Friday, 12 December 2014


۵۔ سیّد محمد جعفری
 کا زمانہ سیاسی مد و جزر، معاشی کساد بازاری اور امن و امان کی ناگفتہ بہ صورتحال کے ساتھ ہندو مسلم فسادات کی اندوہ ناک داستانوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے تھا۔ لا الہ الا اللہ، یو۔ این۔ او، کنونشن مسلم لیگ، الیکشن کا ساقی نامہ، وزیروں کی نماز، کلرک، پرانا کوٹ، ابلیس کی فریاد وغیرہ ان کی اہم نظمیں ہیں۔

قیام پاکستان کے حصول کی سیاسی جدوجہد کے عہد میں سیّد محمد جعفری کی عمر ۴۲ سال تھی اور مسلمانوں کے دلوں میں بسنے والی تمنّاؤں کو انھوں نے بہت قریب سے دیکھا اور محسوس کیا، کیوں کہ یہی آرزوئیں ان کے سینے میں بھی بار آور تھیں۔ ان خوابوں کا خون ہوتے دیکھ کر سیّد محمد جعفری نے طنز و مزاح کا رُخ کیا۔ کئی دیگر موضوعات کے ساتھ وطن کی مٹی کی خوشبو ان کے کلام میں جگہ جگہ محسوس ہوتی ہے۔ مسلم لیگ جس کو سیاستدانوں اور فوجی آمروں نے ہمیشہ یرغمال بنائے رکھا، جب یرغمالی کا ایک نیا رُوپ اختیار کرتی ہے تو جعفری ’’کنونشن مسلم لیگ‘‘ کے عنوان سے پھٹ پڑتے ہیں :

آج کل ہیں حضرتِ ابلیس مسلم لیگ میں

دے رہے ہیں مشورے بے فیس مسلم لیگ میں

ہے علی بابا، الگ چالیس مسلم لیگ میں

توسنِ چالاک کے سائیس مسلم لیگ میں

لیگ کے گھوڑے کو پشتک اور دولتی سے ہے کام

بعد مرگ قائد اعظمؒ ہوا ہے بد کلام

اپنی اپنی ڈفلیاں ہیں اپنے اپنے راگ ہیں

چند ان میں نیولے ہیں ، چند ان میں ناگ ہیں

چند اک ایلسیشن، چند اک بل ڈاگ ہیں

جو مویشی لڑ رہے ہیں ان کے منہ میں جھاگ ہیں

ایسٹ پاکستان ہے اور ویسٹ پاکستان ہے

قوم زندہ ہے مگر اس کے لبوں پر جان ہے

سیّد محمد جعفری نے طنز و مزاح کو پھکڑ پن سے صاف کر کے ایک منفرد تخلیقی لہجہ عطا کیا اور جدید دور کی طنزیہ شاعری کے صفِ اوّل کے معماروں میں شمار ہوئے۔ ان کی طنزیہ شاعری کے نشتروں پر انور مسعود کا تبصرہ ملاحظہ ہو:

’’۔ ۔ ۔ سیّد محمد جعفری اپنے وطن کے سیاستدانوں کی نیتوں سے بخوبی واقف تھے، پاکستانی معاشرے میں پھیلی ہوئی ہوس کیشی، چور بازاری، دفتری کار گزاری اور ریا کاری کو بھی وہ خوب جانتے تھے۔ الیکشن کے ڈراموں کے بھی بڑے باریک بیں ناظر تھے۔ عالمی سیاست کے افق پر مغربی ممالک کی فتنہ پردازیوں کا بھی بھرپور ادراک رکھتے تھے اور ایشیائی ممالک میں برطانیہ اور امریکہ کی شر انگیزیوں اور ریشہ دوانیوں سے پوری طرح آگاہ تھے۔ اس آزارِ آگہی کو انھوں نے طنز و مزاح کا روپ دے کر اس طرح اپنا موضوع بنایا کہ ہمیں اپنے سامنے لا کھڑا کیا اور عالمی استعمار گروں کو بھی آئینہ دکھایا۔ ۔ ۔ ‘‘ [۱۹]

سیّد محمد جعفری تضمین کے ماہر تھے اس ضمن میں انھوں نے غالب و اقبال سے بھرپور استفادہ کیا۔ جعفری بنیادی طور پر طناز تھے اس لیے ان کے کلام میں اکثر مقامات پر مزاح کے ساتھ طنز کی نشتریت نمایاں ہے۔ ذیل کی نظموں میں اس کے نمونے دیکھیے:

لا الہ الا اللہ

زباں سے کہتا ہوں ہاں لا ا لہ الا اللہ

نہیں عمل سے عیاں لا الہ الا اللہ

الاٹ منٹ ہیں یاروں کی آستینوں میں

’’نہ ہے زمیں نہ مکاں لا الہ الا اللہ‘‘

مدیر و پیر و وزیر و سفیر و شیخ و کبیر

’’بتانِ وہم و گماں لا الہ الا اللہ‘‘

نمازی آئیں نہ آئیں اذان تو دے دوں

’’مجھے ہے حکمِ اذاں لا الہ الا اللہ‘‘

جو مولوی ہیں وہ کھاتے ہیں رات دن حلوے

’’بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا اللہ‘‘

وزیروں کی نماز

عید الاضحی کی نماز اور وہ انبوہ کثیر

جبکہ اللہ کے دربار میں تھے پاک وزیر

وہ مصلوں پہ مسلط تھے بہ حسن تقدیر

تھے ریزرو ان کے مصلّے، یہ مساوات کبیر

آج کل یہ ہے نماز اور کبھی وہ تھی نماز

’’ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمودو ایاز‘‘

پہلی صف میں وہ کھڑے تھے کہ جو تھے بندہ نواز

جیسے ایک رِند خرابات ہو ملّاؤں میں

آ کے بیٹھے بھی نہ تھے وہ کہ نکالے گئے

جیب کتری گئی ان کی یہ صلہ لے بھی گئے

پندت رتن ناتھ سر شار کی ناول نگاری ۔
مولانا عبدالحلیم شرر پنڈت رتن ناتھ سرشار کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ:
” آپ نے ”فسانہ آزا د کیا لکھا زبان اردو کے حق میں مسیحائی کی ہے۔“
بیگم صالحہ عابد حسین ”فسانہ آزاد کے متعلق لکھتی ہیں،
”اردو زبان سمجھنے کے ليے ”فسانہ آزاد“ پڑھنا چاہیے۔“

فسانہ آزاد اودھ اخبار میں مسلسل ایک سال تک شائع ہوتا رہا۔ اور کافی مقبول ہوا ۔ قارئین اخبار ہر قسط کے ليے بے تاب رہتے ۔ اور شوق سے اسے پڑھتے ۔ اردو ادب میں دراصل یہ پہلا موقع تھا کہ کسی اخبار میں باقاعدہ طور پر ناول کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ لیکن آج تک یہ بات متنازعہ ہے کہ فسانہ آزاد کو کس صنف نثر میں شمار کیا جائے۔ اسے ناول کہا جائے یا داستان ۔
اسلوب

پریم پا ل اشک نے سرشار کے اسلوب کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے ایک تقلیدی انداز اور دوسرا تخلیقی ۔ تقلیدی انداز میں صریحاً رجب علی بیگ کے اسلوب اور زبان کی جھلک نظرآتی ہے۔ اور سرور کی سی مسجع اور مقفٰی عبارت ملتی ہے۔ مگر سرشار ایسا اسلوب صرف منظر نگاری کے وقت اختیار کرتے ہیں۔ اس کے علاو ہ انھوں نے ناول میں اپنا انفرادی اسلوب برتا ہے جو کہ اُن کا اپنا تخلیقی رنگ ہے۔

بیگماتی زبان:۔
پنڈت رتن ناتھ سرشار نے فسانہ آزاد میں خاکروب سے لے کر نواب تک اور کنجڑوں سے لے کر بیگم تک ہر طبقے کی زبان استعمال کی ہے۔ اور یہ لطف یہ کہ ہر طبقہ اور پیشے کے مطابق بو ل چال کا انداز برتا ہے۔محققین کی تحقیق کے مطابق سرشار نے بیگماتی زبان بچپن سے اپنے پڑوس میں رہنے والی مسلمان مستورات سے سیکھی تھی ۔ ۔ ”اے میں کہی ہوں آخر یہ ماجراکیا ہے؟ منہ دیکھنے کو نگوڑا جی ترس گیا ۔ دن رات کڑھا کرتی ہوں ۔ اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر میر ے جی کا حال اللہ ہی جانتا ہے یا میں جانتی ہوں۔ آپ کا تو یہ حال ہے کہ چوبیسویں دن صورت دکھائی تو جیسے آگ لینے آئے تھے۔“

محاورے:۔[ترمیم]
سرشار نے ”فسانہ آزاد “ میں پورب کے ٹھیٹھ محاورے استعمال کئے ہیں یا د رہے کہ محاورے ہمیشہ عوام اور خصوصاًعورتیں گھڑا کرتی ہیں۔ کتب میں محاورے کبھی نہیں ملتے ۔ اس ليے اس کا استعما ل بالکل صحیح مانا جا سکتا ہے۔

رنگینی و توانائی:۔
سرشار کے ہاں ثقیل الفاظ اور فارسی اشعار کی بھر مار ہے۔ اور وہ مشکل نثر لکھتے ہیں جس کی وجہ سے طرز تحریر میں ثقالت حد سے زیادہ ہے۔ لیکن اس کے باوجودآپ ایسے انداز بیان کی وقعت اور فراوانی کا اندازہ لگا سکتے ہیں اور اسی سے سرشار کے اسلوب میں رنگینی اور ندرت اور توانائی پیدا ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر

مزاح:۔[ترمیم]
رتن ناتھ سرشار نے اپنے ناول میں اکثر کرداروں کو مضحک خاکوں کے طور پر پیش کیا ہے۔ انہوں نے دراصل لکھنو معاشرے کی برائےوں کو نشانہ تضحیک بنایا ہے۔ ویسے تو ناول کے اکثر کرداروں کی گفتگو اور حرکات و سکنات سے مزاح پیدا کیا گیا ہے۔ اورفسانہ آزاد کے تقریباً سارے کرداروں سے کوئی نہ کوئی مزاحیہ بات کرئی گئی ہے۔ لیکن مزاح پیدا کرنے کے ليے بطور خوجی کا کردار وضع کیا گیا ہے۔ اور وہ ایک مزاحیہ اسلوب اختیار کرتے ہیں۔
آزاد نے کہیں کہیں مزاح پیدا کرنے کے ليے تشبیہات سے بھی کام لیا ہے۔
مکالمہ نگاری:۔
ناول نگا ر اپنا نقطہ نگاہ مکالموں کی مدد سے پیش کرتا ہے۔ معیاری مکالمے کی خوبی یہ ہے کہ وہ مختصر ہو ، کردار کی شخصیت اس کے مزاج اس کی علمی اور سماجی حیثیت کے مطابق ہو۔ اور شگفتگی کا عنصر پایا جائے ۔ ان خصوصیات کے حوالے سے جب ہم فسانہ آزاد کی مکالمہ نگار ی کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں سرشار کی مہارت اور قدرت کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ سرشار کے اسلوب کی سب سےبڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہر طبقے اور ہر ماحول کی گفتگو ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں جس طرح وہ ادا کی گئی ہو۔ یعنی کردار معاشرے کے جس طبقے سے تعلق رکھتا ہو وہ اسی زبان اور لہجے میں بات کرتا ہے۔

لکھنوی معاشرت:

” سرشار نے اپنے تمام افسانے میں لکھنو کی معاشرت ۔۔۔۔کا حال دکھایا ہے۔ سرشار کی مصوری ایسی ہے جیسے متکلم سینما کے پردہ پر چلتی ، پھرتی ، بولتی چالتی تصویریں۔۔۔۔سرشار چھوٹی چھوٹی باتوں کی تفصیل لکھتے ہیں۔“سیاسی ، معاشی ، تہذیبی پس منظر کو سامنے رکھ کر جب ہم لکھنوی معاشرت پر نگاہ ڈالتے ہیں تو اس کی تین جہتیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔

١۔ تعیش پسندی۔٢۔ مذہبی متعقدات کا ایک خاص رنگ۔٣۔ علمی و ادبی مذاق

فسانہ آزاد کا موضوع
لکھنو کی تہذیب و معاشرت سرشار کے فسانہ آزاد کا موضوع ہے۔ اس تہذیب اور معاشرت نے جن افراد کو جنم دیا ۔ انہیں مردانہ وار زندگی گزارنے کا حوصلہ نہیں۔ ہر ایک کردار کے فکر و عمل سے سطحیت ، عیش پرستی اور تماش بینی جھلکتی ہے۔ فسانہ آزاد کے ہیرو کو لیجئے جو اس معاشرت کا نمائندہ ہے۔مگر نہایت ہی گھٹیا قسم کا معمولی آوارہ نوجوان ہے۔ جس کی زندگی کا نہ کوئی معیار ہے اور نہ کوئی مقصد ۔ سرشار نے اپنے اس ہیرو کو یگانہ روزگار بنانے کی کوشش کی ہے مگر یہ اسی طرح کا بے ڈھنگا ، اوچھا اور لفنگا ہی رہا ۔ یہی وہ لکھنو کی تہذیب تھی کہ بے عمل اور بے کار لوگ جن کی حقیقی دنیا میں کوئی قدر و قیمت نہیں بزعم خود نادرہ روزگار ہستیاں بنے پھرتے ہیں

حقیقت نگاری:۔
سرشار نے فسانہ آزاد میں لکھنو کی معاشرت کو اس کے صحیح خدوخال میں پیش کیا ہے۔ اس میں کوئی چیز مصنوعی نہیں۔ حقیقت میں مبالغے کی رنگ آمیزی ضرور ہے لیکن تصنع یا بناوٹ کہیں نہیں۔ سرشار کا افسانہ جس ماحول کی عکاسی کرتا ہے۔ چونکہ وہ مصنوعی قسم کا ہے اور ریا کاری کامظہر ہے ، اس ليے بعض لوگوں کو شاید یہ شک گزرا کہ یہ مصنف کا پیدا کردہ مصنوعی پن ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔

کردار نگاری
سرشار کی کردار نگاری پر کئی اعتراضات ہوئے مثال کے طور پر انہوں نے کرداروں کی کردار کشی کی ہے۔ اور کسی کو بھی سنجیدہ اور متین نہیں دکھایا ۔ اور انہوں نے زیادہ تر مبالغہ سے کام لیا ہے۔ بعض لوگوں نے تو اُن کے کرداروں کو کارٹون کہا ہے۔
لیکن اس کے برعکس اکثر ناقدین نے سرشار کی کردار نگاری کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے تمام کرداروں کی تخلیق و تشکیل نہایت چابکدستی سے کی ہے۔ اور اس ناول فسانہ آزاد اپنے قصے کی وجہ سے نہیں بلکہ کردار نگاری کی وجہ سے اردو ناول نگاری میں ایک خاص مقام کا حامل ہے

میاں خوجی کا جھانسا دینا 'رتن ناتھ سرشار کے ناول افسانہ آزاد سے اقتباس ہے
یہ سرشار کا سب سے اہم مشہور اور شاہکار ناول ہے۔ اس کی تصویر لکھنؤ کے سماجی پس منظر میں ابھرتی ہیں۔ وہ ان تصویروں میں رنگ بھرنے کے لئے لکھنؤ کی سماجی زندگی کی رنگینیوں سے کام لیتے ہیں۔ لکھنؤ سے شدید وابستگی ہی فسانۂ آزاد کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ سماجی زندگی کے ہمہ گیر پہلوؤں سے اتنا گہرا ربط و ضبط اور رشتہ و تعلق اردو کے کسی اور ناول میں کم ملتا ہے اور یہی خصوصیت اس کو اردو ناولوں کے بجائے ’’جدید داستان‘‘ کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔
’فسانۂ آزاد اگرچہ ایک رومانی داستان ہے اور ایک نہیں بیسوں حسن و عشق کی کہانیاں اس میں موجود ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ ایک مقصدی ناول ہے۔ مصنف کا مقصد اس ناول کو لکھنے سے یہ تھا کہ اپنے زمانے کی معاشرت اور تہذیب کی خامیاں اجاگر کر دے اور لوگوں کو نئے زمانے کے تقاضوں سے آگاہ اور نئی چیزوں سے روشناس کرائے۔ اس لیے اسے ایک اصلاحی معاشرتی ناول کہنا بے جا نہ ہو گا۔
اعتراضات کی بھر مار کے باوجود سرشار کی فسانہ آزاد کی اہمیت کو کوئی کم نہیں کر سکا ۔ یہی کتاب دراصل اپنے اصل معنوں میں ناول کے ليے سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ سرشار نے مکمل طور پر اپنے معاشرے کی بھر پور عکاسی کی ہے۔ اور اردو ادب کو ایک عظیم اور خوبصورت کردار خوجی سے بھی نوازا ہے۔ اسلوب اور زبان بیان کے حوالے سے بھی انھوں نے اپنی انفرادیت کو برقرار رکھا ہے بقول شوکت سبزواری: ” سرشار زندگی کے مصور نہیں نقاد ہیں، ان کی مصوری تخلیق حیات نہیں ، تنقید حیات ہے۔
پلاٹ
۔۔۔۔۔۔۔
قصہ یوں ہے کہ ایک جوان رعنا آزاد ایک پڑھی لکھی اور اونچے خاندان کی خاتون حسن آرا کی جھلک دیکھتے ہی اس پر ہزار جان سے فریفتہ ہو جاتے ہیں۔ حسن آرا بیگم شادی کے لیے یہ شرط لگاتی ہیں کہ وہ جنگ روم وروس میں شریک ہوں۔ آزاد یہ شرط بوجہ احسن پوری کرتے ہیں۔ اور حسن آرا اپنا وعدہ پورا کرتی ہیں۔ بقول علی عباس حسینی۔ ؂
اتنی سی بات تھی جسے افسانہ کر دیا

پنڈت رتن ناتھ سرشار 1846ء میں لکھنو میں ایک کشمیری گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابھی چار سال کے تھے کہ باپ کا انتقال ہوگیا۔ لکھنو ہی میں تعلیم حاصل کی اور عربی، فارسی اور انگریزی سے واقفیت حاصل کی۔ ایک سکول میں مدرسی کی خدمات پر مامور ہوئے اور (اودھ اخبار) اور (مرسلہ کشمیری) میں مضامین لکھنے لگے۔ اپنی خداداد قابلیت کی وجہ سے جلد ہی شہرت حاصل کرلی۔ اور 1878ء میں انہیں (اودھ اخبار) کا ایڈیٹر مقرر کر دیا گیا۔ فسانہ آزاد لکھنے کا سلسلہ یہیں سے شروع ہو۔ کچھ عرصہ تک الہ آباد ہائی کورٹ میں مترجم کی حیثیت سے کام کیا۔ 1895ء میں حیدر آباد چلے آئے۔ مہاراجہ کشن پرساد نے دو سو روپے وظیفہ مقرر کیا اسی دوران اخبار (دبدبہ آصفیہ) کی ادارت کرتے رہے ۔ آخر عمر میں شغل شراب نوشی حد سے بڑھ گیا چنانچہ اس عادت نے صحت پر برا اثر ڈالا اور 1903ء میں وفات پاگئے۔ مشہور تصانیف یہ ہیں۔ سیر کوہسار، جام سرشار، کامنی، خدائی فوجدار، فسانہ آزاد۔
خوجی کا کردار

خوجی کا کردار[ترمیم]
خوجی کا پورا نام بدیع الزما ن ہے۔ فسانہ آزاد کے اگرچہ بعض دیگر کردار بھی مزاحیہ ہیں۔ لیکن ان سب سے خوجی کا کردار زیادہ مزاحیہ اور جاندار ہے۔ یہ کردار پورے ناو ل پر چھایا ہوا ہے۔ اور قارئین اسی کی بدولت ناول میں دلچسپی لیتے ہیں۔ یہ کردار ناول کے ہیرو کے کردار سے زیادہ متحرک اور دلچسپ ہے۔ بقول ناقدین، ” فسانہ آزاد کہانی تو آزاد کی ہے مگر اس کا ہیرو خوجی معلوم ہوتا ہے۔“

خوجی میاں آزاد کا ایک بے تکلف دوست ہے۔ وہ کوتاہ قد ، کوتاہ گردن ، منحنی سا، تنگ پیشانی والا دبلا پتلا شخص ہے۔ داڑھی اس کی بکرے کی طرح لمبی اور چہرہ صفاچٹ ہے۔ وہ سر پر ترکی ٹوپی پہنے رکھتا ہے۔ وہ ساٹھ برس کی عمر تک پہنچ چکا ہے ،لیکن اس کے باوجود خود کو جوانمرد سمجھتا ہے اور ابھی تک شادی کا خواستگار ہے۔

خود کو حسین و جمیل سمجھنے کی بناءپر وہ تصور کرتا ہے کہ دنیا کی ہر حسین و جمیل عورت اس پر فریفتہ ہو جاتی ہے۔ کبھی وہ مصر کی چھوکریوں کا ذکر کرتا ہے تو کبھی پولینڈ کی شہزادی کا جو اس کے تیئں اس پر عاشق ہو گئی تھی۔ دراصل وہ ہر حسینہ پر لٹو ہو جا تا ہے۔ اس نے کئی حسینائوں سے جوتیاں کھائی ہیں۔خصوصاً سرائے کی بھٹیارن اور بوا زعفران کے ہاتھوں اس کی کئی بار پٹائی ہوئی ہے۔ وہ خود کو طاقتور اور بہادر سمجھتا ہے اس ليے ذرا سی بات پر لڑائی جھگڑے پر اتر آتا ہے۔ اور اکثر مار کھاتا ہے۔ پٹنے سے اسے کوئی عارنہیں۔ اس پست قامت کو سرشار نے مجسم شامت دکھایا ہے۔

خوجی خود کو حسین و جمیل یہاں تک کہ یوسفِ ثانی تصور کرتا ہے۔ شرارت و خباثت اس کی گھٹی میں رچی ہوئی ہے۔ بات بات پر ڈینگیں مارنا اور لاف زنی کرنا اس کا کام ہے۔ وہ افیونی ہے اورافیون کو ”چینا بیگم “ کا نام دیتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ افیون ہر درد کا مداوا ہے اس کی بدولت فکر انسان کے قریب بھی نہیں پھٹکنے پاتی: ”خوجی کو اگر عشق ہے اور والہانہ عشق ہے تو صرف اپنی چینا بیگم سے۔ خواہ وہ لکھنو میں ہو یا بمبئی، ترکی یاجہاز میں اس کی چینا بیگم اس کے ساتھ رہے گی۔“

اندرونی طورپر وہ احساس کمتری کا شکار ہے۔ لیکن بظاہر احساسِ برتری جتاتا نظر آتا ہے۔ وہ بات با ت پر جھگڑا کرنے کا عادی ہے اور ہر جھگڑے کے وقت قرولی نکالنے کی دھمکی دیتاہے۔ خوجی کی ایک کمزوری یہ ہے کہ وہ پانی کے نام سے خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ ایک دفعہ آزاد اسے پانی میں غوطہ لگانے کے ليے کہتا ہے تو خوجی کہتا ہے: ” یوں ہی زہر کی پڑیا دے دو، گلا گھونٹ ڈالو، یہ دل لگی ہمیں پسند نہیں۔


پندت رتن ناتھ سر شار کی ناول نگاری ۔
مولانا عبدالحلیم شرر پنڈت رتن ناتھ سرشار کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ:
” آپ نے ”فسانہ آزا د کیا لکھا زبان اردو کے حق میں مسیحائی کی ہے۔“
بیگم صالحہ عابد حسین ”فسانہ آزاد کے متعلق لکھتی ہیں،
”اردو زبان سمجھنے کے ليے ”فسانہ آزاد“ پڑھنا چاہیے۔“

فسانہ آزاد اودھ اخبار میں مسلسل ایک سال تک شائع ہوتا رہا۔ اور کافی مقبول ہوا ۔ قارئین اخبار ہر قسط کے ليے بے تاب رہتے ۔ اور شوق سے اسے پڑھتے ۔ اردو ادب میں دراصل یہ پہلا موقع تھا کہ کسی اخبار میں باقاعدہ طور پر ناول کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ لیکن آج تک یہ بات متنازعہ ہے کہ فسانہ آزاد کو کس صنف نثر میں شمار کیا جائے۔ اسے ناول کہا جائے یا داستان ۔
اسلوب

پریم پا ل اشک نے سرشار کے اسلوب کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے ایک تقلیدی انداز اور دوسرا تخلیقی ۔ تقلیدی انداز میں صریحاً رجب علی بیگ کے اسلوب اور زبان کی جھلک نظرآتی ہے۔ اور سرور کی سی مسجع اور مقفٰی عبارت ملتی ہے۔ مگر سرشار ایسا اسلوب صرف منظر نگاری کے وقت اختیار کرتے ہیں۔ اس کے علاو ہ انھوں نے ناول میں اپنا انفرادی اسلوب برتا ہے جو کہ اُن کا اپنا تخلیقی رنگ ہے۔

بیگماتی زبان:۔
پنڈت رتن ناتھ سرشار نے فسانہ آزاد میں خاکروب سے لے کر نواب تک اور کنجڑوں سے لے کر بیگم تک ہر طبقے کی زبان استعمال کی ہے۔ اور یہ لطف یہ کہ ہر طبقہ اور پیشے کے مطابق بو ل چال کا انداز برتا ہے۔محققین کی تحقیق کے مطابق سرشار نے بیگماتی زبان بچپن سے اپنے پڑوس میں رہنے والی مسلمان مستورات سے سیکھی تھی ۔ ۔ ”اے میں کہی ہوں آخر یہ ماجراکیا ہے؟ منہ دیکھنے کو نگوڑا جی ترس گیا ۔ دن رات کڑھا کرتی ہوں ۔ اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر میر ے جی کا حال اللہ ہی جانتا ہے یا میں جانتی ہوں۔ آپ کا تو یہ حال ہے کہ چوبیسویں دن صورت دکھائی تو جیسے آگ لینے آئے تھے۔“

محاورے:۔[ترمیم]
سرشار نے ”فسانہ آزاد “ میں پورب کے ٹھیٹھ محاورے استعمال کئے ہیں یا د رہے کہ محاورے ہمیشہ عوام اور خصوصاًعورتیں گھڑا کرتی ہیں۔ کتب میں محاورے کبھی نہیں ملتے ۔ اس ليے اس کا استعما ل بالکل صحیح مانا جا سکتا ہے۔

رنگینی و توانائی:۔
سرشار کے ہاں ثقیل الفاظ اور فارسی اشعار کی بھر مار ہے۔ اور وہ مشکل نثر لکھتے ہیں جس کی وجہ سے طرز تحریر میں ثقالت حد سے زیادہ ہے۔ لیکن اس کے باوجودآپ ایسے انداز بیان کی وقعت اور فراوانی کا اندازہ لگا سکتے ہیں اور اسی سے سرشار کے اسلوب میں رنگینی اور ندرت اور توانائی پیدا ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر

مزاح:۔[ترمیم]
رتن ناتھ سرشار نے اپنے ناول میں اکثر کرداروں کو مضحک خاکوں کے طور پر پیش کیا ہے۔ انہوں نے دراصل لکھنو معاشرے کی برائےوں کو نشانہ تضحیک بنایا ہے۔ ویسے تو ناول کے اکثر کرداروں کی گفتگو اور حرکات و سکنات سے مزاح پیدا کیا گیا ہے۔ اورفسانہ آزاد کے تقریباً سارے کرداروں سے کوئی نہ کوئی مزاحیہ بات کرئی گئی ہے۔ لیکن مزاح پیدا کرنے کے ليے بطور خوجی کا کردار وضع کیا گیا ہے۔ اور وہ ایک مزاحیہ اسلوب اختیار کرتے ہیں۔
آزاد نے کہیں کہیں مزاح پیدا کرنے کے ليے تشبیہات سے بھی کام لیا ہے۔
مکالمہ نگاری:۔
ناول نگا ر اپنا نقطہ نگاہ مکالموں کی مدد سے پیش کرتا ہے۔ معیاری مکالمے کی خوبی یہ ہے کہ وہ مختصر ہو ، کردار کی شخصیت اس کے مزاج اس کی علمی اور سماجی حیثیت کے مطابق ہو۔ اور شگفتگی کا عنصر پایا جائے ۔ ان خصوصیات کے حوالے سے جب ہم فسانہ آزاد کی مکالمہ نگار ی کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں سرشار کی مہارت اور قدرت کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ سرشار کے اسلوب کی سب سےبڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہر طبقے اور ہر ماحول کی گفتگو ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں جس طرح وہ ادا کی گئی ہو۔ یعنی کردار معاشرے کے جس طبقے سے تعلق رکھتا ہو وہ اسی زبان اور لہجے میں بات کرتا ہے۔

لکھنوی معاشرت:

” سرشار نے اپنے تمام افسانے میں لکھنو کی معاشرت ۔۔۔۔کا حال دکھایا ہے۔ سرشار کی مصوری ایسی ہے جیسے متکلم سینما کے پردہ پر چلتی ، پھرتی ، بولتی چالتی تصویریں۔۔۔۔سرشار چھوٹی چھوٹی باتوں کی تفصیل لکھتے ہیں۔“سیاسی ، معاشی ، تہذیبی پس منظر کو سامنے رکھ کر جب ہم لکھنوی معاشرت پر نگاہ ڈالتے ہیں تو اس کی تین جہتیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔

١۔ تعیش پسندی۔٢۔ مذہبی متعقدات کا ایک خاص رنگ۔٣۔ علمی و ادبی مذاق

فسانہ آزاد کا موضوع
لکھنو کی تہذیب و معاشرت سرشار کے فسانہ آزاد کا موضوع ہے۔ اس تہذیب اور معاشرت نے جن افراد کو جنم دیا ۔ انہیں مردانہ وار زندگی گزارنے کا حوصلہ نہیں۔ ہر ایک کردار کے فکر و عمل سے سطحیت ، عیش پرستی اور تماش بینی جھلکتی ہے۔ فسانہ آزاد کے ہیرو کو لیجئے جو اس معاشرت کا نمائندہ ہے۔مگر نہایت ہی گھٹیا قسم کا معمولی آوارہ نوجوان ہے۔ جس کی زندگی کا نہ کوئی معیار ہے اور نہ کوئی مقصد ۔ سرشار نے اپنے اس ہیرو کو یگانہ روزگار بنانے کی کوشش کی ہے مگر یہ اسی طرح کا بے ڈھنگا ، اوچھا اور لفنگا ہی رہا ۔ یہی وہ لکھنو کی تہذیب تھی کہ بے عمل اور بے کار لوگ جن کی حقیقی دنیا میں کوئی قدر و قیمت نہیں بزعم خود نادرہ روزگار ہستیاں بنے پھرتے ہیں

حقیقت نگاری:۔
سرشار نے فسانہ آزاد میں لکھنو کی معاشرت کو اس کے صحیح خدوخال میں پیش کیا ہے۔ اس میں کوئی چیز مصنوعی نہیں۔ حقیقت میں مبالغے کی رنگ آمیزی ضرور ہے لیکن تصنع یا بناوٹ کہیں نہیں۔ سرشار کا افسانہ جس ماحول کی عکاسی کرتا ہے۔ چونکہ وہ مصنوعی قسم کا ہے اور ریا کاری کامظہر ہے ، اس ليے بعض لوگوں کو شاید یہ شک گزرا کہ یہ مصنف کا پیدا کردہ مصنوعی پن ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔

کردار نگاری
سرشار کی کردار نگاری پر کئی اعتراضات ہوئے مثال کے طور پر انہوں نے کرداروں کی کردار کشی کی ہے۔ اور کسی کو بھی سنجیدہ اور متین نہیں دکھایا ۔ اور انہوں نے زیادہ تر مبالغہ سے کام لیا ہے۔ بعض لوگوں نے تو اُن کے کرداروں کو کارٹون کہا ہے۔
لیکن اس کے برعکس اکثر ناقدین نے سرشار کی کردار نگاری کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے تمام کرداروں کی تخلیق و تشکیل نہایت چابکدستی سے کی ہے۔ اور اس ناول فسانہ آزاد اپنے قصے کی وجہ سے نہیں بلکہ کردار نگاری کی وجہ سے اردو ناول نگاری میں ایک خاص مقام کا حامل ہے۔
5 people reached

آرائشِ باغ کی منظر نگاری
منظر نگاری:۔
میر حسن نے منظر نگاری میں جس دقتِ نظر کا ثبوت دیا ہے وہ ان کی بھرپور فن کاری کی دلیل ہے واقعات کے ضمن میں مناظر کی جزئیات کی تفصیل ان کے ہاں اتنی گہری اور وسیع ہے کہ پورا منظر متحرک ہو کر ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ میر حسن کی منظر نگاری دکھانے کے لئے ہم نے ”باغ کی تیاری“ کا نقشہ منتخب کیاہے۔ اس باغ کے منظر کو دیکھئیے آخری مغل عہد کا یہ باغ ہے اس کی تعمیر ، عمارات اور ترتیب کابیان ہو بہو مغل باغات کے مطابق ہے باغ کا نقشہ اور عمارتوں کا بیان ، بے جان تصویریں نہیں بلکہ ایک ایسا نگار خانہ ہے جس کی ہر شے متحرک ہے اور اس میں ایک ایسی تہذیب کے چہرے سے نقاب اُٹھائی جا رہی ہے جسکی تصویر کو میر حسن نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا تاکہ وہ اپنے عہد کی تہذیب اور زندگی کی رونقوں کی تصویر پیش کر سکیں ۔ میر حسن فطری مناظر میں دلچسپی رکھتے تھے۔ سید عابد علی عابد لکھتے ہیں ۔
” میر حسن اس معاملہ میں یکتا ہیں کہ انہوں نے فطری مناظر کی دلکشی اور رعنائی کو اپنی روح میں جذب کیا اور پھر اس رعنائی کو پڑھنے والوں تک اس طرح منتقل کیا کہ ان کی صنعت گری کا عالم دیکھ کر بڑے سے بڑا نقاد انگشتِ بدنداں ہے۔“
باغ کی تیاری:۔
اب باغ کی تیاری کا منظر دیکھئیے مختلف پھولوں ، درختوں کے نام ہی سنیے ان کی خوشبو بھی محسوس کیجئے ۔ میر حسن نے باغ کی فضا بناتے وقت پھل ، پھول، درخت ، خوشبو، روشنی ہوا کا حسین امتزاج تیار کر دیاہے

سحرالبیان کا پلاٹ:۔
جہاں تک اس مثنوی کے پلاٹ کا تعلق ہے ، اس میں کوئی نیا پن نہیں اس کہانی کے اجزا ءمختلف منشور اور منظوم ، قدیم داستانوں میں بکھرے پڑے ہیں اور اس کی کہانی سیدھے سادھے انداز میں یوں ہے،
کسی ملک میں ایک بادشاہ تھا جو اپنی منصف مزاجی کی وجہ سے رعایا میں ہر دلعزیز تھا ۔ بادشاہ کو تمام نعمتیں میسر تھیں مگر اولاد جیسی نعمت سے محرومی اس کی زندگی کی سب سے بڑی محرومی تھی۔ اس محرومی و مایوسی کے عالم میں بادشاہ دنیا ترک کر دینے کا ارادہ کر لیتا ہے۔ وزیروں کے مشورے پر وہ سردست اس فیصلے پر عمل درآمد روک دیتا ہے۔ شاہی نجومی بادشاہ کے ہاں چاند سے بچے کی پیدائش کی خوشخبری دیتے ہیں ۔ لیکن اس کی سلامتی و زندگی میں چند خطروں کی نشان دہی کرتے ہوئے اس احتیاط کی تلقین کرتے ہیں کہ بارہ سال کی عمر تک اسے محل کے اندر رکھا جائے اور رات کھلے آسما ن تلے سونے نہ دیا جائے کچھ عرصے بعد واقعی بادشاہ کے ہاں لڑکا پیدا ہوتا ہے۔ اس کا نام اس کی خوبصورتی اور مردانہ وجاہت کے پیش نظر ” بے نظیر “ رکھا جاتا ہے۔ تمام شاہی تکلفات اور ناز و نعم کے ساتھ ۱۲ سال تک اسے محل کے اندر رکھا جاتا ہے۔ مگر سال کے آخری دن جب اس کی عمر بادشاہ کے حساب سے پورے بارہ سال ہوگئی تھی (حالانکہ اتفاق سے ایک دن کم تھا) وہ رات کو ضد کرکے چھت پر سو جاتا ہے ۔ آدھی رات کے قریب ماہ رخ پری کا گزر وہاں سے ہوا ۔ اسے سوتے میں دیکھ کر اس پر عاشق ہوئی۔ او ر اپنے ساتھ پرستان میں لے گئی۔ شہزادے کی گم شدگی پر صبح محل میں قیامت کا منظر پربا ہو جاتا ہے۔ بڑی تلاش کی گئی مگر شہزادے کو نہ ملنا تھا نہ ملا۔ ماہ رخ پری طرح طرح سے شہزادے کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ شہزادہ اپنی صغر سنی کے باعث اداس ، ملول اور پریشان رہتا ہے۔ اس پریشانی کو دور کرنے کے لئے ماہ رخ پری اسے کل کا گھوڑا دیتی ہے۔ اس گھوڑے پر سیر کرتا پھرتا شہزادہ ”بدر منیر شہزادی “ کے باغ میں اترتا ہے دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر عاشق ہوجاتے ہیں اچانک ایک دن ایک دیوان دونوں کووصل کی حالت میں دیکھ لیتا ہے۔ اس کی اطلا ع ما ہ رخ پری کو ہوتی ہے تو وہ انتہائی غضبناک ہو کر شہزادے کو واپس آنے پر کوہ قاف کے اندھے کنوئیں میں ڈلوا دیتی ہے ۔ بد منیر کا عجیب حال ہے اس کی راز دار سہیلی وزیر زاد ی نجم النساءبے نظیر کی تلاش میں نکلتی ہے۔ اور آخر کار بڑی مشکلوں سے جنوں کے بادشاہ کے بیٹے فیروز شاہ کی مدد سے بے نظیر کو رہائی دلاتی ہے۔ دونوں کی شادی وہ جاتی ہے خود نجم النساءفیروز شاہ کے ساتھ بیاہ کر لیتی ہے۔ اور یوں یہ مثنوی طرب ناک انجام کو پہنچتی ہے۔
ڈاکٹر وحید قریشی پلاٹ کا تجزیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ،
” فنی لحاظ سے ”سحرالبیان“ کا جائزہ لیا جائے تو اس ضمن میں میر حسن کی ذہانت ، پلاٹ کی تشکیل میں بروئے کار نظرآتی ہے ”سحرالبیان“ اردو کے چند عظیم مثنویوں میں سے ہے اس میں اگرچہ محدود زندگی کی تصویر کشی کی گئی ہے لیکن اپنی محدودیت کے باوجود میر حسن نے جس زندگی کو پیش کیا ہے وہ ہمارے لئے دلچسپی کا وافر سامان مہیا کرتی ہے۔ مثنوی کی شہرت اور مقبولیت کا راز میر حسن کی اعلیٰ صلاحیت میں مضمر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔

میر حسن دہلوی(۱۷۳۶/۳۷ - ۱۷۸۶) غلام حسن نام تھا۔ ان کے اجداد ہرات کے مشہور خانوادہ سادات سے تھے۔ جد اعلٰی ہندوستان آئے۔ یہیں سکونت اختیار کی۔ میر حسن دلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد میر غلام حسین ضاحک اپنے زمانے کے معروف مرثیہ گو تھے۔ انھیں کے ساتھ ۱۲ برس کی عمر میں فیض آباد چلے گئے۔یہاں نواب سالار جنگ بہادر کی ملازمت اختیار کی اور ان کے بیٹے نوازش علی خاں کے مصاحب بن گئے۔ کچھ عرصہ بعد آصف الدولہ کے عہد میں لکھنؤ آ بسے اور پھر یہیں کے ہو رہے۔ شعر و سخن کا ذوق موروثی تھا۔ بچپن سے شاعری کی طرف میلان تھا۔ لکھنؤ میں اسے اٹھان ملی۔ میر ضیاء الدین کے شاگرد ہوئے۔ دلی میں تھے تو خواجہ میر درد کو اپنا کلام دکھایا تھا۔ خواجہ صاحب ہی کی روحانی تعلیم اور فیض صحبت کے اثر سے مثنوی "رموز العارفین" لکھی۔ لکھنؤ میں وفات پائی۔ وہیں دفن ہوئے۔
میر حسن فطرتاً نہایت خوش مزاج و بدلہ سنج تھے۔ ان کا شاہکار ان کی مثنوی "سحر البیان" ہے۔ ان کا کلام تقریباً تمام اصناف سخن، مثنوی، غزلیات، ہجویات، قصائد، مرثیے، رباعیات، قطعات، ترکیب بند اور ترجیع بند وغیرہ پر مشتمل ہے۔ وہ قصیدے اور مرثیے کے مرد میدان نہیں البتہ ان کی غزلیں ادبی شان رکھتی ہیں۔ انھوں نے گیارہ مثنویاں لکھیں۔ مثنوی "سحر البیان" (قصہ بے نظیر و بدر منیر) نے اردو زبان میں جو شہرت حاصل کی ہے وہ نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد آج تک کسی مثنوی کو نصیب ہوئی۔ زبان و بیان، جزیات نگاری اور منظر نگاری میں یہ مثنوی اپنا جواب نہیں رکھتی۔ جامعیت، تاثیر اور بیان کی صفائی اور مناسبت یہ ایسی خوبیاں ہیں جو اس مثنوی کے برابر اردو کی کسی اور مثنوی میں نظر نہیں آتیں۔ محاورہ کا لطف، مضمون کی شوخی اور طرز ادا کی نزاکت اس مثنوی کی خصوصیات ہیں۔ زبان کی سادگی اور الفاظ کی بندش کا یہ حال ہے کہ سحر البیان کو لکھے دو سو برس سے زائد گزر چکے لیکن وہ آج کی بولی جانے والی زبان لگتی ہے۔ اسلوب میں پرکاری ہے۔ تکلف و تصنع کا شائبہ تک نہیں۔ یہ مثنوی کہنے کو تو ایک منظوم عشقیہ کہانی ہے لیکن اس میں اس دور کی زندگی، معاشرت، رسوم و رواج، شادی بیاہ کی رسمیں، زنانہ لباس، زیورات، ناچ رنگ وغیرہ کی دلچسپ تفصیلات و جزئیات موجود ہیں۔ اس اعتبار سے "سحر البیان" اپنے دور کی ثقافتی تاریخ کا معتبر ماخذ بھی ہے۔
دوسری قابل ذکر مثنوی "گلزار ارم" ہے جس میں میر حسن نے لکھنؤ کی ہجو اور فیض آباد کی تعریف جی کھول کر کی ہے۔ "تذکرہ شعرائے اردو" بھی میر حسن کی اہم تصنیف ہے۔ یہ تذکرہ فارسی میں ہے۔ اس کی اہمیت کا سبب یہ ہے کہ اس میں میر حسن نے قدیم شاعروں اور اپنے ہمعصر شاعروں کا حال معتبر حوالوں کے ساتھ لکھا ہے۔ میر حسن کے بیٹے میر مستحسن خلیق بھی اپنے زمانے کے نامی شاعر تھے۔ میر خلیق کے بیٹے یعنی میر حسن کے پوتے میر انیس اپنی مرثیہ نگاری کے باعث اردو شاعری کے آسمان پر آفتاب بن کر چمکے۔
میر حسن فطرتاً نہایت خوش مزاج و بدلہ سنج تھے۔ ان کا شاہکار ان کی مثنوی "سحر البیان" ہے۔ ان کا کلام تقریباً تمام اصناف سخن، مثنوی، غزلیات، ہجویات، قصائد، مرثیے، رباعیات، قطعات، ترکیب بند اور ترجیع بند وغیرہ پر مشتمل ہے۔ وہ قصیدے اور مرثیے کے مرد میدان نہیں البتہ ان کی غزلیں ادبی شان رکھتی ہیں۔ انھوں نے گیارہ مثنویاں لکھیں۔ مثنوی "سحر البیان" (قصہ بے نظیر و بدر منیر) نے اردو زبان میں جو شہرت حاصل کی ہے وہ نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد آج تک کسی مثنوی کو نصیب ہوئی۔ زبان و بیان، جزیات نگاری اور منظر نگاری میں یہ مثنوی اپنا جواب نہیں رکھتی۔ جامعیت، تاثیر اور بیان کی صفائی اور مناسبت یہ ایسی خوبیاں ہیں جو اس مثنوی کے برابر اردو کی کسی اور مثنوی میں نظر نہیں آتیں۔ محاورہ کا لطف، مضمون کی شوخی اور طرز ادا کی نزاکت اس مثنوی کی خصوصیات ہیں۔ زبان کی سادگی اور الفاظ کی بندش کا یہ حال ہے کہ سحر البیان کو لکھے دو سو برس سے زائد گزر چکے لیکن وہ آج کی بولی جانے والی زبان لگتی ہے۔ اسلوب میں پرکاری ہے۔ تکلف و تصنع کا شائبہ تک نہیں۔ یہ مثنوی کہنے کو تو ایک منظوم عشقیہ کہانی ہے لیکن اس میں اس دور کی زندگی، معاشرت، رسوم و رواج، شادی بیاہ کی رسمیں، زنانہ لباس، زیورات، ناچ رنگ وغیرہ کی دلچسپ تفصیلات و جزئیات موجود ہیں۔ اس اعتبار سے "سحر البیان" اپنے دور کی ثقافتی تاریخ کا معتبر ماخذ بھی ہے۔دوسری قابل ذکر مثنوی "گلزار ارم" ہے جس میں میر حسن نے لکھنؤ کی ہجو اور فیض آباد کی تعریف جی کھول کر کی ہے۔ "تذکرہ شعرائے اردو" بھی میر حسن کی اہم تصنیف ہے۔ یہ تذکرہ فارسی میں ہے۔ اس کی اہمیت کا سبب یہ ہے کہ اس میں میر حسن نے قدیم شاعروں اور اپنے ہمعصر شاعروں کا حال معتبر حوالوں کے ساتھ لکھا ہے۔ میر حسن کے بیٹے میر مستحسن خلیق بھی اپنے زمانے کے نامی شاعر تھے۔ میر خلیق کے بیٹے یعنی میر حسن کے پوتے میر انیس اپنی مرثیہ نگاری کے باعث اردو شاعری کے آسمان پر آفتاب بن کر چمکے۔
آرائشِ باغ۔۔۔۔۔۔۔سحر البیاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میر حسن
آرائش باغ۔۔
مثنوی سحرالبیان ( میر حسن )
مثنوی کا لفظ” مثنیٰ “ سے بنا ہے اور مثنیٰ کے معنی دو کے ہیں اصطلاح میں ایسی صنفِ سخن کوکہتے ہیں جس کے شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں اور ہر دوسرے شعر میں قافیہ بدل جائے ، مثنوی میں لمبے لمبے قصے بیان کئے جاتے ہیں نثر میں جو کام ایک ناول سے لیاجاتا ہے ، شاعری میں وہی کام مثنوی سے لیا جاتا ہے۔ یعنی دونوں ہی میں کہانی بیان کرتے ہیں،مثنوی ایران سے ہندوستان میں آئی ۔ اردو مثنوی کی ابتداءدکن سے ہوئی ، دکن کا پہلا مثنوی نگار نظامی بیدری تھا۔
مثنوی سحرالبیان:۔
اردو میں کافی تعداد میں مثنویاں کہی گئی ہیں مگر جو دلکشی اور ساحری مثنوی ”سحر البیان“ میں موجود ہے دوسری دوسری مثنویاں ان خوبیوں سے محروم ہیں اس لئے ہم بلا تکلف یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ سحرالبیان اردو کی بہترین مثنوی ہے۔
”سحر البیان “ اردو کی ان زندہ جاوید مثنویوں میں سے ہے جو ہر زمانہ میں عوام اور خواص میں یکساں طور پر مقبول رہی ہیں ۔”سحر البیان“ کے فنی محاسن کے سلسلے میں اس کی کردار نگاری پلاٹ ، جذبات نگاری ، مکالمہ نگاری ، مرقع نگاری ، منظر نگاری اور سراپا نگاری کے علاوہ ایک مربوط معاشرت کے ثقافتی کوائف کی تصویر بے حد کامیاب کھینچی گئی ہے۔
اس مثنوی سے میرحسن اور ان کی سوسائٹی کے مذہبی افکار اور اخلاقی اقدار پر روشنی پڑتی ہے جو اس معاشرت کے روائتی طرز فکر اور تصورِ زندگی کا جزو بن چکے ہیں ۔ ”سحرالبیان“ اس دور کے مذہبی معتقدات ، ذہنی امور اور اخلاقی تصورات کی عکاس ہے۔ یہ مثنوی دراصل اس طرز زندگی کی بہترین نمائندگی کرتی ہے اودھ کی اس فضا میں جہاں تکلف و تصنع کا دور دورہ تھا ۔ ایک تہذیب بن رہی تھی۔ ”سحرالبیان“ میں اس تہذیب کی تصویریں بھی محفوط ہیں۔
”سحرالبیان “ کا مطالعہ ہم مندرجہ زیل عنوانات کے تحت کرتے ہیں ہر عنوان میں اس کی خوبیوں اور فنی محاسن پر تنقید و تبصرہ کرکے اس کی قدر و قیمت نمایاں کی جائے گی۔
تہذیب و ثقافت کی عکاسی:۔
”سحر البیان“ کی فنی خوبیوں میں اس کی نمایاں خوبی تہذیب و ثقافت کی عکاسی ہے۔
میر حسن نے درحقیقت اس تہذیب و معاشرت کا گہری نظر سے مطالعہ کیا تھا ۔ اور وہ اس سے خوب واقف تھے
جذبات نگاری:۔
میر حسن کے ہاں جذبات نگاری کے بڑے ہی اچھے اور موثر مرقعے ملتے ہیں خوشی کے عالم میں خوشی اور غم و الم اور دکھ کے مواقع پر رقت طاری ہو جاتی ہے ۔
جزئیات نگاری:۔
میرحسن نے جس واقعے کا بھی ذکر کیا اس کے ہر اک جز کو مکمل بیان کردیا
اس طرح میر حسن نے پوری تفصیل کے ساتھ نجومیوں کے حرکات و سکنات کو بیان کیا ہے۔ اس طرح جب بادشاہ کا بیٹا ہوتا ہے تو رقص کا اہتمام ہوتا ہے۔ میر حسن نے رقص کا منظر نہایت دلفریب انداز میں پیش کیا ہے انہوں نے ایسی باریک باتوں کا ذکر کیا ہے جس پر ہر شاعر کی نظرنہیں پڑتی۔
وہ گھٹنا وہ بڑھنا ادائوں کے ساتھ
دکھا نا وہ رکھ رکھ کے چھاتی پہ ہاتھ
تصویر کشی:۔
”سحر البیان“ کا ایک بڑا کما ل اس کی تصویر کشی ہے۔ میر حسن نے جس منظر اور جس حالت کا جہاں بھی نقشہ کھینچا تصویر کشی کا حق ادا کردیا ۔ مولانا حالی مثنوی ” سحرالبیان“ کی اس خوبی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں،
”مسلمانوں کے اخیر دور میں سلاطین امراءکے یہاں جو حالتیں تھیں اور جو جو معاملات پیش آتے تھے۔ بعینہٰ ان کا چربہ اتار دیا ہے۔“
میر حسن نے منظر نگاری کی تصویر کشی کی ہے اس میں ایسی محاکات کا ثبوت دیا ہے پورا منظر ہماری آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے۔
تشبیہات
میرحسن کے ہاں حسین تشبیہات کے خزانے موجود ہیں ان کی تشبیہات کو پڑھ کر دل کلی کی طرح شگفتہ ہو جاتا ہے۔
صنعتوں کا استعمال:۔
میرحسن کے ہاں تشبیہا ت کے سلسلے میں قوس قزح کے جو رنگ ملتے ہیں وہ ان کی رنگینی فکر اور حسن ِ نظر کا ثبوت ہیں مگر ہم انہیں کلیتاً ان کے معاشرہ اور ماحول کی رنگینیوں سے الگ کرکے نہیں دیکھ سکتے ۔ اس دور کا مذاق ِ حسن بھی ان پر اپنے جمالیاتی تصورات کی شعائیں ڈال رہا تھا۔ میرحسن کے یہاں صنعتوں کا استعمال بھی ہے خاص طورپر صنعت ایہام
بقو ل کلیم الدین احمد، ”اہم چیز ”سحرالبیان“ میں طرز ادا ہے عبارت صاف ، پاکیزہ اور با محاورہ ہے میر حسن نے روزمرہ کا نچوڑ اس مثنوی میں رکھ دیا ہے۔
مجموعی جائزہ:۔
سحرالبیان میر حسن کی زندگی کے آخری دور کا کارنامہ ہے۔ انہوں نے اس کے لکھنے میں اپنی عمر کا ایک طویل حصہ صرف کیا۔ چنا نچہ و ہ خود اعتراف کرتے ہیں
ہر اک بات پر دل کو میں خوں کیا
تب اس طرح رنگین مضموں کیا
اس مثنوی کی سادگی پرکاری ،فن کارانہ نزاکت ، منظر کشی ، واقعہ نگاری، کردار نگاری اور تفصیل نگاری کو دیکھ کر عجیب کیفیت محسوس ہوتی ہے۔ خاص طورپر میرحسن کے انداز بیان نے اس نظم کوحیات جاوید سے ہمکنار کیا ۔ ان کی شاعرانہ انداز بیان، طرز ادا اور زبان پرقدرت نے مثنوی کو کہیں غیر دلچسپ نہیں ہونے
دیا۔