Friday, 24 October 2014


Home » Class XI » XI Urdu » فیض احمد فیض غزل 2

فیض احمد فیض غزل 2
شعر نمبر ۱
گلوں میں رنگ بھرے بادِنوبہار چلے
چلے بھی آﺅ کہ گلشن کا کاروبار چلے
مرکزی خیال
اس شعر میں فیض اپنے محبوب کو بہار کے لئے مدعو کر رہے ہیں۔
تشریح
اس شعر میں فیض کہتے ہیں کہ جب گردش زمانہ سے ہم مایوس ہو جاتے ہیں جب ہم پر یاس و ہراس کی کیفیت چھا جاتی ہے اور زندگی میں خزاں کا خشک موسم ڈیرا جما لیتا ہے تو ایسے مےن ہم چشمِ تصور میں اپنے محبوب کو دیکھ لیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اے محبوب! تم اگر ہمیں شرفِ دید بخش دو اور اگر تم ہمیں اپنی قربت سے نواز دو تو ہماری زندگی کی خزاں بہار میں تبدیل ہو جائی گی۔ ہمارے دل کے پھول کھل اٹھیں گے۔ تمہارے وجود کی خوشبو ہمارے دل اور روح کو معطر کر دی گی۔ تم صحرائے ذندگی کی کڑی دھوپ اور آفتابِ زندگی کی تپش میں ہمارے لئے بادِ صبا بن کر چلے آﺅ۔ تمہارا حسین چہرہ پھولوں کو کھلا دے گا۔ تمہاری ستم طریف زلفیں ہمیں پر سکون سایہ فراہم کر دیں گی۔ تمھاری مدھ بھری آنکھوں میں چمکتے ہوئے ستاروں کو دیکھ کر ہم غمِ دوراں کی تاریکیوں کو بھول جائیں گے اور اپنی قسمت کی اندھیری غار سے نکل آئیں گے اور ہمیں بھی خوشی کے احساس سے آشنا ہونے کا موقع فراہم ہو جائے گا۔ انتظار کی کیفیت بڑی شدید ہوتی ہے۔ مشہور ہے کہ: انتظار کی کیفیت تو موت سے زیادہ سخت ہوتی ہے
مماثل شعر
اب آبھی جاﺅ چاندنی راتوں کے اسیر
معنی بدل نہ جائیں خوشی کے بہار کے
شعر نمبر ۲
قفس اُداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے
مرکزی خیال
محبوب اگر پاس نہ ہو تو اس کے تذکرے سے ہی دل کے نہاں خانوں کی اداسی و تاریکی خوشی و مسرت میں تبدیل ہو جاتی ہے اور عاشق پھر سے تازہ دم ہو جاتا ہے۔
تشریح
اس شعر میں فیض کہتے ہیں کہ اربابِ اقتدار ہمیں تو پایہ زنجیر کر کے پابندِ سلاسل کر دیا ہے اور ہم ہیں کہ نسیمِ سحر جب آئے تو ہمیں اپنے محبوب کی خیریت سے آگاہ کرے۔ صبح کی ہوا ہمارے محبوب کے وجود کی خوشبو لے کر آئے اور ہمارے اداس دل کو تر و تازگی فراہم کر دے۔ کاش کوئی جھونکا ایسا آئے جو ہماری ذات کی اس کے تصور اور اس کی یادوں کے سمندر میں غوطہ زن کر دے۔ کیونکہ زنداں کی حیات میں یہی تو ایک سہارا ہے جو ہر ایک کو غمِ دوروں سے آزاد کر دیتا ہے۔ اور ہم ہر الم کو دیکھ کر اپنے محبوب کی یاد میں کھو جاتے ہیں۔ ہم یہی چاہتے ہیں کہ غمِ دوراں پر غمِ جاناں غالب آجائے تاکہ ہم راہِ عشق کی مسافتوں کو طے کر سکیں اور محبوب کی یاد صحرا میں بھی ہمیں چھاﺅں عطا کر دے
مماثل شعر
دورِ جہاں سے ساقیا سرد ہوا ہے دل میرا
برق و شراب کی جگہ برق و شرر پلائے جاتے ہیں
شعر نمبر ۳
کبھی کو صبح ترے کنجِ لب سے ہو آغآز
کبھی تو شب سر کاکل سے مشک بار چلے
مرکزی خیال
اس شعر میں فیض اپنے محبوب کی قربت کے متمنی نظر آتے ہیں۔
تشریح
اس شعر میں فیض کہتے ہیں کہ اے محبوب! ہم تمہارے ہجر و فراق کی عقوبت سہہ چکے ہیں اور ہم تیری جدائی میں صبح و شام مر مر کر جئے ہیں۔ ہم نے تیری یاد کے سہارے یہ پرخار راہِ زندگی طے کی لیکن تم نے ہم پر کبھی نظرِ التفات نہیں کی اور ہمیشہ ہماری محبت کو رسوا کر چھوڑا۔ ہم اس امید کے سہارے زندہ رہے کہ کوئی طلوعِ شمس تو ہماری آمد کی نوید لے کر آئے گا اور کوئی مبارک سحر تو ایسی ہوگی جب بیدار ہوتے ہی تمہارے حسین چہرے پر نظر پڑے گی، کوئی صبح تو تمہاری قیامت خیز مسکراہٹ کو ساتھ لائے گی۔ جب تمہاری پھول کی پنکھڑیوں جیسے لب نشان ہوں گے۔ اور تمہاری دل کے دریچے صرف ہمارے لئے وا ہوں گے۔ ہم یہی خیال کر کے سوئے کہ کوئی شب تو ہوگی جب تمہاری مسحور کن قربت ملے گی۔ جب ہم غمِ دوراں کا سامنا کر کے تھک جائیں گے تو تمہارے گھنے گیسوﺅں کی چھاﺅں میں آرام سے سو جائیں گے اور تمہاری گھٹا جیسے حسین زلفیں مسحور کن خوشبو برسائیں گی
شعر نمبر ۴
بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں ہے غم گسار چلے
مرکزی خیال
شاعر اس شعر میں محبوب کے ظلم و ستم کو بالائے طاق رکھ کر اس کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کا عہد کر رہے ہیں۔
تشریح
اس شعر میں فیض کہتے ہیں کہ عشق میں مایوسیوں اور محرومیوں سے سابقہ رہتا ہے۔ محبوب طرح طرح کے ستم ڈھاتا ہے۔ عاشق کے پاس بجز رنج و الم کے کچھ نہیں ہوتا اور یہی کیفیت بہت سے لوگوں کی ہو تو اس قدر مشتر ک ہونے کی سبب ان کا تعلق بہت گہرا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے تمام لوگوں کو جب بھی محبوب کے نام پر جمع کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ غم گسار بے اختیارانہ یکجا ہو جاتے ہیں کیونکہ درد کا رشتہ سب رشتوں پر فوقیت رکھتا ہے۔ عاشق کا مقصد اس کا محبوب ہوتا ہے اور جو لوگ بھی اس سے دل چسپی رکھتے ہیں وہ سب وقت پڑنے پر کچھ نہ ہوتے ہوئی بھی یکجا ہو جاتے ہیں اور جدوجہد کو مزید تیز کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگ مقصد کے حصول کے لئے جان کا نزرانہ بھی پیش کر سکتے ہیں
شعر نمبر ۵
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے
مرکزی خیال
اس شعر میں فیض فرسودہ نظام ختم ہونے کی نوید سنا رہے ہیں۔
تشریح
شاعر شبِ ہجراں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ محبوب کے فراق میں جو طویل رات ہم نے گزاری ہے اس میں جو جو ہم پر طلم و ستم ہوئے وہ آنسوﺅں میں ڈھل کر ہماری آنکھوں میں بہنے لگے۔ یہ ہمارے آنسوﺅں کا ہی کرشمہ ہے۔ اے سیاہ رات! تیرا انجام اچھا ہوا یعنی تاریکی اجالے میں تبدیل ہو گئی۔ مطلب یہ کہ ہماری قربانیاں رنگ لے آئیں۔ جس کی وجہ سے پرانا اور فرسودہ نظام ختم ہو گیا۔ اب خوشیوں کا دور ہے اور سایوں سے لطف اندوذ ہونے کا زمانہ ہے۔ اور یہی ہماری منزل بھی ہے۔ ترقی پسند شعراءکو یقین تھا کہ ان کی منزل قریب آن پہنچی ہے۔ اسی لئے وہ ہمیشہ خوش آئند خواب دیکھا کرتے تھے
شعر نمبر ۶
حضورِ یار ہوئی دفترِ جنوں کی طلب
گرہ میں لے کے گریباں کا تار تار چلے
مرکزی خیال
اس شعر میں فیض مقصد کے حصول کے لئے بڑی قربانیاں دینے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔
تشریح
شاعر کہتا ہے ہم عاشقی میں جنون کی سرحدوں میں داخل ہوگئے۔ اس مقام پر پہنچنے کے لئے بڑی قربانیاں دینی پڑیں۔ ہم نے سب کچھ قربان کر دیا۔ اب ہمارے پاس ایک گریبان ہے وہ بھی تار تار۔ چنانچہ جب ہمارے محبوب کے حضور ہماری طلبی ہوئی اور اپنی دیوانگی کا حساب کتاب پیش کرنے کا حکم ہوا تو ہم اپنا پھٹا ہوا گریبان لے کر محبوب کے حضور پہنچے کہ یہی ہماری قربانیوں اور ہماری وفاداریوں کا واحد ثبوت تھا۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے اپنے مقصد کے حصول کے لئے بڑی قربانیاں دی ہیں اب ہمارے پاس کچھ بھی نییں بچا
شعر نمبر ۷
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے وار چلے
مرکزی خیال
اس شعر فیض مقصد کے حصول کے لئے بڑی قربانیاں دینے کا دعوی کررہے ہیں۔
تشریح
مقصد کا حصول بڑی قربانیاں چاہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ زندگی کا نزرانہ بھی قبول کرلیتا ہے اور یہی عاشقی میں ہوتا ہے چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ ہماری پسندیدہ جگہ کوچہ یار تھا اور ہمارے شایانِ شان بھی اس لئے باوجود تکلیف کے ہمیں اس مقام پر سکون و اطمینان نصیب تھا۔ اب ہمیں اس مقام سے ہٹا دیا گیا ہماری نظر میں اس کے علاوہ کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں ہم قیام کرسکیں 

Monday, 13 October 2014

کلامِ اقبال کی خصوصیات

علامہ اقبال کے کلام کی نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں

  •    رفعتِ تخیل
تخیل کی رفعت اور بلند آہنگی میں اقبال اردو کے تمام شاعروں سے سبقت لے گئے ہیں۔ ان کے فکر فلک سیر کی روشنی میں قاری خیالات کے نئے نئے افق دیکھتا ہے۔ مثلاً

دہر میں عیش دوام آئیں کی پابندی سے ہے
موج کو آزادیاں سامان شیون ہوگئیں
سامنے رکھتا ہوں اس دور نشاط افزا کو میں
دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فروا کو میں
برتر از اندیشہ سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلم جاں زندگی


  • کلاسیکیت اور رومانیت

جس شاعری میں سرمستی، جذبے اور تخیل کا بھرپور رچاو ہو اسے رومانی شاعری کہتے ہیں اور وہ شاعری جس مین جن کے مسلمہ اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے روایتی اسلوب بیان کا خاص طور پر لحاظ رکھا جائے اسے کلاسیکی شاعری کہا جاتا ہے۔ اقبال کی شاعری میں ہمیں فکر کی گہرائی اور جذبے کی شدت کے ساتھ ساتھ کلاسیکیت کا ایک نفرد انداز بھی ملتا ہے۔ مثال کے طور پر


عشق کی اک جست نے کردیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں


  • سوزوگداز

اقبال کے دل کا سوز و گداز ان کے اشعار میں بھی نمایان ہے۔ سوزوگدازکی یہ کیفیت صقلیہ بلاد اسلامیہ، گورستان شاہی اور حضور رسالت مابمیں پورے عروج پر ہے۔ عکسِ کلام درج ذیل ہے


تھی کسی درماندہ رہرو کی صدائے دردناک
جس کو آواز رحیل کارواں سمجھا تھا میں

دل کو تڑپاتی ہے ابتک گرمی محفل کی یاد
جل چکا حاصل مگر محفوظ ہے حاصل کی یاد

دہر کو دیتے ہیں موتی دیدئہ گریاں کے ہم
آخری بادل ہیں اک گزرے ہوئے طوفاں کے ہم

  • موسیقیت اور ترنم

اقبال کے اشعار میں موسیقی اور ترنم کی ایک خاص کیفیت پائی جاتی ہے۔ اس مقصد کے لئے وہ عام طور پر مترنم اور رواں بحریں انتخاب کرتے ہیں۔ ان بحروں میں حسین الفاظ و تراکیب کی مرصع کاری سے موسیقیت پیدا ہوجاتی ہے۔ مثلاً ذیل کے اشعار دیکھئے

نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا، نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا
میں ہلاک جادوئے سامری تو قتیل شیوئہ آزری
تری خاک مین ہے اگر شرر تو خیال فقروخنا نہ کر
کہ جہاں میں نان شعیر پر ہے مدار قوت حیدری
کرم اے شہﷺ عرب و عجم کہ کھڑے ہیں منتظر کرم
وہ گدا کہ تونے عطا کیا ہے جنھیں دماغ سکندری


  • رمزیت

کسی مضمون کو استعارے، کنائے کے پیرائے میں بیان کرنے کو رمزیت کہتے ہیں۔ رمزو کنایہ بلاغت کی جان ہے۔ اقبال نے رمزوایماء کے پیرائے میں نہایت بلند پایہ شعر کہے ہیں۔ عکسِ کلام درج ذیل ہیں

خیر تو ساقی سہی لیکن پلائے گا کسے
اب نہ وہ میکش رہی باقی نہ میخانے رہے
رو رہی ہے آج اک ٹوٹی ہوئی مینا اسے
کل تلک گردش میں جس ساقی کے پیمانے رہے
آج ہیں خاموش وہ دشت جنوں پرور جہاں
رقص میں لیلٰی رہی لیلی کے دیوانے رہے

  • مصوری

اقبال مناظرِ فطرت کی لفظی تصویریں بڑی خوبی سے کھینچتے ہیں۔ان کی اکثر نظمیں منظرکشی کا شاہکار ہیں۔ مثلاً

ریت کے ٹیلے پہ وہ آہو کا بے پروا خرام
وہ حضر بے برگ و ساماں و سفر بے سنگ ومیل
وہ سکوت شام صحرا میں غروب آفتاب
جس سے روشن تر ہوئی چشم جہاں بین خلیل
اور وہ پانی کے چشمے پر مقام کارواں
اہل ایمان جس طرح جنت میں گرد سلسبیل


صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں
ندی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو
پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی
جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو

  • تغزل

اقبال نے نظم کہنے کے لئے عام طور پر غزل کا لطیف، شیریں اور حسین پیرایہ بیان اختیار کیا۔ مضمون آفرینی، فکر کی گہرائی، جذبے کی شدت اور ایمائیت اور غزل کی جان ہیں۔ یہ جملہ عناصر اقبال کی غزل میں موجود ہیں مگر ان کے تغزل میں غزل کے روایتی خیالات کی بجائے ایسے مضامین بیان ہوئے ہیں جن سے قاری کو زندگی اور عمل کی حرارت نصیب ہوتی ہے۔


  • تشبیہ واستعارہ

اقبال تشبیہوں اور استعاروں کو بڑی فنکارانہ مہارت کے ساتھ اپنے شعروں میں استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً

جیسے سوجاتا ہے گہوارے میں طفل شیر خوار
موج مضطر تھیں کہیں گہرائیوں میں مست خواب
جگنو کی روشنی ہے کاشانہ چمن میں
یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں
ٹوٹ کر خورشید کی کشتی ہوئی غرقاب نیل
ایک ٹکڑا تیرتا پھرتا ہے روئے آب نیل
گزر جا بن کے سیل تند رو کوہ و بیاباں سے
گلستان راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہوجا

  • جدت ترکیب


اقبال کو نئی نئی خوبصورت اور حسین ترکیبیں تراشنے کا ڈھنگ بھی خوب آتا ہے اور پھر ان تراکیب کو شعر میں استعمال کرنے کا سلیقہ بھی وہ جانتے ہیں۔ مثال کے طورمتاعِ دیدئہ تر، طلسم دوش و فروا، جگرِ لالہ، پیمانہ امروز و فروا،
مکدئہ نمود، طوقِ گلو افشار، سود فراموش، چراغِ مصطفوی وغیرہ۔ شکوہِ بیان
اقبال کے دل میں جذبات و خیالات کا ایک سمندر موجزن ہے۔ یہی جذبات و خیالات جب پرشکوہ اسلوب میں ڈھلتے ہیں تو ان کے کلام میں گھن گرج کی سی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس پرشکوہ لہجے میں ان کے جوش ایمانی اور ان کی پرجلال شخصیت کا بھی بہت بڑا دخل ہے·
نمونہ کلام پیشِ نظر ہے

سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا
غلط تھا اے جنوں شاید ترا اندازہ صحرا
میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں بتکدئہ صفات میں
گاہ مری نگاہ شوق چیر گئی دل وجود
گاہِ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریاوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفاں