Thursday, 25 September 2014


یوں تو احمد ندیم قاسمی مختلف اصناف ادب کی تحقیق اور تخلیق میں مصروف رہے جن میں نظم ، غزل ، افسانہ ، کالم نویسی ، بچو ں کی کتابیں ، تراجم ، تنقید اور ڈرامے وغیرہ شامل ہیں ۔لیکن زیر نظر مضمون میں صرف ان کے فن ِ افسانہ نگاری پر بحث ہو گی۔ اگرچہ کوئی بھی ادبی تخلیقی شخصیت مختلف اصناف کی تخلیق میں اظہار اور موضوعات کے کچھ بنیادی رنگوں کو اہمیت دیتی ہے۔ تاہم ادب کی ایک آدھ صنف ہی ایسی ہوتی ہے جس میں صاحبِ تحریر اپنے تخلیقی یا نفسیاتی پس منظر کے حوالوں سے اظہار کی مناسب سہولت محسوس کرتا ہے۔ لیکن نثری ادب میں افسانہ ہی وہ واحد صنف ہے جس میں ندیم کا قلم جولانیِ طبع کے امکانات روشن کرتا ہے۔انہوں افسانوں کے کئی مجموعے تخلیق کیے آئیے ان کے فن اور فکر کی خصوصیات کا جائزہ لیتے ہیں۔

پنجاب کی دیہاتی زندگی:۔

احمد ندیم قاسمی کو خصوصی طور پرپنجاب کی دیہاتی زندگی کا عکاس افسانہ نگار کہا جاتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ دیہی پس منظر میں لکھے گئے ندیم کے افسانے ہمارے دیہاتی زندگی، وہاں کی طرز معاشرت ، رہن سہن، طبقاتی نظام ، معصومیت اور الہڑ پن کے دلکش جیتے جاگتے مرقعے ہیں۔ اردو میں پنجاب کے دیہات کے پس منظر میں اس سے خوبصوررت کہانیاں اور کسی نے نہیں لکھیں۔ شاید اس کی بنیادی وجہ ندیم کا شعور اور لاشعور ہے جس میں زندگی کے حوالے سے تمام بنیادی خدوخال دیہات ہی کے پس منظر سے متعلق ہیں۔چونکہ ندیم کی پیدائش دیہات میں ہوئی اس کا بچپن اور لڑکپن گائوں ( انگہ) میں گزرا ۔ یہیں اس کے کچے پکے جذبات پروان چڑھے ، اسی مٹی کی مہک اُسے اپنی رگوں میں اترتی محسوس ہوئی۔ دیہات ہی کی سادگی کا بے ساختہ پن ندیم کے لب و لہجہ کی پہچان بنا اور یہی فضا ہے جس کی گرفت سے وہ دیہاتی سے شہری بن جانے کے باوجود باہر نہیں نکل سکا۔

زندگی اور معاشرے کا شعور:۔

دراصل جس زندگی سے افسانہ نگار کی واقفیت درست اور براہ راست ہو اسے اپنے تخیل میں خام مواد کے طور پراستعمال کرنا سونے پر سہاگے کے مترادف ہوتا ہے۔ یہاں ایک بات یہ بھی کہی جا سکتی ہے کہ ندیم نے ممکن ہے متوسط یا دیہات کی زندگی کا انتخاب یہ سوچ کر کیا ہو کہ متوسط یا زیادہ تر نچلے طبقوں کی زندگی میں جو زمین میں اپنی جڑیں مضبوط رکھتے ہیں اور مٹی سے جن کا ناتا بڑ بھر پور ہوتا ہے بنیادی انسانی محرکات کا مطالعہ جس بے ساختگی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے اتنا شاید ان لوگوں کے حوالے سے ممکن نہ ہو جو اپنی فطرت ِ انسانی کو مصنوعی تہذیب ، معاشرت کا لبادہ پہنا دیتے ہیں اور یوں ان کا مصنوعی پن ان کے رہن سہن کے تمام بنیادی رویے مصنوعی بنا دیتا ہے۔اگرچہ منافقت کے حوالے سے مختلف کرداروں پر لکھے گئے ندیم کے افسانوں کے بنیادی موضوعات وہ معاشرتی قدغنیں ہیں معاشی ناہمواریاں ہیں جو ہماری زندگی میں قدم قدم پر موجود ہیں اور بھیس بدل بدل کر ہمارا استحصال کرتی ہیں انہی کی وجہ سے ظلم و انتقام کی بے شمار شکلیں ہمارے سامنے آتی ہیں اور سیاست و مذہب کے ٹھیکیدار اپنے مفادات کی بقا کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ کر ان فاصلوں کو ہوا دیتے رہتے ہیں۔

وسعت نظر:۔

ادیب کا کام اپنے دور کی زندگی کی ترجمانی اپنے دور کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر عہد کے لیے کرنا ہوتی ہے۔ افسانے ”ہیرو شیما سے پہلے۔ ہیرو شیما کے بعد“ میں ہیرو شیما پر بم گرا کر جاپانیوں کو شکست دینا دوسری عالمگیر جنگ کا شدید ترین واقعہ تھا لیکن ندیم صرف اس واقعے کے حوالے سے نہیں بلکہ پوری جنگ کے پس منظر میں اس کا اثر پنجاب کے دیہات کی زندگی پر دکھاتا ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے پنجا ب کے گمنام سے گھرانے میں جو انقلاب آیا وہ ساری جنگ کی اشاراتی ترجمانی کرتا ہے۔ اس کی ہولناکیوں کا غماز ہے۔ معلوم ہوتا ہے جنگ کا ایک ایک لمحہ ایک ایک واقعہ گائوں کی زندگی میں رچ بس گیا ہے اور صدیوں سے روایت کے ایک ہی محو ر پر زندگی گزارنے والا یہی معاشرہ کشمکش اور تذبذب کا شکار ہو گیا ہے۔ بے یقینی کی کیفیت لہجوں میں جنم لینے لگی ہے۔ ہیرو کا باپ گزرتے لمحوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش رکھنے والا، غربت کے حصار سے نکلنے کے خواب دیکھنے والا۔ہیرو کی غیر موجود گی میں اپنے فطری تقاضوں سے شکست کھانے والی اور دوسرے مرد کے ساتھ بھاگ جانے والی ہیرو کی بیوی اور خود ہیرو وقت کے ساتھ انسان کی تذلیل اور برباد ہونے والی انسانیت کی ایک علامت ۔

فسادات:۔

ندیم کے افسانوں کا ایک اہم موضوع وہ فسادات ہیں جو تقسیم ہند کے موقعے پر رونما ہوئے اور جن کے پس منظر میں ظلم ، جبر ، درندگی اور بربریت کی ایسی ایسی داستانیں پنہاں ہیں جن سے انسانیت کی تذلیل تکمیل تک پہنچی اورانسانی فطرت و ذہنیت کے انتہائی پست پہلو سامنے آئے ۔ یہ موضوع ایسا ہے جس نے اردو افسانے کو ایک نئی جہت سے روشناس کرایااور اردو کے تقریباً سبھی قدآور افسانہ نگاروں نے اس موضوع کو مثبت یا منفی حوالوں سے برتا ۔ ندیم نے ان واقعات کے پس منظر میں جو افسانے لکھے وہ اس حوالے سے بڑے اہم ہیں کہ ان میں جانبداری نہیں برتی گئی۔ ندیم اس سچائی کا ادراک رکھتے ہیں کہ اچھے برے لوگ معاشرے کے تمام طبقوں میں ہوتے ہیں او رکوئی بھی قوم بہ حیثیت مجموعی ساری کی ساری ظالم یا مظلوم نہیں ہوتی۔ زیادہ تر انفرادی رویے ہوتے ہیں جن کے پس منظر میں انسان کی محرومیاں، ناکامیاں یا نفسیات کی کارفرمائی ہوتی ہے۔ اسی لیے ندیم نے اس حقیقت کے باوجود کہ اسے اپنی مٹی کی خوشبو عزیز ہے اسے اپنی پاکستانیت پر فخر ہے۔ فسادات کے حوالے سے افسانے لکھتے ہوئے چھوٹی چھوٹی جزئیات پیش کرنے میںاپنی جذباتیت کو غالب نہیں آنے دیا اور ایک بالغ النظر ادیب کے طور پر اپنے فرائض سے روگردانی نہیں کی۔

غیر جانبداری:۔

فسادا ت کے موضوع پر لکھتے ہوئے بہت سے اہل قلم صرف تصویر کا ایک رخ بےان کرتے ہیں۔ پاکستا ن سے تعلق رکھنے والوں نے غیر مسلموں کے ظلم و تشدد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور ہندوستان کے لکھاریوں نے مسلمانوں کو اس بربریت کا ذمے دار ٹھہرایا اور ا س نکتہ نظر سے لکھے گئے بہت سے افسانے جانبداری اور رواداری کی گر د میں ہمیشہ کے لیے گم ہو گئے۔ تاہم منٹو کے بعد ندیم و ہ اہم افسانہ نگار ہیں جس نے اپنے افسانوں میں یہ بات کہنے کی کوشش کی ہے کہ یہ حالات ہوتے ہیں جو کسی بھی قوم یا کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو مطمئن یا مشتعل کر سکتے ہیں اور یہ کہ انسان دوستی کے عناصر آفاقی ہیں یہ صرف مسلمانوں ، ہندوئوں ، سکھوں، عیسائیوں تک محدود نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں اُ ن کا افسانہ ”پرمیشر سنگھ“ بہت ہی اہم ہے۔

انسانی نفسیات سے آگاہی:۔

ندیم نے اپنے افسانوں میں قبائلی دور کے انسان کے انتقام اور رقابت کے اس موضوع کو بھی اپنی تحریروں میں شامل کیا ہے جو معمولی سے جھگڑے، نام نہاد اناپرستی یا جھوٹی غیرت کی بدولت انسانوں کو خاک و خون میں نہلا دینے کا پس منظررکھتا ہے۔ لیکن یہاں بھی ندیم انسانی نفسیات سے آگاہی کا ثبوت دیتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ پتھر سے پتھر دل انسان میں بھی محبت اور رحم کے جذبات ضرور ہوتے ہیں اور کہیں نہ کہیں کبھی نہ کبھی غیر محسوس طریقے سے اپنا اظہار بھی کرتے ہیں۔ نیکی او ر بدی کے جذبات انسانی کردار کی تکمیل کا ایک حوالہ ہیں۔ کوئی انسان مکمل طور پر نیک نہیں ہوسکتا اور کوئی انسان پوری طرح کمینہ نہیں ہوتا۔ انسان صرف انسانہوتا ہے جس میں اچھائی اور برائی کے عناصر اپنی نسبت کے حوالے سے کم و بیش ہوتے رہتے ہیں اور شاید اسی سے انسان کی پہچان ممکن ہوتی ہے ورنہ تو وہ فرشتہ بن جائے یا پھر شیطان کہلائے۔ندیم نے اس موضوع پر جو افسانے لکھے ہیں ان میں انسانی نفسیات سے آگہی اور بیا ن میں فنی گرفت کے تمام عوامل پوری طرح اپنی موزنیت کا احساس دلاتے ہیں اس ضمن میں ان کے مشہور افسانے ”گنڈاسا“ کی مثال دی جاسکتی ہے جس میں ندیم نے ایک بہت ہی نازک لیکن جمالیاتی ، نفسیاتی حقیقت کی ترجمانی کی ہے۔

موضوعات کا تنوع:۔

زندگی کا ہر جذبہ ایک دوسرے سے زنجیر کی کڑیوں کی طرح ملا ہوا ہوتا ہے کوئی جذبہ اپنی ذات میں اکیلا نہیں ہوتا ۔ پھول کی خوشبو میں مٹی کی مہک کے ساتھ ساتھ روشنی کی دھنک اور ہوا کی سرسراہٹ بھی شامل ہوتی ہے۔
ندیم ایسا فنکار ہے جس نے ان نازک جزئیات کو محسوس بھی کیا ہے اور ان کے فنکارانہ اظہار میں اپنے فنی قدو قامت کی بلندی کا ثبوت بھی بہم پہنچایا ہے۔ یہاں ایک اور اہم بات کی وضاحت از حد ضروری ہے کہ کسی بھی افسانہ نگار کے لیے وجہ امتیاز یہ نہیں ہے کہ اس کے یہاں موضوعات ِ زندگی کے تنوع میں سیاست، جمالیات، مذہب اور فلسفی موجود ہے یا نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ ان کی موجود گی یا غیر موجو د گی میں انسانی فکر نظر اور ادراک و تیقن کوکس حد تک وسعت دے سکتا ہے۔ اور اس کا نکتہ نظر میں کتنی انفرادیت ، ہمہ گیری ، توازن اور مرکزیت ہے۔

توازن اور غیر جانبداری:۔

گوپی چند نارنگ نے درست کہا ہے کہ مقصد اور فن کا حسین توازن ندیم کی کامیابی کی ضمانت بن گیا ہے۔ندیم ترقی پسند تحریک کے سرگرم رکن اور عہدیدار بھی رہے ہیں لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اتنا بڑ ا ترقی پسند نہیں جتنا بڑ افنکار ہے۔ اگرچہ اس کی ذہنی و فکری تشکیل میں مارکسزم کا ایک نمایاں کردار ہے ۔ تاہم و ادب میں پروپیگنڈے کی بے اعتدالی کا کبھی شکارنہیں ہوا۔ اس کی جڑیں اپنی مٹی میں بڑی گہری ہیں۔ یوں وہ ایک غیر جانبدار مصنف کے روپ میں ابھر تے ہیں جن کے ہاں نظریے کی آمیزش سے تیار کیے گئے افسانے جابجا نظر آتے ہیں اور دوسری طرف رومان کی حسین فضا اور وطن کی مٹی سے محبت کا حوالہ بھی اُن کے افسانوں کا بنیادی خاصہ ہے۔

مجموعی جائزہ:۔

ندیم کے افسانوں میں زمین اور انسان سے ان کی بے پایاں محبت اور بھی کھل کر سامنے آتی ہے۔ ان کا تخیل پنجاب کی فضائوں میں چپے چپے سے روشناس ہے اور اس نے لہلہاتے کھیتوں ، گنگناتے دریائوں اور دھوپ میں جھلستے ہوئے ریت کے ذروں کو ایک نئی زبان دی ہے ، نئی معنویت عطا کی ہے۔ پنجاب کی رومانی فضاءاور وہاں کے لوگوں کی معصومیت و زندہ دلی ، جرات وجفاکشی اورخدمت و ایثار کی تصویریں ان کے افسانوں میں آخر لازوال ہو گئی ہیں۔ ان کے ہاں غم و غصے ، تعصب و نفرت اور تنگ نظر و تشدد کا شائبہ تک نہیں۔ ہر کہیں مہر و محبت ، خلوص و وفااور صدق و صفا کا سونا چمکتا محسوس ہوتا ہے اوریہی ان کی بڑائی کی دلیل ہے۔

محسن کاکوری ١٨٢٦ کو لکھنو کے ایک قصبے کاکوری میں پیدا هویے.ان کا اصل نام محمد محسن تھا. علوم متداوله کے حصول کے بعد انگریزی تعلیم حاصل کی اور عدالتی کاموں میں مشغول هوگیے. بعد ازاں وکالت کا امتحان پاس کیا اور آگرے میں پریکٹس کرتے رهے

روایت
روایت هے که محسن نو سال کے تھے که انھیں خواب میں رسول الله کی زیارت نصیب هویی جس پر اظهار مسرت کے طور پر انھوں نے ایک فارسی نظم لکھی اور یوں شاعری کا آغاز کیا

شاعری
محسن کاکوروی کا کلام زیاده تر حمدیه اور نعتیه هے.ان کی وجه شهرت بھی ان کا نعتیه کلام هے.ان کا کلام " کلیات نعت محسن" کے نام سے طبع هو چکا هے

محسن کی شاعری مجموعی طور پر زبان دانی کا ایک عمده نمونه هے جس میں عربی، فارسی اور هندی الفاظ کا استعمال کیاگیا هے. ان کی نعتوں میں صداقت اور خلوص موجود هے.ان کا اسلوب شگفته اور رواں دواں هے. دبستان لکھنو سےتعلق کی وجه سے ان کے هاں شوکت الفاظ پای جاتی هے.ان کی زبان کوثر و تسنیم میں دھلی هویی هے. بندشیں چست اور نادروحسیں تشبیهات اور استعارات نے ان کے کلام کو چارچاند لگا دیے هیں

آپ نے ١٩٠٥ میں وفات پایی

محسن کاکوری کے ایک شریف ،دین دار اور تعلیم یافتہ علوی سیّد گھرانے میںپیدا ہوئے ۔فطری اعتبار سے آپ نیک، میقی ،پرہیزگار اور پاکیزہ طبیعت کے حامل تھے ۔دل عشقِ رسول ﷺ سے معطر و معنبرتھا…لہٰذا ن کے قلم سے نکلا ہوا ہرشعر کیف و سرمستی اور سوز وگداز میں ڈوبا ہوا نظر آتاہے

۔محسنؔ کی شعری کائنات ،فکری پاکیزگی ،بلند نگاہی،ندرتِ بیان اور نادر تشبیہات و استعارات،پیکر اور ترکیب سازی کی وجہ سے ایک خصوصی اور انفرادی اہمیت کی حامل ہے۔
مذہبی موضوعات پر لکھنے والوں میں محسنؔ گالباً سب سے زیادہ نفیس لکھنے والے ہیں۔ان کااسلوب نہایت دل کش اور پُر لطف ہے۔اس میں سادگی کے باوجود حُسن اور شاعرانہ لطافتیں موجود ہیں۔مذہبی نظموں میں یہ لطفِ گویائی کم شاعروں کے حصے میں آیا ہوگا۔’چراغِ کعبہ،صبحِ تجلی‘ دونوں محسن کے شاہ کار ہیںان میں تغزل کے اشاروں کنایوں سے بڑا لطف پیدا کیاگیا ہے

شاعرانہ لطافت، نادر تشبیہات و استعارات، علمی و ادبی اصطلاحات و تلمیحات، شاعرانہ پیکر تراشی ، نئی نئی ترکیب سازی، عربیت کی آمیزش اورہندی و ہندوستانی عناصر کے ساتھ فارسیت کے گہرے رچاو کی وجہ سے اس قصیدہ کواردو شاعری کا شاہ کار قرار دیا گیا ہے

سب سے اعلا تری سرکار ہے سب سے افضل
میرے ایمانِ مفصل کا یہی ہے اجمل
حضرت محسنؔ نے اس قصیدہ میں اردو کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی کی لفظیات کو برتا ہے اور اس کی زیریں رَو میں ہندوستانی رنگ و آہنگ نمایاں نظر آتا ہے ۔محسنؔ نے خالص ہندوستانی تشبیہات و استعارات کا سہارا لیا ہے ۔لیکن کہیں بھی نعت کی طہارت و پاکیزگی مجروح نہیں ہوئی ہے ۔کچھ لوگوں نے اس قصیدے کو ہندوانہ تہذیب و تمدن کا آئینہ دار بتاتے ہوئے محسنؔ پر تنقید کے نشتر بھی چلائے ہیں۔
۔ان کی شاعری میں نفس کی پاکیزگی،فکر و نظر کی صفائی اور ذہن و قلب کی تطہیر کا جو سامان پایا جاتا ہے یقینا و ہ ہر ہر لحاظ سے لائقِ تحسین ہے۔

Thursday, 11 September 2014


غالب کی غزل
نقش فریادی ہے کس کی شوخئی تحریرکا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

نقش ۔۔۔۔۔صورت فریادی ۔۔۔۔فریاد کرنے والا شوخئی تحریر۔۔۔۔۔تحریر کی عمدگی کاغذی پیرہن۔۔۔۔۔۔۔۔۔کاغذی لباس پیکر۔۔۔۔۔۔۔۔ جسم شوخی ۔۔۔۔۔۔۔مہارت و فنی چالاکی
تصویر کس کی شوخی تحریر کا فریادی ہے کہ ہر تصویر نے کاغذی لباس پہن رکھا ہے
۔کاغذی پیرہن تلمیح ہے ۔ایران میں رسم ہے کہ فریاد کرنے والاکاغذکا لباس پہن کر حاکم کے پاس جاتا تھا ۔
/تصویر بزبانِ حال فریاد کررہی ہے کہ اب جو ہستی کاجامہ پہنا تو زاتِ حقیقی سے جدائی ہوئی جو تکلیف دہ ہے ،تصویر اپنی بے ثباتی کا اظہار کر رہی ہے۔اے خالقِ کائینات اگر اپنی ہدایت سے مجھے بھی کچھ دے دیتا تو کیا کمی آجاتی ۔
/ہر نقش اپنے نقاش سے فریاد کر رہا ہے کہ اس نے اس کو بنا کر وجود کی ازیتوں میں مبتلہ کر کے کیوں چھوڑ دیا گیا ہے ،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نقاش اپنے شوخی تحریر کا اظہار کرنا چاھتا تھا او اب نقاش اور اب نقاش کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ نقش پر کیا گذر رہی ہے۔
مراعات الظیر موجود ہے (نقش ،تحریر ،کاغزی ،پیکر ،تصویر۔پیرہن )

مصنف مرحوم ايک خط ميں خود اس مطلع کے معني بيان کرتے ہيں کہتے ہيں ، ايران ميں رسم ہے کہ داد خواہ کاغذ کے کپڑے پہن کر حاکم کے سامنے جاتا ہے ، جيسے مشعل دن کو جلانا يا خون آلودہ کپڑا بانس پر لٹکا لے جانا ، پس شاعر خيال کرتا ہے کہ نقش کس کي شوخي تحرير کا فريادي ہے کہ جو صورتِ تصوير ہے ، اُس کا پيرہن کاغذي ہے

شعر 2۔۔۔کاوِ  کاوِ  سخت جاني ہائے تنہائي نہ پوچھ
            صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شير کا
تلمیح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔جوئے شیر

کاوِ  کاوِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  کھودنا۔زخم کا ناخن سے کریدنا ا
سخت جانی ۔۔۔۔۔۔۔۔سخت محنر ،جفا کشی ۔اتنہائي تکلیف جھیلنے کی اہلیت
 اے مخاطب تو جدائی کی تکلیفوں کو جنہین میں انتایئ محنت ،مشکلوں اور مصیبتوں سے برداشت کر رہا ہون کرید کرید کر نہ پوچھو کیوںکہ جدائی کی صبح کا شام کرنا ایسے ہی ہے جیسے پہاڑ کاٹ کر جوئے شیر لانا
 اُسے کچھ نہ پوچھ رات کا کاٹنا اور صبح کرنا جوئے شير کے لانے سے کم نہیں۔ جس طرح جوئے شير لانا فرہاد کے لئے دُشوار کام تھا
 اسي طرح صبح کرنا مجھے بہت ہي دُشوار ہے - اس شعر ميں شاعر نے اپنے تئيں کوہکن اور اپني سخت جاني شب ہجر کو کوہ اور سپيدۂ صبح کو جوئے شير سے تشبيہ دي ہے -

شعر 3۔۔۔۔جذبۂ بے اختيارِ  شوق ديکھا چاہئے
سينۂ شمشير سے باہر ہے دم شمشير کا

دم کے معني سانس اور باڑھ اور يہاں دونوں معني تعلق و مناسبت رکھتے ہيں کہ سينۂ شمشير کہا ہے ، مطلب يہ ہے کہ ميرے اشتياق قتل ميں ايسا جذب و کشش ہے کہ تلوار کے سينہ سے اس کا دم باہر کھينچ آيا -

میرے شوق شہادت کے جذبہ ء بےاختیار کو دیکھیئے کہ قاتل کی تلوار بھی قتل کے لیئے بے اختیار ہو گئی ہے ۔(دھار باہر نکلی ہوئی ہوتی  ہے ،شاعر کہتا ہے شوق شہادت کی بے اختیاری دیکھیئے کہ تلوار کی دھار بھی مجھے قتل کرنے کے لیئے اس کے سینے سے باہر نکل آئی ہے

 شعر 4۔۔۔۔۔۔۔آگہي دامِ  شنيدن جس قدر چاہے بچھائے
                مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقرير کا
آگہی ۔۔۔۔عقل فہم و فراست
دامَ شنیدن بچھانا ۔۔۔سننے کا جال بچھانا
عنقا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو چیز نایاب ہو،(ایک فرضی پرندہ جس کا نام سنا ہوا ہے مگر دیکھا کسی نے نہیں ۔
مدعا عنقا۔۔۔۔۔۔۔۔۔مفہوم کا موجود نہ ہونا
عالمِ تقریر ۔۔۔۔عالمِ شعر گوئی ۔

اے عقل تجھ سے جس قدر ممکن ہو سکے میرے اشعار سن مگر ان معنی اور مفہوم کو جو بجز عنقا ہیں ۔ہر گز ہر گز نہیں پاسکے گی بے شک جتنے بھی جال پھیلا دو اس کے معنی ہی سمجھ نہیں آئیں گے

يعني ميري تقرير کو جس قدر جي چاہے سنو ، اُس کے مطلب کو پہنچنا محال ہے ، اگر شوق آگہي نے صياد بن کر شنيدن کا جال بچھايا بھي تو کيا ، ميري تقرير کا مطلب طائر عنقا ہے جو کبھي اسير دام نہيں ہونے کا غرض
يہ ہے کہ ميرے اشعار سراسر اسرار ہيں -
بسکہ ہوں غالب اسيري ميں بھي آتش زيرپا


شعر 5۔۔۔۔۔۔۔۔۔بس کہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتشِ زیرِ پا
                موئے آتش ديدہ ہے حلقہ مري زنجير کا

آتشِ زیرِ پا۔۔۔۔۔۔۔۔۔پاؤں کے نیچے آگ۔مضطرب اور بے چین
موئے آتشِ دیدہ ۔۔۔۔۔۔۔۔بال جو آگ کے کو دیکھ کر حلقہ دار اور کمزور ہو گیا ہو
اسیری ۔۔۔۔۔۔۔۔قید
حلقہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔زنجیر کی کڑی

 اے غالب قیدِ عشق میں  میں اسقدر بےقرار ہوں کہ میرے پاؤں میں اگر لوہے کی زنجیر بھی ہوتی تو بھی اس آگ میں جل کر کمزور اور لاغر ہو جاتی
 
                مضطرب اور بے تاب کو آتش زيرپا کہتے ہيں اور آتش جب ديرپا ہوئي تو زنجيرپا گويا موئے آتش ديدہ ہے اور يہ معلوم ہے کہ بال آگ کو ديکھ کر پيچ دار ہو جاتا ہے اور حلقۂ زنجير کي سي ہيئت پيدا کرتا ہے -

Wednesday, 10 September 2014

انشائيے کے سلسلے ميں اہم بات يہ ہے کہ ناول، افسانہ يا مضمون کے برعکس انشائيے کا انداز غير رسمي ہوتا ہے- انشائيے کو اگر کسي خاص ترتيب کا پابند بنانے کي کوشش کي جائے تو اس کي انفراديت مجروح ہو گي- شگفتگي اور تازگي انشائيے کي بنيادي صفت ہے- عموما ہر نثر پارہ اپني حيثيت ميں مکمل ہوتا ہے- مگر انشائيے ميں اکثر اوقات عدم تکميل کا احساس ہوتا ہے-انشائيہ نگار، مضمون نويس کے برعکس کوئي حتمي نتيجہ نہيں نکلتا- انشائيہ مائل بہ اختصار ہے-
 انشائيے کے موضوعات ميں بڑا تنوع ہے- انشائيہ لکھنے والے کي شخصيت اور اس کے داخلي تاثرات کا ترجمان ہے- انشائيہ در حقيقت شخصي اور غير شخصي يا داخلي اور خارجي پہلوؤ ں  کا سنگم ہے- انشائيہ نگار کسي مقصد يا اصلاح کي خاطر قلم نہيں اٹھاتا وہ کوئي نتيجہ اخذ کرتا ہے اور نہ کوئي مشورہ ديتا ہے-
اس کا انداز غير رسمي ہے- شگفتگي اور تازگي، اکثر اوقات نا مکمل باقي رہتا ہے- حتمي نتيجہ نہيں نکلتا ہے- مائل بہ اختصار ہے- انشائيہ در حقيقت شخصي اور غير شخصي يا داخلي اور خارجي پہلوğ کا سنگم ہے- انشائيہ نگار کا مقصد اخذ نتيجہ يا مشورہ دينا نہيں-
 انشائيہ کا موجد ايک فرانسيسي موجد "مونتين" ہے- اس کے تتبع ميں انگريزي انشائيے کا آغاز ہوا-
 ڈاکٹر وزير آغا کے انشائيوں کے دو مجموعے " خيال پارے" (اشاعت کا آغاز 1916ء) اور "چوري سے ياري تک" شايع ہو  چکے ہيں-




خواجہ حسن نظامی
(1955-1878)
خواجہ حسن نظامی کا اصلی نام علی حسن تھا۔ آپ دہلی میں پیدا ہوئے۔وہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔ بارہ سال کی عمر میں یتیم ہو گئے۔ تلاش معاش کی خاطر دہلی کی گلیوں میں کتابیں فروخت کرنے لگے۔ اللہ نے غضب کی صلاحیت دی تھی لہٰذا لکھنا شروع کیا ، ابتدا میں چھوٹے چھوٹے مضامین لکھے بعد ازاں مختلف موضوعات پر بہت سی کتابیں لکھیں۔ کہ خواجہ حسن نظامی حضرت نظام الدین اولیاکی درگاہ کے سجادہ نشین رہے ، آپ نے کئی رسالے شائع کیےجن میں منادی کو خاصی شہرت ملی۔ حالانکہ خواجہ حسن نظامی نے مذہب، تصوف، تفسیر، حدیث، تاریخ، سفرنامہ، روزنامچے ، انشائیے پر قابل قدر تصانیف یادگار چھوڑیں تاہم بنیادی طور پر ایک صوفی اور خدار سیدہ بزرگ تھے۔ اس لیے آپ کی تحریروں میں تصوف ، دنیا کی بے ثباتی اور انسان کی بے بسی ہر جگہ نمایا ں ہے۔

سی پارہ دل، بیگمات کے آنسو ، بہادر شاہ کا روزنامچہ ، مقدمہ غدر، دہلی کے افسانے ، غدر کے صبح و شام ، ، خلاصۂ تعلیم تصوف، انگریزوں کی بپتا، قرآن آسان قاعدہ ، لاہوتی ، آپ بیتی ، مرغی کے انڈے کی تجارت ، شیطان کا طوطا، روزنامچہ حسن نظامی ، چٹکیاں اور گد گدیاں موصوف کی قابل ذکر تخلیقات ہیں۔




۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔( خدیجہ مستور
اردو کی خواتین افسانہ نگاروں میں خدیجہ مستور کا نام بے حد اہمیت کا حامل ہے ۔ یوں تو ان کے ناولوں اور افسانوی مجموعوں کی تعداد سات ہے ۔ مگر ان کا ناول ’ آنگن ہی اس قدر توانا ثابت ہواکہ اس نے ان کے نام کو زندہ جاوید کر دیا ۔ نہ صرف
 یہ کہ یہ ناول ہمیشہ اردو ادب میں زندہ رہے گا بلکہ اس کے خالق کی حیثیت سے خدیجہ مستور کا نام بھی اردو ادب میں اپنا مقام بنا چکا ہے ۔
برصغیر پاک وہند کی تقسیم پر متعدد اردو ناول لکھے گئے جن میں ’ آگ کا دریا ( قرة العین حیدر ) ، اداس نسلیں (عبد اللہ حسین ) اور ’آنگن ( خدیجہ مستور ) بہت ہی اہمیت کی حامل ہیں ۔ ان میں تقسیم کی نہ صرف تاریخ مل جاتی ہے بلکہ اس دور کا جیتا جاگتا معاشرہ بھی نظر آتا ہے ۔ اس نسل کو جو المیہ پیش آیا اس کا درد و کرب تو ملتا ہی ہے ساتھ ساتھ اس نے پورے معاشرے کو اپنی آغوش میں لے لیا ہے ۔
خدیجہ مستور کی پیدائش 15 دسمبر سنہ 1928 کو اتر پردیش کے لکھنﺅ کے ایک متوسط خاندان میں ہوئی تھی ۔ انہوں نے ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم لکھنﺅ میں ہی حاصل کی تھی ۔ کچھ عرصہ ان کا قیام بمبئی میں بھی رہا لےکن تقسیم ملک کے بعد ان کا خاندان لاہور ( پاکستان ) چلا گیا ۔ انہوں نے کم عمری میں ہی کہانیاں لکھنی شروع کر دی تھی اور ممبئی کے دوران قیام ان کے فن کو جلا حاصل ہوئی ۔ لیکن ان کی اصل تخلیقات لاہور کے قیام کی دین ہیں ۔ خدیجہ مستور اور ان کی افسانہ نگار بہن حاجرہ مسرور کو احمد ندیم قاسمی جیسی شخصیت کی سرپرستی حاصل ہوئی ۔ اس کے بعد تو وہ مسلسل لکھتی رہیں اور ان کی کہانیاں بھارت اور پاکستان کے مقتدر ادبی رسائل میں شائع ہوئیں ۔ انہوں نے بہت جلد نمایاں ادبی مقام حاصل کر لیا ۔ ان کا افسانہ” محافظ الملک“ بے حد مشہور ہوا جو ایک خاص دور کی عکاسی کرتا ہے ۔ ان کے مشہور افسانوں میں ’ تلاش گمشدہ ، درد ، کھیل ، بوچھار ، چند روز ‘ کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا اور ناقدین نے خاص طور پر ان کا ذکر کیا ۔
ان کے ناول آنگن ، تھکے ہارے ، چند روز، زمین ، کھیل ، ٹھنڈا میٹھا پانی اور بوچھا ڑ نے بھی ان کی مقبولیت میں چار چاند لگائے ۔’ آنگن ‘ پر انہیں پاکستان کا سب سے بڑا ادبی انعام ’ آدم جی پرائز ‘ بھی ملا ۔ اس ناول میں خدیجہ مستور کا فن اپنے عروج پرنظرآتا ہے ۔ انہوں نے کئی سماجی ، تہذیبی ، معاشرتی ، سیاسی اور معاشی تحریکوں کاجائزہ لیا ہے اور ان کا ماہرانہ تجزیہ پیش کیا ہے ۔ اس ناول کے بعد ہی ان کا شما رایک سنجیدہ اور گہری سوچ رکھنے والی تخلیق کار کی حیثیت سے ہونے لگا تھا کیونکہ ’ آنگن ‘ صرف ایک گھر کا آنگن نہیں پورے معاشرے کا آنگن ہے جس کا پر تو ہر دور میں نظر آتا ہے ۔
26 جولائی سنہ 1982 کو ارد و اس کی عظیم ناول نگار کا لاہور میں انتقال ہو گیا لیکن ان کی لافانی تخلیقات آج بھی ان کی یاد دلاتی ہیں ۔


مرکزی خیال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مچھر
مچھر ‘ خواجہ حسن نظامی کا ایک انشائیہ نما مضمون ہے۔ جس میں انھوں نے نہایت آسان اور سادہ زبان میں
انسان کی بے بسی اور لاچاری کا ذکر کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ انسان مچھر جیسی حقیر مخلوق کے سامنے بے بس اورلاچار ہے ، مختصر یہ کہ موصوف نے اس مضمون کے ذریعے تصوف اور اخلاق کا درس نہایت دل کش اور شگفتہ انداز میں دیاہے۔

غالب کی غزل تشریح کے ساتھ۔

وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روزو ماہ و سال کہاں
فرہنگ
فراق-۔۔۔۔۔۔۔جدائی ، وصال۔۔۔۔۔ملاپ، شوق ۔۔۔۔۔۔عشق، کاروبار ۔۔۔۔۔مصروفیات ،جمال خوبصورتی شور۔۔۔۔تیزی
سودا ۔۔۔۔۔۔۔۔جنون ، رعنائی ۔۔۔۔۔۔۔خوبصورت ،لہو رونا ۔۔۔۔۔۔۔۔آنسوون کا برسنا ، حال۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طاقت ،وبال۔۔مصیبت
،مضحمل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کمزور ، قوٰٰی۔۔۔۔۔۔۔۔۔مظبوط اعتدال۔۔۔۔۔۔۔۔۔توازن
قمار خانہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جوا خانہ عنصر ۔۔۔۔۔۔۔۔زّرہ سودائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،جنون
شعر نمبر 1۔
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روزو ماہ و سال کہاں

غاب کہتے ہیں کہ اب دل میں محبت کے حوالے سے کوئی جذبہ نہیں ۔ایک زمانہ تھا جب محبوب سے ملاقاتیں ہوا کرتیں تھیناور اسی زمانے میں جدائیوں کے سلسلے بھی تھے ،مگر ابوہ ماضی نہیں نہ ملاپ ہے نہ جدائی کا خیال آتا ہے نہ وہ دن ہیں نہ وہ راتیں رہیں
شعر 2۔
فرصتِ کاروبارِ شوق کسے
زوقِ نظارہ جما کہاں

غالب کہتے ہیں کہ میں زندگی کے مسائل میں اس قدر الجھ گیا ہوں کہ عشق اور محبت کرنے کا وقت نہیں ۔اب مجھے فرصت ہی نہیں کہ محبوب کے چاند جیسے چہرے کو دیکھوں،حسن و جمال کی اب میرے نذدیک کوئی اہمیت نہیں ۔
شعر 3۔
تھی وہ اک شخص کے تصور سے
اب وہ رعنائیء خیال کہاں

میرے محبوب کا تصور ہی میرے خیالات کو خوبصورتی رنگینیاں عطا کرتا تھا،مگر اب اس کا تصور دھندلہ پڑگیا ہے اب رنگینءی خیال ختم ہو چکی ہے

شعر 4۔
ایسا آساں نہیں ہو رونا
دل میں طاقت جگر میں حال کہاں
غاب کہتے ہیں کہ خون کے آنسو رونا کوئی آسان کام نہیں اس کے لیئے دل مین طاقت اور جگر میں حوصلہ ہونا چاہیئے۔غم اتنا نڈھال کردیتا ہے کہ ۔قوت ِ برداشت جواب دے جاتی ہے ۔غالب کہتے ہیں کہ شدتِ غم کا یہ مرحلہ انتہائی کٹھن ہےاس سے گذرنا انسان کے بس کی بات نہیں

شعر5۔
فکرِ دنیا میں سر کھپاتا ہوں
میں کہاں اور یہ وبال کہاں

دنیا کے تفکرات نے ایسا گھیرا ہے کہ اپنی بلند خیالی چھوڑ کر غم ِ روز گار میں جت گیا ہوںاب دنیاوی جھمیلوں اور دنیا کی رنگینیوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں ۔اور بھی غم ہین زمانے میں محبت کے سوا۔

شعر 6۔
مضحمل ہوگئے قوٰی غالب
وہ عناصر میں اعتدال کہاں
غاب خود کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب بڑہاپا آگیا ہے جسمانی اعضاء میں اب وہ طاقت نہیں ،کمزور ہو گئے ہیں ۔جوانی کی زندگی کا وہ توازن نہیں رہا ،جوانی اپنی بھر پور توانئی کے ساتھ برقرار رہتی ہے مگر زرہ سا عدم توازن پیدا ہوجائے یا کوئی ایک عنصر کم یا زیادہ ہو جائے تو انسانی جسم کا سارا نظام الٹ پلٹ ہوجاتا ہے
شعر 7۔
ہم سے چھوٹا قمار خانہ ء عشق
واں جو جائیں گرہ میں مال کہاں
غاب کہتے ہیں کہ ہم سے عشق کی محفلیں چھوٹ گئیں ہیں زندگی ہار گیا ہوں ،میں مر چکا ہوں
زندگی کب کی ہو چکی خاموش
دل تو بس عادتاً دھڑکتا ہے
اب ان محفلوں کے لیئے میرے پاس کچھ نہیں
شعر 8۔
دل تو دل وہ دماغ بھی نہ رہا
شورِ سودائے خط و خال کہاں
دل تو خیر گیا ہی تھا اب وہ پہلا سا دماغ بھی نہیں رہا حسن کے خدو خال دیکھ کر بےخودی طاری ہوتی تھی وہ اب کہاں باقی ہے ۔
LikeLike · 

Sunday, 7 September 2014


خطوط – غالب (۲)
نامہ نگار : مرزا اسداللہ خان غالب مکتوب الیہ : یوسف مرزا
تعارفِ نامہ نگار
مرزا غالب عظیم شاعرِ‘ مخصوص‘ منفرد اور جدید خطوط نگاری کے موجدتھے۔ خطوط میں بے تکلفی‘ سادگی‘ اختصار و جامعیت‘ جزئیات نگاری‘ نکتہ نگاری‘ نکتہ آفرینی اور مزاح و ظرافت کو اپنانے‘ مختلف اسالیبِ بیان مہارت سے کھپانے‘ انھیں اپنی سوانح حیات اور اپنے زمانے کی تاریخ بتانے والے‘ وہ منفرد دانش ور ہیں جن کے خطوط‘ اردو نثر میں نیا تجربہ اور نقشِ اول ثابت ہوئے۔ انھوںنے اپنے اس موقف کو سچ کر دکھایا کہ‘ ان کی خطوط نگاری شاعری کی طرح ان کے دعویٰ کی سچائی پیش کرتی ہے کہ
ادائے خاص سے غالب ہوا نکتہ سرا
صدائے عام ہیں یارانِ نکتہ داں کے لئے
تعارفِ مکتوب ِ الیہ
یوسف مرزا‘ امیر محمد نصیر کے فرزند تھے جو لکھنوءمیں رہتے تھی۔ ان کی والدہ قدسیہ سلطان‘ مرزا غالب کے دوست حسین مرزا کی بہن تھیں۔ انھوں نے زندگی کا زیادہ تر حصہ دہلی میں گزارا۔ غالب حسین مرزا کے بیٹوں سجاد مرزا اور اکبر مرزا اور بھانجے یوسف مرزا کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ یہ خط انھی کے نام ہے۔
اقتباس ۱
کیوں کر تجھ کو لکھوں کہ تیرا باپ مرگیا اور اگر تجھ کو لکھوں تو پھر آگے کیا لکھوں کہ اب کیا کرو‘ مگر صبر؟ یہ ایک شیوئہ فرسودہ ابنائے روزگار کا ہے۔ تعزیت یوں ہی کیا کرتے ہیں اور یہی کہا کرتے ہین کہ صبر کرو۔ ہائے ایک کا کلیجہ کٹ گیا اور لوگ اسے کہتے ہیں کہ تو نہ تڑپ ۔ بھلا کیون کر نہ تڑپے گا۔ صلاح اس امر میں نہیں بتائی جاتی۔ دعا کو دخل نہیں‘ دوا کا لگاﺅ۔ پہلے بیٹا مرا‘ پھر باپ مرا۔ مجھ سے اگر کوئی پوچھے کہ بے سروپا کس کو کہتے ہیں تو میں کہوں گا یوسف مرزا کو۔
تشریح
پیشِ نظر سطور مرزا غالب کے خط یوسف مرزا کی ابتدائی سطور ہیں جن میں غالب نے مرزا یوسف سے ان کے باپ کے انتقال پر اظہارِ افسوس یا تعزیت کی ہے۔ ان کے یہ تعزیتی الفاظ ان کے مﺅثر اندازِ بیان اور واقعیت نگاری کا ثبوت ہے۔مرزا یوسف کے باپ جو انگریز دشمنی کے الزام میں قید تھے۔ ذندان میں بیمار ہوگئے انگریز نے ان کی رہائی کا حکم دیا لیکن اس سے قبل ہی وہ دنیا سے رحلت فرماگئے۔ جب غالب کو ان کی وفات کا بہ ذریعہ خط علم ہوا تو جوابً ‘ مرزا سے یوں تعزیت کررہے ہیں۔مجھ میں اتنی ہمت نہیں کہ میں تمھارے باپ کی موت کا اپنی زبان سے ذکر کروں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس طرح اظہارِافسوس کروں اور تمھیں تسلی دوں۔ زمانے یا دنیا کا یہ دستور ہے کہ لوگ لواحقین کو صبر کی تلقین کرتے ہیں۔سوچو! بھلا یہ کیسا دستور و طریقہ ہے کہ کسی شخص کا وزیر اس سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو جائے وہ اس کی جدائی پر رنجیدہ اور ملول ہو اور لوگ کہیں کہ اس نقصان پر صبر کرو‘ غم و آہ وزاری نہ کرو۔ حالانکہ عزیز کی جدائی پر مضطرب اور بے چین ہونا‘ فطری امر ہے اور اسے کہا جائے میاں صبر کرو بھلا کیسے ممکن ہے کہ اسے صبر آجائے۔میرے نزدیک تو ایسے ماحول میں صبر کی تلقین کرنا تسلی دینا فضول معلوم دیتا ہے۔ اس لئے کہ چند الفاظ اس کی بے چینی اور تڑپ کو کم نہیں کرسکتے سچ ہے اس دکھ اور غم کا ازالہ نہ تو دعا سے ہو سکتا ہے نہ دوا سے۔ یعنی عزیز کی موت یا فرقت کا داغ آسانی سے نہیں مٹ سکتا جیسا کہ عموماً تصور کیا جاتا ہے۔
مرزا یوسف تمھارا دل یقیناً بہت زخمی اور گھائل ہے۔ تمھیں پہلے ہی بیٹے کی جدائی کا گھاﺅ لگا ہوا ہے۔ اب باپ کی جدائی کا بھی غم لاحق ہوگیا ہے۔ سچ ہے جس کے سینے پر ایسے گہرے گھاﺅ ہوں‘ جس کا جگر داغ دار ہو اس سے کہا جائے گریا و زاری نہ کرو‘ آنسو نہ بھاﺅ‘ آہ و بکاہ نہ کرو کسی طرح مناسب نہیں۔آخر باپ کی موت پر اظہارِ غم سے روکنے کا فائدہ کیا ہے۔ کیوں نہ ایسے آزاد چھوڑ دیاجائے تاکہ وہ رو رو کر دل کی بھڑاس نکال دے۔ غالب نے آخری جملے میں۔ اپنی بلاغت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ بے سروپا کس کو کہتے ہیں یعنی بے سہارا کسے کہا جاتا ہے تو میرے نزدیک اس کی مثال یوسف مرزا ہیں۔ کیونکہ باپ کا سایہ ہمیشہ کے لئے سر سے اٹھ گیا‘ دورِ مستقبل کا سہارا بیٹا بھی جداہوگیا۔ اب یوسف بے یارو مددگاررہ گیاہے
اقتباس ۲
تمھاری دادی لکھتی ہیں کہ رہائی کا حکم ہو چکا تھا‘ یہ بات سچ ہے؟ اگر سچ ہے تو جوانمرد ایک بار دونوں قیدوں سے چھوٹ گیا۔ نہ قیدِ حیات رہی‘ نہ قیدِ فرنگ۔ ہاں صاحب‘ وہ لکھتی ہیں کہ پنشن کا روپیہ مل گیا ہے‘ وہ تجہیز و تکفین کے کام آیا۔یہ کیا بات ہے؟ جو مجرم ہو کر چودہ برس کو مقید ہوا ہو‘ اس کا پنشن کیوں کر ملے گا اور کس کی درخواست سے ملے گا؟ رسید کس سے لی جائے گی؟
ربطِ ما قبل
ان سطور سے قبل غالب‘ یوسف مرزا کے نام ان کے باپ میر نصیر کی وفات پر تعزیت کرتے ہوئے اپنے مخصوص طرزِ بیان میں دستورِ زمانہ کے مطابق تعزیت کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس شخص کا عزیز اس سے ہمیشہ سے جدا ہوجائے‘ جس کا دل غم سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے زمانے کے دستور کے مطابق اسے صبر کی تلقین کرنا اور آہ وزاری نہ کرنے کا کہنا عجیب لگتا ہے۔ لیکن کیا کیا جائے اس کے سوا چارہ بھی نہیں۔
تشریح
پیشِ نظر سطور میںغالب مرزا یوسف کو لکھتے ہیں کہ تمھاری دادی کے خط سے معلوم ہوا کہ انتقال سے قبل تمھارے باپ کو انگریزوں کی قید سے چھٹکارے کا حکم ہو گیا تھا۔ اگر یہ بات درست بھی ہے تو کیا فائدہ۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس جواں ہمت‘ نڈر اور بہادر شخص کو بیک وقت زندگی کے مصائب‘ تکالیف اور پریشانیوں سے بھی نجات مل گئی اور انگریز کی قید سے بھی۔سانحہ تو یقیناً عظیم ہے لیکن جو کچھ ہوا ان کے حق میں اچھا ہوا۔ تمام الجھنوں سے آزادی مل گئی۔ دنیا ایک قید خانہ ہے جہاں انسان کی خواہشات کا خون ہوتا ہے اور وہ اپنی مرضی کے بجائے جبر کی زندگی گزارتا ہے۔
بقول میر
یاں کہ سپید و سیاہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
رات کو رو رو صبح کیا دن کو جوں توں شام کیا
تمہاری دادی کے خط سے بھی معلوم ہوا کہ انگریزوں نے جو پنشن دی وہ ان کی تکفین و تدفین میں خرچ ہوگئی۔بھلا‘ بتائے اس کے مرنے کے بعد اس کی کیا ضرورت تھی۔ جس شخص کو حق کی حمایت اور انگریز کی مخالفت کی پاداش میں چودہ سال کی قید ہوئی ہو اور پھر وہ دارِ فانی سے کوچ کرگیا۔ اس کو پنشن ملنا‘ نہ ملنا فضول ہے۔ اب اس کی وصولیابی کی رسید پر کون دستخط کرے گا۔ آہ وہ پنشن کا مستحق تو دکھ جھیلتے اور حاکم کے ظلم سہتے سہتے اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اب اسے پنشن کا مستحق سمجھنا اور ورثاءکو نوازنا‘ عجب بات ہے
اقتباس ۳
مصطفی خان کی رہائی کا حکم ہوا۔ مگر پنشن ضبط۔ ہر چند اس پرستش سے کچھ حاصل نہیں۔ لیکن بہت عجیب بات ہے‘ تمھارے خیال میں جو کچھ آئے گا وہ مجھ کو لکھو۔ دوسرا امر یعنی تبدیلِ مذہب‘ عیاذاً باللہ! علی کا غلام کبھی مرتد نہ ہوگا۔ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ حضرت چالاک اور سخن ساز اور ظریف تھے۔ سوچے ہوں گے میں اپنا کام نکالو اور رہا ہو جاﺅ۔ عقیدہ کب بدلتا ہے اگر یہ بھی تھا تو انکا گمان غلط تھا۔ اس طرح رہائی ممکن نہیں۔
ربطِ ما قبل
ان سطور سے قبل غالب‘ یوسف مرزا کے نام ان کے باپ میر نصیر کی وفات پر تعزیت کرتے ہوئے اپنے مخصوص طرزِ بیان میں دستورِ زمانہ کے مطابق تعزیت کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس شخص کا عزیز اس سے ہمیشہ سے جدا ہوجائے‘ جس کا دل غم سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے زمانے کے دستور کے مطابق اسے صبر کی تلقین کرنا اور آہ وزاری نہ کرنے کا کہنا عجیب لگتا ہے۔ لیکن کیا کیا جائے اس کے سوا چارہ بھی نہیں۔
غالب کہتے ہیں کہ تمھارے باپ کا انتقال یقیناً دکھ کی بات ہے لیکن ایک طرح سے اچھا ہے کہ انھیں دنیا اور انگریز دونوں کی طرف سے رہائی مل گئی۔ ساتھ ہی ان کی پنشن ان کی موت کے بعد ملنے پر افسوس کیا ہے۔
تشریح
نواب مصطفی علی خان شیفتہ کی انگریزوں کی قید سے رہائی کے سلسلے میں یہ بات یام طور پر سنی جارہی تھی کہ وہ آزادی کی خاطر اسلام کو خیرباد کہنے یعنی مذہب قبول کرنے کو تیار تھے۔ ان کا مقصد تھا کہ انگریز خوش ہوجائیں اور انھیں آزاد کردے۔ غالب کہتے ہیں یہ خبر درست معلوم نہیں ہوتی۔ اللہ سے توبہ اور پناہ مانگتا ہوں بھلا جو شخص دل و جان سے حضرت علی رضہ کا پیرو اور ماننے والا ہو وہ بھلا اسلام کو چھوڑ کر کفر اختیار کرسکتا ہے۔ ہرگز ہرگز نہیں۔ البتہ مصطفی خان بڑے سمجھدار‘ باتونی اور ظریفانہ مزاج کے حامل تھے۔ انھوںنے سوچاہوگا کہ اس وقت انگریز کو دھوکا دے کر چھٹکارا حاصل کرلیا جائے۔ مذاق کا مذاق رہے گا اور اور انگریز دام میں آگیا تو آزادی بھی مل جائے گی۔
غالب کہتے ہیں کہ جب مذہبی عقائد انسان کے دل میں راسخ اور پختہ ہوجاتے ہیں تو وہ انہیں ترک نہیں کرسکتا اور اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ مصطفی خان اپنے طور پر سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ مذہبِ اسلام کو ترک کرچکے ہیں تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ اس طرح نہ انگریز کو یقین آسکتا ہے کہ وہ سچ بول رہے ہیں اور نہ خود ان کا اپنا ضمیر اس معاملے میں انکا ساتھی بن سکتا تھا۔

Saturday, 6 September 2014

اکستان بن گیا۔۔۔۔۔لیگی رہنما کراچی دارلحکومت جا چُکے تھے۔مشرقی پنجاب میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی۔بڑے چچا اس صدمے میں جیسے نڈھال سے ہوگئے تھے۔بیٹھک میں بیماروں کی طرح وہ ہر ایک سے پوچھتے رہتے : یہ کیا ہورہا ہے ؟؟؟؟
یہ کیا ہوگیا ؟؟؟؟؟
جب وہ یہ سب کچھ عالیہ سے پوچھتے،تو وہ اُن کا سر سہلانے لگتی۔بڑے چچا آپ آرام کیجئے،آپ تھک گئے ہیں بڑے چچا، اور بڑے چچا اس طرح آنکھیں بند کرلیتے جیسے خون کی ندی اِن کی آنکھوں کے سامنے بہہ رہی ہو۔
کریمن بوا فساد کی خبریں سُن سُن کر ٹھنڈی آہیں بھرا کرتیں اپنے شہر میں فساد تو نہ ہوا تھا مگر سب کی جان پر بنی رہتی تھی کہ پتا نہیں کب کیا ہوجائے۔
کہاں ہوگا میرا شکیل ؟؟؟؟؟؟ بمبئی میں فساد کی خبر سُن کر بڑی چچی بلکنے لگیں۔
تمہارا پاکستان بن گیا جمیل،تمہارے ابّا کا مُلک آزاد ہوگیا ،پر میرے شکیل کو اب کون لائے گا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟
سب ٹھیک ہو جائے گا امّاں ،وہ خیریت سے ہوگا۔یہ فساد وساد تو چار دن میں ختم ہوجائیں گے،جمیل بھیا اِن کو سمجھاتے مگر اِن کا چہرہ فق رہتا۔
شام کو سب لوگ خاموش بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ ماموں کا خط آ گیا۔اُنہوں نے امّاں کو لکھا تھا کہ اُنہوں نے اپنی خدمات پاکستان کے لئے وقف کردی ہیں اور وہ جلد ہی جا رہے ہیں۔اگر آپ لوگوں کو چلنا ہو تو فوراً جواب دیجئے اور تیار رہیئے۔
بس ابھی تار دے دو جمیل میاں،ہماری تیاری میں کیا لگے گا،ہم تو بس تیار بیٹھے ہیں،ہے ! اپنا بھائی ہے بھلا ہمیں اکیلا چھوڑ سکتا ہے ؟؟؟مارے خوشی کے امّاں کا منہ سرخ ہورہا تھا۔
جمیل بھیا نے اس طرح گھبرا کر سب کی طرف دیکھا جیسے فساد اِن کے دروازے پر پہنچ گئے ہوں،مگر آپ کیوں جائیں گی چھوٹی چچی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
آپ یہاں محفوظ ہیں۔۔۔۔۔میں آپ کے لئے اپنی جان دے دوں گا،اُنہوں نے آج بڑی مدّت بعد عالیہ کی طرف دیکھا،کیسی سفارشی نظریں تھیں ،مگر عالیہ نے اپنی نظریں جُھکا لیں۔
میں نہ جاؤں تو کیا ہندوؤں کے نگر میں رہوں،پاکستان میں اپنوں کی حکومت تو ہوگی،پھر میں اپنے بھائی کو چھوڑ کر ایک منٹ زندہ نہیں رہ سکتی۔۔۔۔واہ،مارے خوشی کے امّاں سے نچلا نہ بیٹھا جارہا تھا۔
عالیہ جانے پر راضی نہیں ہوگی چھوٹی چچی،وہ نہیں جائے گی،وہ جا ہی نہیں سکتی،جمیل بھیا نے جیسے نیم دیوانگی کے عالم میں کہا۔
تم اچھے حقدار آگئے،کون نہیں جائے گا۔۔۔۔۔امّاں ایک دم بھپر اُٹھیں۔
تم ہوتے کون ہو روکنے والے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ضرور جائیے چھوٹی چچی،جمیل بھیا نے سر جھکا دیا ،اور عالیہ کو ایسا محسوس ہوا کہ وہ نہیں جاسکتی،صدیاں گزر جائیں گی مگر وہ یہاں سے ہِل بھی نہ سکے گی۔
میں ابھی تار کئیے دیتا ہوں کہ سب تیار ہیں،جمیل بھیّا اُٹھ کر باہر چلے گئے۔
عالیہ کا جی چاہا کہ وہ چیخ چیخ کر اعلان کرے کہ وہ نہیں جائے گی،وہ نہیں جا سکتی،اُسے کوئی نہیں لے جا سکتا مگر اُس کے گلے میں تو سینکڑوں کانٹے چبھ رہے تھے ،وہ ایک لفظ بھی نہ بول سکی ،اُس نے ہر طرف دیکھا اور پھر نظریں جھکا لیں،مگر وہ کیوں رکے کس کے لئے؟؟؟اُس نے سوچا اور پھر جیسے بڑی سکون سے چھالیہ کاٹنے لگی۔عالیہ بیگم اگر تم رہ گئیں تو ہمیشہ کے لئے دلدل میں پھنس جاؤ گی۔
کریمن بوا !!!!!!!! اگر سب لوگ چائے پی چکے ہوں تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسرار میاں نے بیٹھک سے آواز لگائی اور کریمن بوا آج تو ڈائنوں کی طرح چیخنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ارے کوئی تو اسرار میاں کو بھی پاکستان بھیج دو،سب چلے گئے،سب چلے جائیں گے،مگر یہ کہیں نہیں جاتا۔
بیٹھک میں اسرار میاں کے کھانسنے کی آواز آئی اور پھر خاموشی چھا گئی۔
کیا تم سچ مُچ چلی جاؤ گی چھوٹی دلہن ؟؟؟؟؟بڑی دیر تک چپ رہنے کے بعد بڑی چچی نے پوچھا۔
ظاہر ہے چلی جاؤں گی، اماں نے رکھائی سے جواب دیا۔
یہ گھر تمہارا ہے چھوٹی دلہن ،مجھے اکیلے نہ چھوڑو،بڑی چچی نے ڈبڈبائی ہوئی آنکھیں بند کر لیں،شائد وہ تنہائی کے بھوت سے ڈر رہی تھیں۔
عالیہ جیسے پناہ ڈھونڈنے کے لئے اوپر بھاگ گئی،دھوپ پیلی پڑ کر سامنے کے مکان کے اونچی دیوار پر چڑھ گئی تھی،ہائی اسکول کے احاطے میں بسیرا لینے والے پرند مسلسل شور مچائے جا رہے تھے۔
کُھلی فضا میں آکر اُس نے اطمینان کی سانس لی ،اور مسافروں کی طرح ٹہل ٹہل کر سوچنے لگی کہ اب کیا ہوگا،شائد اچھا ہی ہو،وہ یہاں سے جاکر ضرور خوش رہے گی۔
جب وہ نیچے اُتری تو سب اپنے اپنے خیالوں میں مگن بیٹھے تھے،صرف کریمن بوا جانے کس بات پر بُڑبُڑا رہی تھیں اور پُھرتی سے روٹیاں پکاتی جا رہی تھیں۔
جمیل بھیا کہاں گئے ،وہ اب تک کیوں نہیں آئے،عالیہ نے سونی کرسی کی طرف دیکھا ،جانے یہ سرپِھرا آدمی اِسے یاد کرے گا یا بھول جائے گا۔اُس نے اپنے آپ سے پوچھا۔
لالٹین کی بتّی خراب تھی اس لئے اُس میں دو لویں اُٹھ رہی تھیں اور ایک طرف سے چمنی سیاہ ہوگئی تھی،مدّھم روشنی میں اماں بڑی چچی اور کریمن بوا کے چہرے بگڑے بغرے لگ رہے تھے۔
جمیل بھیا گھر میں داخل ہوئے اور اپنی کرسی پر بیٹھ گئے،میں تار کر آیا ہوں چھوٹی چچی،اُنہوں نے دھیرے سے کہا۔
تم اتنی دیر باہر نہ رہا کرو ،شام سے گھر آجایا کرو،جانے کب یہاں بھی گڑ بڑ ہو جائے،بڑی چچی نے کہا۔
رہنا تو پڑتا ہے،مسلمان ڈرے ہوئے ہیں،اُنہیں سمجھانا ہے کہ وہ یہاں ڈٹ کر رہیں اور یہاں کی فضا کو پُر امن رکھیں گھر بیٹھ کر تو کام نہ چلے گا۔
توبہ اب ملک آزاد ہو گیا تو یہ کام شروع ہوگئے ،خیر مجھے کیا ، تم نے تار پر پتہ ٹھیک لکھا تھا نا ؟؟اماں نے پوچھا۔
آپ اطمینان رکھیں ، پتہ ٹھیک تھا۔
خیر سے ہم تو پاکستان جا رہے ہیں،مگر اب تم اپنے گھر کی فکر کرو جمیل میاں،کیا بری حالت ہوچکی ہے۔اپنی ماں کی طرف بھی دیکھو،اماں نے ہمدردی سے بڑی چچی کی طرف دیکھا۔
کون جا رہا ہے پاکستان ؟؟؟؟؟بڑے چچا نے صحن میں قدم رکھتے ہی بوکھلا کر پوچھا،اُنہوں نے اماں کی باتیں سُن لیں تھیں۔
میں اور عالیہ جائیں گے ،اور کس نے جانا ہے۔اماں نے تڑاق سے جواب دیا۔
کوئی نہیں جاسکتا،میری اجازت کے بغیر کوئی قدم نہیں نکال سکتا،کس لئے جاؤ گے پاکستان ؟
یہ ہمارا ملک ہے ،ہم نے قُربانیاں دی ہیں،اور اب ہم اسے چھوڑ کر چلے جائیں ؟
اب تو ہمارے عیش کرنے کا وقت آرہا ہے،بڑے چچا سخت جوش میں تھے۔
ماشا اللہ آپ بڑے حق دار بن کر آگئے،نہ کِھلانے کے نہ پِلانے کے،کون سا دُکھ تھا جو یہاں آکر نہیں جھیلا۔میرے شوہر کو بھی آپ ہی نے چھین لیا،آپ ہی نے اُنہیں مار ڈالا،میری لڑکی کو یتیم کردیا اور اب حق جتا رہے ہیں،مارے غصّے کے اماں کی آواز کانپ رہی تھی۔
کریمن بوا ! میرا کھانا بیٹھک میں بھجوا دو۔بڑے چچا سر جُھکا کر بیٹھک میں چلے گئے۔
کیا آپ چلنے سے پہلے بڑے چچا کو یہی بدلہ دینا چاہتی ہیں ؟؟؟؟
بڑے چچا نے کسی کو تباہ نہیں کیا،بڑے چچا نے کسی کو دعوت نہیں دی تھی کہ آؤ میرا ساتھ دو۔آپ آج اچّھی طرح سُن لیں کہ مجھے بڑے چچا سے اتنی ہی محبت ہے جتنی ابّا سے تھی،عالیہ نے کھانا چھوڑ دیا اور ہاتھ دھو کر بیٹھک میں چلی گئی۔
امّاں کیا کہتی رہ گئیں اُس نے ذرا بھی نہ سُنا۔
کیا تم سچ مُچ جا رہی ہو بیٹی ؟؟؟؟؟؟
ہاں بڑے چچا، امّاں جو تیار ہیں۔اُس نے جواب دیا۔
بڑے چچا میں تو امّاں کا واحد سہارا ہوں،میں اُنہیں کس طرح چھوڑ دوں،وہ ضرور جائیں گی مگر آپ کو نہیں معلوم کہ یہ گھر چھوڑ کر میں کس طرح تڑپوں گی ،
آپ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ دونوں ہاتھوں میں منہ چھپا کر سسکنے لگی۔
چھوٹی دلہن کو مجھ سے سخت نفرت ہے ٹھیک ہے،میں نے تم لوگوں کے لئے کچھ بھی نہ کیا،مگر اب وقت آیا تھا کہ اس گھر میں پہلی سی شادمانی لوٹ آتی،مجھے بڑی اچھی ملازمت دی جا رہی ہے،پھر دکانوں کو چلانے کے لئے دس پندرہ ہزار کی امداد بھی ملنے کی توقع ہے۔میں چھوٹی دلہن کی سب شکائیتں رفع کر دوں گا۔
اُنہوں نے عالیہ کو پیار سے تھپکا۔۔۔۔۔
کیا گھر میں تیل ختم ہوگیا ہے ؟؟؟
لالٹین کی روشنی مدّھم ہوتی جارہی ہے،اب انشااللہ تھوڑے دنوں میں بجلی کا کنکشن بحال کرالوں گا،اور اب تم ایم۔اے میں داخلہ کیوں نہ لے لو،میرا خیال ہے تم اگلے سال ضرور داخلہ جمع کروادو۔
عالیہ کا کلیجہ کٹ رہا تھا،آنسو پونچھ کر وہ خاموش بیٹھی رہی۔جی ہی جی میں گُھٹ رہی تھی مگر ایک لفظ نہ بول سکی۔
خدا آپ کو سُکھ دے بڑے چچا،خدا آپ کے سارے سہانے خواب پورے کرے،وہ دل ہی دل میں دعا مانگ رہی تھی۔
وہ بڑے چچا سے کس طرح کہتی کہ وہ تو یہاں سے خود بھاگ جانا چاہتی ہے۔
اسرار میاں بیٹھک میں داخل ہونے کے لئے پٹ کھول رہے تھے،عالیہ اُٹھ کر صحن میں آ گئی۔
امّاں اور بڑی چچی جانے کیا باتیں کر رہی تھیں،جمیل بھیّا اب تک کرسی پر بیٹھے انگلیاں مروڑ رہے تھے۔وہ ایک لمحے تک آنگن میں کھڑی رہی اور پھر اوپر چلی گئی۔
شبنم سے بھیگ کر رات بڑی روشن ہو رہی تھی،چاند جیسے وسط آسمان پر چمک رہا تھا اور روز کی طرح آج بھی قریب کی کسی چھت پر گراموفون ریکارڈ بج رہے تھے۔
" تیری گٹھری میں لاگا چور۔۔۔مسافر جاگ ذرا۔۔۔۔۔
وہ آہستہ آہستہ ٹہلنے لگی،کیسی عجیب حالت ہو رہی تھی،جیسے سوچنے سمھجنے کی ساری صلاحیت کسی نے چھین لی ہو۔
کیا یہ میں ہوں۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اُس نے اپنے آپ سے پوچھا،اور پھر اپنی آواز سُن کر حیران رہ گئی۔۔۔۔۔۔حد ہے دیوانگی کی،وہ کس سے پوچھ رہی تھی۔
ٹہلتے ٹہلتے وہ ایک بار مُڑی تو جمیل بھیّا بُت کی طرح بے حس و حرکت کھڑے تھے،وہ اور تیزی سے ٹہلنے لگی ،اب یہ کیا کہنے آئے ہیں ،اِنہوں نے اپنا وعدہ بھلا دیا۔
کیا سچ مُچ تم نے جانے کا فیصلہ کر لیا ہے ؟؟؟؟ اُنہوں نے پوچھا۔
ہاں ! اس نے ٹہلتے ہوئے جواب دیا۔
تم یہاں سے جاکر غلطی کرو گی،تم نے ایک بار کہا تھا کہ دور رہ کر یادیں بہت اذیت ناک ہوجاتی ہیں،میرا خیال ہے کہ تم وہاں خوش نہ رہو گی۔
میں ہر جگہ خوش رہوں گی،مگر آپ نے تو وعدہ کیا تھا کہ آپ مجھ سے کبھی کچھ نہ کہیں گے۔
میں کیا کہہ رہا ہوں ۔؟؟؟؟؟؟؟؟
کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔۔
تم میری مقروض ہو،یاد رکھنا تم کو یہ قرض چُکانا ہوگا۔وہ جانے کے لئے مڑے، "تم وہاں خوش رہو گی ناں “؟؟؟؟
اُنہوں نے رک کر پوچھا۔۔۔۔۔۔
وہ چپ رہی،جمیل بھیّا تھوڑی دیر کھڑے رہے اور پھر چلے گئے اور اس نے محسوس کیا کہ اِس وقت وہ سب کچھ کھو بیٹھی ہے۔
بڑی دیر تک یونہی ٹہلنے کے بعد جب وہ تھک گئی تو چھمّی کو خط لکھنے بیٹھ گئی

خواجہ حسن نظامی
طرزِ تحریر کی خصوصیات

خواجہ حسن نظامی کے طرزِ تحریر کی خصوصیات درج ذیل ہیں:

(۱) سادگی و سلاست
خواجہ حسن نظامی زبان و بیان کی سادگی سے کام لیتے ہیں اور نہایت سہل زبان کو استعمال کرتے ہوئے بڑے مشکل مطالب بیان کر جاتے ہیں۔عام فہم الفاظ کے خوبصورت استعمال کی بدولت اُن کے نثر کی خوبصورتی برقرار رہتی ہے اور بوجھل پن محسوس نہیں ہوتا۔
بقول رام بابو سکسینہ:
خواجہ صاحب کی تحریریں نہایت سادہ، سلیس اور دلکش ہوتی ہیں۔

(۲) شوخی و ظرافت
زبان کی چاشنی اور چٹکلوں سے خواجہ حسن نظامی نے اپنی تحریروں میں مزاح کا رنگ پیدا کیا ہے۔ وہ جب کبھی مزاح کی چٹکی لیتے ہیں تو عام اور سیدھی بات کو گلاب کی سی رعنائی بخش دیتے ہیں۔ اُن کے مضامین میں عبارات ظرافت، شوخی اور لطافت کی چاشنی سے معمور نظرآتی ہیں۔
مثال کے طور پر وہ اپنے ایک مضمون پیاری ڈکار میں لکھتے ہیں:
یہ نئے فیشن کے مچھر کو زور سے ڈکار نہیں لینے دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ڈکار لینے لگے تو ہونٹوں کو بھینچ لو اور ناک کے نتھنوں سے اُسے چُپ چاپ اُڑا دو۔ آواز سے ڈکار لینی بڑی بدتمیزی ہے۔
ایک خط میں لکھتے ہیں:
میڈیکل اسٹور کی طرف جانا ہو تو میرے پیارے ڈاکٹر کا کان مڑوڑ دینا اور پریمی پیارا ملے تو اُسے منہ چڑا دینا۔

(۳) ندرتِ موضوعات
خواجہ صاحب کا کمالِ فن اُس وقت عروج پر نظر آتا ہے جب آپ کے انوکھے اور اچھوتے مضامین نظر سے گزرتے ہیں۔ انہوں نے نہایت انوکھے موضوعات پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے اپنی مہارت کی معراج کو پایا اور بڑی خوبصورتی سے اِن مضامین کو پُر لیف بنا دیا۔
ایک مضمون گلاب تمھارا کیکر ہمارا میں لکھتے ہیں:
آخر یہ میاں گُلا ب کس مرض کی دوا نہیں۔ پیٹ میں درد ہو تو گل قند کھلاﺅ، ہیضہ ہو جائے تو گلاب پلاﺅ اور اگر مر جاﺅ تو قبر پر چڑھاﺅ۔
اِس کے علاوہ اُن کا یہ رنگ مندرجہ ذیل مضامین میں نظر آتا ہے:
  • جھینگر کا جنازہ
  • مچھر کا اعلانِ جنگ
  • دیا سلائی
  • مٹی کا تیل
  • فرام قبلہ ٹو شملہ
  • پیاری ڈکار
  • سوز و گداز
علی حسن صاحب کی بعض تحریروں میں درد و الم کا عکس نظر آتا ہے۔ خاص طور پر اُن کی تصنیف غدرِ دہلی کے افسانے کے مطالعے کے بعد ایسا لگتا ہے گویا مصنف نے تحریر اپنے خونِ دل سے رقم کی ہے۔ وہ اس قدر جذباتیت کے ساتھ رنج و الم کی تصویر کشی کرتے نظر آتے ہیں کہ قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
شہزادی کی بپتا میں لکھتے ہیں:
باﺅ بلبلا گئی۔ وہ کبھی پھول کی چھڑی سے نہ پٹی تھی۔ اب ایسا طمانچہ لگا کہ اُس کے رونے سے مجھ کو بھے بے اختیار روناآ گیا۔

(۵) عارفانہ وصوفیانہ طرزِ بیان
ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ حسن علی ایک صاحبِ دل صوفی بھی تھے۔ رشد و ہدایت کی مسند انہیں ورثے میں ملی تھی۔ وہ اپنے خیالات کو قلم بند کرتے ہوئے معرفت الٰہی کے رنگ میں بڑی خوبصورتی سے پرو دیتے ہیں۔ اسلوب میں والہانہ جوش اور ایک سچے عاشق کے دل کی صدا سنائی دیتی ہے۔
بقول رام بابو سکسینہ:
خواجہ صاحب کی کتاب کرپشن بیتی کو اہلِ اسلام اور خاص کراربابِ تصوّف نے بہت پسند کیا۔

(۶) محاورات و اختصار پسندی
نثرنگار کے مضامین کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آپ کی تحریروں میں فقرات مختصر اور جامع ہوتے ہیں۔ آپ آزاد کی طرح چھوٹے مگر با محاورہ جملے ترتیب دیتے ہیں جن میں روانی اور لطافت کا عنصر نمایاں طور پر پایا جاتا ہے۔ آپ کی تحریروں میں تسلسل کا دارومدار اِنہیں مختصر،سادہ و شیریں جملوں پر ہے۔

(۷) جذبات نگاری
خواجہ حسن نظامی کی تحریریں انسانی زندگی کے سچے واقعات کی عکاس ہیں۔ آپ اِن واقعات کوترتیب دیتے ہوئے جذبات کے اظہار کا بھرپور خیال رکھتے ہیں۔ مطالعہ کرنے کے بعد قاری کے دل و ذہن پر متاثر کن اثر باقی رہتا ہے جو قاری کے دلی جذبات سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔
بیگمات کے آنسو میں وہ لکھتے ہیں:
مجھے بخار چڑھ رہا ہے۔ میری پسلیوں میں شدت کا درد ہو رہا ہے۔ مجھے سردی لگ رہی ہے۔ میری ماں مجھ سے بچھڑ گئی ہے اور بابا حضرت جلا وطن ہو گئے۔ میں اینٹ پر سر رکھے لیٹی ہوں۔ میری بدن میں کنکر چبھ رہے ہیں۔ بابا اٹھو! کب تک سو گے؟


ناقدین کی آراہ

خواجہ علی حسن نظامی کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے مختلف نقاد اُن کی تعریف بیان کرتے نظر آتے ہیں۔
صلاح الدین احمد کہتے ہیں:
خواجہ صاحب کو رنج و الم کے مضامین بیان کرنے کا جو سلیقہ ہے اُس میں علامہ راشد الخیری کے علاوہ اُن کا کوئی ہم پلہ نہیں۔
بابائے اردو مولوی عبد الحق بیان کرتے ہیں:
اگر تم صاف ستھری اور نکھری ہوئی اردو پڑھنا اور سیکھنا چاہتے ہو تو خواجہ صاحب کی نثر پڑھو۔ زبان کے ساتھ ساتھ دلّی کے واقعات کا بھی ایک جہاں آباد ہے۔
اُن کے کسی دوست کا کہنا ہے:
حسن نظامی کی پیری اور پیرزادی نے اُن کی انشاءپردازی کو چمکایا اور اُن کی انشاءپردازی نے اُن کی پیرزادی اور پیری کو شہرت دی۔
ڈاکٹر کلیم الدین احمد کہتے ہیں:
خواجہ صاحب کا اصل رنگ، خواجہ صاحب کی اصلی اہمیت اُن کی انشاءہے۔ وہ نہایت ہی آسان ، سادہ اور پُر تکلف طرز میں لکھتے ہیں۔
Tanha Karim is online now 

Friday, 5 September 2014

مکالمہ نگاری

فنی نقطہ نظر سے مکالمہ نگاری بھی ایک اہم خصوصیت سمجھی جاتی ہے۔ ناول نگار نے کہیں تو اس ناول کو پیش کرنے میں بیانیہ انداز اپنایا ہے۔ اور کہیں اس کے ساتھ ساتھ فن مکالمہ نگاری کو بھی نبھایا ہے۔ مکالمہ نگاری کرتے وقت خدیجہ مستور نے کردار وں کی ذہنی حیثیت و کیفیت کا خوب خیال رکھا ہے ان کے لکھے ہوئے سبھی مکالمےکرداروں کی شخصیت پسند و ناپسند اور محبت و نفرت کی بھر پور عکاسی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مثا ل کے طو ر پر کسم دیدی کا خاوند وطن کی کی آزادی کے لئے لئے قربان ہو جاتا ہے۔ تو کسم دیدی عالیہ کہ ماں سے کہتی ہے۔
” انھیں اگرمجھ سے محبت ہوتی تو کبھی نہ جاتے۔ انہیں توصرف اپنے دیش سے محبت تھی۔“
اس طرح مسز ہاروڈ کی گلابی اردو سے بھی انداز ہ ہوتا ہے کہ واقعی کوئی انگریز خاتون بول رہی ہے۔ یہی وہ مقام ہے کہ جہاں اس ناول کے مکالمے انتہائی فطری معلوم ہونے لگتے ہیں۔ مثال کے طور پر
”ہم آپ لوگوں سے مل کر بہت کھوش ہوا ہے۔“
”تم ہمارے پاس بیٹھنا مانگتا عالیہ“
اس کے علاوہ غصے کی وجہ سے فطری ضرورت کے تحت غصیلے کردار ایک دوسرے کے مقام کا پاس نہیں رکھتے مثلاً جب بڑی چچی کہتی ہے
” ارے اس کے بابا کو ہوش ہی کہاں ، جو اس کے دو بول پڑھا کر ٹھکانے لگا دے۔“
تو چھمی یوں جواب دیتی ہے۔
” جسے شوق ہو وہ خود اپنے دو بول پڑھوالے۔“
اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ مجموعی طور پر ناول آنگن میں ہر کردار ی گفتگو موقع و محل کے مطابق ہے۔ کرداروں کا ایک ایک لفظ ان کی نفسیاتی کیفیت اور ذہنی حیثیت کے عین مطابق ہے۔چنانچہ ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اس ناول کی مکالمہ نگاری فطری تقاضوںسے میل کھاتی ہے۔

پلاٹ

ناول کے پلاٹ پر غور کیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ناول کا پلاٹ بھی فنی اصولوں کے عین مطابق ترتیب دیا گیا ہے۔ جیسا کی ناول کی پوری کہانی قصہ در قصہ ہونے کے ساتھ ساتھ زنجیر کی کڑیوں کی طرح باہم منسلک ہے۔ سبھی حالات و واقعات یکے بعد دیگرے ایک تسلسل کے ساتھ رونما ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس طرح ناول کے پلاٹ میں ایک خاص طرح کا ربط و ضبط پیدا ہو گیا ہے۔ پورے پلاٹ میں کوئی قصہ فالتو یا بے جادکھائی نہیں دیتا۔ پلاٹ کا فنی کمال یہ ہے کہ اگر اس میں کوئی چھوٹا سا واقعہ بھی نکال دیا جائے تو پوری کہانی ایک خلاءاور خلیج کا شکار ہو کر رہ جائے گی۔ہر واقعے کا اپنی جگہ حسب ضرورت ہونا اس ناول کے پلاٹ کی ایک اہم فنی خصوصیت ہے جو ناول نگار کی فہم و فراست اور فن کاری و پرکاری کا نتیجہ ہے۔ فنی لحاظ سے یہ ایک انتہائی ا ہم اور بنیادی خوبی سمجھی جاتی ہے۔

منظر نگاری

منظر نگاری کو بھی فنی حیثیت سے کسی بھی کہانی میں ایک بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس ناول میں قدرتی منظر کشی نہ ہونے کے برابر ہے۔ صرف سامنے والے درختوں سے الو کے بولنے کی آواز آتی رہتی ہے۔ اور درختوں کے جھنڈ قدرتی منظر کی ایک جھلکی سی پیش کر دیتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ایک موقعے پر رات کے وقت آسمان پر چاند چمک رہا ہے اور ایسے میں پرندے اڑ رہے ہیں۔ جو کہ ایک نامکمل اور قابل گرفت منظر ہے کہ رات کے وقت پرندے کب اُڑتے ہیں

اسلوب

ناول نگار نے انتہائی سادہ اور سلیس اندازِ بیان اختیار کرتے ہوئے ناول کی عبارت کو دلکش اور دلچسپ بنا دیا ہے پورے ناول کے شروع سے لے کر اخر تک ایسے مشکل الفاظ بالکل نظرنہیں آتے جو ذہن پر بوجھ کا سبب بنتے ہوں۔ ناول کی عبارت سادہ اور سلیس ہونے کے باعث رواں دواں ہے۔ یہی وہ روانی ہے جس کے نتیجے میں ناول دل آویزی کی حد تک دلکشی اور دلچسپی سے ہمکنار ہوا ہے۔ ناول نگارنے بیچ بیچ میں طنزیہ و مزاحیہ انداز بیا ن اختیار کرتے ہوئے سونے پر سہاگے کا کام کیا ہے مثال کے طور پر چھمی ایک موقعے پر کہتی ہے ۔
” اے ہے کلو کی اماں ایک لڑکا تھا نا مزدوروں کی کسی جماعت میں چلا گیا وہ جماعت انڈر گرائونڈ رہتی ہے اللہ وہ زمین کے اندر کیسے رہتے ہوگے۔“

تجسّس وجستجو

فن کے پیش نظر تجسّس اور جستجو کے عناصر بھی کہانی کے لئے انتہائی ہیں۔ مذکورہ ناول میں یہ عناصر خوب زوروں پر ہیں۔ شروع سے لے کر آخر تک تجسّس کی ایک برقی رو ۔ دوڑتی محسوس ہوتی ہے۔ پڑھنے والا قدم قدم پر سوال اٹھاتا رہتا ہے کہ اب کیا ہوگا؟ مظہر چچا جب جیل چلے جاتے ہیں تو ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ بڑے چچا کے گھر میں عالیہ اور اس کی اماں کس طرح گزارہ کر یں گے۔ کیا مظہر چچا کوقید ہو جائے گی یا رہا ہو کر واپس آجائیں گے۔ تہمینہ اور صفدر ایک دوسرے کو پالیں گے۔ یا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کھو دیں گے۔ صفدر کبھی واپس آئے گا یا نہیں۔ تہمینہ کی شادی جمیل کے ساتھ ہوگی کہ نہیں؟مگر جب تہمینہ خودکشی کر لیتی ہے توہمیں ان سوالوں کے جواب خود بخود مل جاتے ہیں ۔ اس طرح کسم دیدی کا واقعہ ہو۔ شکیل کا گھر سے بھاگ جانا ہو چھمی کی طلاق ہو کانگرس اور مسلم لیگ کے جلسے جلوس ہوں یا ہندو مسلم فسادات سبھی حالات و واقعات اپنے اندر بے پنا ہ تجسّس لئے ہوئے ہیں جن سے ناول کی دلچسپی اور دلکشی میں بھر پور اضافہ ہوا ہے۔
مجموعی طور پر ناول ”آنگن “فنی لوازمات کے تقاضوں پر پورا اترتا ہے۔ چنانچہ ہم اسے ایک کامیاب ناول قرار دے سکتے ہیں۔
آنگن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خدیجہ مستور۔۔۔۔۔۔۔۔۔جائزہ
ناول میں گھریلو آنگنوں کے ساتھ ساتھ پور ے ہندوستان کو ایک آنگن قرار دیا گیا ہے۔ اس لئے کہ مذکور ہ ناول میں مظہر چچا ، رائے صاحب اور کسی حد تک ماموں کے گھریلو حالات کے ساتھ ساتھ پورے ہندوستان کی صورت حال کانقشہ کھینچا گیاہے۔ ٍناول کا تانا بانا اس طرح تیار کیاگیاکہ رومانیت کا عنصر بڑی حد تک ناول میں پایا جاتا ہے۔
اس کے دلی جذبات و احساسا ت کا بھر پور کی بھر پور ترجمانی کرتے ہیں۔ مگر کسم دیدی کے حوالے سے ناول نگار نے انتہائی حقیقت نگاری اور نفسیات نگاری کا مظاہر ہ کرتے ہوئے۔ یہ تلخ حقیقت ظاہر کر دی ہے کہ وہی کسم دیدی جو اپنے خاوند کی یاد میں دن رات روتی تھی ،آخر ایک غیر مرد کے ساتھ گھر سے بھاگ جاتی ہے۔ اس مقام پر خدیجہ مستور نے یہ نفسیاتی حقیقت ظاہر کی ہے کہ محبت اور عورت و مرد کی قربت ایک فطری جذبہ ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے۔
جیسا کہ شروع میں کہا گیا ہے کہ یہ ایک سیاسی سماجی ناول ہے۔ تحریک آزادی کا مسلمان گھرانوں کی زندگی اور مسلمانوں کے ذہنوں پر کیا اثر ہوا ۔ ان سب کااحوال اس ناول میں موجود ہے۔ ناول میں انگریزی تہذیب و تمدن اور انگریزوں کی مخالفت ہی سے تحریک آزادی کا آغاز ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ”ڈیم پھول“ کہنے پر مظہر چچا انگریز افسر کے سر پر ایسا وار کرتے ہیں کہ افسر کا سر پھوڑ ڈالتے ہیں۔ ناول نگار نے یہاں پر اس مقام کی عکاسی کر دی ہے۔ جہاں غلامی کی زنجیریں ہندوستانی غلاموں کے لئے ناقابل برداشت ہو چکی تھیں۔ یوں لگتا ہے کہ اب وہ ان زنجیروں کو پاش پاش کر دینا چاہتے ہیں۔ مظہر چچا کا کردار راہ آزادی کے ایسے ہی جانباز وں کی زندہ جاوید قربانیوں کی لازاوال مثال جو طوق غلامی اتار پھینکنے کی خاطر اپنا تن من دھن قربان کر دینے پر تلے ہوئے تھے، ان کی ساری ساری زندگیاں جیلوں میں کٹ گئیں ، بے شمارافراد ایسے بھی تھے جن کی اموات جلیوں میں واقع ہوئیں ۔آزادی کا نام لینے کے جرم کی پاداش میں وہ آہنی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دئیے گئے۔ لیکن دوبار جیتے جی اپنے پیاروں سے نہ مل سکے۔ ان کی آنکھیں آزادی کے چراغاں کو ترستی رہ گئیں ، لیکن جیل کے آہنی دروازوں سے ان کی لاشیں ہی باہر آسکیں۔ آزادی کی خاطر مظہر چچا کی طرح بے شمار لوگوں کے گھر اجڑے ۔ آنگن ان سب تلخ حقائق کی عکاسی بھر پور انداز میں کرتی ہے۔
راہ آزادی کے مسافروں نے منزی آزادی تک پہنچنے کے لئے ہر طرح کی قربانیاں دیں۔مظہر چچا کی طرح ملازمتوں سے ہاتھ دھوئے ۔ گھر بار اجاڑ دئیے ۔ بال بچے در بدر ہوئے۔ بڑے چچا کی طرح کاروبار کی آمدن اولاد پر خرچ کرنے کے بجائے، تحریک آزاد ی کے مجاہدوں نے آ زادی پرسب کچھ لٹا دیا۔ جس کی وجہ سے خاندانوں کی معاشی حالت بھی بگڑتی چلی جارہی تھی۔ گھر میں شکیل جیسے معصوم بچوں کے لئے پڑھنے کو کتابیں نہ تھیں۔ اس لئے کہ بڑے چچا جیسے مجاہد سب کچھ آزادی پر نچھاور کر رہے تھے۔ گھر میں ماں جیسی قریبی ہستی کی موت واقع ہو جاتی ہے مگر لوگ ماں کا سوگ منانے کے بجائے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد میں ہمہ تن مصروف رہتے۔
دوسری طرف مزید باریک بینی میں جاتے ہوئے مسلم لیگ اور کانگرس کی آویزش اور کشمکش کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ بڑے چچا مسلمان ہوتے ہوئے بھی کانگرسی ہیں اور اپنے گھر والوں خصوصاً چھمی سے کافر چچا کا خطاب پاتے ہیں۔ یعنی ہندوستان کا ایک ایک مسلمان گھرانہ دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ جمیل کی لاہور آمد اور قرار داد پاکستان میں شرکت اس سیاسی حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ ایک ہی خاندان کے قریبی رشتے مختلف سیاسی نظریات و تصورات رکھتے تھے کوئی پاکستان بنا رہا ہے اور کوئی بڑے چچا کی صورت میں اس کی مخالفت کر رہا ہے۔
ناول کی فضاءسے عدم تعاون کی تحریک اور خلافت کی ترجمانی بھی ہو رہی ہے۔ جذبہ آزادی اور تحریک خلافت کی متوالی مائیں اپنے جوان بیٹوں کو کھلے دل سے کہتی تھیں۔
بوڑھی اماں کا تم غم نہ کرنا
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
کانگرس اور مسلم لیگ کی حریفانہ کشمکش کے نتیجے میں ہندو مسلم کش فسادات بھی ہوتے رہتے ہیں اگرچہ اس وقت ابھی آزادی کی منزل بھی دور تھی۔ لیکن راہ آزادی کے مسافر ہندومسلم کی صورت میں پہلے ہی ایک دوسرے کا خون بہا رہے تھے جو کہ اپنی نوعیت کا ایک المیہ ہے۔
آخر تحریک آزادی اپنی منزل مقصود تک پہنچتی نظرآتی ہے۔ آزادی حاصل کرنے کے دنوں میں ہندوستان تقسیم ہو گیا۔ اور پھر ناول میں اس بھیانک دور کا بھی ذکر ہے جب پورے ہندوستان میں فسادات ہوتے ہیں خون کی ندیاں بہتی ہیں ۔ ہر طرف خون ہی خون ہے۔ ہندو مسلمان دشمنی میں یہاں تک بڑھ گئے ہیں کہ ساری عمر کافر چچا اور ہندو مزا ج کے طعنے برداشت کرنے والے بڑے چچا کو قتل کر دیا جاتاہے۔ جو کہ ایک کٹر کانگریسی تھے۔ لیکن ان کا گنا ہ صرف اتنا تھا کہ وہ مسلمان تھے۔ یہاں ناول نگار نے ایک لحاظ سے یہ حقیقت ظاہر کر دی ہے کہ کچھ بھی ہو جائے ۔ ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے دوست نہیں بن سکتے ۔ مذہبی فرق اور عقیدے کیوجہ سے اگر موقع ملے تو بڑے چچا جیسے کٹر کانگریسی بھی ہندو کے وار سے نہیں بچ سکتے۔
ناول نگار نے اس حقیقت کی ہو بہو عکاسی کر دی ہے کہ مسلمان تو کانگریسی تھے اور اب بھی ہیں لیکن کوئی ہندو تو اُس وقت مسلم لیگی نہیں تھا۔ اور نہ اب ہے۔ خدیجہ مستور نے تقسیم کی صورت میں مہاجرین اور کے قافلوں کا ادھر ادھر آنا جانا بھی دکھایا ہے۔ راستے میں جس طرح قافلے لٹ پٹ جاتے ہیں ۔ ناول نگار نے ہو بہو عکاسی و ترجمانی کر دی ہے۔
اماں کے بھائی بہن کے لئے پاکستا ن میں ایک بنگلے کا بندوبست کر دیتا ہے اور کہیں سے جعلی رسیدےں لا کر عالیہ کی موجودگی میں سمجھاتا ہے کہ اگر کوئی پوچھے تو کہنا ، فرنیچر ہم نے خریدا ہے۔ ناول نگار نے اس مقام پر دبے الفاظ میں اس جعل سازی ، دھوکہ دہی اور چور بازاری کی جھلکی دکھادی ہے۔ جو آج پاکستانیوں کا شعار بنی ہوئی ہے۔ یہ تلخ حقیقت ایک بہت بڑا المیہ ہے اور یہ اس المیے کا آغاز پاکستان بنتے ہی ہوگیا تھا۔
بہر حال فکری طور پر ناول آنگن رومانوی انداز میں تحریک آزادی کی ایک دل دوز داستان ہے۔ مختلف ادوار کے حوالے سے مختلف تحریکوں کا ذکر کرتے ہوئے ناول نگار نے دور ِ غلامی اور تحریک آزادی کا تجزیہ اس انداز میں کیا ہے کہ ماضی اور حا ل کی پوری اور مکمل تصویر دل و دماغ میں نقش ہو کر رہ جاتی ہے۔ راہ آزادی کے مجاہدوں نے جن کٹھن اور نامساعد حالات میں آزادی حاصل کرنے کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے ان کا ذکر انتہائی موثر انداز میں کر دیا گیا ہے۔ مگر سوال یہ پیداہوتا ہے کہ آیا ان مجاہدوں اور شہیدوں نے جو آزادی امانت کے طور پر ہمارے پاس چھوڑ ی ہم اس کی حفاظت میں کہاں تک مخلص ہیں؟ یہ سوال ہمارے لئے لمحہ فکریہ سے کم نہیں۔

Home » Class XI » XI Urdu » آزادی کی راہ میں

آزادی کی راہ میں تمھیں چراغ بجھانے کا غرور ہے لیکن
ہمیں طلوعِ سحر کا ہنر بھی آتا ہے

اس سبق کی مصنفہ ممتاز ترقی پسند افسانہ نگار وہ ناول نویس خدیجہ مستور ہیں اور یہ اُن کے مشہور دو معروف ناول آنگن کا ایک ذیلی حصہ ہے۔ اُن کا یہ ناول کردارنگاری، منظر نگاری اور اسلوب کے لحاظ سے ایک منفرد ناول ہے۔ ڈاکٹر احسن فاروقی کہتے ہیں:
آنگن کسی ایک گھر کی کہانی نہیں بلکہ اِس کینوس پر پورا برّ صغیر رنگ بکھیرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
خدیجہ مستور نے تحریکِ جدوجہدِ آزادی کے پسِ منظر میں یہ ناول لکھا ہے اور بتانا چاہا ہے کہ:
آزادی کے متوالے غلامی کے خلاف نفرت رکھتے ہیں اور جب کبھی موقع ملتا ہے جذبات کا یہ آتش فشاں پھوٹ بہتا ہے۔
اس ناول کا مرکزی کردار ایک لڑکی عالیہ ہے لیکن اِس کردار کے پسِ پردہ دراصل مصنفہ خود ہیں اور یہ اُن کے گھر کی کہانی ہے۔ اُن کے والد انگریز سرکار کے ملازم ہیں لیکن اُن سے سخت نفرت کرتے ہیں اور اس سلسلے میں ان کے بارے میں گوہر افشانی کرتے رہتے ہیں۔ ایک بار اُن کا ایک انگریز افسر دورے پر آ رہا ہوتا ہے تو اُن کے شدید مخالف ہونے کے باوجود وہ اس کے استقبال کی تیاری کرتے ہیں۔ ڈاک بنگلے میں اُسے ٹہرانے کا انتظام ہوتا ہے۔ گھر کے میز پوش اور گلدان وغیرہ بھی وہاں پہنچا دیے جاتے ہیں اور اُس کے لئے بہترین کھانے پکانے کی ہدایت بھی جاری کر دی جاتی ہے۔ یہ سب دیکھ کر عالیہ کی والدہ اُن کا مذاق اُڑاتی ہیں اور کہتی ہیں:
خوب! انگریزوں کو گالیاں دیتے ہیں اور اب وہ آ رہا ہے تو مارے ڈر کے سٹی گُم ہے حضرت کی! زبانی جمع خرچ کرنے میں کیسے تیز ہوتے ہیں لوگ بھی۔
ایسی باتیں سن کر عالیہ کو اپنی ماں پر بڑا غصہ آتا اور وہ سوچتی کہ:
کاش وہ ایک ذرا دیر کو امّاں کی امّاں بن سکتی تو پھر بتاتی کہ چھیڑ خانی کرنے کا کیا فائدہ ہوتا ہے۔
بہرحال عالیہ کے والد بہت سویرے ہی اس انگریز افسر کے خیر مقدم کیلئے اسٹیشن پہنچ جاتے ہیں اور دوپہر تک واپس نہیں آتے ہیں۔ ادھر دسترخوان مختلف انواع و اقسام کی خوشبوﺅں سے مہک رہا ہوتا ہے کہ ایک چپراسی گھبرایا ہوا آتا ہے اور یہ اطلاع دیتا ہے کہ عالیہ کے والد نے اسٹیشن پر ہی اُس انگریز افسر کا سر پھاڑ دیا ہے کیونکہ اس نے انہیں ڈیم فول کہہ دیا تھا اور اب وہ حوالات میں بند ہیں۔
اس واقعہ کی اطلاع عالیہ کے ماموں اور چچا تک پہنچائی جاتی ہے چونکہ اس گھرانے کو ایک سرپرست کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ماموں تو اس کام سے یہ کہہ کر فرار حاصل کر لیتے ہیں کہ:
اقدامِ قتل بہت بڑا جُرم ہے، ایسے آدمی کی بیوی بچوں کی سرپرستی کرنے میں انہیں بھی خطرہ ہے۔
لیکن چچا چونکہ انگریزوں اور ماموں دونوں سے نفرت کرتے ہیں وہ برملا انگریزوں پر بگڑتے ہیں اور یہاں اہلِ خانہ کے سروں پر ہاتھ رکھتے ہیں اور انہیں اپنے گھر لے جاتے ہیں۔ جب یہ لوگ روانہ ہونے کے لئے تانگے پر سوار ہوتے ہیں تو عالیہ کی اسکول کی نگران عیسائی خاتون انہیں یہ کہہ کر تسلی دیتی ہے کہ:
تم لوگ کھوش رہنا، گَم مت کرنا، تمارا فادر بوت اچھا آدمی تھا، تمارا ملک جرور آباد ہوگا۔
چچا کے گھر پہنچنے کے بعد عالیہ بستر پر کروٹیں بدل رہی ہوتی ہے۔ وہ سوچتی ہے کہ اُن کے والد کا قید میں کیا حال ہو گا؟ کاش اُسے نیند آ جائے یا صبح ہو جائے
- See more at: http://www.guesspapers.net/5873/%D8%A2%D8%B2%D8%A7%D8%AF%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D8%B1%D8%A7%DB%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA/#sthash.D2G4VBfy.dpuf ناول میں گھریلو آنگنوں کے ساتھ ساتھ پور ے ہندوستان کو ایک آنگن قرار دیا گیا ہے۔ ا
Home » Class XI » XI Urdu » آزادی کی راہ میں

آزادی کی راہ میں تمھیں چراغ بجھانے کا غرور ہے لیکن
ہمیں طلوعِ سحر کا ہنر بھی آتا ہے

اس سبق کی مصنفہ ممتاز ترقی پسند افسانہ نگار وہ ناول نویس خدیجہ مستور ہیں اور یہ اُن کے مشہور دو معروف ناول آنگن کا ایک ذیلی حصہ ہے۔ اُن کا یہ ناول کردارنگاری، منظر نگاری اور اسلوب کے لحاظ سے ایک منفرد ناول ہے۔ ڈاکٹر احسن فاروقی کہتے ہیں:
آنگن کسی ایک گھر کی کہانی نہیں بلکہ اِس کینوس پر پورا برّ صغیر رنگ بکھیرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
خدیجہ مستور نے تحریکِ جدوجہدِ آزادی کے پسِ منظر میں یہ ناول لکھا ہے اور بتانا چاہا ہے کہ:
آزادی کے متوالے غلامی کے خلاف نفرت رکھتے ہیں اور جب کبھی موقع ملتا ہے جذبات کا یہ آتش فشاں پھوٹ بہتا ہے۔
اس ناول کا مرکزی کردار ایک لڑکی عالیہ ہے لیکن اِس کردار کے پسِ پردہ دراصل مصنفہ خود ہیں اور یہ اُن کے گھر کی کہانی ہے۔ اُن کے والد انگریز سرکار کے ملازم ہیں لیکن اُن سے سخت نفرت کرتے ہیں اور اس سلسلے میں ان کے بارے میں گوہر افشانی کرتے رہتے ہیں۔ ایک بار اُن کا ایک انگریز افسر دورے پر آ رہا ہوتا ہے تو اُن کے شدید مخالف ہونے کے باوجود وہ اس کے استقبال کی تیاری کرتے ہیں۔ ڈاک بنگلے میں اُسے ٹہرانے کا انتظام ہوتا ہے۔ گھر کے میز پوش اور گلدان وغیرہ بھی وہاں پہنچا دیے جاتے ہیں اور اُس کے لئے بہترین کھانے پکانے کی ہدایت بھی جاری کر دی جاتی ہے۔ یہ سب دیکھ کر عالیہ کی والدہ اُن کا مذاق اُڑاتی ہیں اور کہتی ہیں:
خوب! انگریزوں کو گالیاں دیتے ہیں اور اب وہ آ رہا ہے تو مارے ڈر کے سٹی گُم ہے حضرت کی! زبانی جمع خرچ کرنے میں کیسے تیز ہوتے ہیں لوگ بھی۔
ایسی باتیں سن کر عالیہ کو اپنی ماں پر بڑا غصہ آتا اور وہ سوچتی کہ:
کاش وہ ایک ذرا دیر کو امّاں کی امّاں بن سکتی تو پھر بتاتی کہ چھیڑ خانی کرنے کا کیا فائدہ ہوتا ہے۔
بہرحال عالیہ کے والد بہت سویرے ہی اس انگریز افسر کے خیر مقدم کیلئے اسٹیشن پہنچ جاتے ہیں اور دوپہر تک واپس نہیں آتے ہیں۔ ادھر دسترخوان مختلف انواع و اقسام کی خوشبوﺅں سے مہک رہا ہوتا ہے کہ ایک چپراسی گھبرایا ہوا آتا ہے اور یہ اطلاع دیتا ہے کہ عالیہ کے والد نے اسٹیشن پر ہی اُس انگریز افسر کا سر پھاڑ دیا ہے کیونکہ اس نے انہیں ڈیم فول کہہ دیا تھا اور اب وہ حوالات میں بند ہیں۔
اس واقعہ کی اطلاع عالیہ کے ماموں اور چچا تک پہنچائی جاتی ہے چونکہ اس گھرانے کو ایک سرپرست کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ماموں تو اس کام سے یہ کہہ کر فرار حاصل کر لیتے ہیں کہ:
اقدامِ قتل بہت بڑا جُرم ہے، ایسے آدمی کی بیوی بچوں کی سرپرستی کرنے میں انہیں بھی خطرہ ہے۔
لیکن چچا چونکہ انگریزوں اور ماموں دونوں سے نفرت کرتے ہیں وہ برملا انگریزوں پر بگڑتے ہیں اور یہاں اہلِ خانہ کے سروں پر ہاتھ رکھتے ہیں اور انہیں اپنے گھر لے جاتے ہیں۔ جب یہ لوگ روانہ ہونے کے لئے تانگے پر سوار ہوتے ہیں تو عالیہ کی اسکول کی نگران عیسائی خاتون انہیں یہ کہہ کر تسلی دیتی ہے کہ:
تم لوگ کھوش رہنا، گَم مت کرنا، تمارا فادر بوت اچھا آدمی تھا، تمارا ملک جرور آباد ہوگا۔
چچا کے گھر پہنچنے کے بعد عالیہ بستر پر کروٹیں بدل رہی ہوتی ہے۔ وہ سوچتی ہے کہ اُن کے والد کا قید میں کیا حال ہو گا؟ کاش اُسے نیند آ جائے یا صبح ہو جائے
- See more at: http://www.guesspapers.net/5873/%D8%A2%D8%B2%D8%A7%D8%AF%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D8%B1%D8%A7%DB%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA/#sthash.D2G4VBfy.dpuf
Home » Class XI » XI Urdu » آزادی کی راہ میں

آزادی کی راہ میں تمھیں چراغ بجھانے کا غرور ہے لیکن
ہمیں طلوعِ سحر کا ہنر بھی آتا ہے

اس سبق کی مصنفہ ممتاز ترقی پسند افسانہ نگار وہ ناول نویس خدیجہ مستور ہیں اور یہ اُن کے مشہور دو معروف ناول آنگن کا ایک ذیلی حصہ ہے۔ اُن کا یہ ناول کردارنگاری، منظر نگاری اور اسلوب کے لحاظ سے ایک منفرد ناول ہے۔ ڈاکٹر احسن فاروقی کہتے ہیں:
آنگن کسی ایک گھر کی کہانی نہیں بلکہ اِس کینوس پر پورا برّ صغیر رنگ بکھیرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
خدیجہ مستور نے تحریکِ جدوجہدِ آزادی کے پسِ منظر میں یہ ناول لکھا ہے اور بتانا چاہا ہے کہ:
آزادی کے متوالے غلامی کے خلاف نفرت رکھتے ہیں اور جب کبھی موقع ملتا ہے جذبات کا یہ آتش فشاں پھوٹ بہتا ہے۔
اس ناول کا مرکزی کردار ایک لڑکی عالیہ ہے لیکن اِس کردار کے پسِ پردہ دراصل مصنفہ خود ہیں اور یہ اُن کے گھر کی کہانی ہے۔ اُن کے والد انگریز سرکار کے ملازم ہیں لیکن اُن سے سخت نفرت کرتے ہیں اور اس سلسلے میں ان کے بارے میں گوہر افشانی کرتے رہتے ہیں۔ ایک بار اُن کا ایک انگریز افسر دورے پر آ رہا ہوتا ہے تو اُن کے شدید مخالف ہونے کے باوجود وہ اس کے استقبال کی تیاری کرتے ہیں۔ ڈاک بنگلے میں اُسے ٹہرانے کا انتظام ہوتا ہے۔ گھر کے میز پوش اور گلدان وغیرہ بھی وہاں پہنچا دیے جاتے ہیں اور اُس کے لئے بہترین کھانے پکانے کی ہدایت بھی جاری کر دی جاتی ہے۔ یہ سب دیکھ کر عالیہ کی والدہ اُن کا مذاق اُڑاتی ہیں اور کہتی ہیں:
خوب! انگریزوں کو گالیاں دیتے ہیں اور اب وہ آ رہا ہے تو مارے ڈر کے سٹی گُم ہے حضرت کی! زبانی جمع خرچ کرنے میں کیسے تیز ہوتے ہیں لوگ بھی۔
ایسی باتیں سن کر عالیہ کو اپنی ماں پر بڑا غصہ آتا اور وہ سوچتی کہ:
کاش وہ ایک ذرا دیر کو امّاں کی امّاں بن سکتی تو پھر بتاتی کہ چھیڑ خانی کرنے کا کیا فائدہ ہوتا ہے۔
بہرحال عالیہ کے والد بہت سویرے ہی اس انگریز افسر کے خیر مقدم کیلئے اسٹیشن پہنچ جاتے ہیں اور دوپہر تک واپس نہیں آتے ہیں۔ ادھر دسترخوان مختلف انواع و اقسام کی خوشبوﺅں سے مہک رہا ہوتا ہے کہ ایک چپراسی گھبرایا ہوا آتا ہے اور یہ اطلاع دیتا ہے کہ عالیہ کے والد نے اسٹیشن پر ہی اُس انگریز افسر کا سر پھاڑ دیا ہے کیونکہ اس نے انہیں ڈیم فول کہہ دیا تھا اور اب وہ حوالات میں بند ہیں۔
اس واقعہ کی اطلاع عالیہ کے ماموں اور چچا تک پہنچائی جاتی ہے چونکہ اس گھرانے کو ایک سرپرست کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ماموں تو اس کام سے یہ کہہ کر فرار حاصل کر لیتے ہیں کہ:
اقدامِ قتل بہت بڑا جُرم ہے، ایسے آدمی کی بیوی بچوں کی سرپرستی کرنے میں انہیں بھی خطرہ ہے۔
لیکن چچا چونکہ انگریزوں اور ماموں دونوں سے نفرت کرتے ہیں وہ برملا انگریزوں پر بگڑتے ہیں اور یہاں اہلِ خانہ کے سروں پر ہاتھ رکھتے ہیں اور انہیں اپنے گھر لے جاتے ہیں۔ جب یہ لوگ روانہ ہونے کے لئے تانگے پر سوار ہوتے ہیں تو عالیہ کی اسکول کی نگران عیسائی خاتون انہیں یہ کہہ کر تسلی دیتی ہے کہ:
تم لوگ کھوش رہنا، گَم مت کرنا، تمارا فادر بوت اچھا آدمی تھا، تمارا ملک جرور آباد ہوگا۔
چچا کے گھر پہنچنے کے بعد عالیہ بستر پر کروٹیں بدل رہی ہوتی ہے۔ وہ سوچتی ہے کہ اُن کے والد کا قید میں کیا حال ہو گا؟ کاش اُسے نیند آ جائے یا صبح ہو جائے
- See more at: http://www.guesspapers.net/5873/%D8%A2%D8%B2%D8%A7%D8%AF%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D8%B1%D8%A7%DB%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA/#sthash.D2G4VBfy.dpuf