Saturday, 6 September 2014

اکستان بن گیا۔۔۔۔۔لیگی رہنما کراچی دارلحکومت جا چُکے تھے۔مشرقی پنجاب میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی۔بڑے چچا اس صدمے میں جیسے نڈھال سے ہوگئے تھے۔بیٹھک میں بیماروں کی طرح وہ ہر ایک سے پوچھتے رہتے : یہ کیا ہورہا ہے ؟؟؟؟
یہ کیا ہوگیا ؟؟؟؟؟
جب وہ یہ سب کچھ عالیہ سے پوچھتے،تو وہ اُن کا سر سہلانے لگتی۔بڑے چچا آپ آرام کیجئے،آپ تھک گئے ہیں بڑے چچا، اور بڑے چچا اس طرح آنکھیں بند کرلیتے جیسے خون کی ندی اِن کی آنکھوں کے سامنے بہہ رہی ہو۔
کریمن بوا فساد کی خبریں سُن سُن کر ٹھنڈی آہیں بھرا کرتیں اپنے شہر میں فساد تو نہ ہوا تھا مگر سب کی جان پر بنی رہتی تھی کہ پتا نہیں کب کیا ہوجائے۔
کہاں ہوگا میرا شکیل ؟؟؟؟؟؟ بمبئی میں فساد کی خبر سُن کر بڑی چچی بلکنے لگیں۔
تمہارا پاکستان بن گیا جمیل،تمہارے ابّا کا مُلک آزاد ہوگیا ،پر میرے شکیل کو اب کون لائے گا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟
سب ٹھیک ہو جائے گا امّاں ،وہ خیریت سے ہوگا۔یہ فساد وساد تو چار دن میں ختم ہوجائیں گے،جمیل بھیا اِن کو سمجھاتے مگر اِن کا چہرہ فق رہتا۔
شام کو سب لوگ خاموش بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ ماموں کا خط آ گیا۔اُنہوں نے امّاں کو لکھا تھا کہ اُنہوں نے اپنی خدمات پاکستان کے لئے وقف کردی ہیں اور وہ جلد ہی جا رہے ہیں۔اگر آپ لوگوں کو چلنا ہو تو فوراً جواب دیجئے اور تیار رہیئے۔
بس ابھی تار دے دو جمیل میاں،ہماری تیاری میں کیا لگے گا،ہم تو بس تیار بیٹھے ہیں،ہے ! اپنا بھائی ہے بھلا ہمیں اکیلا چھوڑ سکتا ہے ؟؟؟مارے خوشی کے امّاں کا منہ سرخ ہورہا تھا۔
جمیل بھیا نے اس طرح گھبرا کر سب کی طرف دیکھا جیسے فساد اِن کے دروازے پر پہنچ گئے ہوں،مگر آپ کیوں جائیں گی چھوٹی چچی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
آپ یہاں محفوظ ہیں۔۔۔۔۔میں آپ کے لئے اپنی جان دے دوں گا،اُنہوں نے آج بڑی مدّت بعد عالیہ کی طرف دیکھا،کیسی سفارشی نظریں تھیں ،مگر عالیہ نے اپنی نظریں جُھکا لیں۔
میں نہ جاؤں تو کیا ہندوؤں کے نگر میں رہوں،پاکستان میں اپنوں کی حکومت تو ہوگی،پھر میں اپنے بھائی کو چھوڑ کر ایک منٹ زندہ نہیں رہ سکتی۔۔۔۔واہ،مارے خوشی کے امّاں سے نچلا نہ بیٹھا جارہا تھا۔
عالیہ جانے پر راضی نہیں ہوگی چھوٹی چچی،وہ نہیں جائے گی،وہ جا ہی نہیں سکتی،جمیل بھیا نے جیسے نیم دیوانگی کے عالم میں کہا۔
تم اچھے حقدار آگئے،کون نہیں جائے گا۔۔۔۔۔امّاں ایک دم بھپر اُٹھیں۔
تم ہوتے کون ہو روکنے والے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ضرور جائیے چھوٹی چچی،جمیل بھیا نے سر جھکا دیا ،اور عالیہ کو ایسا محسوس ہوا کہ وہ نہیں جاسکتی،صدیاں گزر جائیں گی مگر وہ یہاں سے ہِل بھی نہ سکے گی۔
میں ابھی تار کئیے دیتا ہوں کہ سب تیار ہیں،جمیل بھیّا اُٹھ کر باہر چلے گئے۔
عالیہ کا جی چاہا کہ وہ چیخ چیخ کر اعلان کرے کہ وہ نہیں جائے گی،وہ نہیں جا سکتی،اُسے کوئی نہیں لے جا سکتا مگر اُس کے گلے میں تو سینکڑوں کانٹے چبھ رہے تھے ،وہ ایک لفظ بھی نہ بول سکی ،اُس نے ہر طرف دیکھا اور پھر نظریں جھکا لیں،مگر وہ کیوں رکے کس کے لئے؟؟؟اُس نے سوچا اور پھر جیسے بڑی سکون سے چھالیہ کاٹنے لگی۔عالیہ بیگم اگر تم رہ گئیں تو ہمیشہ کے لئے دلدل میں پھنس جاؤ گی۔
کریمن بوا !!!!!!!! اگر سب لوگ چائے پی چکے ہوں تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسرار میاں نے بیٹھک سے آواز لگائی اور کریمن بوا آج تو ڈائنوں کی طرح چیخنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ارے کوئی تو اسرار میاں کو بھی پاکستان بھیج دو،سب چلے گئے،سب چلے جائیں گے،مگر یہ کہیں نہیں جاتا۔
بیٹھک میں اسرار میاں کے کھانسنے کی آواز آئی اور پھر خاموشی چھا گئی۔
کیا تم سچ مُچ چلی جاؤ گی چھوٹی دلہن ؟؟؟؟؟بڑی دیر تک چپ رہنے کے بعد بڑی چچی نے پوچھا۔
ظاہر ہے چلی جاؤں گی، اماں نے رکھائی سے جواب دیا۔
یہ گھر تمہارا ہے چھوٹی دلہن ،مجھے اکیلے نہ چھوڑو،بڑی چچی نے ڈبڈبائی ہوئی آنکھیں بند کر لیں،شائد وہ تنہائی کے بھوت سے ڈر رہی تھیں۔
عالیہ جیسے پناہ ڈھونڈنے کے لئے اوپر بھاگ گئی،دھوپ پیلی پڑ کر سامنے کے مکان کے اونچی دیوار پر چڑھ گئی تھی،ہائی اسکول کے احاطے میں بسیرا لینے والے پرند مسلسل شور مچائے جا رہے تھے۔
کُھلی فضا میں آکر اُس نے اطمینان کی سانس لی ،اور مسافروں کی طرح ٹہل ٹہل کر سوچنے لگی کہ اب کیا ہوگا،شائد اچھا ہی ہو،وہ یہاں سے جاکر ضرور خوش رہے گی۔
جب وہ نیچے اُتری تو سب اپنے اپنے خیالوں میں مگن بیٹھے تھے،صرف کریمن بوا جانے کس بات پر بُڑبُڑا رہی تھیں اور پُھرتی سے روٹیاں پکاتی جا رہی تھیں۔
جمیل بھیا کہاں گئے ،وہ اب تک کیوں نہیں آئے،عالیہ نے سونی کرسی کی طرف دیکھا ،جانے یہ سرپِھرا آدمی اِسے یاد کرے گا یا بھول جائے گا۔اُس نے اپنے آپ سے پوچھا۔
لالٹین کی بتّی خراب تھی اس لئے اُس میں دو لویں اُٹھ رہی تھیں اور ایک طرف سے چمنی سیاہ ہوگئی تھی،مدّھم روشنی میں اماں بڑی چچی اور کریمن بوا کے چہرے بگڑے بغرے لگ رہے تھے۔
جمیل بھیا گھر میں داخل ہوئے اور اپنی کرسی پر بیٹھ گئے،میں تار کر آیا ہوں چھوٹی چچی،اُنہوں نے دھیرے سے کہا۔
تم اتنی دیر باہر نہ رہا کرو ،شام سے گھر آجایا کرو،جانے کب یہاں بھی گڑ بڑ ہو جائے،بڑی چچی نے کہا۔
رہنا تو پڑتا ہے،مسلمان ڈرے ہوئے ہیں،اُنہیں سمجھانا ہے کہ وہ یہاں ڈٹ کر رہیں اور یہاں کی فضا کو پُر امن رکھیں گھر بیٹھ کر تو کام نہ چلے گا۔
توبہ اب ملک آزاد ہو گیا تو یہ کام شروع ہوگئے ،خیر مجھے کیا ، تم نے تار پر پتہ ٹھیک لکھا تھا نا ؟؟اماں نے پوچھا۔
آپ اطمینان رکھیں ، پتہ ٹھیک تھا۔
خیر سے ہم تو پاکستان جا رہے ہیں،مگر اب تم اپنے گھر کی فکر کرو جمیل میاں،کیا بری حالت ہوچکی ہے۔اپنی ماں کی طرف بھی دیکھو،اماں نے ہمدردی سے بڑی چچی کی طرف دیکھا۔
کون جا رہا ہے پاکستان ؟؟؟؟؟بڑے چچا نے صحن میں قدم رکھتے ہی بوکھلا کر پوچھا،اُنہوں نے اماں کی باتیں سُن لیں تھیں۔
میں اور عالیہ جائیں گے ،اور کس نے جانا ہے۔اماں نے تڑاق سے جواب دیا۔
کوئی نہیں جاسکتا،میری اجازت کے بغیر کوئی قدم نہیں نکال سکتا،کس لئے جاؤ گے پاکستان ؟
یہ ہمارا ملک ہے ،ہم نے قُربانیاں دی ہیں،اور اب ہم اسے چھوڑ کر چلے جائیں ؟
اب تو ہمارے عیش کرنے کا وقت آرہا ہے،بڑے چچا سخت جوش میں تھے۔
ماشا اللہ آپ بڑے حق دار بن کر آگئے،نہ کِھلانے کے نہ پِلانے کے،کون سا دُکھ تھا جو یہاں آکر نہیں جھیلا۔میرے شوہر کو بھی آپ ہی نے چھین لیا،آپ ہی نے اُنہیں مار ڈالا،میری لڑکی کو یتیم کردیا اور اب حق جتا رہے ہیں،مارے غصّے کے اماں کی آواز کانپ رہی تھی۔
کریمن بوا ! میرا کھانا بیٹھک میں بھجوا دو۔بڑے چچا سر جُھکا کر بیٹھک میں چلے گئے۔
کیا آپ چلنے سے پہلے بڑے چچا کو یہی بدلہ دینا چاہتی ہیں ؟؟؟؟
بڑے چچا نے کسی کو تباہ نہیں کیا،بڑے چچا نے کسی کو دعوت نہیں دی تھی کہ آؤ میرا ساتھ دو۔آپ آج اچّھی طرح سُن لیں کہ مجھے بڑے چچا سے اتنی ہی محبت ہے جتنی ابّا سے تھی،عالیہ نے کھانا چھوڑ دیا اور ہاتھ دھو کر بیٹھک میں چلی گئی۔
امّاں کیا کہتی رہ گئیں اُس نے ذرا بھی نہ سُنا۔
کیا تم سچ مُچ جا رہی ہو بیٹی ؟؟؟؟؟؟
ہاں بڑے چچا، امّاں جو تیار ہیں۔اُس نے جواب دیا۔
بڑے چچا میں تو امّاں کا واحد سہارا ہوں،میں اُنہیں کس طرح چھوڑ دوں،وہ ضرور جائیں گی مگر آپ کو نہیں معلوم کہ یہ گھر چھوڑ کر میں کس طرح تڑپوں گی ،
آپ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ دونوں ہاتھوں میں منہ چھپا کر سسکنے لگی۔
چھوٹی دلہن کو مجھ سے سخت نفرت ہے ٹھیک ہے،میں نے تم لوگوں کے لئے کچھ بھی نہ کیا،مگر اب وقت آیا تھا کہ اس گھر میں پہلی سی شادمانی لوٹ آتی،مجھے بڑی اچھی ملازمت دی جا رہی ہے،پھر دکانوں کو چلانے کے لئے دس پندرہ ہزار کی امداد بھی ملنے کی توقع ہے۔میں چھوٹی دلہن کی سب شکائیتں رفع کر دوں گا۔
اُنہوں نے عالیہ کو پیار سے تھپکا۔۔۔۔۔
کیا گھر میں تیل ختم ہوگیا ہے ؟؟؟
لالٹین کی روشنی مدّھم ہوتی جارہی ہے،اب انشااللہ تھوڑے دنوں میں بجلی کا کنکشن بحال کرالوں گا،اور اب تم ایم۔اے میں داخلہ کیوں نہ لے لو،میرا خیال ہے تم اگلے سال ضرور داخلہ جمع کروادو۔
عالیہ کا کلیجہ کٹ رہا تھا،آنسو پونچھ کر وہ خاموش بیٹھی رہی۔جی ہی جی میں گُھٹ رہی تھی مگر ایک لفظ نہ بول سکی۔
خدا آپ کو سُکھ دے بڑے چچا،خدا آپ کے سارے سہانے خواب پورے کرے،وہ دل ہی دل میں دعا مانگ رہی تھی۔
وہ بڑے چچا سے کس طرح کہتی کہ وہ تو یہاں سے خود بھاگ جانا چاہتی ہے۔
اسرار میاں بیٹھک میں داخل ہونے کے لئے پٹ کھول رہے تھے،عالیہ اُٹھ کر صحن میں آ گئی۔
امّاں اور بڑی چچی جانے کیا باتیں کر رہی تھیں،جمیل بھیّا اب تک کرسی پر بیٹھے انگلیاں مروڑ رہے تھے۔وہ ایک لمحے تک آنگن میں کھڑی رہی اور پھر اوپر چلی گئی۔
شبنم سے بھیگ کر رات بڑی روشن ہو رہی تھی،چاند جیسے وسط آسمان پر چمک رہا تھا اور روز کی طرح آج بھی قریب کی کسی چھت پر گراموفون ریکارڈ بج رہے تھے۔
" تیری گٹھری میں لاگا چور۔۔۔مسافر جاگ ذرا۔۔۔۔۔
وہ آہستہ آہستہ ٹہلنے لگی،کیسی عجیب حالت ہو رہی تھی،جیسے سوچنے سمھجنے کی ساری صلاحیت کسی نے چھین لی ہو۔
کیا یہ میں ہوں۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اُس نے اپنے آپ سے پوچھا،اور پھر اپنی آواز سُن کر حیران رہ گئی۔۔۔۔۔۔حد ہے دیوانگی کی،وہ کس سے پوچھ رہی تھی۔
ٹہلتے ٹہلتے وہ ایک بار مُڑی تو جمیل بھیّا بُت کی طرح بے حس و حرکت کھڑے تھے،وہ اور تیزی سے ٹہلنے لگی ،اب یہ کیا کہنے آئے ہیں ،اِنہوں نے اپنا وعدہ بھلا دیا۔
کیا سچ مُچ تم نے جانے کا فیصلہ کر لیا ہے ؟؟؟؟ اُنہوں نے پوچھا۔
ہاں ! اس نے ٹہلتے ہوئے جواب دیا۔
تم یہاں سے جاکر غلطی کرو گی،تم نے ایک بار کہا تھا کہ دور رہ کر یادیں بہت اذیت ناک ہوجاتی ہیں،میرا خیال ہے کہ تم وہاں خوش نہ رہو گی۔
میں ہر جگہ خوش رہوں گی،مگر آپ نے تو وعدہ کیا تھا کہ آپ مجھ سے کبھی کچھ نہ کہیں گے۔
میں کیا کہہ رہا ہوں ۔؟؟؟؟؟؟؟؟
کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔۔
تم میری مقروض ہو،یاد رکھنا تم کو یہ قرض چُکانا ہوگا۔وہ جانے کے لئے مڑے، "تم وہاں خوش رہو گی ناں “؟؟؟؟
اُنہوں نے رک کر پوچھا۔۔۔۔۔۔
وہ چپ رہی،جمیل بھیّا تھوڑی دیر کھڑے رہے اور پھر چلے گئے اور اس نے محسوس کیا کہ اِس وقت وہ سب کچھ کھو بیٹھی ہے۔
بڑی دیر تک یونہی ٹہلنے کے بعد جب وہ تھک گئی تو چھمّی کو خط لکھنے بیٹھ گئی

No comments:

Post a Comment