محسن کاکوری کے ایک شریف ،دین دار اور تعلیم یافتہ علوی سیّد گھرانے میںپیدا ہوئے ۔فطری اعتبار سے آپ نیک، میقی ،پرہیزگار اور پاکیزہ طبیعت کے حامل تھے ۔دل عشقِ رسول ﷺ سے معطر و معنبرتھا…لہٰذا ن کے قلم سے نکلا ہوا ہرشعر کیف و سرمستی اور سوز وگداز میں ڈوبا ہوا نظر آتاہے
۔محسنؔ کی شعری کائنات ،فکری پاکیزگی ،بلند نگاہی،ندرتِ بیان اور نادر تشبیہات و استعارات،پیکر اور ترکیب سازی کی وجہ سے ایک خصوصی اور انفرادی اہمیت کی حامل ہے۔
مذہبی موضوعات پر لکھنے والوں میں محسنؔ گالباً سب سے زیادہ نفیس لکھنے والے ہیں۔ان کااسلوب نہایت دل کش اور پُر لطف ہے۔اس میں سادگی کے باوجود حُسن اور شاعرانہ لطافتیں موجود ہیں۔مذہبی نظموں میں یہ لطفِ گویائی کم شاعروں کے حصے میں آیا ہوگا۔’چراغِ کعبہ،صبحِ تجلی‘ دونوں محسن کے شاہ کار ہیںان میں تغزل کے اشاروں کنایوں سے بڑا لطف پیدا کیاگیا ہے
شاعرانہ لطافت، نادر تشبیہات و استعارات، علمی و ادبی اصطلاحات و تلمیحات، شاعرانہ پیکر تراشی ، نئی نئی ترکیب سازی، عربیت کی آمیزش اورہندی و ہندوستانی عناصر کے ساتھ فارسیت کے گہرے رچاو کی وجہ سے اس قصیدہ کواردو شاعری کا شاہ کار قرار دیا گیا ہے
سب سے اعلا تری سرکار ہے سب سے افضل
میرے ایمانِ مفصل کا یہی ہے اجمل
حضرت محسنؔ نے اس قصیدہ میں اردو کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی کی لفظیات کو برتا ہے اور اس کی زیریں رَو میں ہندوستانی رنگ و آہنگ نمایاں نظر آتا ہے ۔محسنؔ نے خالص ہندوستانی تشبیہات و استعارات کا سہارا لیا ہے ۔لیکن کہیں بھی نعت کی طہارت و پاکیزگی مجروح نہیں ہوئی ہے ۔کچھ لوگوں نے اس قصیدے کو ہندوانہ تہذیب و تمدن کا آئینہ دار بتاتے ہوئے محسنؔ پر تنقید کے نشتر بھی چلائے ہیں۔
۔ان کی شاعری میں نفس کی پاکیزگی،فکر و نظر کی صفائی اور ذہن و قلب کی تطہیر کا جو سامان پایا جاتا ہے یقینا و ہ ہر ہر لحاظ سے لائقِ تحسین ہے۔
۔محسنؔ کی شعری کائنات ،فکری پاکیزگی ،بلند نگاہی،ندرتِ بیان اور نادر تشبیہات و استعارات،پیکر اور ترکیب سازی کی وجہ سے ایک خصوصی اور انفرادی اہمیت کی حامل ہے۔
مذہبی موضوعات پر لکھنے والوں میں محسنؔ گالباً سب سے زیادہ نفیس لکھنے والے ہیں۔ان کااسلوب نہایت دل کش اور پُر لطف ہے۔اس میں سادگی کے باوجود حُسن اور شاعرانہ لطافتیں موجود ہیں۔مذہبی نظموں میں یہ لطفِ گویائی کم شاعروں کے حصے میں آیا ہوگا۔’چراغِ کعبہ،صبحِ تجلی‘ دونوں محسن کے شاہ کار ہیںان میں تغزل کے اشاروں کنایوں سے بڑا لطف پیدا کیاگیا ہے
شاعرانہ لطافت، نادر تشبیہات و استعارات، علمی و ادبی اصطلاحات و تلمیحات، شاعرانہ پیکر تراشی ، نئی نئی ترکیب سازی، عربیت کی آمیزش اورہندی و ہندوستانی عناصر کے ساتھ فارسیت کے گہرے رچاو کی وجہ سے اس قصیدہ کواردو شاعری کا شاہ کار قرار دیا گیا ہے
سب سے اعلا تری سرکار ہے سب سے افضل
میرے ایمانِ مفصل کا یہی ہے اجمل
حضرت محسنؔ نے اس قصیدہ میں اردو کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی کی لفظیات کو برتا ہے اور اس کی زیریں رَو میں ہندوستانی رنگ و آہنگ نمایاں نظر آتا ہے ۔محسنؔ نے خالص ہندوستانی تشبیہات و استعارات کا سہارا لیا ہے ۔لیکن کہیں بھی نعت کی طہارت و پاکیزگی مجروح نہیں ہوئی ہے ۔کچھ لوگوں نے اس قصیدے کو ہندوانہ تہذیب و تمدن کا آئینہ دار بتاتے ہوئے محسنؔ پر تنقید کے نشتر بھی چلائے ہیں۔
۔ان کی شاعری میں نفس کی پاکیزگی،فکر و نظر کی صفائی اور ذہن و قلب کی تطہیر کا جو سامان پایا جاتا ہے یقینا و ہ ہر ہر لحاظ سے لائقِ تحسین ہے۔
No comments:
Post a Comment