کلامِ اقبال کی خصوصیات
علامہ اقبال کے کلام کی نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں
- رفعتِ تخیل
تخیل کی رفعت اور بلند آہنگی میں اقبال اردو کے تمام شاعروں سے سبقت لے گئے ہیں۔ ان کے فکر فلک سیر کی روشنی میں قاری خیالات کے نئے نئے افق دیکھتا ہے۔ مثلاً
دہر میں عیش دوام آئیں کی پابندی سے ہے
موج کو آزادیاں سامان شیون ہوگئیں
سامنے رکھتا ہوں اس دور نشاط افزا کو میں
دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فروا کو میں
برتر از اندیشہ سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلم جاں زندگی
- کلاسیکیت اور رومانیت
جس شاعری میں سرمستی، جذبے اور تخیل کا بھرپور رچاو ہو اسے رومانی شاعری کہتے ہیں اور وہ شاعری جس مین جن کے مسلمہ اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے روایتی اسلوب بیان کا خاص طور پر لحاظ رکھا جائے اسے کلاسیکی شاعری کہا جاتا ہے۔ اقبال کی شاعری میں ہمیں فکر کی گہرائی اور جذبے کی شدت کے ساتھ ساتھ کلاسیکیت کا ایک نفرد انداز بھی ملتا ہے۔ مثال کے طور پر
عشق کی اک جست نے کردیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں
- سوزوگداز
اقبال کے دل کا سوز و گداز ان کے اشعار میں بھی نمایان ہے۔ سوزوگدازکی یہ کیفیت صقلیہ بلاد اسلامیہ، گورستان شاہی اور حضور رسالت مابمیں پورے عروج پر ہے۔ عکسِ کلام درج ذیل ہے
تھی کسی درماندہ رہرو کی صدائے دردناک
جس کو آواز رحیل کارواں سمجھا تھا میں
دل کو تڑپاتی ہے ابتک گرمی محفل کی یاد
جل چکا حاصل مگر محفوظ ہے حاصل کی یاد
دہر کو دیتے ہیں موتی دیدئہ گریاں کے ہم
آخری بادل ہیں اک گزرے ہوئے طوفاں کے ہم
- موسیقیت اور ترنم
اقبال کے اشعار میں موسیقی اور ترنم کی ایک خاص کیفیت پائی جاتی ہے۔ اس مقصد کے لئے وہ عام طور پر مترنم اور رواں بحریں انتخاب کرتے ہیں۔ ان بحروں میں حسین الفاظ و تراکیب کی مرصع کاری سے موسیقیت پیدا ہوجاتی ہے۔ مثلاً ذیل کے اشعار دیکھئے
نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا، نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا
میں ہلاک جادوئے سامری تو قتیل شیوئہ آزری
تری خاک مین ہے اگر شرر تو خیال فقروخنا نہ کر
کہ جہاں میں نان شعیر پر ہے مدار قوت حیدری
کرم اے شہﷺ عرب و عجم کہ کھڑے ہیں منتظر کرم
وہ گدا کہ تونے عطا کیا ہے جنھیں دماغ سکندری
- رمزیت
کسی مضمون کو استعارے، کنائے کے پیرائے میں بیان کرنے کو رمزیت کہتے ہیں۔ رمزو کنایہ بلاغت کی جان ہے۔ اقبال نے رمزوایماء کے پیرائے میں نہایت بلند پایہ شعر کہے ہیں۔ عکسِ کلام درج ذیل ہیں
خیر تو ساقی سہی لیکن پلائے گا کسے
اب نہ وہ میکش رہی باقی نہ میخانے رہے
رو رہی ہے آج اک ٹوٹی ہوئی مینا اسے
کل تلک گردش میں جس ساقی کے پیمانے رہے
آج ہیں خاموش وہ دشت جنوں پرور جہاں
رقص میں لیلٰی رہی لیلی کے دیوانے رہے
- مصوری
اقبال مناظرِ فطرت کی لفظی تصویریں بڑی خوبی سے کھینچتے ہیں۔ان کی اکثر نظمیں منظرکشی کا شاہکار ہیں۔ مثلاً

ریت کے ٹیلے پہ وہ آہو کا بے پروا خرام
وہ حضر بے برگ و ساماں و سفر بے سنگ ومیل
وہ سکوت شام صحرا میں غروب آفتاب
جس سے روشن تر ہوئی چشم جہاں بین خلیل
اور وہ پانی کے چشمے پر مقام کارواں
اہل ایمان جس طرح جنت میں گرد سلسبیل
صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں
ندی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو
پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی
جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو
- تغزل
اقبال نے نظم کہنے کے لئے عام طور پر غزل کا لطیف، شیریں اور حسین پیرایہ بیان اختیار کیا۔ مضمون آفرینی، فکر کی گہرائی، جذبے کی شدت اور ایمائیت اور غزل کی جان ہیں۔ یہ جملہ عناصر اقبال کی غزل میں موجود ہیں مگر ان کے تغزل میں غزل کے روایتی خیالات کی بجائے ایسے مضامین بیان ہوئے ہیں جن سے قاری کو زندگی اور عمل کی حرارت نصیب ہوتی ہے۔
- تشبیہ واستعارہ
اقبال تشبیہوں اور استعاروں کو بڑی فنکارانہ مہارت کے ساتھ اپنے شعروں میں استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً
جیسے سوجاتا ہے گہوارے میں طفل شیر خوار
موج مضطر تھیں کہیں گہرائیوں میں مست خواب
جگنو کی روشنی ہے کاشانہ چمن میں
یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں
ٹوٹ کر خورشید کی کشتی ہوئی غرقاب نیل
ایک ٹکڑا تیرتا پھرتا ہے روئے آب نیل
گزر جا بن کے سیل تند رو کوہ و بیاباں سے
گلستان راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہوجا
- جدت ترکیب
اقبال کو نئی نئی خوبصورت اور حسین ترکیبیں تراشنے کا ڈھنگ بھی خوب آتا ہے اور پھر ان تراکیب کو شعر میں استعمال کرنے کا سلیقہ بھی وہ جانتے ہیں۔ مثال کے طورمتاعِ دیدئہ تر، طلسم دوش و فروا، جگرِ لالہ، پیمانہ امروز و فروا،
مکدئہ نمود، طوقِ گلو افشار، سود فراموش، چراغِ مصطفوی وغیرہ۔ شکوہِ بیان
اقبال کے دل میں جذبات و خیالات کا ایک سمندر موجزن ہے۔ یہی جذبات و خیالات جب پرشکوہ اسلوب میں ڈھلتے ہیں تو ان کے کلام میں گھن گرج کی سی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس پرشکوہ لہجے میں ان کے جوش ایمانی اور ان کی پرجلال شخصیت کا بھی بہت بڑا دخل ہے·
نمونہ کلام پیشِ نظر ہے
سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا
غلط تھا اے جنوں شاید ترا اندازہ صحرا
میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں بتکدئہ صفات میں
گاہ مری نگاہ شوق چیر گئی دل وجود
گاہِ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریاوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفاں
No comments:
Post a Comment