Friday, 5 September 2014

آنگن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خدیجہ مستور۔۔۔۔۔۔۔۔۔جائزہ
ناول میں گھریلو آنگنوں کے ساتھ ساتھ پور ے ہندوستان کو ایک آنگن قرار دیا گیا ہے۔ اس لئے کہ مذکور ہ ناول میں مظہر چچا ، رائے صاحب اور کسی حد تک ماموں کے گھریلو حالات کے ساتھ ساتھ پورے ہندوستان کی صورت حال کانقشہ کھینچا گیاہے۔ ٍناول کا تانا بانا اس طرح تیار کیاگیاکہ رومانیت کا عنصر بڑی حد تک ناول میں پایا جاتا ہے۔
اس کے دلی جذبات و احساسا ت کا بھر پور کی بھر پور ترجمانی کرتے ہیں۔ مگر کسم دیدی کے حوالے سے ناول نگار نے انتہائی حقیقت نگاری اور نفسیات نگاری کا مظاہر ہ کرتے ہوئے۔ یہ تلخ حقیقت ظاہر کر دی ہے کہ وہی کسم دیدی جو اپنے خاوند کی یاد میں دن رات روتی تھی ،آخر ایک غیر مرد کے ساتھ گھر سے بھاگ جاتی ہے۔ اس مقام پر خدیجہ مستور نے یہ نفسیاتی حقیقت ظاہر کی ہے کہ محبت اور عورت و مرد کی قربت ایک فطری جذبہ ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے۔
جیسا کہ شروع میں کہا گیا ہے کہ یہ ایک سیاسی سماجی ناول ہے۔ تحریک آزادی کا مسلمان گھرانوں کی زندگی اور مسلمانوں کے ذہنوں پر کیا اثر ہوا ۔ ان سب کااحوال اس ناول میں موجود ہے۔ ناول میں انگریزی تہذیب و تمدن اور انگریزوں کی مخالفت ہی سے تحریک آزادی کا آغاز ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ”ڈیم پھول“ کہنے پر مظہر چچا انگریز افسر کے سر پر ایسا وار کرتے ہیں کہ افسر کا سر پھوڑ ڈالتے ہیں۔ ناول نگار نے یہاں پر اس مقام کی عکاسی کر دی ہے۔ جہاں غلامی کی زنجیریں ہندوستانی غلاموں کے لئے ناقابل برداشت ہو چکی تھیں۔ یوں لگتا ہے کہ اب وہ ان زنجیروں کو پاش پاش کر دینا چاہتے ہیں۔ مظہر چچا کا کردار راہ آزادی کے ایسے ہی جانباز وں کی زندہ جاوید قربانیوں کی لازاوال مثال جو طوق غلامی اتار پھینکنے کی خاطر اپنا تن من دھن قربان کر دینے پر تلے ہوئے تھے، ان کی ساری ساری زندگیاں جیلوں میں کٹ گئیں ، بے شمارافراد ایسے بھی تھے جن کی اموات جلیوں میں واقع ہوئیں ۔آزادی کا نام لینے کے جرم کی پاداش میں وہ آہنی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دئیے گئے۔ لیکن دوبار جیتے جی اپنے پیاروں سے نہ مل سکے۔ ان کی آنکھیں آزادی کے چراغاں کو ترستی رہ گئیں ، لیکن جیل کے آہنی دروازوں سے ان کی لاشیں ہی باہر آسکیں۔ آزادی کی خاطر مظہر چچا کی طرح بے شمار لوگوں کے گھر اجڑے ۔ آنگن ان سب تلخ حقائق کی عکاسی بھر پور انداز میں کرتی ہے۔
راہ آزادی کے مسافروں نے منزی آزادی تک پہنچنے کے لئے ہر طرح کی قربانیاں دیں۔مظہر چچا کی طرح ملازمتوں سے ہاتھ دھوئے ۔ گھر بار اجاڑ دئیے ۔ بال بچے در بدر ہوئے۔ بڑے چچا کی طرح کاروبار کی آمدن اولاد پر خرچ کرنے کے بجائے، تحریک آزاد ی کے مجاہدوں نے آ زادی پرسب کچھ لٹا دیا۔ جس کی وجہ سے خاندانوں کی معاشی حالت بھی بگڑتی چلی جارہی تھی۔ گھر میں شکیل جیسے معصوم بچوں کے لئے پڑھنے کو کتابیں نہ تھیں۔ اس لئے کہ بڑے چچا جیسے مجاہد سب کچھ آزادی پر نچھاور کر رہے تھے۔ گھر میں ماں جیسی قریبی ہستی کی موت واقع ہو جاتی ہے مگر لوگ ماں کا سوگ منانے کے بجائے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد میں ہمہ تن مصروف رہتے۔
دوسری طرف مزید باریک بینی میں جاتے ہوئے مسلم لیگ اور کانگرس کی آویزش اور کشمکش کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ بڑے چچا مسلمان ہوتے ہوئے بھی کانگرسی ہیں اور اپنے گھر والوں خصوصاً چھمی سے کافر چچا کا خطاب پاتے ہیں۔ یعنی ہندوستان کا ایک ایک مسلمان گھرانہ دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ جمیل کی لاہور آمد اور قرار داد پاکستان میں شرکت اس سیاسی حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ ایک ہی خاندان کے قریبی رشتے مختلف سیاسی نظریات و تصورات رکھتے تھے کوئی پاکستان بنا رہا ہے اور کوئی بڑے چچا کی صورت میں اس کی مخالفت کر رہا ہے۔
ناول کی فضاءسے عدم تعاون کی تحریک اور خلافت کی ترجمانی بھی ہو رہی ہے۔ جذبہ آزادی اور تحریک خلافت کی متوالی مائیں اپنے جوان بیٹوں کو کھلے دل سے کہتی تھیں۔
بوڑھی اماں کا تم غم نہ کرنا
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
کانگرس اور مسلم لیگ کی حریفانہ کشمکش کے نتیجے میں ہندو مسلم کش فسادات بھی ہوتے رہتے ہیں اگرچہ اس وقت ابھی آزادی کی منزل بھی دور تھی۔ لیکن راہ آزادی کے مسافر ہندومسلم کی صورت میں پہلے ہی ایک دوسرے کا خون بہا رہے تھے جو کہ اپنی نوعیت کا ایک المیہ ہے۔
آخر تحریک آزادی اپنی منزل مقصود تک پہنچتی نظرآتی ہے۔ آزادی حاصل کرنے کے دنوں میں ہندوستان تقسیم ہو گیا۔ اور پھر ناول میں اس بھیانک دور کا بھی ذکر ہے جب پورے ہندوستان میں فسادات ہوتے ہیں خون کی ندیاں بہتی ہیں ۔ ہر طرف خون ہی خون ہے۔ ہندو مسلمان دشمنی میں یہاں تک بڑھ گئے ہیں کہ ساری عمر کافر چچا اور ہندو مزا ج کے طعنے برداشت کرنے والے بڑے چچا کو قتل کر دیا جاتاہے۔ جو کہ ایک کٹر کانگریسی تھے۔ لیکن ان کا گنا ہ صرف اتنا تھا کہ وہ مسلمان تھے۔ یہاں ناول نگار نے ایک لحاظ سے یہ حقیقت ظاہر کر دی ہے کہ کچھ بھی ہو جائے ۔ ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے دوست نہیں بن سکتے ۔ مذہبی فرق اور عقیدے کیوجہ سے اگر موقع ملے تو بڑے چچا جیسے کٹر کانگریسی بھی ہندو کے وار سے نہیں بچ سکتے۔
ناول نگار نے اس حقیقت کی ہو بہو عکاسی کر دی ہے کہ مسلمان تو کانگریسی تھے اور اب بھی ہیں لیکن کوئی ہندو تو اُس وقت مسلم لیگی نہیں تھا۔ اور نہ اب ہے۔ خدیجہ مستور نے تقسیم کی صورت میں مہاجرین اور کے قافلوں کا ادھر ادھر آنا جانا بھی دکھایا ہے۔ راستے میں جس طرح قافلے لٹ پٹ جاتے ہیں ۔ ناول نگار نے ہو بہو عکاسی و ترجمانی کر دی ہے۔
اماں کے بھائی بہن کے لئے پاکستا ن میں ایک بنگلے کا بندوبست کر دیتا ہے اور کہیں سے جعلی رسیدےں لا کر عالیہ کی موجودگی میں سمجھاتا ہے کہ اگر کوئی پوچھے تو کہنا ، فرنیچر ہم نے خریدا ہے۔ ناول نگار نے اس مقام پر دبے الفاظ میں اس جعل سازی ، دھوکہ دہی اور چور بازاری کی جھلکی دکھادی ہے۔ جو آج پاکستانیوں کا شعار بنی ہوئی ہے۔ یہ تلخ حقیقت ایک بہت بڑا المیہ ہے اور یہ اس المیے کا آغاز پاکستان بنتے ہی ہوگیا تھا۔
بہر حال فکری طور پر ناول آنگن رومانوی انداز میں تحریک آزادی کی ایک دل دوز داستان ہے۔ مختلف ادوار کے حوالے سے مختلف تحریکوں کا ذکر کرتے ہوئے ناول نگار نے دور ِ غلامی اور تحریک آزادی کا تجزیہ اس انداز میں کیا ہے کہ ماضی اور حا ل کی پوری اور مکمل تصویر دل و دماغ میں نقش ہو کر رہ جاتی ہے۔ راہ آزادی کے مجاہدوں نے جن کٹھن اور نامساعد حالات میں آزادی حاصل کرنے کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے ان کا ذکر انتہائی موثر انداز میں کر دیا گیا ہے۔ مگر سوال یہ پیداہوتا ہے کہ آیا ان مجاہدوں اور شہیدوں نے جو آزادی امانت کے طور پر ہمارے پاس چھوڑ ی ہم اس کی حفاظت میں کہاں تک مخلص ہیں؟ یہ سوال ہمارے لئے لمحہ فکریہ سے کم نہیں۔

Home » Class XI » XI Urdu » آزادی کی راہ میں

آزادی کی راہ میں تمھیں چراغ بجھانے کا غرور ہے لیکن
ہمیں طلوعِ سحر کا ہنر بھی آتا ہے

اس سبق کی مصنفہ ممتاز ترقی پسند افسانہ نگار وہ ناول نویس خدیجہ مستور ہیں اور یہ اُن کے مشہور دو معروف ناول آنگن کا ایک ذیلی حصہ ہے۔ اُن کا یہ ناول کردارنگاری، منظر نگاری اور اسلوب کے لحاظ سے ایک منفرد ناول ہے۔ ڈاکٹر احسن فاروقی کہتے ہیں:
آنگن کسی ایک گھر کی کہانی نہیں بلکہ اِس کینوس پر پورا برّ صغیر رنگ بکھیرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
خدیجہ مستور نے تحریکِ جدوجہدِ آزادی کے پسِ منظر میں یہ ناول لکھا ہے اور بتانا چاہا ہے کہ:
آزادی کے متوالے غلامی کے خلاف نفرت رکھتے ہیں اور جب کبھی موقع ملتا ہے جذبات کا یہ آتش فشاں پھوٹ بہتا ہے۔
اس ناول کا مرکزی کردار ایک لڑکی عالیہ ہے لیکن اِس کردار کے پسِ پردہ دراصل مصنفہ خود ہیں اور یہ اُن کے گھر کی کہانی ہے۔ اُن کے والد انگریز سرکار کے ملازم ہیں لیکن اُن سے سخت نفرت کرتے ہیں اور اس سلسلے میں ان کے بارے میں گوہر افشانی کرتے رہتے ہیں۔ ایک بار اُن کا ایک انگریز افسر دورے پر آ رہا ہوتا ہے تو اُن کے شدید مخالف ہونے کے باوجود وہ اس کے استقبال کی تیاری کرتے ہیں۔ ڈاک بنگلے میں اُسے ٹہرانے کا انتظام ہوتا ہے۔ گھر کے میز پوش اور گلدان وغیرہ بھی وہاں پہنچا دیے جاتے ہیں اور اُس کے لئے بہترین کھانے پکانے کی ہدایت بھی جاری کر دی جاتی ہے۔ یہ سب دیکھ کر عالیہ کی والدہ اُن کا مذاق اُڑاتی ہیں اور کہتی ہیں:
خوب! انگریزوں کو گالیاں دیتے ہیں اور اب وہ آ رہا ہے تو مارے ڈر کے سٹی گُم ہے حضرت کی! زبانی جمع خرچ کرنے میں کیسے تیز ہوتے ہیں لوگ بھی۔
ایسی باتیں سن کر عالیہ کو اپنی ماں پر بڑا غصہ آتا اور وہ سوچتی کہ:
کاش وہ ایک ذرا دیر کو امّاں کی امّاں بن سکتی تو پھر بتاتی کہ چھیڑ خانی کرنے کا کیا فائدہ ہوتا ہے۔
بہرحال عالیہ کے والد بہت سویرے ہی اس انگریز افسر کے خیر مقدم کیلئے اسٹیشن پہنچ جاتے ہیں اور دوپہر تک واپس نہیں آتے ہیں۔ ادھر دسترخوان مختلف انواع و اقسام کی خوشبوﺅں سے مہک رہا ہوتا ہے کہ ایک چپراسی گھبرایا ہوا آتا ہے اور یہ اطلاع دیتا ہے کہ عالیہ کے والد نے اسٹیشن پر ہی اُس انگریز افسر کا سر پھاڑ دیا ہے کیونکہ اس نے انہیں ڈیم فول کہہ دیا تھا اور اب وہ حوالات میں بند ہیں۔
اس واقعہ کی اطلاع عالیہ کے ماموں اور چچا تک پہنچائی جاتی ہے چونکہ اس گھرانے کو ایک سرپرست کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ماموں تو اس کام سے یہ کہہ کر فرار حاصل کر لیتے ہیں کہ:
اقدامِ قتل بہت بڑا جُرم ہے، ایسے آدمی کی بیوی بچوں کی سرپرستی کرنے میں انہیں بھی خطرہ ہے۔
لیکن چچا چونکہ انگریزوں اور ماموں دونوں سے نفرت کرتے ہیں وہ برملا انگریزوں پر بگڑتے ہیں اور یہاں اہلِ خانہ کے سروں پر ہاتھ رکھتے ہیں اور انہیں اپنے گھر لے جاتے ہیں۔ جب یہ لوگ روانہ ہونے کے لئے تانگے پر سوار ہوتے ہیں تو عالیہ کی اسکول کی نگران عیسائی خاتون انہیں یہ کہہ کر تسلی دیتی ہے کہ:
تم لوگ کھوش رہنا، گَم مت کرنا، تمارا فادر بوت اچھا آدمی تھا، تمارا ملک جرور آباد ہوگا۔
چچا کے گھر پہنچنے کے بعد عالیہ بستر پر کروٹیں بدل رہی ہوتی ہے۔ وہ سوچتی ہے کہ اُن کے والد کا قید میں کیا حال ہو گا؟ کاش اُسے نیند آ جائے یا صبح ہو جائے
- See more at: http://www.guesspapers.net/5873/%D8%A2%D8%B2%D8%A7%D8%AF%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D8%B1%D8%A7%DB%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA/#sthash.D2G4VBfy.dpuf ناول میں گھریلو آنگنوں کے ساتھ ساتھ پور ے ہندوستان کو ایک آنگن قرار دیا گیا ہے۔ ا
Home » Class XI » XI Urdu » آزادی کی راہ میں

آزادی کی راہ میں تمھیں چراغ بجھانے کا غرور ہے لیکن
ہمیں طلوعِ سحر کا ہنر بھی آتا ہے

اس سبق کی مصنفہ ممتاز ترقی پسند افسانہ نگار وہ ناول نویس خدیجہ مستور ہیں اور یہ اُن کے مشہور دو معروف ناول آنگن کا ایک ذیلی حصہ ہے۔ اُن کا یہ ناول کردارنگاری، منظر نگاری اور اسلوب کے لحاظ سے ایک منفرد ناول ہے۔ ڈاکٹر احسن فاروقی کہتے ہیں:
آنگن کسی ایک گھر کی کہانی نہیں بلکہ اِس کینوس پر پورا برّ صغیر رنگ بکھیرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
خدیجہ مستور نے تحریکِ جدوجہدِ آزادی کے پسِ منظر میں یہ ناول لکھا ہے اور بتانا چاہا ہے کہ:
آزادی کے متوالے غلامی کے خلاف نفرت رکھتے ہیں اور جب کبھی موقع ملتا ہے جذبات کا یہ آتش فشاں پھوٹ بہتا ہے۔
اس ناول کا مرکزی کردار ایک لڑکی عالیہ ہے لیکن اِس کردار کے پسِ پردہ دراصل مصنفہ خود ہیں اور یہ اُن کے گھر کی کہانی ہے۔ اُن کے والد انگریز سرکار کے ملازم ہیں لیکن اُن سے سخت نفرت کرتے ہیں اور اس سلسلے میں ان کے بارے میں گوہر افشانی کرتے رہتے ہیں۔ ایک بار اُن کا ایک انگریز افسر دورے پر آ رہا ہوتا ہے تو اُن کے شدید مخالف ہونے کے باوجود وہ اس کے استقبال کی تیاری کرتے ہیں۔ ڈاک بنگلے میں اُسے ٹہرانے کا انتظام ہوتا ہے۔ گھر کے میز پوش اور گلدان وغیرہ بھی وہاں پہنچا دیے جاتے ہیں اور اُس کے لئے بہترین کھانے پکانے کی ہدایت بھی جاری کر دی جاتی ہے۔ یہ سب دیکھ کر عالیہ کی والدہ اُن کا مذاق اُڑاتی ہیں اور کہتی ہیں:
خوب! انگریزوں کو گالیاں دیتے ہیں اور اب وہ آ رہا ہے تو مارے ڈر کے سٹی گُم ہے حضرت کی! زبانی جمع خرچ کرنے میں کیسے تیز ہوتے ہیں لوگ بھی۔
ایسی باتیں سن کر عالیہ کو اپنی ماں پر بڑا غصہ آتا اور وہ سوچتی کہ:
کاش وہ ایک ذرا دیر کو امّاں کی امّاں بن سکتی تو پھر بتاتی کہ چھیڑ خانی کرنے کا کیا فائدہ ہوتا ہے۔
بہرحال عالیہ کے والد بہت سویرے ہی اس انگریز افسر کے خیر مقدم کیلئے اسٹیشن پہنچ جاتے ہیں اور دوپہر تک واپس نہیں آتے ہیں۔ ادھر دسترخوان مختلف انواع و اقسام کی خوشبوﺅں سے مہک رہا ہوتا ہے کہ ایک چپراسی گھبرایا ہوا آتا ہے اور یہ اطلاع دیتا ہے کہ عالیہ کے والد نے اسٹیشن پر ہی اُس انگریز افسر کا سر پھاڑ دیا ہے کیونکہ اس نے انہیں ڈیم فول کہہ دیا تھا اور اب وہ حوالات میں بند ہیں۔
اس واقعہ کی اطلاع عالیہ کے ماموں اور چچا تک پہنچائی جاتی ہے چونکہ اس گھرانے کو ایک سرپرست کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ماموں تو اس کام سے یہ کہہ کر فرار حاصل کر لیتے ہیں کہ:
اقدامِ قتل بہت بڑا جُرم ہے، ایسے آدمی کی بیوی بچوں کی سرپرستی کرنے میں انہیں بھی خطرہ ہے۔
لیکن چچا چونکہ انگریزوں اور ماموں دونوں سے نفرت کرتے ہیں وہ برملا انگریزوں پر بگڑتے ہیں اور یہاں اہلِ خانہ کے سروں پر ہاتھ رکھتے ہیں اور انہیں اپنے گھر لے جاتے ہیں۔ جب یہ لوگ روانہ ہونے کے لئے تانگے پر سوار ہوتے ہیں تو عالیہ کی اسکول کی نگران عیسائی خاتون انہیں یہ کہہ کر تسلی دیتی ہے کہ:
تم لوگ کھوش رہنا، گَم مت کرنا، تمارا فادر بوت اچھا آدمی تھا، تمارا ملک جرور آباد ہوگا۔
چچا کے گھر پہنچنے کے بعد عالیہ بستر پر کروٹیں بدل رہی ہوتی ہے۔ وہ سوچتی ہے کہ اُن کے والد کا قید میں کیا حال ہو گا؟ کاش اُسے نیند آ جائے یا صبح ہو جائے
- See more at: http://www.guesspapers.net/5873/%D8%A2%D8%B2%D8%A7%D8%AF%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D8%B1%D8%A7%DB%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA/#sthash.D2G4VBfy.dpuf
Home » Class XI » XI Urdu » آزادی کی راہ میں

آزادی کی راہ میں تمھیں چراغ بجھانے کا غرور ہے لیکن
ہمیں طلوعِ سحر کا ہنر بھی آتا ہے

اس سبق کی مصنفہ ممتاز ترقی پسند افسانہ نگار وہ ناول نویس خدیجہ مستور ہیں اور یہ اُن کے مشہور دو معروف ناول آنگن کا ایک ذیلی حصہ ہے۔ اُن کا یہ ناول کردارنگاری، منظر نگاری اور اسلوب کے لحاظ سے ایک منفرد ناول ہے۔ ڈاکٹر احسن فاروقی کہتے ہیں:
آنگن کسی ایک گھر کی کہانی نہیں بلکہ اِس کینوس پر پورا برّ صغیر رنگ بکھیرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
خدیجہ مستور نے تحریکِ جدوجہدِ آزادی کے پسِ منظر میں یہ ناول لکھا ہے اور بتانا چاہا ہے کہ:
آزادی کے متوالے غلامی کے خلاف نفرت رکھتے ہیں اور جب کبھی موقع ملتا ہے جذبات کا یہ آتش فشاں پھوٹ بہتا ہے۔
اس ناول کا مرکزی کردار ایک لڑکی عالیہ ہے لیکن اِس کردار کے پسِ پردہ دراصل مصنفہ خود ہیں اور یہ اُن کے گھر کی کہانی ہے۔ اُن کے والد انگریز سرکار کے ملازم ہیں لیکن اُن سے سخت نفرت کرتے ہیں اور اس سلسلے میں ان کے بارے میں گوہر افشانی کرتے رہتے ہیں۔ ایک بار اُن کا ایک انگریز افسر دورے پر آ رہا ہوتا ہے تو اُن کے شدید مخالف ہونے کے باوجود وہ اس کے استقبال کی تیاری کرتے ہیں۔ ڈاک بنگلے میں اُسے ٹہرانے کا انتظام ہوتا ہے۔ گھر کے میز پوش اور گلدان وغیرہ بھی وہاں پہنچا دیے جاتے ہیں اور اُس کے لئے بہترین کھانے پکانے کی ہدایت بھی جاری کر دی جاتی ہے۔ یہ سب دیکھ کر عالیہ کی والدہ اُن کا مذاق اُڑاتی ہیں اور کہتی ہیں:
خوب! انگریزوں کو گالیاں دیتے ہیں اور اب وہ آ رہا ہے تو مارے ڈر کے سٹی گُم ہے حضرت کی! زبانی جمع خرچ کرنے میں کیسے تیز ہوتے ہیں لوگ بھی۔
ایسی باتیں سن کر عالیہ کو اپنی ماں پر بڑا غصہ آتا اور وہ سوچتی کہ:
کاش وہ ایک ذرا دیر کو امّاں کی امّاں بن سکتی تو پھر بتاتی کہ چھیڑ خانی کرنے کا کیا فائدہ ہوتا ہے۔
بہرحال عالیہ کے والد بہت سویرے ہی اس انگریز افسر کے خیر مقدم کیلئے اسٹیشن پہنچ جاتے ہیں اور دوپہر تک واپس نہیں آتے ہیں۔ ادھر دسترخوان مختلف انواع و اقسام کی خوشبوﺅں سے مہک رہا ہوتا ہے کہ ایک چپراسی گھبرایا ہوا آتا ہے اور یہ اطلاع دیتا ہے کہ عالیہ کے والد نے اسٹیشن پر ہی اُس انگریز افسر کا سر پھاڑ دیا ہے کیونکہ اس نے انہیں ڈیم فول کہہ دیا تھا اور اب وہ حوالات میں بند ہیں۔
اس واقعہ کی اطلاع عالیہ کے ماموں اور چچا تک پہنچائی جاتی ہے چونکہ اس گھرانے کو ایک سرپرست کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ماموں تو اس کام سے یہ کہہ کر فرار حاصل کر لیتے ہیں کہ:
اقدامِ قتل بہت بڑا جُرم ہے، ایسے آدمی کی بیوی بچوں کی سرپرستی کرنے میں انہیں بھی خطرہ ہے۔
لیکن چچا چونکہ انگریزوں اور ماموں دونوں سے نفرت کرتے ہیں وہ برملا انگریزوں پر بگڑتے ہیں اور یہاں اہلِ خانہ کے سروں پر ہاتھ رکھتے ہیں اور انہیں اپنے گھر لے جاتے ہیں۔ جب یہ لوگ روانہ ہونے کے لئے تانگے پر سوار ہوتے ہیں تو عالیہ کی اسکول کی نگران عیسائی خاتون انہیں یہ کہہ کر تسلی دیتی ہے کہ:
تم لوگ کھوش رہنا، گَم مت کرنا، تمارا فادر بوت اچھا آدمی تھا، تمارا ملک جرور آباد ہوگا۔
چچا کے گھر پہنچنے کے بعد عالیہ بستر پر کروٹیں بدل رہی ہوتی ہے۔ وہ سوچتی ہے کہ اُن کے والد کا قید میں کیا حال ہو گا؟ کاش اُسے نیند آ جائے یا صبح ہو جائے
- See more at: http://www.guesspapers.net/5873/%D8%A2%D8%B2%D8%A7%D8%AF%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D8%B1%D8%A7%DB%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA/#sthash.D2G4VBfy.dpuf

No comments:

Post a Comment