں۔“

مدعا نویسی:۔

سرسید کے مضامین میں مقصد کا عنصر غالب ہے اور وہ ہمیشہ اپنے مقصد ہی کی بات کرتے ہیں۔ ان کی کسی بھی تحریر کے ایک دو پیراگراف پڑھ کر ہمیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ ہمیں کس جانب لے جانا چاہتے ہیں۔ اور ان کا اصل مقصد کیاہے وہ اپنے مدعا کو چھپاتے نہیں بلکہ صاف صاف بیان کردیتے ہیں۔ کوئی مضمون تحریر کرتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ ایک بلند پایہ ادیب ہیں۔ وہ صرف یہ یاد رکھتے ہیں کہ وہ ایک مصلح قوم ہے۔ اس ضمن میں وہ اپنے نظریات کو واضح طور بیان کر دینے کے عادی ہیں۔ ان کی تحریروں میں مقصدیت و افادیت کا عنصر اس حد تک غالب ہے کہ انہیں زبان کے حسن اور ادب کی نزاکت و جمال پر توجہ دینے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ نزاکت خیال اور خیال آفرینی ان کے نزدیک تصنع کاری ہے۔ جو عبارت کا مفہوم سمجھنے میں قاری کے لئے دقت کا موجب بنتی ہے۔

شگفتگی اور ظرافت:۔

سرسید کی تحاریر میں کافی حد تک شگفتگی پائی جاتی ہے۔ وہ اپنے مضامین میں شگفتگی پیدا کرنے کے لئے کبھی کبھی ظرافت سے بھی کام لیتے ہیں۔ لیکن اس میں پھکڑ پن پیدا نہیں ہونے دیتے۔اس کے متعلق ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں،
”سرسید کی تحریروں میں ظرافت اسی حد تک ہے، جس حد تک ان کی سنجیدگی ، متانت اور مقصد کو گوارا ہے۔“
ذیل میں اُن کی ظرافت کی ایک مثال مندرجہ ذیل ہے،
” اس نے کہا کیا عجب ہے کہ میں بھی نہ مروں ، کیونکہ خدا اس پر قادر ہے ایک ایسا شخص پیدا کرے، جس کو موت نہ ہو اور مجھ کو امید ہے کہ شاید وہ شخص میں ہوں۔ یہ قول تو ایک ظرافت(ظریف) کا تھا مگر سچ یہ ہے کہ زندگی کی امید ہی موت کا رنج مٹاتی ہے۔“

متانت اور سنجیدگی:۔

سرسید کے زیادہ تر مضامین سنجیدہ ہوتے ہیں ، وہ چونکہ ادب میں افادیت کے قائل ہیں، اس لئے ہر بات پر سنجیدگی سے غور کرتے اور اسے سنجیدہ انداز ہی سے بیان کرتے ہیں۔ اکثر مقامات پر ان کے مصلحانہ انداز فکر نے ان کی تحریروں میں اس حدتک سنجیدگی پیدا کر دی ہے۔ کہ شگفتگی کا عنصر غائب ہو گیا ہے۔بقول سید عبداللہ،
”سرسید کے مقالا ت کی زبان عام فہم ضرور ہے۔ ان کا انداز بیان بھی گفتگو کا انداز بیان ہے مگر سنجیدگی او ر متانت شگفتگی پیدانہیں ہونے دی ۔ البتہ ایسے مقامات جن میں ترغیبی عنصر کی کمی ہے۔“

اثر آفرینی :۔

سرسید احمد خاں اپنی تحاریر میں اثر پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ ان کے بات کرنے کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے۔ کہ کسی نہ کسی ڈھب سے قاری کے ذہن پر اثر انداز ہوا جائے اور اسے اپنے نظریات کی لپیٹ میں لے لیا جائے۔ اس مقصد کے لئے وہ کئی حربے اختیار کرتے ہیں۔ مذہب اور اخلاقیات کا حربہ اثر آفرینی کے لئے ان کا سب سے بڑا حربہ ہے۔ اس ضمن میں وہ اشارات و کنایات، تشبیہات اور دیگر ادبی حربوں سے بھی کام لیتے ہیں۔ لیکن قدرے کم، بقول ڈاکٹر سید عبداللہ،
”اثر و تاثیر کی وجہ تو یہ ہے کہ ان کے خیالات میں خلوص اور سچائی ہے۔ یعنی دل سے بات نکلتی ہے ۔ کل پر اثر کرتی ہے۔“

روانی:۔

سرسید کا قلم رواں ہے۔ وہ جس موضوع پر لکھتے ہیں، بے تکان لکھتے چلے جاتے ہیں۔ ان کی بعض تحریریں پڑھ کر تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی مشتاق کھلاڑی بلادم لئے بھاگتا ہی چلا جاتا ہے۔بقول ڈاکٹر سیدعبداللہ:
”وہ ہر مضمون پر بے تکان اور بے تکلف لکھنے پر قادر تھے چنانچہ انہوں نے تاریخ ، فن تعمیر ، سیرت ، فلسفہ ، مذہب ، قانون ، سیاسیات ، تعلیم ، اخلاقیات مسائل ملکی ، وعظ و تدکیر ، سب مضامین میں ان کا رواں قلم یکساں پھرتی اور ہمواری کے ساتھ رواں دواں معلوم ہوتا ہے۔ یہ ان کی قدرت کا کرشمہ ہے۔“

متنوع اسلوب:۔

سرسید کانظریہ تھا کہ ہر صنف نثر ایک خاص طرز نگارش کی متقاضی ہے۔ مثلاً تاریخ نگاری، فلسفہ ، سوانح عمر ی الگ الگ اسلوب بیان کا تقاضہ کرتی ہیں۔ چنانچہ ہر صنف نثر کوسب سے پہلے اپنے صنفی تقاضوں کو پورا کرنا چاہیے ۔ چنانچہ ہر لکھنے والے صنفی تقاضوں کے مطابق اسلوب اختیارکرنا چاہیے۔
سرسید کے ہاں موضوعات کا تنوع اور رنگارنگی ہے اور سرسید کے اسلوب نگارش کی یہ خوبی اور کمال ہے کہ انہوں نے موضوع کی مناسبت سے اسلوب نگارش اختیار کیا ہے۔ چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کو بیان پر اس حد تک قدرت حاصل تھی کہ وہ سیاسی ، سماجی ، مذہبی ، علمی، ادبی ، اخلاقی، ہر قسم کے موضوعات پر لکھتے وقت موضوع جس قسم کے اسلوب بیان کا متقاضی ہوتا اس قسم کا اسلوب اختیار کرتے۔

خلوص و سچائی:۔

سرسید کے فقروں اور پیراگراف میں تناسب اور موزونیت کی کمی ہے ۔ جملے طویل ہیں۔انگریزی الفاظ کا استعمال بھی طبع نازک پر گراں گزرتا ہے۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سرسید کی تحریریں ادبیت سے خالی ہیں۔ خلوص اور سچائی ادب کی جان ہے۔ سرسید اکھڑی اکھڑی تحریروں ، بے رنگ اور بے کیف ، جملوں ، بوجھل ، ثقیل اور طویل عبارتوں کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ کہ لکھنے والا ، محسوس کرکے لکھ رہا ہے۔ کسی جذبے کے تحت لکھ رہا ہے۔اس کے پیش نظرنہ کوئی ذاتی غرض ہے اور نہ اسے کسی سے کوئی بغض و عناد اور ذاتی رنجش ہے۔ ان تحریروں کو دیکھ کر جہاں ہم سچائی محسوس کرتے ہیں جو دل پر اثر کرتی ہے، وہاں ان کی تحریروں میں مقصد کی جلالت اور عظمت پائی جاتی ہے۔

پھیکا پن:۔

سرسید کی تحریریں یقین و اعتماد تو پیدا کرتی ہیں مگر قاری کو محظوظ اور مسرور بہت کم کرتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مقصد کی رو میں بہتے چلے جاتے ہیں۔ وہ خیالات کے اظہار میں اتنے بے تکلف اور بے ساختہ ہو جاتے ہیں کہ لفظوں کی خوبصورتی ، فقروں کی ہم آہنگی کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ وہ کسی پابندی ، رکاوٹ اور احتیاط کا لحاظ نہیں کرتے۔وہ اسلوب اور شوکت الفاظ پر مطلب اور مدعا کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس طرح سرسید کی تحریروں میں حسن کی کمی پیدا ہو جاتی ہے۔ اور یہی کمی اس کے اسلوب کا خاصہ بھی بن جاتی ہے۔ اور ان کی تحریر ہمہ رنگ خیالات ادا کرنے کے قابل ہو جاتی ہے۔ مولانا حالی اُن کے بارے میں لکھتے ہیں،
” کسی شخص کے گھر میں آگ لگی ہو تو وہ لوگوں کو پکارے کہ آؤ اس آگ کو بجھائو ۔ اس میں الفاظ کی ترتیب اور فقروں کی ترکیب کا خیال نہیں ہوتا کیونکہ ان کے پاس ایک دعوت تھی ، اس دعوت کو دینے کے لئے انہیں جو بھی الفاظ ملے، بیان کر دئیے۔“

