مکالمہ نگاری
فنی نقطہ نظر سے مکالمہ نگاری بھی ایک اہم خصوصیت سمجھی جاتی ہے۔ ناول نگار نے کہیں تو اس ناول کو پیش کرنے میں بیانیہ انداز اپنایا ہے۔ اور کہیں اس کے ساتھ ساتھ فن مکالمہ نگاری کو بھی نبھایا ہے۔ مکالمہ نگاری کرتے وقت خدیجہ مستور نے کردار وں کی ذہنی حیثیت و کیفیت کا خوب خیال رکھا ہے ان کے لکھے ہوئے سبھی مکالمےکرداروں کی شخصیت پسند و ناپسند اور محبت و نفرت کی بھر پور عکاسی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مثا ل کے طو ر پر کسم دیدی کا خاوند وطن کی کی آزادی کے لئے لئے قربان ہو جاتا ہے۔ تو کسم دیدی عالیہ کہ ماں سے کہتی ہے۔” انھیں اگرمجھ سے محبت ہوتی تو کبھی نہ جاتے۔ انہیں توصرف اپنے دیش سے محبت تھی۔“
اس طرح مسز ہاروڈ کی گلابی اردو سے بھی انداز ہ ہوتا ہے کہ واقعی کوئی انگریز خاتون بول رہی ہے۔ یہی وہ مقام ہے کہ جہاں اس ناول کے مکالمے انتہائی فطری معلوم ہونے لگتے ہیں۔ مثال کے طور پر
”ہم آپ لوگوں سے مل کر بہت کھوش ہوا ہے۔“
”تم ہمارے پاس بیٹھنا مانگتا عالیہ“
اس کے علاوہ غصے کی وجہ سے فطری ضرورت کے تحت غصیلے کردار ایک دوسرے کے مقام کا پاس نہیں رکھتے مثلاً جب بڑی چچی کہتی ہے
” ارے اس کے بابا کو ہوش ہی کہاں ، جو اس کے دو بول پڑھا کر ٹھکانے لگا دے۔“
تو چھمی یوں جواب دیتی ہے۔
” جسے شوق ہو وہ خود اپنے دو بول پڑھوالے۔“
اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ مجموعی طور پر ناول آنگن میں ہر کردار ی گفتگو موقع و محل کے مطابق ہے۔ کرداروں کا ایک ایک لفظ ان کی نفسیاتی کیفیت اور ذہنی حیثیت کے عین مطابق ہے۔چنانچہ ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اس ناول کی مکالمہ نگاری فطری تقاضوںسے میل کھاتی ہے۔
پلاٹ
ناول کے پلاٹ پر غور کیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ناول کا پلاٹ بھی فنی اصولوں کے عین مطابق ترتیب دیا گیا ہے۔ جیسا کی ناول کی پوری کہانی قصہ در قصہ ہونے کے ساتھ ساتھ زنجیر کی کڑیوں کی طرح باہم منسلک ہے۔ سبھی حالات و واقعات یکے بعد دیگرے ایک تسلسل کے ساتھ رونما ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس طرح ناول کے پلاٹ میں ایک خاص طرح کا ربط و ضبط پیدا ہو گیا ہے۔ پورے پلاٹ میں کوئی قصہ فالتو یا بے جادکھائی نہیں دیتا۔ پلاٹ کا فنی کمال یہ ہے کہ اگر اس میں کوئی چھوٹا سا واقعہ بھی نکال دیا جائے تو پوری کہانی ایک خلاءاور خلیج کا شکار ہو کر رہ جائے گی۔ہر واقعے کا اپنی جگہ حسب ضرورت ہونا اس ناول کے پلاٹ کی ایک اہم فنی خصوصیت ہے جو ناول نگار کی فہم و فراست اور فن کاری و پرکاری کا نتیجہ ہے۔ فنی لحاظ سے یہ ایک انتہائی ا ہم اور بنیادی خوبی سمجھی جاتی ہے۔منظر نگاری
منظر نگاری کو بھی فنی حیثیت سے کسی بھی کہانی میں ایک بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس ناول میں قدرتی منظر کشی نہ ہونے کے برابر ہے۔ صرف سامنے والے درختوں سے الو کے بولنے کی آواز آتی رہتی ہے۔ اور درختوں کے جھنڈ قدرتی منظر کی ایک جھلکی سی پیش کر دیتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ایک موقعے پر رات کے وقت آسمان پر چاند چمک رہا ہے اور ایسے میں پرندے اڑ رہے ہیں۔ جو کہ ایک نامکمل اور قابل گرفت منظر ہے کہ رات کے وقت پرندے کب اُڑتے ہیںاسلوب
ناول نگار نے انتہائی سادہ اور سلیس اندازِ بیان اختیار کرتے ہوئے ناول کی عبارت کو دلکش اور دلچسپ بنا دیا ہے پورے ناول کے شروع سے لے کر اخر تک ایسے مشکل الفاظ بالکل نظرنہیں آتے جو ذہن پر بوجھ کا سبب بنتے ہوں۔ ناول کی عبارت سادہ اور سلیس ہونے کے باعث رواں دواں ہے۔ یہی وہ روانی ہے جس کے نتیجے میں ناول دل آویزی کی حد تک دلکشی اور دلچسپی سے ہمکنار ہوا ہے۔ ناول نگارنے بیچ بیچ میں طنزیہ و مزاحیہ انداز بیا ن اختیار کرتے ہوئے سونے پر سہاگے کا کام کیا ہے مثال کے طور پر چھمی ایک موقعے پر کہتی ہے ۔” اے ہے کلو کی اماں ایک لڑکا تھا نا مزدوروں کی کسی جماعت میں چلا گیا وہ جماعت انڈر گرائونڈ رہتی ہے اللہ وہ زمین کے اندر کیسے رہتے ہوگے۔“
تجسّس وجستجو
فن کے پیش نظر تجسّس اور جستجو کے عناصر بھی کہانی کے لئے انتہائی ہیں۔ مذکورہ ناول میں یہ عناصر خوب زوروں پر ہیں۔ شروع سے لے کر آخر تک تجسّس کی ایک برقی رو ۔ دوڑتی محسوس ہوتی ہے۔ پڑھنے والا قدم قدم پر سوال اٹھاتا رہتا ہے کہ اب کیا ہوگا؟ مظہر چچا جب جیل چلے جاتے ہیں تو ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ بڑے چچا کے گھر میں عالیہ اور اس کی اماں کس طرح گزارہ کر یں گے۔ کیا مظہر چچا کوقید ہو جائے گی یا رہا ہو کر واپس آجائیں گے۔ تہمینہ اور صفدر ایک دوسرے کو پالیں گے۔ یا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کھو دیں گے۔ صفدر کبھی واپس آئے گا یا نہیں۔ تہمینہ کی شادی جمیل کے ساتھ ہوگی کہ نہیں؟مگر جب تہمینہ خودکشی کر لیتی ہے توہمیں ان سوالوں کے جواب خود بخود مل جاتے ہیں ۔ اس طرح کسم دیدی کا واقعہ ہو۔ شکیل کا گھر سے بھاگ جانا ہو چھمی کی طلاق ہو کانگرس اور مسلم لیگ کے جلسے جلوس ہوں یا ہندو مسلم فسادات سبھی حالات و واقعات اپنے اندر بے پنا ہ تجسّس لئے ہوئے ہیں جن سے ناول کی دلچسپی اور دلکشی میں بھر پور اضافہ ہوا ہے۔مجموعی طور پر ناول ”آنگن “فنی لوازمات کے تقاضوں پر پورا اترتا ہے۔ چنانچہ ہم اسے ایک کامیاب ناول قرار دے سکتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment