Wednesday, 10 September 2014

انشائيے کے سلسلے ميں اہم بات يہ ہے کہ ناول، افسانہ يا مضمون کے برعکس انشائيے کا انداز غير رسمي ہوتا ہے- انشائيے کو اگر کسي خاص ترتيب کا پابند بنانے کي کوشش کي جائے تو اس کي انفراديت مجروح ہو گي- شگفتگي اور تازگي انشائيے کي بنيادي صفت ہے- عموما ہر نثر پارہ اپني حيثيت ميں مکمل ہوتا ہے- مگر انشائيے ميں اکثر اوقات عدم تکميل کا احساس ہوتا ہے-انشائيہ نگار، مضمون نويس کے برعکس کوئي حتمي نتيجہ نہيں نکلتا- انشائيہ مائل بہ اختصار ہے-
 انشائيے کے موضوعات ميں بڑا تنوع ہے- انشائيہ لکھنے والے کي شخصيت اور اس کے داخلي تاثرات کا ترجمان ہے- انشائيہ در حقيقت شخصي اور غير شخصي يا داخلي اور خارجي پہلوؤ ں  کا سنگم ہے- انشائيہ نگار کسي مقصد يا اصلاح کي خاطر قلم نہيں اٹھاتا وہ کوئي نتيجہ اخذ کرتا ہے اور نہ کوئي مشورہ ديتا ہے-
اس کا انداز غير رسمي ہے- شگفتگي اور تازگي، اکثر اوقات نا مکمل باقي رہتا ہے- حتمي نتيجہ نہيں نکلتا ہے- مائل بہ اختصار ہے- انشائيہ در حقيقت شخصي اور غير شخصي يا داخلي اور خارجي پہلوğ کا سنگم ہے- انشائيہ نگار کا مقصد اخذ نتيجہ يا مشورہ دينا نہيں-
 انشائيہ کا موجد ايک فرانسيسي موجد "مونتين" ہے- اس کے تتبع ميں انگريزي انشائيے کا آغاز ہوا-
 ڈاکٹر وزير آغا کے انشائيوں کے دو مجموعے " خيال پارے" (اشاعت کا آغاز 1916ء) اور "چوري سے ياري تک" شايع ہو  چکے ہيں-

No comments:

Post a Comment