مجموعی جائزہ:۔

جب ہم سرسید کی ادبی کاوشوں کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ خود اپنی ذات میں دبستان نظر آتے ہیں۔ سرسید نے اپنی تصانیف کے ذریعے اپنے زمانے کے مصنفوں اور ادیبوں کو بہت سے خیالات دئیے۔ ان کے فکری اور تنقیدی خیالات سے ان کا دور خاصہ متاثر ہوا۔ ان سے ان کے رفقاءہی خاص متاثر نہیں ہوئے۔ بلکہ وہ لوگ بھی متاثر ہوئے جو ان کے دائرے سے باہر بلکہ مخالف تھے۔ خالص ادب اور عام تصانیف دونوں میں زمانے نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ اور ادب میں ایک خاص قسم کی معقولیت ، نیا پن ، ہمہ گیری ایک مقصد اور سنجیدگی پیدا ہو گئی جس کے سبب ادب بیکاروں کا مشغلہ نہ رہا بلکہ ادب برائے زندگی بن گیا۔ اُن کے اپنے رفقاءنے اُن کے اس مشن کو اور بھی آگے بڑھایا ۔ مولانا الطاف حسین حالی، مولانا شبلی نعمانی ، مولو ی ذکا اللہ ، چراغ علی، محسن الملک ، اور مولوی نذیر احمد جیسے لوگوں کی نظریات میں سرسید کی جھلک نمایا ں ہے۔ بقول ڈاکٹر سید عبداللہ
”سرسید کا ہم عصر ہر ادیب ایک دیو ادب تھا، اور کسی نہ کسی رنگ میں سرسید سے متاثر تھا۔“
سر سید احمد خان ایک تعارف
سنگِ تربت ہے مرا گرویدہِ تقدیر دیکھ
چشم باطن سے اس لوح کی تحریر دیکھ

سر سید احمد خان جیسا مردِ مومن کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ یہ انہیں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہم میں معاشرے کے دردواَلم کا احساس موجود ہے۔ وہ ایک ایسے دور میں پیدا ہوئے جب مسلمانانِ ہند انگریز کی غلامی میںگمراہی و ضلالت کی تاریک چادر اوڑھے سو رہے تھے‘ انسانی ضمیر کچلا جا رہا تھا ‘ انسانیت پس رہی تھی اور صاحبِ دولت طبقہ غیر ملکی آقاﺅں کی سرپرستی میں کمزور اور بے حس عوام پرحکومت کر رہا تھا۔ یہ دنیا کا اصول ہے کہ جب ظلم و ستم کی تاریک گھٹائیںاندھیروں کاروپ اختیار کر لیتی ہیں تو انہی مظلوموںمیں سے ایک ایسی کرن پھوٹتی ہے جو بڑی تیزی سے اس تاریکی کو چیرتی ہوئی ہر طرف اجالا پھیلا دیتی ہے ۔ اسی کرن کی بدولت نورپھیلتاہے‘ اذانیں سنی جاتی ہیں‘ پرندے چہکتے ہیں اور انسانیت خوابِ غفلت سے بیدار ہو کر عباد ت گاہوں کا رخ کرتی ہے۔ سر سید احمدخان اس کی ایک تابندہ مثال ہیں۔
اٹھارویں صدی میں سر سیّدمعاشرے کی اصلاح کا بیڑا اپنے سر لیتے ہے۔ ان کے کارخانہئِ فکر میں ایسے گہر ہائے آبدا ر تخلیق پاتے ہیں جن کی تابانیاں صفحہِ قرطاس پر منتقل ہونے کے بعد نہ صرف مسلمانانِ ہند کو صراطِ مستقیم پر گامزن کرتی ہیں بلکہ اردو ادب کی لا متناہی ترقی کا سبب بھی بنتی ہیں۔ آپ اردو ادب کو سادگی اور سلاست کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں اورتحریروں میں مقصدیت پیدا کرتے ہیں۔آپ کی اردو ادب کے لئے اَن گنت خدمات کے باعث آپ کو جدید اردو ادب کا بانی کے لقب سے بھی جانا جاتا ہے۔
طرزِ تحریر کی خصوصیات
سر سیّد احمد کے طرزِ تحریر کی خصوصیات درج ذیل ہیں۔
(۱) مقصدیت
سر سیّد احمد خان کی زندگی کا مقصد برِصغیر کے مسلمانوں کو حُسن و عشق کی فضاﺅں سے نکال کر میدانِ عمل میں لے جانا تھا۔ اس وقت کے ادیب طرزِ بیان پر زور دیتے تھے اور ان کی تحریریں بے مقصد ہوتی تھیں۔ انہوں نے زمانے کی اس روایت سے بغاوت کرتے ہوئے تحریروں میں طرزِ بیان سے زیادہ مقصدیت پرزور دیا اور ایسی تحریریں قلم بند کی جن سے قوم میں شعور پیدا ہو۔ سر سید کا کہنا ہے۔
ایک اچھا ادیب وہی ہے جو کسی مقصد کے تحت لکھے۔
بطور مثال ایک مضمون میں لکھتے ہیں۔

پس اے میرے نوجوان ہم وطنو! اور میری قوم کے بچو! اپنی قوم کی بھلائی پر کوشش کرو تاکہ آخری وقت میں اس بڈھے کی طرح نہ پچھتاﺅ۔ ہمارا زمانہ تو آخر ہے‘ اب خدا سے یہ دعا ہے کہ کوئی نوجوان اٹھے اور اپنی قوم کی بھلائی میں کوشش کرے۔ آمین !
(۲) اضطراب
سر سید کی شخصیت ایک پُر جوش شخصیت تھی اور وہ ایک انقلابی ذہن کے مالک تھے۔ وہ چونکہ اس مقصد کی تحت لکھتے تھے کہ قوم کو بیدار کیا جائے اس لئے ان کی تحریروں میں ایک اضطرابی کیفیت پائی جاتی ہے۔ وہ اپنا مدعا بیان کرتے وقت اس قدر پر جوش ہو جاتے کہ انہیں جملوں کی خوبصورتی اور فقروں کی ہم آہنگی میں دلچسپی نہیں رہتی اور ان کا قلم جذبات کی رو میں بہہ جاتا۔
(۳) انگریزی الفاظ
سر سید چونکہ جملوں کی ساخت کو اہمیت نہیں دیتے تھے اس لئے ان کی تحریروں میں انگریزی کے الفاظ بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ ان کا کمال یہ ہے کہ ان الفاظ کے استعمال کے باوجود ان کی تحریریں پُر اثر ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک جگہ وہ لکھتے ہیں۔
علیگڑھ کالج کے اسٹوڈنٹس میںسے ون پرسنٹ بھی نہیں ہیں جنہیں ہائی سروسز کے قابل سمجھا جائے۔
(۴) استدلالی تحریریں
سر سیّد احمد خان نے تحریک چونکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت چلائی تھی اس لئے انہوں نے تحریروں میں اپنا مقصد دلائل کے ساتھ واضح کیا ہے ۔ انہوں نے علمی‘ ادبی‘ دینی‘ اخلاقی اور معاشرتی تحریروں میں جذباتی اندازِ بیان اختیار کرنے کے بجائے استدلال سے کام لیا ہے اور ہر بات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ بقول ڈاکٹر سید عبداللہ۔
ان کی تحریروں میں منطقیانہ استدلال پایا جاتا ہے جو ہر قسم کے علمی اور تعلیمی مباحثے کے لئے موضوع ہے۔
(۵) سادگی و سلاست
سر سیّد احمد خان کے دور میں جتنے بھی مشہور و معروف ادیب گزرے ہیں وہ اپنے نثر کے طرز تحریر پر توجہ دیتے تھے اور اردو نثر میں شاعرانہ رنگینی اور آرائشوں کا بہت دخل تھا۔ اردو نثر طوالت اور بے جا تکلفات سے بوجھل ہو رہی تھی۔ سر سیّد ان پابندیوں کو خیرباد کہتے ہوئے اپنی تحریروں میں سادہ اور فطری انداز اختیار کرتے ہیں اور صاف اور آسان عبارات میں اپنا مقصد بیان کرتے ہیں۔ بقول ابو اللّیث صدّیقی۔
زندگی کی جو سادگی اور توانائی سر سید کے کردار میں پائی جاتی ہے وہی اُن کی تحریروں میں بھی موجود ہے۔
بطور مثال نمونہ پیش ہے۔
اے مسلمان بھائیو ! کیا تمہاری یہی حالت نہیں ہے ؟ تم نے اس عمدہ گورنمنٹ سے جو تم پر حکومت کر رہی ہے‘ کیا فائدہ اٹھایا ؟
(۶) پُر اثر مضامین
سر سیّد احمد خان نے اردو ادب کو جو سرمایہ فراہم کیا وہ ایسے مضامین کا سرمایہ ہے جن کا مطالعہ کرنے سے قاری کی وہی کیفیت ہو جاتی ہے جو مصنف کی تحریر کے وقت ہوتی ہے۔ ان کی تحریروں سے ان کی شخصیت کا جوش جھلکتا ہے اور ان کے نثر پارے شمشیرِ آبدار کی سی کاٹ رکھتے ہیں۔ بقول حالی۔
جس طرح تلوار کی کاٹ درحقیقت ایک باڑ میں نہیں بلکہ سپاہی کے کرخت ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اسی طرح کلام کی تاثیر اس کے نڈر دل میں اور بے لاگ زبان میں ہے۔
(۷) تنوعِ مضامین
سر سیّد احمد خان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کے مضامین میں حیرت انگیز تنوع پایا جاتا ہے۔ وہ موضوعِ مضمون کے ساتھ پورا انصاف کرتے ہیں اور مضمون کو اسی کی مناسبت سے قلم بند کرتے ہیں۔ ان کے اسلوب میں ہر رنگ کا جلوہ حسبِ موقع موجود ہے۔ اگر ان کی ادبی تحریروں‘ علمی و تحقیقی مقالوں اور عدالتی فیصلوں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو بہ اعتبارِ موضوع نمایاں فرق نظر آتا ہے۔
(۸) تمثیلی اندازِ بیان
سر سید احمد خان نے اپنے بیشتر مضامین میں تشبیہات و استعارات کا استعمال کیا ہے اور موضوع کو دلچسپ بنانے کے لئے تمثیل کا رنگ اپنایا ہے۔ ان کے یہ مضامین حکایتی اسلوب کی وجہ سے نہایت دلچسپ اور اثر انگیز ہیں۔
امید کی خوشی اور گزرا ہوا زمانہ میں سر سیّد کا یہ رنگ جھلکتا ہے۔ ان مضامین میں انہوں نے دلچسپ اور ثمثیلی انداز میں اپنا مافی الضمیربیان کیا ہے۔
(۹) بے ساختگی
مصنف کی تحریروں میں ایک بے تکلفی اور بے ساختگی سی پائی جاتی ہے۔ وہ اپنا مقصد اس طرح بیان کرتے ہیں گویا قاری ان کے سامنے بیٹھا ان سے ہمکلام ہو۔ ان کے مضامین ہر قسم کی بناوٹ سے پاک اور سچائی کے جذبے سے پُر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی بات سیدھی دل میں اترتی ہے اور اثر رکھتی ہے۔
ناقدین کی آراہ
مختلف تنقیدنگار سر سیّد کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں اور مختلف انداز میں سر سیّد کی تعریف بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ شبلی نغمانی سر سیّد کے بارے میں بیان کرتے ہیں۔
سر سیّد نے اردو انشاءپردازی کو اس رتبے پر پہنچا دیا جس کے آگے اب ایک قدم بڑھنا بھی ممکن نہیں۔
بابائے اردو مولوی عبد الحق لکھتے ہیں۔
یہ سرسیّد ہی کا کارنامہ تھا جن کی بدولت ایک صدی کے قلیل عرصے میں اردو ادب کہیں کا کہیں پہنچ گیا۔
ڈاکٹر احسن فاروقی کا بیان ہے کہ۔
اپنے عمل سے انہوں نے یہ واضح کر دیا ہے کہ نثر نگاروں کے بنیادی اصول کیا ہونے چاہیے ان کو اسی میں کمال حاصل ہے اور اسی کمال کی وجہ سے وہ اردو نثر نگاری کے سرتاج رہیں گے۔
حاصلِ تحریر
سر سیّد احمد خان کی تحریروں میں اردو ادب کا ایک تاریخی موڑ ہے۔ انہوں نے سلیس اور سہل اندازِ بیان کو فروغ دے کر دامنِ اردو کو وسیع کیا۔ اردو نثر شاعرانہ ذوق‘ مشکل اور تشبیہات سے بھری ہوئی تھی۔ آپ نے اُسے سلاست‘ سادگی اوراستدلالیت میں تبدیل کیا اور اردو ادب کو فطری طرزِ تحریر سے مہکا دیا۔ آج سرسیّد ہی کی بدولت اردو ایک مشہور و معروف زبان ہے اور ہم فخر سے اردو کو اپنی قومی زبان تسلیم کرتے ہیں۔ حالی نے شاید ٹھیک ہی کہا تھا
ترے احسان رہ رہ کر سدا یاد آئیں گے اُن کو
کریں گے ذکر ہر مجلس میں اور دہرائینگے اُن کو
Fahim Patel

By Fahim Patel

- See more at: http://www.guesspapers.net/5905/%D8%B3%D8%B1-%D8%B3%DB%8C%D8%AF-%D8%A7%D8%AD%D9%85%D8%AF-%D8%AE%D8%A7%D9%86/#sthash.S9KZhSL1.dpuf
سر سید احمد خان ایک تعارف
سنگِ تربت ہے مرا گرویدہِ تقدیر دیکھ
چشم باطن سے اس لوح کی تحریر دیکھ

سر سید احمد خان جیسا مردِ مومن کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ یہ انہیں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہم میں معاشرے کے دردواَلم کا احساس موجود ہے۔ وہ ایک ایسے دور میں پیدا ہوئے جب مسلمانانِ ہند انگریز کی غلامی میںگمراہی و ضلالت کی تاریک چادر اوڑھے سو رہے تھے‘ انسانی ضمیر کچلا جا رہا تھا ‘ انسانیت پس رہی تھی اور صاحبِ دولت طبقہ غیر ملکی آقاﺅں کی سرپرستی میں کمزور اور بے حس عوام پرحکومت کر رہا تھا۔ یہ دنیا کا اصول ہے کہ جب ظلم و ستم کی تاریک گھٹائیںاندھیروں کاروپ اختیار کر لیتی ہیں تو انہی مظلوموںمیں سے ایک ایسی کرن پھوٹتی ہے جو بڑی تیزی سے اس تاریکی کو چیرتی ہوئی ہر طرف اجالا پھیلا دیتی ہے ۔ اسی کرن کی بدولت نورپھیلتاہے‘ اذانیں سنی جاتی ہیں‘ پرندے چہکتے ہیں اور انسانیت خوابِ غفلت سے بیدار ہو کر عباد ت گاہوں کا رخ کرتی ہے۔ سر سید احمدخان اس کی ایک تابندہ مثال ہیں۔
اٹھارویں صدی میں سر سیّدمعاشرے کی اصلاح کا بیڑا اپنے سر لیتے ہے۔ ان کے کارخانہئِ فکر میں ایسے گہر ہائے آبدا ر تخلیق پاتے ہیں جن کی تابانیاں صفحہِ قرطاس پر منتقل ہونے کے بعد نہ صرف مسلمانانِ ہند کو صراطِ مستقیم پر گامزن کرتی ہیں بلکہ اردو ادب کی لا متناہی ترقی کا سبب بھی بنتی ہیں۔ آپ اردو ادب کو سادگی اور سلاست کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں اورتحریروں میں مقصدیت پیدا کرتے ہیں۔آپ کی اردو ادب کے لئے اَن گنت خدمات کے باعث آپ کو جدید اردو ادب کا بانی کے لقب سے بھی جانا جاتا ہے۔
طرزِ تحریر کی خصوصیات
سر سیّد احمد کے طرزِ تحریر کی خصوصیات درج ذیل ہیں۔
(۱) مقصدیت
سر سیّد احمد خان کی زندگی کا مقصد برِصغیر کے مسلمانوں کو حُسن و عشق کی فضاﺅں سے نکال کر میدانِ عمل میں لے جانا تھا۔ اس وقت کے ادیب طرزِ بیان پر زور دیتے تھے اور ان کی تحریریں بے مقصد ہوتی تھیں۔ انہوں نے زمانے کی اس روایت سے بغاوت کرتے ہوئے تحریروں میں طرزِ بیان سے زیادہ مقصدیت پرزور دیا اور ایسی تحریریں قلم بند کی جن سے قوم میں شعور پیدا ہو۔ سر سید کا کہنا ہے۔
ایک اچھا ادیب وہی ہے جو کسی مقصد کے تحت لکھے۔
بطور مثال ایک مضمون میں لکھتے ہیں۔

پس اے میرے نوجوان ہم وطنو! اور میری قوم کے بچو! اپنی قوم کی بھلائی پر کوشش کرو تاکہ آخری وقت میں اس بڈھے کی طرح نہ پچھتاﺅ۔ ہمارا زمانہ تو آخر ہے‘ اب خدا سے یہ دعا ہے کہ کوئی نوجوان اٹھے اور اپنی قوم کی بھلائی میں کوشش کرے۔ آمین !
(۲) اضطراب
سر سید کی شخصیت ایک پُر جوش شخصیت تھی اور وہ ایک انقلابی ذہن کے مالک تھے۔ وہ چونکہ اس مقصد کی تحت لکھتے تھے کہ قوم کو بیدار کیا جائے اس لئے ان کی تحریروں میں ایک اضطرابی کیفیت پائی جاتی ہے۔ وہ اپنا مدعا بیان کرتے وقت اس قدر پر جوش ہو جاتے کہ انہیں جملوں کی خوبصورتی اور فقروں کی ہم آہنگی میں دلچسپی نہیں رہتی اور ان کا قلم جذبات کی رو میں بہہ جاتا۔
(۳) انگریزی الفاظ
سر سید چونکہ جملوں کی ساخت کو اہمیت نہیں دیتے تھے اس لئے ان کی تحریروں میں انگریزی کے الفاظ بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ ان کا کمال یہ ہے کہ ان الفاظ کے استعمال کے باوجود ان کی تحریریں پُر اثر ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک جگہ وہ لکھتے ہیں۔
علیگڑھ کالج کے اسٹوڈنٹس میںسے ون پرسنٹ بھی نہیں ہیں جنہیں ہائی سروسز کے قابل سمجھا جائے۔
(۴) استدلالی تحریریں
سر سیّد احمد خان نے تحریک چونکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت چلائی تھی اس لئے انہوں نے تحریروں میں اپنا مقصد دلائل کے ساتھ واضح کیا ہے ۔ انہوں نے علمی‘ ادبی‘ دینی‘ اخلاقی اور معاشرتی تحریروں میں جذباتی اندازِ بیان اختیار کرنے کے بجائے استدلال سے کام لیا ہے اور ہر بات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ بقول ڈاکٹر سید عبداللہ۔
ان کی تحریروں میں منطقیانہ استدلال پایا جاتا ہے جو ہر قسم کے علمی اور تعلیمی مباحثے کے لئے موضوع ہے۔
(۵) سادگی و سلاست
سر سیّد احمد خان کے دور میں جتنے بھی مشہور و معروف ادیب گزرے ہیں وہ اپنے نثر کے طرز تحریر پر توجہ دیتے تھے اور اردو نثر میں شاعرانہ رنگینی اور آرائشوں کا بہت دخل تھا۔ اردو نثر طوالت اور بے جا تکلفات سے بوجھل ہو رہی تھی۔ سر سیّد ان پابندیوں کو خیرباد کہتے ہوئے اپنی تحریروں میں سادہ اور فطری انداز اختیار کرتے ہیں اور صاف اور آسان عبارات میں اپنا مقصد بیان کرتے ہیں۔ بقول ابو اللّیث صدّیقی۔
زندگی کی جو سادگی اور توانائی سر سید کے کردار میں پائی جاتی ہے وہی اُن کی تحریروں میں بھی موجود ہے۔
بطور مثال نمونہ پیش ہے۔
اے مسلمان بھائیو ! کیا تمہاری یہی حالت نہیں ہے ؟ تم نے اس عمدہ گورنمنٹ سے جو تم پر حکومت کر رہی ہے‘ کیا فائدہ اٹھایا ؟
(۶) پُر اثر مضامین
سر سیّد احمد خان نے اردو ادب کو جو سرمایہ فراہم کیا وہ ایسے مضامین کا سرمایہ ہے جن کا مطالعہ کرنے سے قاری کی وہی کیفیت ہو جاتی ہے جو مصنف کی تحریر کے وقت ہوتی ہے۔ ان کی تحریروں سے ان کی شخصیت کا جوش جھلکتا ہے اور ان کے نثر پارے شمشیرِ آبدار کی سی کاٹ رکھتے ہیں۔ بقول حالی۔
جس طرح تلوار کی کاٹ درحقیقت ایک باڑ میں نہیں بلکہ سپاہی کے کرخت ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اسی طرح کلام کی تاثیر اس کے نڈر دل میں اور بے لاگ زبان میں ہے۔
(۷) تنوعِ مضامین
سر سیّد احمد خان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کے مضامین میں حیرت انگیز تنوع پایا جاتا ہے۔ وہ موضوعِ مضمون کے ساتھ پورا انصاف کرتے ہیں اور مضمون کو اسی کی مناسبت سے قلم بند کرتے ہیں۔ ان کے اسلوب میں ہر رنگ کا جلوہ حسبِ موقع موجود ہے۔ اگر ان کی ادبی تحریروں‘ علمی و تحقیقی مقالوں اور عدالتی فیصلوں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو بہ اعتبارِ موضوع نمایاں فرق نظر آتا ہے۔
(۸) تمثیلی اندازِ بیان
سر سید احمد خان نے اپنے بیشتر مضامین میں تشبیہات و استعارات کا استعمال کیا ہے اور موضوع کو دلچسپ بنانے کے لئے تمثیل کا رنگ اپنایا ہے۔ ان کے یہ مضامین حکایتی اسلوب کی وجہ سے نہایت دلچسپ اور اثر انگیز ہیں۔
امید کی خوشی اور گزرا ہوا زمانہ میں سر سیّد کا یہ رنگ جھلکتا ہے۔ ان مضامین میں انہوں نے دلچسپ اور ثمثیلی انداز میں اپنا مافی الضمیربیان کیا ہے۔
(۹) بے ساختگی
مصنف کی تحریروں میں ایک بے تکلفی اور بے ساختگی سی پائی جاتی ہے۔ وہ اپنا مقصد اس طرح بیان کرتے ہیں گویا قاری ان کے سامنے بیٹھا ان سے ہمکلام ہو۔ ان کے مضامین ہر قسم کی بناوٹ سے پاک اور سچائی کے جذبے سے پُر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی بات سیدھی دل میں اترتی ہے اور اثر رکھتی ہے۔
ناقدین کی آراہ
مختلف تنقیدنگار سر سیّد کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں اور مختلف انداز میں سر سیّد کی تعریف بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ شبلی نغمانی سر سیّد کے بارے میں بیان کرتے ہیں۔
سر سیّد نے اردو انشاءپردازی کو اس رتبے پر پہنچا دیا جس کے آگے اب ایک قدم بڑھنا بھی ممکن نہیں۔
بابائے اردو مولوی عبد الحق لکھتے ہیں۔
یہ سرسیّد ہی کا کارنامہ تھا جن کی بدولت ایک صدی کے قلیل عرصے میں اردو ادب کہیں کا کہیں پہنچ گیا۔
ڈاکٹر احسن فاروقی کا بیان ہے کہ۔
اپنے عمل سے انہوں نے یہ واضح کر دیا ہے کہ نثر نگاروں کے بنیادی اصول کیا ہونے چاہیے ان کو اسی میں کمال حاصل ہے اور اسی کمال کی وجہ سے وہ اردو نثر نگاری کے سرتاج رہیں گے۔
حاصلِ تحریر
سر سیّد احمد خان کی تحریروں میں اردو ادب کا ایک تاریخی موڑ ہے۔ انہوں نے سلیس اور سہل اندازِ بیان کو فروغ دے کر دامنِ اردو کو وسیع کیا۔ اردو نثر شاعرانہ ذوق‘ مشکل اور تشبیہات سے بھری ہوئی تھی۔ آپ نے اُسے سلاست‘ سادگی اوراستدلالیت میں تبدیل کیا اور اردو ادب کو فطری طرزِ تحریر سے مہکا دیا۔ آج سرسیّد ہی کی بدولت اردو ایک مشہور و معروف زبان ہے اور ہم فخر سے اردو کو اپنی قومی زبان تسلیم کرتے ہیں۔ حالی نے شاید ٹھیک ہی کہا تھا
ترے احسان رہ رہ کر سدا یاد آئیں گے اُن کو
کریں گے ذکر ہر مجلس میں اور دہرائینگے اُن کو
Fahim Patel

By Fahim Patel

- See more at: http://www.guesspapers.net/5905/%D8%B3%D8%B1-%D8%B3%DB%8C%D8%AF-%D8%A7%D8%AD%D9%85%D8%AF-%D8%AE%D8%A7%D9%86/#sthash.S9KZhSL1.dpuf